ٹھانی تھی دل میں ، اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
آج کی اس پوسٹ میں ہم مومن خان مومن کی ایک مشہور غزل ” ٹھانی تھی دل میں ، اب نہ ملیں گے کسی سے ہم ” جو کہ پنجاب بورڈ جماعت گیارہویں کے نصاب میں شامل ہے ، پر سیر حاصل گفتگو کریں گے ۔
غزل کا پس منظر: مومن خان مومن کی یہ غزل ایک خاص پس منظر رکھتی ہے ۔ مومن کا دورِ شباب پردہ نشینوں کے عشق میں گزرا مگر بعد میں انھوں نے سید احمد شہید بریلوی کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور پھر تمام اشغال و افعال سے تائب ہو کر زہد و تقوی کی زندگی اختیار کر لی ۔ وہ سید احمد شہید کے دست راست شاہ اسماعیل شہید سے خاص روابط رکھتے تھے اور ان کے پرجوش حامی تھے ۔ شاہ اسماعیل شہید سے عقیدت مندانہ روابط ہونے کے باوصف مومن خان مومن کے مولانا فضل حق خیر آبادی سے بھی دوستانہ بلکہ والہانہ تعلقات تھے ۔ جن کا شاہ اسماعیل شہید کے ساتھ قلمی مناظرہ برابر چلتا تھا ۔ مولانا فضل حق خیر آبادی آرزو تخلص اختیار کرتے تھے اور شطرنج سے خصوصی دلچسپی رکھتے تھے ۔ اسی دلچسپی کی وجہ سے ان کی مومن کے ساتھ شطرنج کی بازی پر بازی چلتی رہتی تھی۔
ایک بار ایسا ہوا کہ مولانا فضل خیر آبادی نے کوئی سوال شاہ اسماعیل شہید کی طرف بھیجا لیکن شاہ اسماعیل شہید نے جواب دینے میں کچھ توقف کیا ۔ جو آدمی مولانا فضل خیر آبادی کی طرف سے سوال لے گیا تھا ۔ اس نے واپس آ کر یہ بات بتائی تو انھوں نے یعنی شاہ اسماعیل شہید نے قدر توقف کے بعد جواب دینے کا وعدہ کیا ہے ۔ تو مولانا فضل خیر آبادی جو اس وقت مومن کے ساتھ شطرنج کھیل رہے تھے اس مہلت طلبی کو شاہ اسماعیل شہید کے لاجواب ہو جانے پر محمول کرتے ہوئے طنز سے کہا کہ ” بس جی دے لیا جواب دینا ہوتا تو ابھی نہ دے دیتے ” مومن کو مولانا فضل حق خیر آبادی کی یہ بات سخت ناگوار گزری ۔ مومن نے طیش میں آ کر شطرنج کا تختہ الٹ دیا اور فی البدیہہ یہ شعر کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔
لے نام آرزو کا تو دل کو نکال لے
مومن نہ ہو جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم
اور یوں مومن کی مولانا فضل خیر آبادی سے دوستی منقطع ہو گئی ۔ بعد میں جب صلح ہوئی تو مومن نے یہ غزل لکھ کر ان کی خدمت میں پیش کی اور فی البدیہہ کہے ہوئے شعر کو مقطع بنا دیا ۔
شعر نمبر 1 :
ٹھانی تھی دل میں ، اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ہو گئے ناچار جی سے ہم
مشکل الفاظ کے معانی : ٹھانی تھی( طے کر لیا تھا، ارادہ کر لیا تھا) ، ناچار( مجبور ، بے بس)
