یہ آرزو تھی تجھے گل کے رُوبرو کرتے
آج کی اس پوسٹ میں ہم خواجہ حیدرعلی آتش کی غزل ” یہ آرزو تھی تجھے گل کے رُوبرو کرتے ” جو کہ پنجاب بورڈ جماعت گیارہویں کے نصاب میں شامل ہے ، کی فرہنگ ، مفہوم اور تشریح کریں گے ۔
شعر نمبر 1 :
یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
ہم اور بلبل بیتاب گفتگو کرتے
مشکل الفاظ کے معانی : گل (پھول ) ، روبرو( آمنے سامنے ) ، بے تاب ( بے چین ، مضطرب)
مفہوم : کاش کسی روز بلبل اپنے محبوب یعنی پھول اور میں اپنے محبوب پر گفتگو کرتے ۔
تشریح : شعر کے مطلع میں آتش نے اپنے محبوب کو بہت زیادہ حسین و جمیل کر کے پیش کیا ہے ۔ بلبل پھول پر عاشق ہوتا ہے اور اس کے لیے پھول ہی کل کائنات ہے ۔ وہ ہر وقت پھول کے ہی گن گاتا ہے اور اس کا بار بار طواف کرتا ہے ۔ ساری کائنات میں اسے پھول ہی نظر آتا ہے ۔ اسی طرح ایک عاشق صادق کے لیے بھی کل کائنات اس کا محبوب ہی ہوتا ہے ۔ عاشق محبوب کے حسن و جمال ، اس کی اداؤں اور ناز نخروں پر اپنا سب کچھ وار دینا پسند کرتا ہے ۔
تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میری ایک خواہش ہے کہ میں اپنے محبوب کو پھول کے سامنے بٹھاتا اور پھر میں اپنے محبوب کا بلبل کے محبوب یعنی پھول کے ساتھ موازنہ کرتا تو پھر پتہ چلتا کہ گل زیادہ خوبصورت ہے یا میرا محبوب یعنی میرے محبوب کے حسن و جمال کے سامنے پھول کی خوبصورتی کچھ بھی نہ ہوتی ۔
آتش کہہ رہا ہے کہ پھر اس بات کا بھی پتہ چل جائے گا کون کس کے عشق میں زیادہ مضطرب ہے اور کون اپنے محبوب کو زیادہ خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے اور کون عشق کی آخری حد تک جا پہنچا ہے۔ جہاں محبوب کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا ۔ مزید شاعر کہہ رہا ہے کہ میرا محبوب پھول سے بھی زیادہ خوبصورت ہے ۔
کسی شاعر نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے :
جس طرح ماہ سارے ستارے میں ایک ہے
یوں میرا مہ جبیں ہزاروں میں ایک ہے
کیونکہ شاعر اپنے محبوب سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے اس لیے یہ فطرتی عمل ہے کہ جس سے محبت ہوتی ہے اس کی تعریف و توصیف کی جاتی ہے ۔ انسان سمجھتا ہے کہ جتنی محبت میں اپنے محبوب سے کرتا ہوں شاید ہی دنیا میں کوئی دوسرا اپنے محبوب سے اتنی محبت کرتا ہوگا ۔ لہٰذا شاعر نے بلبل پر اپنی برتری واضح کی ہے اور دوسرا یہ کہ میرا محبوب بھی پھول کے سامنے ایک اپنی حیثیت رکھتا ہے بلکہ پھول کی رنگت میرے محبوب کے سامنے ماند پڑ جاتی ہے ۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
یہ آب و تاب حسن یہ عالم شباب کا
تم ہو کہ ایک پھول کھلا ہے گلاب کا
شعر نمبر 2 :
پیام بر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے
مشکل الفاظ کے معانی : پیام بر (پیغام لانے والا ، قاصد ) ، میسر ہونا مل ( جانا زبان) ، زبان غیر (کسی دوسرے کی زبان سے) ، شرع آرزو (اپنی خواہش کو تفصیل کے ساتھ پیش کرنا)
