یہ فخر تو حاصل ہے برے ہیں کہ بھلے ہیں

یہ فخر تو حاصل ہے برے ہیں کہ بھلے ہیں 

آج کی اس پوسٹ میں ہم ادا جعفری کی ایک غزل “یہ فخر تو حاصل ہے برے ہیں کہ بھلے ہیں ” کی تشریح بمع مفہوم اور لغت کے حل کریں گے ۔

شعر نمبر 1 :

یہ فخر تو حاصل ہے برے ہیں کہ بھلے ہیں

دو چار قدم ہم بھی تیرے ساتھ چلے ہیں

حل لغت : فخر (اعزاز، ناز) ،  بھلے (اچھے) ، دو چار قدم (تھوڑی دیر کے لیے)

مفہوم :ہم اچھے ہیں یا برے ہیں مگر ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم محبوب کے ساتھ کچھ دیر چلے ہیں ۔

تشریح :  ادا جعفری میں شعر گوئی کی امنگ اور فطرتی صلاحیت موجود تھی ۔ نظم نگاری سے شاعری کی ابتدا کی پھر غزل کہنے لگی۔ ابتدائی دور میں اثر لکھنوی سے بعد ازاں اختر شیرانی سے اصلاح لی۔ ادا جعفری کی پہلی غزل رسالہ”  رومان” میں شائع ہوئی ۔ ان کی غیر معمولی شعری صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے اکادمی ادویات پاکستان اسلام آباد نے انہیں “کمال فن ایوارڈ” دیا ہے۔ انہیں حسن کارکردگی کا صدارتی تمغہ بھی مل چکا ہے ۔ ادا جعفری کی غزلوں میں تغزل کے عناصر ، لطیف احساسات ، ایک بے نام افسردگی اور جدائی کی کھسک موجود ہے۔ ان کی خود نوشت جو ” رئی سو بے خبر رہی” کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔

نوٹ : یہ تعارف والا اقتباس اس غزل کے کسی شعر کے بھی شروع میں لکھا جا سکتا ہے ۔

 غزل کے اس شعر میں شاعرہ ادا جعفری اپنے محبوب کے ساتھ تعلق اور اس کی رفاقت پر نازاں ہیں کہ اے میرے محبوب تیری نظروں میں ہم اچھے ہیں یا برے ہیں لیکن ہمیں اس بات پر ناز ہے کہ چاہے کچھ دن ہی سہی ، کچھ عرصہ کے لیے ہی سہی ہمیں تمہاری قربت اور رفاقت حاصل رہی ہے ۔ اپنی اس رفاقت پر میں اپنے دوستوں میں فخر کر سکتی ہوں ۔ وہ الگ بات ہے کہ ہمارا ذکر بھی تجھے اچھا لگتا ہے یا نہیں لیکن تجھ سے تعلق ہمارے لیے تو بہرحال قابل فخر اور قابل عزت ہے ۔ شاعرہ اپنے محبوب کو اپنی آنکھوں میں سمایا ہوا اور دل کے قریب پاتی ہے ۔

شعر نمبر 2 :

جلنا تو چراغوں کا مقدر ہے ازل سے

یہ دل کے کنول ہیں کہ بجھے ہیں نہ جلے ہیں

حل لغت : کنول( نیلوفر کا پھول) ،  ازل( ابتدا ) مفہوم : چراغوں کی قسمت میں ابتدا سے ہی جلنا لکھا دیا گیا ہے مگر میرے دل 💓 کو کیا ہوا کہ یہ نہ جلے اہے نہ بجھتا ہے ۔