مفہوم : تشریح : مومن خان مومن نے اس شعر میں مولانا فضل حق خیر آبادی سے اپنی ناچاقی اور ترک دوستی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ مومن نے مولانا فضل حق خیر آبادی سے اس وقت تعلق منقطع کر دیا تھا جب مولانا فضل حق خیر آبادی نے اپنے سوال کا جواب شاہ اسماعیل کی طرف سے فی الفور نہ پایا اور یہ کہا کہ ” بس جی دے لیا جواب دینا ہوتا تو ابھی نہ دے دیتے” مومن سے شاہ اسماعیل شہید کی یہ توہین برداشت نہ ہوئی اور انھوں نے مولانا فضل حق خیر آبادی سے دوستی کا تعلق توڑ لیا مگر اس ترک تعلق کے باوجود مولانا فضل حق خیر آبادی کی محبت اور والہانہ عقیدت ان کے دل میں موجزن تھی۔
مومن تشریح طلب شعر میں کہتے ہیں کہ میں نے دل میں یہ ارادہ کیا تھا کہ آج کے بعد اپنے دوست فضل حق خیر آبادی سے کبھی نہ ملوں گا ۔ کبھی ان کا نام تک نہ لوں گا پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ آج کے بعد میں سارے مراسم اور سلسلے توڑ دوں گا اور کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھوں گا لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جو لوگ دل میں بسے ہیں ان کو پھر بھلایا نہیں جا سکتا ۔ وادی دل کے مکین کبھی بھلائے نہیں جا سکتے ۔ وقتی طور پر انسان ان سے تعلق توڑ لیتا ہے لیکن یہ محض ایک وقتی کشیدگی ہوتی ہے۔ ایسے ہی مومن خان مومن کے ساتھ بھی ہوا کہ دوست کے ساتھ گزرا ہوا اچھا وقت اور اس کی محبت نے آخر مجبور کر دیا کہ ساری ناراضی کو ختم کر کے پھر دوستی کا ہاتھ بڑھایا جائے یوں مومن دل کے سامنے بے بس ہو گئے اور دوست سے صلح کر لی ۔
تشریح طلب شعر میں بھی عاشق نے محبوب کو بھلانے کی ہر ممکن کوشش کی حتیٰ کہ ارادہ بھی باندھ لیا لیکن عاشق کا محبوب کو بھولنے کا ارادہ محض ارادہ ہی تھا۔
بقول شاعر :
کب نکلتا ہے کوئی دل میں اتر جانے کے بعد
اس گلی کی دوسری جانب کوئی رستہ نہیں
مومن کہتے ہیں کہ آخر میں دل کے ہاتھوں مجبور ہو گیا اور پھر سے اپنے محبوب کے ساتھ تعلقات خوشگوار کرنا پڑے کیونکہ دل کے باسی ہی سے دل کی رونق ہوتی ہے ۔ گویا عاشق صادقہ اپنے محبوب کو بھولنا ناممکن ہے کیونکہ وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہے ورنہ اس نے محبوب کو بھولنے کا ارادہ تو کیا ۔
بقول حسرت موہانی :
بھلاتا لاکھوں ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الٰہی ترک الفت میں وہ کیوں کر یاد آتے ہیں
شعر نمبر 2 :
ہنستے جو دیکھتے ہیں ، کسی کو کسی سے ہم
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بے کسی سے ہم
مشکل الفاظ کے معانی : بے کسی( بے بسی ، لاچارگی)
مفہوم : تشریح : یہ ایک فطری امر ہے کہ اگر انسان پریشان ہو تو اسے چاروں سو پریشانیاں اور دکھ ہی دکھ نظر آتے ہیں گویا دل کا آنگن اجڑ جائے تو ہر طرف خزاں ہی خزاں نظر آتی ہے ۔
