آج کی اس پوسٹ میں ہم جگر مراد آبادی کی مشہورِ زمانہ غزل ” یہ میکدہ یہاں رند ہیں یہاں سب کا ساقی امام ہے ، جو کہ طنزیہ اور فلسفیانہ انداز میں لکھی گئی ہے ، پر تبصرے و توضیح کریں گے ۔ جگر مرادآبادی نے طنزیہ انداز میں سماجی اور مذہبی منافقت کو بیان کیا ہے۔ ہر شعر میں ایک گہرا پیغام چھپا ہوا ہے جو غور طلب ۔
1 نمبر شعر:
یہ ہے میکدہ یہاں رند ہیں یہاں سب کا ساقی امام ہے
یہ حرم نہیں ہے اے شیخ جی یہاں پارسائی حرام ہے
تشریح :
اس شعر میں شاعر میکدے کی حقیقت بیان کرتے ہیں کہ یہاں صرف شراب پینے والے (رند) آتے ہیں اور یہاں شراب پیش کرنے والا (ساقی) سب کا امام ہوتا ہے۔ یعنی یہاں کوئی مذہبی پابندیاں نہیں ہیں اور پارسائی (نیکی) یہاں منع ہے۔ یہ ایک طنز ہے ان لوگوں پر جو مسجد میں تو نیکی کی بات کرتے ہیں لیکن حقیقت میں خود نیکی پر عمل نہیں کرتے۔
2 نمبر شعر :
یہ جناب شیخ کا فلسفہ جو سمجھ میں میری نہ آ سکا
جو وہاں پیؤ تو حلال ہے جو یہاں پیؤ تو حرام ہے
تشریح :
اس شعر میں شاعر مذہبی منافقت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شیخ کا فلسفہ سمجھ میں نہیں آتا، کیونکہ مسجد میں کچھ پینا حلال ہوتا ہے جبکہ میکدے میں وہی چیز حرام۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ لوگ مذہب کا استعمال اپنے مفادات کے مطابق کرتے ہیں۔
3 شعر نمبر :
جو ذرا سی پی کے بہک گیا اسے میکدے سے نکال دو
یہاں کم نظر کا گزر نہیں یہاں اہلِ ظرف کا کام ہے
تشریح :
یہاں ظرف کی بات ہو رہی کہ جس کا جتنا ظرف ہو وہ اتنی ہی برداشت کا مالک ہوتا ہے ۔ شاعر کہتے ہیں کہ میکدے میں صرف وہی ٹھہر سکتا ہے جو شراب پینے کے بعد بھی خود پر قابو رکھ سکے۔ جو تھوڑا سا پیتے ہی بہک جائے، اسے میکدے سے نکال دو۔ یہ شعر اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ زندگی میں مشکلوں کا سامنا صرف مضبوط لوگوں کا کام ہے۔ کمزور لوگ مشکلات کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے ۔
4 شعر نمبر :
کوئی مست ہے کوئی تشنہ لب تو کسی کے ہاتھ میں جام ہے
مگر اب اس میں کوئی کرے بھی کیا یہ تو میکدے کا نظام ہے
تشریح :
شاعر میکدے کی زندگی کے مختلف حالات بیان کرتے ہیں۔ کوئی شراب پی کر مست ہے، کوئی ابھی پیاسا ہے، اور کسی کے ہاتھ میں جام ہے۔ یہ زندگی کے مختلف مراحل اور حالتوں کی علامت ہے، اور شاعر کہتا ہے کہ یہ سب کچھ میکدے (زندگی) کے نظام کا حصہ ہے ۔ امیری، غریبی ، خوبصورت، بد صورت ، رزق کی کمی و زیادتی اور کبھی خوشحالی تو کبھی بد حالی۔ یہ سب اس زندگی کا حصہ ہیں ۔ انسان کو ہر حال میں صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔
5 شعر نمبر :
تجھے اپنے حُسن کا واسطہ میرے شوقِ دید پہ رحم کھا
ذرا مسکرا کر نقاب اُٹھا کہ نظر کو شوقِ سلام ہے
تشریح :