مفہوم : اچھا ہوا کوئی قاصد میسر ہی نہیں ہوا ورنہ اس کی زبانی میرا حال دل میرے محبوب پر کیسے کھلتا ۔
تشریح : محبتوں کے سفر میں قاصد کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ اکثر و بیشتر عشاق حضرات جب اپنے دلی جذبات سے مجبور ہوتے ہیں تو ان کا اظہار تحریری صورت میں کرتے ہیں ۔ اپنا دل نکال کر صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتے ہیں اور پھر کسی قاصد کے ذریعے وہ چٹھی اپنے محبوب تک پہنچاتے ہیں ۔ کافی شاعروں نے قاصد کا مضمون اپنی شاعری میں باندھا ہے کیونکہ قاصد کے ذریعے راہ محبت کی ایک بڑی مشکل حل ہو جاتی ہے ۔ آتش نے شرح طلب شعر میں قاصد کے وجود کی نفی کی ہے اور قاصد کے نہ ملنے پر خوشی کا اظہار کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر مجھے راہ محبت میں کوئی ایسا آدمی نہیں ملا جو میرے دل کی بات میرے محبوب تک پہنچا دیتا تو یہ بہت اچھا ہوا ہے ۔ مایوس ہونے کے بجائے شاعر کہتا ہے کہ میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے کوئی قاصد ملا ہی نہیں ۔ اس بات کی توجیح دوسرے مصرعے میں یوں پیش کی ہے کہ میں اگر اپنا پیغامِ محبت کسی قاصد کے ہاتھ بھیجتا تو اس سے میرے محبوب پر میری حقیقی محبت واضح نہ ہو سکتی کیونکہ قاصد وہ بات ادا نہیں کر سکتا جو بذاتِ خود میری زبان سے نکلے گی ۔ ایک عاشق اپنی جو کیفیت بتا سکتا ہے وہ قاصد بیچارہ کہاں بیان کر سکتا ہے ۔ لہٰذا دل کی بات اگر دل سے نکلے گی تو دوسرے دل پر بھی اثر کرے گی ۔ ایک عاشق بہتر جانتا ہے کہ اس پر کیا بیت رہی ہے ، اس کی حالت کیسی ہے ، غیروں کی زبان سے اگر محبت کی بات کی جائے تو وہ چاشنی اور درد برقرار نہیں رہتا ۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
قاصد نہیں یہ کام تیرا اپنی راہ لے
اس کا پیام دل کے سوا کون لا سکے
آتش نے قاصد کے ذریعے اظہارِ محبت کو کافی نہیں سمجھا اور اس بات پر زور دیا ہے کہ جو بات میں خود کروں گا اس میں جو درد اور اثر ہوگا قاصد وہ بیان نہیں کر سکتا ۔ اس لیے یہ محبت کا تقاضا ہے کہ خود ہی محبوب کو دل پر گزرنے والی کیفیات کا مفصل صورت میں اظہار کیا جائے ۔ شاعر کسی دوسرے شخص کو اپنی محبت کے اظہار کے درمیان میں نہیں لانا چاہتا ۔
شعر نمبر 3 :
میری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے
مشکل الفاظ کے معانی : مہ و مہر (چاند اور سورج) ، حبیب (دوست) ، جستجو( تلاش ، کھوج)
مفہوم : جیسے میں اپنے محبوب کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہوں سورج اور چاند بھی کسی محبوب کی تلاش میں گھومتے پھرتے ہیں ۔
تشریح : اس شعر میں شاعر نے اپنی اندرونی کیفیات کی عکاسی کی ہے کہ جس طرح کی کیفیت سے وہ گزر رہا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ سبھی چیزیں اسی کیفیت سے دوچار ہیں ۔ یہ ایک فطرتی عمل ہے کہ چراغوں کے میلے سے وہی شخص روشنی حاصل کر سکتا ہے جس کا دل خود روشن ہو ۔ جب انسان کا دل اداس ہوتا ہے تو اس کو یوں لگتا ہے کہ سارا شہر اداس ہے ۔