تشریح طلب شعر میں عاشق کہتا ہے کہ جب میں کسی کو کسی کے ساتھ ہنستا ہوا دیکھتا ہوں یا خوش گپیاں اڑاتا ہوا دیکھتا ہوں تو مجھے میرے دوستی کے سہانے موسم یاد آنے لگتے ہیں ۔ یاد کا ایک میلہ سا لگ جاتا ہے اور بہتی ہوئی یادیں اور لمحے مجھے ایک ناگن کی طرح ڈسنے لگتے ہیں ۔ آنکھوں سے بے اختیار ساون بھادوں کی جھڑیاں رواں ہو جاتی ہیں ۔ آج میرا محبوب کسی اور کے ساتھ ہنسی مذاق میں مصروف ہے ۔ ایک وقت تھا جب یہ سہانی گھڑیاں مجھے میسر تھیں ۔ قرب کی ساری لذتیں کبھی مجھ پر مہربان تھیں ۔ آج اپنے محبوب کو کسی اور کے ساتھ ہنستا ہوا دیکھتا ہوں تو میں حسد کی آگ میں جلنے لگتا ہوں اور ان کا منہ دیکھ کر احساسِ شرمندگی ہوتا ہے اور اپنی بد نصیبی پر رونا آتا ہے ۔
بقول شاعر:
گلے ملتے ہیں جب دنیا میں دو بچھڑے ہوئے ساتھی
عدم ہم بے سہاروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے
عاشق جب اپنے محبوب کو رقیب کے ساتھ ہنستا مسکراتا اور محبت بھری باتیں کرتا ہوا دیکھتا ہے تو اسے اپنی بے بسی اور بے کسی پر رونا آتا ہے ۔ شاعر شاعرانہ انداز اور محبوب کی کج روی پر اس کا دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ مومن خان مومن نے اس شعر میں مولانا فضل حق خیر آبادی سے اپنی ناچاقی اور ترک دوستی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ مومن نے مولانا فضل حق خیر آبادی سے اس وقت تعلق منقطع کر لیا تھا ۔ جب مولانا فضل حق خیر آبادی نے اپنے سوال کا جواب شاہ اسماعیل شہید کی طرف سے فی الفور نہ آنے پر یہ فقرہ کہا کہ ” بس جی دے لیا جواب دینا ہوتا تو ابھی نہ دے دیتے” مومن سے شاہ اسماعیل شہید کی یہ توہین برداشت نہ ہوئی اور انھوں نے مولانا فضل حق خیر آبادی سے دوستی کا رشتہ توڑ لیا مگر اس ترک تعلقات کے باوجود مولانا فضل حق خیر آبادی کی محبت اور والہانہ عقیدت ان کے دل میں موجزن تھی ۔ چنانچہ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب ہم مولانا فضل حق خیر آبادی کو دوسروں کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کرتے دیکھتے ہیں تو ہمارے دل پر سانپ لوٹ جاتا ہے ۔ ہم حیرت و حسرت سے ان کا منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں اور اپنی بے بسی مجبوری پر آنسو بہانے لگتے ہیں
شعر نمبر 3 :
“ہم سے نہ بولو تم” ، اسے کیا کہتے ہیں بھلا
انصاف کیجئے پوچھتے ہیں آپ ہی سے ہم
مشکل الفاظ کے معانی : انصاف کیجئے ( سچی بات بتلائیے)
مفہوم : ذرا ذرا سی باتوں پر روٹھ کے بیٹھ جاتے ہو اور کہتے ہو کہ ہم سے نہ بولو ۔ کیا یہ انصاف کی بات ہے ذرا خود سے پوچھو ؟
تشریح : مومن خان مومن نے اس شعر میں محبوب کی سنگ دلی کا مضمون باندھا ہے۔ عاشق کہتا ہے کہ اے میرے محبوب تم نے مجھ سے بات چیت کرنا ترک کر دیا ہے اور قطع تعلق ہو کر بیٹھ گئے ہو لیکن کس خطا پر روٹھے ہو یہ بھی تو نہیں بتایا ۔ ہم کو تو معلوم ہی نہیں آپ کا یوں اچانک ہم سے گفتگو کا سلسلہ ختم کر دینا یہ کوئی اچھا عمل نہیں ہے ۔ میں آپ کی اس ناراضی کو کیا نام دوں ؟ میں یہ فیصلہ آپ ہی کے اوپر چھوڑتا ہوں آپ ہی بتاؤ یہ کیا ہے تم نے جو ہم سے بلاوجہ سارے مراسم اور سلسلے توڑ دیے ہیں حتیٰ کہ بولنا بھی ترک کر دیا ہے ۔ اپنے اس فیصلے پر اے میرے محبوب ذرا غور تو کیجیے کہ جو فیصلہ آپ نے کیا ہے ۔ وہ کیا انصاف پر مبنی ہے ۔ آپ خود ہی غور فرمائیں کیونکہ اگر ہم نے کچھ کہا تو آپ پھر شکوہ شکایت کا دفتر کھول دیں گے ۔