تشریح :  اس شعر میں شاعرہ چراغ اور عاشق کے دل کا موازنہ کرتے ہوئے کہتی ہے کہ چراغ کی قسمت میں ہمیشہ جلنا لکھا ہے ۔ شاعرہ کہتی ہے کہ جب سے یہ کائنات تخلیق ہوئی ہے اس وقت سے اللہ تعالیٰ نے جلنے کا کام چراغوں کے ذمے لگا دیا ہے اور وہ یہ کام بخوبی انجام دے رہے ہیں یعنی دوسروں کو روشنی مہیا کرتے ہیں مگر خود جلتے رہتے ہیں ۔ دوسروں کے فائدے کے لیے اپنی ذات کو جلانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ شاعرہ کہتی ہے کہ چراغ تو اپنا فرض انجام دے رہے ہیں مگر میرے دل کے چراغوں میں عشق حقیقی کا شعلہ نہیں بھڑکتا ۔ یہ شعلہ اللہ نے روشن کیا ہے اس لیے مکمل طور پر بجھ نہیں سکا اور پورے طور پر اپنی آب و تاب اس لیے نہیں دکھا سکا کیونکہ انسان دنیا کے غموں میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ اس نے دل کے کنول کے جلنے کا انتظام ہی نہیں کیا ۔ شاعرہ کا دل بھی ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہے ۔ اس کا دل نہ تو جل رہا ہے اور نہ ہی مکمل طور پر بجھا ہوا ہے۔

شعر نمبر 3 :

نازک تھے کہیں رنگ گل و بوئے سمن

جذبات کہ آداب کے سانچے میں ڈھلے ہیں

حل لغت : رنگ گل ( پھول کا رنگ ) ، بوئے سمن (چنبیلی، یاسمین کے پھولوں کی خوشبو)

مفہوم : میرے جذبات میرے محبوب کے ہمیشہ ایسے حد میں گردش کرتے رہتے ہیں ۔

تشریح  : شاعرہ اس شعر میں کہتی ہے کہ میرے محبوب کے لیے میرے جذبات خوبصورت پھول کے رنگ اور خوشبو کی طرح نازک تھے۔ میرے جذبات پھولوں جیسے خوشنما ہوتے ہیں مگر جب آداب و تہذیب کی بات ہوتی ہے تو جذبات آداب و تہذیب کے دائرے میں سمٹ کر رہ جاتے ہیں میرے جذبات آداب کے پابند ہو گئے ہیں۔  شاعرہ یہ کہنا چاہتی ہے کہ میرے جذبات خواہ کتنے ہی نرم و نازک اور اچھے کیوں نہ ہوں یہ آداب کی حد میں محدود رہیں گے۔

شعر نمبر 4 :

تھے کتنے ستارے کہ سر شام ہی ڈوبے

ہنگام سحر کتنے ہی خورشید ڈھلے ہیں

حل لغت : سر شام ( شام ہوتے ہی ) ہنگام سحر ( صبح ہوتے ہی ) ، خورشید ( سورج )

مفہوم : بہت سے ستارے ایسے ہیں جو چمکنے سے پہلے ہی بجھ گئے ہیں ۔

تشریح : شاعرہ نے اس شعر میں موت کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ہے کہ موت کسی کا لحاظ نہیں کرتی ۔ بہت سے ایسے ستارے جنہوں نے آسمان کی زینت بننا تھا مٹ گئے اور اپنی چمک دمک ظاہر نہ کر سکے اور کتنے ہی ایسے سورج تھے جو اپنا عروج دیکھے بنا ہی ڈھل گئے۔ موت ایک تلخ حقیقت ہے موت بچے ، بوڑھے اور جوان کسی کا بھی لحاظ نہیں کرتی ۔ بہت سے بچے کم عمری میں ہی چل بستے ہیں اور بہت سے جوان اپنی جوانی کی بہاریں دیکھیے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ 

شعر نمبر 5

جو جھیل گئے ہنس کے کڑی دھوپ کے تیور

تاروں کے خنک چھاؤں میں وہ لوگ ڈھلے ہیں

حل لغت : خنک چھاؤں ( ٹھنڈی چھاؤں) ،جھیل گئے ( برداشت کر گئے) ، تیور ( انداز )

مفہوم : غیروں کی سخت سے سخت بات بھی برداشت ہو جاتی ہے مگر اپنوں کا ہلکا سا بھی ناروا سلوک سخت اذیت دیتا ہے ۔