تشریح طلب شعر میں شاعر محبوب کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے ۔ کبھی اس طرف تو کبھی اس طرف بھاگتا پھرتا ہے ۔
بقول شیخ ہمدانی مصحفی :
تیرے کوچے اس بہانے مجھے دن سے رات کرنا
کبھی اس سے بات کرنا کبھی اس سے بات کرنا
آتش کہتے ہیں کہ میں ایک عاشق ہوں اور کوچہ گردی کرتا پھرتا ہوں ۔ جب میں نے چاند اور سورج کو دیکھا کہ وہ کبھی ایک طرف ہیں تو کبھی دوسری طرف ۔ کبھی سورج طلوع ہوتا ہے تو کبھی غروب ۔ ان کی اس گردش سے لگتا ہے کہ یہ بھی میری طرح کسی محبوب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور میری طرح محبوب کے لیے سرگرداں ہیں ۔ شاعر جب سورج کی کوچہ گردی کو دیکھتا ہے کہ سورج دن میں اتنی گردش کرتا ہے تو چلا اٹھتا ہے کہ کیا یہ سورج بھی کسی محبوب کی تلاش میں ہے ۔ اسی طرح جب شاعر چاند کو دیکھتا ہے کہ چاند بھی میری طرح حرکت میں ہے تو شاعر سمجھتا ہے کہ چاند بھی میری طرح کسی محبوب کی تلاش میں ہے ۔ کسی اور شاعر نے بھی اسی طرف یوں اشارہ کیا ہے:
رات پھیلی ہے تیرے سرمئی آنچل کی طرح
چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے پاگل کی طرح
کیونکہ شاعر خود دن رات اپنے محبوب کی تلاش میں ہے حتیٰ کہ رات دن کی تفریق بھی عاشق کے لیے کوئی معنویت نہیں رکھتی ۔ وہ صحراؤں اور ویرانوں میں پھرتا ہے ، جنگلوں میں گھومتا ہے ، شہر شہر نگر نگر پھرتا ہے مگر اس کو صرف ایک ہی چہرے کی تلاش رہتی ہے ۔ اسی ایک چہرے کو وہ ساری کائنات شمار کرتا ہے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
رہتے ہیں سدا چاند بھی، سورج بھی سفر میں
شاید کسی محبوب کا گھر ڈھونڈ رہے ہیں
پس شاعر اپنے آوارہ پن کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ سوچ رہا ہے کہ چاند اور سورج کی جو ادھر اُدھر کی حرکت ہے وہ اس بات کی غمازی کر رہی ہے کہ یہ بھی کسی محبوب کے پیچھے دیوانہ وار بھاگ رہے ہیں ۔
شعر نمبر 4 :
ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا
تمام عمر رفوگر رہے ، رفو کرتے
مشکل الفاظ کے معانی : چاک چاک کرنا( پھاڑنا ) ، رفو گر (سینے یعنی سلائی کرنے والے)
مفہوم : عشق میں میرا گریبان ہمیشہ چاق ہی رہا اور رفو کرنے والے میرے دل کو ہمیشہ سے رفو کرتے چلے آئے ہیں ۔
تشریح : اردو شاعری میں ایک روایت ہے کہ جب بہار کا موسم آتا ہے اور جونہی پھول کِھلتے ہیں تو عشاق کے زخم بھی کھل اٹھتے ہیں ۔ وہ اپنا گریبان پھاڑ کر صحراؤں ، جنگلوں اور ویرانوں کی طرف نکل جاتے ہیں یہی بات آتش کہہ رہا ہے کہ جب مجھے محبوب کی جدائی نے بہت زیادہ تڑپایا تو مجھ پر عشق کی دیوانگی کا ایسا غلبہ ہوا کہ میں نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے گریباں کو تار تار کر دیا ۔