تشریح طلب شعر میں شاعر محبوب سے کہنا چاہتا ہے کہ تم نے جو ہم سے نہ بولنے کا فیصلہ کیا ہے اور ہم سے منہ پھیر لیا ہے اور کسی بات پر ناراض ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ حکم صادر کر دیا ہے کہ کبھی تم سے بات نہ کروں یہ فیصلہ بالکل غلط ہے ۔ لہٰذا اے میرے محبوب انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دو اور خدا کے لیے ہم سے یوں روٹھ کر نہ جاؤ ۔
بقول شاعر :
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
شعر نمبر 4 :
بیزار جان سے جو نہ ہوتے ، تو مانگتے
شاہد شکایتوں پہ تیری مدعی سے ہم
مشکل الفاظ کے معانی : بیزار جان سے( جان سے تنگ ہونا ) ، شاہد (گواہ) ، مدعی( دعویٰ کرنے والا ، رقیب )
مفہوم : اگر ہم زندگی سے تنگ نہ ہوتے تو تیری کج ادائی پر ضرور گواہ طلب کرتے مگر اب ہمیں زندگی سے ہی نفرت ہو گئی ہے ۔
تشریح : عشق و عاشقی کی دنیا میں رقیب کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ تشریح طلب شعر میں شاعر مومن خان مومن رقیب کی چال بازیوں اور چالاکیوں کو موضوع سخن بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج میں زندگی کے اس موڑ پر پہنچ چکا ہوں کہ اب زندگی کی خواہش اور جینے کی امنگ میرے دل سے ختم ہو چکی ہے ۔ میں اپنی جان سے بالکل تنگ آ چکا ہوں ۔ عشق و محبت کی وادی میں پتھر سہتے سہتے ضعف و ناتوانی نے مجھے بالکل رنجور کر دیا ہے ۔ محبوب کے ستم ہائے ستم بھی کم نہیں ہوتے اور وہ لوگوں کی جھوٹی باتوں پر یقین کر لیتا ہے اور مجھ سے ناراض ہو جاتا ہے ۔ رقیب میرے محبوب کے کان بھرتے ہیں اور میرے گلے شکوے کر کے میرے محبوب کو مجھ سے دور کر دیتے ہیں ۔ سادہ لوح محبوب مجھ سے برہم ہو جاتا ہے ۔ آج اگر مجھے جینے کی خواہش اور زندگی سے محبت ہوتی تو میں اے محبوب تیری طرف سے لگائے جانے والے تمام الزامات پر گواہ طلب کرتا ۔ وہ رقیب جو جھوٹے دعویدار ہیں ان کی باتوں کا جواب پیش کرتا اور گواہ طلب کرتا اور یقینا رقیب گواہ پیش کرنے سے قاصر رہتے اور تجھے پتہ چل جاتا کہ جھوٹا کون ہے اور سچا کون ؟ لیکن میں زندگی سے اس قدر اکتا چکا ہوں اور تنگ آ گیا ہوں اب جینے کی خواہش ہی نہیں اس لیے مجھے تیری باتوں پر بھی اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہنا ۔
شعر نمبر 5 :
بے روئے مثل ابر نہ نکلا غبارِ دل
کہتے تھے ان کو برق تبسم ہنسی سے ہم