اس شعر میں شاعر اپنے محبوب سے التجا کر رہا ہے کہ وہ اپنے حسن کے واسطے اُس کے شوقِ دید کو پورا کرے اور نقاب ہٹا کر اُسے دیکھنے دے۔ یہاں حسن و عشق کے جذبات کو پیش کیا گیا ہے۔
6 شعر نمبر:
نہ سنا تو حور و قصور کی یہ حکایتیں مجھے واعظا
کوئی بات کر درِ یار کی درِ یار ہی سے تو کام ہے
تشریح :
شاعر واعظ سے کہتا ہے کہ وہ جنت کی حوروں کی باتیں نہ کرے، بلکہ محبوب کے در کی بات کرے، کیونکہ اُس کا مقصد صرف محبوب کا وصال ہے۔ یہ دنیاوی محبت کے احساسات کو بیان کرتا ہے۔
7 شعر نمبر :
نہ تو اعتکاف سے کچھ غرض نہ ثواب و زہد سے واسطہ
تیری دید ایسی نماز ہے نہ سجود ہے نہ قیام ہے
تشریح :
شاعر کہتا ہے کہ اُسے اعتکاف (تنہائی میں عبادت) یا ثواب کی فکر نہیں ہے۔ اُس کے لیے محبوب کا دیدار ہی سب سے بڑی عبادت ہے، جس میں نہ سجود ہے نہ قیام۔ یہ شعر عشق کی عبادت کو حقیقی عبادت سے تعبیر کرتا ہے۔
8 شعر نمبر :
یہ درست کہ عیب ہے مے کشی یہ بجا کہ بادہ حرام ہے
مگر اب سوال یہ آپڑا کہ تمھارے ہاتھ میں جام ہے
تشریح :
شاعر اعتراف کرتا ہے کہ شراب پینا عیب ہے اور شراب حرام ہے، لیکن وہ سوال کرتا ہے کہ پھر تمہارے ہاتھ میں یہ جام کیوں ہے؟ یہ شعر ان لوگوں پر طنز کرتا ہے جو دوسروں کو نصیحت کرتے ہیں لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتے ۔
” دوسروں کو نصیحت، خود میاں فضیحت ” ۔
9 شعر نمبر :
جو اٹھی تو صبحِ دوام تھی جو جھکی تو شام ہی شام تھی
تیری چشمِ مست میں ساقیا میری زندگی کا نظام ہے
تشریح :
شاعر ساقی کی نشیلی آنکھوں کی تعریف کرتا ہے کہ جب وہ آنکھیں اُٹھتی ہیں تو ہر طرف روشنی پھیل جاتی ہے اور جب وہ جھکتی ہیں تو شام جیسا منظر ہو جاتا ہے۔ ان آنکھوں میں شاعر کی زندگی کا نظام چلتا ہے، یعنی محبوب کی محبت ہی اُس کی زندگی کا مرکز ہے۔
شراب رب نے حرام کر دی
جانے کیوں رکھی حلال آنکھیں
10 شعر نمبر:
میرا فرض ہے کہ پڑا رہوں تیری بارگاہ میں ساقیا
کوئی تشنہ لب ہے کہ سیر ہے یہی دیکھنا تیرا کام ہے
تشریح :
شاعر کہتا ہے کہ اُس کا فرض ہے کہ وہ ساقی (محبوب) کی بارگاہ میں پڑا رہے، اور یہ ساقی کا کام ہے کہ وہ دیکھے کہ کون پیاسا ہے اور کون سیر ہے۔ یہ شعر اُس کی عاجزی اور محبت کو ظاہر کرتا ہے۔
وہاں وہ در نہ کھولیں گے یہاں میں در نہ چھوڑوں گا
حکومت اپنی اپنی ہے کہیں ان کی کہیں اپنی
11 شعر نمبر :
ابھی اس جہان میں اے جگر کوئی انقلاب اٹھے گا پھر
کہ بلند ہو کے بھی آدمی ابھی خواہشوں کا غلام ہے
تشریح :
مقطع کا شعر ہے ۔ شاعر اس شعر میں ایک گہری حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ابھی دنیا میں ایک انقلاب آنے والا ہے، کیونکہ انسان بلند مقامات پر پہنچ کر بھی اپنی خواہشات کا غلام ہے۔ یہ ایک فلسفیانہ بات ہے جو دنیا کی حقیقت کو بیان کرتی ہے۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ جگر مراد آبادی کی غزل کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.