حسرت موہانی کے فکر و فن پر نوٹ لکھیں ۔
آج کی اس پوسٹ میں ہم بیسویں صدی کے مشہور شاعر اور مجاہد آزادی سید حسرت موہانی کی سوانح حیات ، فکر و فن ، شاعری اور تصانیف پر جامع نوٹ لکھیں گے ۔
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے
ابتدائی تعارف:
حسرت موہانی کا اصل نام سید فضل الحسن اور تخلص حسرت تھا ۔ وہ قصبہ موہان ضلع اناؤ میں 1875ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام سید اظہر حسین تھا۔ ابتدائی تعلیم اس دور کے رواج کے مطابق گھر پر ہی ہوئی۔ 1903ء میں علی گڑھ سے بی اے کیا۔ عربی کی تعلیم مولانا سید ظہور الاسلام فتحپوری سے اور فارسی کی تعلیم مولانا نیاز فتح پوری کے والد محمد امیر خان سے حاصل کی تھی۔ حسرت سودیشی تحریک کے زبردست حامیوں میں سے تھے اور انھوں نے آخری وقت تک کوئی ولایتی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا۔ شروع ہی سے شاعری کا ذوق تھا۔ اپنا کلام تسنیم لکھنوی کو دکھانے لگے۔ 1903ء میں علی گڑھ سے ایک رسالہ ” اردوئے معلی ” جاری کیا۔ اسی دوران شعرائے متقدمین کے دیوانوں کا انتخاب کرنا شروع کیا۔ سودیشی تحریک میں بھی حصہ لیتے رہے۔ چنانچہ علامہ شبلی نے ایک مرتبہ کہا تھا: ” تم آدمی ہو یا جن ، پہلے شاعر تھے ، پھر سیاست دان بنے اور اب بنئے ہو گئے ہو ” ۔
حسرت پہلے کانگریسی تھے۔ حکومت کانگریس کے خلاف تھی، چنانچہ 1907ء میں ایک مضمون شائع کرنے پر پہلی بار جیل بھیج دیے گئے۔ اس کے بعد 1947ء تک کئی بار قید اور رہا ہوئے۔ اس دوران میں ان کی مالی حالت تباہ ہو گئی تھی۔ رسالہ بھی بند ہو چکا تھا۔ مگر ان تمام مصائب کو انھوں نے نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور مشق سخن کو بھی جاری رکھا۔ آپ کو ” رئیس المتغزلین” بھی کہا جاتا ہے ۔ والد اظہر حسین ایک جاگیر دار تھے اور فتح پور میں رہتے تھے۔ حسرت کا زیادہ تر بچپن ننہال میں گزرا ۔ ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کرنے کے بعد مڈل اسکول ، ہائی اسکول اور انٹر کے امتحان میں وظیفہ کے حقدار بنے ۔ وہ ایک بلند پایہ شاعر ایک عظیم سیاستداں، ایک صوفی بزرگ ، درویش ، مجاہد، ایک صحافی ، نقاد و محقق ، کانگریسی، مسلم لیگی، کمیونسٹ اور جمیعت علما کی بہت سی شخصیات میں نمایاں رہے ۔
اسلوبِ بیان/ شاعری کی نمایاں خصوصیات : سید حسرت موہانی جدید اردو غزل میں ایک اہم مقام اور امتیازی شان رکھتے ہیں حسرت نے سیاست کو واضح طور پر غزل کے مضمون میں شامل کر کے اس میں ایک مستقل اِضافہ کیا ہے ۔ ان کی غزل شگفتگی ، بیان جولانی ، فکر عشق کی رنگینی و رعنائی اور حسن اور سوز و گداز کا ایک خوبصورت مرقع ہے ۔ حسرت نے اردو غزل کو ایک نیا لہجہ اور نئی توانائی عطا کی ہے ۔ قدیم اساتذہ فن کے مطالعے نے ان کی غزل میں ایک درد ، گداز اور برجستگی کی کیفیت پیدا کر دی ہے ۔
حسرت کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ حسرت نے اردو غزل کی آبرو اس وقت برقرار رکھی جب اردو شعراء نظم گوئی کی طرف اس حد تک مائل تھے کہ غزل کے وجود کو خطرات لاحق نظر آنے لگے تھے ۔ ایسے وقت میں حسرت نے غزل کو شگفتہ بیانی رنگینی اور رعنائی کے ساتھ ساتھ آزادی و حریت کی تڑپ کا ترجمان بنایا ۔ یہی خوبی انھیں معاصرین میں نمایاں مقام دلاتی ہے اور اسی وجہ سے انھیں رئیس المتغزلین کے لقب سے نوازا گیا ۔
حسرت موہانی کی سیاسی زندگی: تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد رسالہ ” اُردوئے معلیٰ ” نکالا ۔ اس میں ادبی مضامین کے ساتھ ساتھ سیاسی مضامین بھی شائع ہوتے تھے ۔ 1905ء میں انھوں نے آل انڈیا کانفرنس میں حصہ لیا اور اسی وقت سے وہ سودیشی تحریک کے ممبر بن گئے ۔1907ء میں حسرت کانگریس سے علیحدہ ہوگئے۔ 1908ء میں “اُردوئے معلی ” میں حکومت کے خلاف ایک مضمون چھاپنے کی پاداش میں قید بامشقت کی سزا ہوئی۔ دو سال قید رہنے کے بعد 1910ء میں رہا ہوئے۔ پرچہ دربارہ جاری کیا لیکن 1914ء میں گورنمنٹ نے پھر بند کر دیا۔ مجبور ہو کر سودیشی مال کا ایک اسٹور قائم کیا۔ اسی زمانے میں جماعت احرار نے جنم لیا۔ مولانا حسرت موہانی اس کے ایک سرگرم کار