مشکل الفاظ کے معانی : بے روئے (بغیر روئے) ، مثل ابر (بادل کی طرح ) ، غبار دل( دل کا غبار) ، برق تبسم( بجلی کی سی مسکراہٹ )
مفہوم :محبوب کی ہنسی بجلی کی سی چمک (مسکراہٹ) رکھتی ہے مگر اس نے یہی بجلی شاعر پر گرا دی ۔ اب وہ ہر وقت روتا رہتا ہے ۔
تشریح : جب عاشق صادق کو محبوب کی قربتیں میسر ہوتی ہیں اور محبتوں کے سارے موسم ان پر مہربان ہوتے ہیں تو اسے دنیا بڑی خوبصورت لگتی ہے ۔ تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ جب محبت کی دیوی مجھ پر مہربان تھی اور اس کی حسین ادائیں مجھے ہر وقت اپنے سحر میں لیے رکھتی تھی ۔ جب میرا محبوب مسکراتا تھا تو میں کہتا تھا کہ ہائے میرے محبوب کے دانت سفید موتیوں کی طرح ہیں اور جب وہ بولتا تھا تو باتوں سے پھول جھڑتے تھے ۔ وہ کیسا خوش کلام ہے اس کی مسکراہٹ تو کلیاں کھلا دیتی ہے ۔ حتیٰ کہ مذاق ہی مذاق میں میں اپنے محبوب کی مسکراہٹ کو بجلی کی چمک کے ساتھ تشبیہ دیا کرتا تھا ۔ جب عاشق واقعی محبوب کی محبت میں گرفتار ہو گیا اور محبوب کی وہ مسکراہٹ جس کو عاشق بجلی کی چمک کہتا تھا جب محبوب نے وہی بجلی عاشق کے دل پر گرائی تو عاشق کو اس درد کی شدت کا احساس ہوا ۔ عاشق کا دل ایسا گھائل ہوا کہ اب اس کی آنکھیں یوں برسنے لگی ہیں جیسے بادل برستا ہے اور محبوب کی یاد کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے عاشق کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑیاں لگ جاتی ہیں ۔
شعر نمبر 6 :
کیا گل کھلے گا دیکھیے ہے فصل گل تو دور
اور سوئے دشت بھاگتے ہیں کچھ ابھی سے ہم
مشکل الفاظ کے معانی : گل کھلنا( نئی بات ہونا) ، فصل گل (بہار کا موسم ، پھولوں کا موسم ) ، سوئے دشت( جنگل کی طرف)
مفہوم : ابھی بہار کا موسم بہت دور ہے اور ہمارے زخم ابھی سے ہرے ہوا چاہتے ہیں ، خدا خیر کرے ۔
تشریح : مومن خان مومن نے اس شعر میں ایک روایتی موضوع کو بڑے عمدہ انداز میں پیش کیا ہے۔ اردو شاعری کی ایک روایت ہے کہ جب بہار کا موسم آتا ہے تو عاشق حضرات صحراؤں کی طرف دیوانہ وار بھاگنا شروع کر دیتے ہیں ۔ ان پر جنونی کیفیت طاری ہو جاتی ہے باہر کے موسم میں ان کے عشق کی آگ انہیں بے تحاشہ مضطرب اور بے چین کر دیتی ہے ۔
تشریح طلب شعر میں مومن خان مومن کہتے ہیں کہ خدا خیر کرے کہ ابھی تک تو بہار کا موسم بہت دور ہے لیکن ہماری طبیعت پر کچھ ایسی تبدیلی رونما ہوئی ہے کہ ہم ابھی سے صحرا کی طرف بھاگنا شروع ہو گئے ہیں ۔ بہار کا موسم پھول کھلنے کا موسم ہوتا ہے اور ساتھ ہی عشاق کے زخم بھی کھل اٹھتے ہیں ۔ یہ سارا کچھ بہاروں کے موسم کے ساتھ وابستہ ہے لیکن یہاں کچھ روایت سے ہٹ کر ہوا ہے جس کے بارے میں شاعر کو پریشانی ہے کہ ابھی بہار کا موسم دور ہے اور میں نے ابھی سے صحرا کی طرف دیوانہ وار بھاگنا شروع کر دیا ہے ۔ اب دیکھیے کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے یعنی موسم بہار کی آمد سے پہلے ہی جنون کی سی کیفیت ہے تو موسم بہار آنے پر میری کیا حالت ہوگی ۔ یہ عشق کی دیوانگی پتہ نہیں کیا گل کھلائے گی اور کن کن صحراؤں کی خاک چھاننا ہمارا مقدر ٹھہرے گا ۔