تشریح  : غزل کے اس شعر میں شاعرہ کہتی ہے کہ کچھ لوگوں نے سورج کی تمازت تو ہنسی خوشی برداشت کر لی ہے مگر تاروں کی ہلکی سی تپش بھی ان کی برداشت سے باہر ہے ۔ یہ ایک فطرتی بات ہے کہ جن سے توقع زیادہ ہو وہ امیدوں پر پورا نہ اتریں تو تکلیف بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے برعکس غیروں سے اچھائی کی کوئی توقع نہیں ہوتی ۔ اس لیے ان کی اذیتوں کے لیے انسان پہلے سے تیار رہتا ہے ۔ شاعرہ یہ بھی کہتی ہے کہ غیروں کا ناروا سلوک تو ہم ہنس کر سہ گئے ہیں مگر اپنوں کی بے وفائی کا زخم ہمارے لیے ناقابل برداشت ہے ۔ 

شعر نمبر 6 : 

ایک شمع بجھائی تو کئی اور جلا لیں

ہم گردش دوراں سے بڑی چال چلے ہیں

حل لغت : گردش دوراں ( زمانے کی گردش) ، چال چلنا ( فریب دینا ۔

مفہوم :زمانے نے ہماری ایک شمع بجھائی ہے تو ہم نے کئی اور شمعیں جلا لیں ہیں ۔ ہم زمانے سے آگے کی سوچتے ہیں ۔

تشریح :  شاعرہ اس شعر میں اپنی حوصلہ مندی کا تذکرہ کرتی ہے کہ ہمارے محبوب کے ساتھ ساتھ اس زمانے نے بھی ہمارے ساتھ کتنی زیادتیاں کی ہیں۔ تیز آندھیوں نے جب ہماری جلائی ہوئی ایک شمع کو بجھا دیا تو اس کے متبادل طور پر ہم نے کئی شمیں جلا رکھی تھی ۔ عشق کی راہ میں چل پڑے ہیں تو مصائب اور دکھوں سے گھبرانے والے ہم نہیں ہیں ۔ زمانہ ہماری ایک امید کو پورا نہ ہونے دے گا تو ہمیں مایوس نہ پائے گا۔ ہم زمانے کی ہر چال کو ناکام کر کے رہیں گے۔ ہمیں ختم کرنے اور محبوب کے عشق کے راستے سے ہٹانے والے ہمارے دشمن ہمارے خلاف کسی سازش میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ ہم نے کامیابی کے حصول کے لیے نئے راستے دریافت کیے ہیں اور ان اندھیروں کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ ہم نے وقت کی گردش کو فریب دے دیا ہے۔ 

بقول شاعر

اپنا شیوہ ہے اندھیروں میں جلاتے ہیں چراغ

ان کی حسرت ہے زمانے میں یوں ہی رات رہے

غزالاں تم تو واقف ہو

نوٹ : امید ہے کہ آپ کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

2 thoughts on “یہ فخر تو حاصل ہے برے ہیں کہ بھلے ہیں”

  1. جی ہاں، تشریحات تو بلاشبہ بہتر کی ہیں البتہ صنائع بدائع کا ذکر مفقود ہے۔ دوم یہ کہ دھوپ کے تیور والے شعر میں دھوپ سے مراد غیر اور تاروں سے مراد اپنے کیسے ہیں؟ یہ مجھے سمجھ نہیں آیا۔

    Reply
    • مہربانی محترمہ کہ آپ کو ہماری تشریح اچھی لگی اور میسج کا جواب تاخیر سے دینے کے لیے معزرت ۔ کچھ نجی مصروفیات کی بنا پر ویب سائٹ پر کام نہیں کر سکا ۔ مہربانی فرما کر غزل کا مطلع تحریر کریں یا وہ شعر جس کی آپ کو سمجھ نہیں آئی ۔ ان شاءاللہ میں وضاحت کرنے کی بھرپور کوشش کروں گا ۔ ابھی مجھے سمجھ نہیں آئی کہ آپ کون سے شعر سے متعلق پوچھ رہی ہیں ۔

      Reply

Leave a Reply