شعر نمبر 7 :
لے نام آرزو کا تو دل کو نکال لیں
مومن نہ ہوں ، جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم
مشکل الفاظ کے معانی: ربط ( تعلق ) ، بدعتی ( دین میں نئی بات نکالنے والا) ، آرزو ( مولانا فضل حق خیر آبادی کا تخلص)
مفہوم: آرزو کا نام دل سے نکال دے ۔ ہم مومن ہیں اور مومن کا بدعتی شخص سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔
تشریح: مومن خان مومن نے اس شعر میں مولانا فضل حق خیر آبادی سے اپنی ناچاقی اور ترک دوستی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ مومن نے مولانا فضل حق خیر آبادی سے اس وقت تعلق منقطع کر لیا تھا ۔ جب مولانا فضل خیر آبادی نے اپنے سوال شاہ اسماعیل شہید کی طرف سے فی الفور جواب نہ آنے پر یہ فقرہ کہا کہ ” بس جی دیکھ لیا جواب دینا ہوتا تو ابھی نہ دے دیتے ” مومن سے شاہ اسماعیل شہید کی یہ توہین برداشت نہ ہوئی اور انھوں نے مولانا فضل حق خیر آبادی سے دوستی کا رشتہ توڑ لیا مگر اس ترک تعلق کے باوجود مولانا فضل حق خیر آبادی کی محبت اور والہانہ عقیدت ان کے دل میں موجزن تھی ۔ مومن کہتا ہے کہ آج کے بعد اگر میرے دل نے آرزو کا نام لیا تو میں اسے اپنے سینے سے نکال دوں گا جس طرح ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتی اسی طرح مومن کسی بدعتی سے تعلق نہیں رکھ سکتے ۔ یہاں پر مومن خان مومن نے رعایت معنوی سے اپنے نام کا خوبصورت استعمال کیا ہے کہ اگر ایک مومن ہے تو مومن کے دل میں بدعتی آدمی کی محبت کا بالکل کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ۔ مومن اس وقت تک مومن ہی نہیں جب تک اس کے دل سے بدعت اور بدعتی کی محبت نہ نکل جائے ۔
مومن کے اس شعر کو اگر عاشقانہ رنگ میں دیکھا جائے تو مومن بدعت کے لفظ کو ایک نئے مفہوم سے آشنا کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل میں تو محبوب اور صرف محبوب آباد ہے اب اگر ہمارے دل میں کوئی آرزو یا تمنا پیدا ہوتی ہے تو ہمارے دل میں اس خواہش یا تمنا کی موجودگی محبوب کی ذات میں کسی اور کو شریک کرنے کے مترادف ہوگی اور ہمارے عشق کی غیرت کبھی اس شرک کو گوارا نہیں کر سکتی ۔ ہم تو مومن ہیں اور مومن کا دل شرک کا ارتکاب کر کے بدعتی نہیں بنتا کیونکہ مومن کی شان اور ایمانی تقاضوں کے یہ خلاف ہے کہ وہ کسی بدعتی سے کسی قسم کا تعلق یا رابطہ رکھے ۔ اس لیے ہمارا دل اگر کسی آرزو کا نام بھی لے گا تو ہم اپنے دل کو سینے سے باہر نکال دیں گے کیونکہ ہم تو پھر مومن اور صاحب ایمان ہی نہ ہوئے اگر دل جیسے بدعتی کے ساتھ کسی بھی قسم کا رابطہ رکھیں۔