عشق کی یہ جنونی کیفیت مجھ پر ہمیشہ طاری رہی ۔ اس دیوانگی میں مجھے بہت سارے لوگوں نے حوصلہ دیا اور مجھے عشق سے باز رہنے کی تلقین بھی کرتے رہتے لیکن وہ لوگ اپنی کوشش میں ناکام ہوئے یعنی اگر کسی نے میرے پھٹے ہوئے گریباں کو سینے کی کوشش کی تو وہ ناکام ہوا ۔ وقتی طور پر اگر کوئی کامیاب بھی ہوا تو بھی تھوڑی دیر کے لیے یعنی میرے اس بری طرح سے پھٹے ہوئے گریبان کو کوئی سنوار نہ سکا۔
بقول شیخ ہمدانی مصحفی :
مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
شاعر کہہ رہا ہے کہ عشق کے راستے میں جتنے ہی بند کیوں نہ باندھے جائیں عشق کی دیوانگی اور زور کو روکنا محال ہے ۔ عشق اپنے سامنے آنے والی ساری دیواریں گرا دیتا ہے ۔
بقول مرزا غالب :
عشق پر زور نہیں یہ وہ آتش ہے غالب
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
اگر محبت کو پابند سلاسل کیا جائے تو وہ اور زیادہ نکھر جاتی ہے ۔ اگر عاشق کو زندان میں ڈال دیا جائے تو بھی عشق اس جنونی کیفیت میں اضافہ ہی ہوتا ہے کمی نہیں ہو پاتی ۔ پس شاعر کہہ رہا ہے کہ محبوب کی جدائی میں جو میری حالت ہے اس کو سنوارنا یا مجھے راہ محبت سے ہٹانا کسی کے بس کی بات نہیں ۔ مجھے ناصح جتنی نصیحتیں کر لیں سمجھانے والے جتنا سمجھا لیں اور روکنے والے جتنا روک لیں مجھے اس حالت سے باز نہیں رکھ سکتے ۔ میں عشق کی جس منزل کا انتخاب کر چکا ہوں اس سے پیچھے ہٹنے والا ہرگز نہیں ہوں یہی دیوانگی اب اپنا مقدر ٹھہری ہے ۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق
شاخِ گل میں جیسے باد سحر گاہی کا نم
شعر نمبر 5 :
نہ پوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتش
برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے
مشکل الفاظ کے معانی : عالم( حالت ) ، برگشتہ( الٹ) ، طالعی (قسمت) ، باراں( بارش)
مفہوم : ہماری قسمت کا حال مت پوچھو ۔ ہم اگر بارش کی دعا کریں تو آسمان سے آگ برستی ہے ۔
تشریح : مقطع کے شعر میں آتش کہتے ہیں کہ مجھ سے میری قسمت کا حال مت پوچھیے ۔ میری قسمت ایسی الٹی ہے کہ میں جس چیز کی بھی خواہش کرتا ہوں ہمیشہ اس کے الٹ ہی ہوتا ہے ۔ اگر میں وفاؤں کی بات کرتا ہوں تو جفائیں میرا مقدر بن جاتی ہیں ۔ اگر وصال کی خواہش کروں تو موسم ہجر ٹھہر جاتا ہے ۔ حتیٰ کہ موت بھی مانگوں تو نہ ملے ۔
بقول طارق عزیز :
ہم وہ سیاہ نصیب ہیں طارق کہ شہر میں
کھولیں دکان کفن کی تو لوگ مرنا چھوڑ دیں
آتش اپنی خراب قسمت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر بہاریں مانگوں تو خزاں ملیں ۔ اگر خوشیاں طلب کروں تو چاروں طرف سے غم ہی غم امڈ آئیں ۔پھولوں کی خواہش کروں تو دامن کانٹوں سے بھر جائے ۔ محفلوں کی خواہش کروں تو تنہائیاں میرا مقدر بن جائیں۔
کسی اور شاعر نے بھی کیا خوب کہا ہے :
کبھی جو خواب دیکھا تو ملی پرچھائیاں مجھ کو
مجھے محفل کی خواہش تھی ملی تنہائیاں مجھ کو
شاعر کہہ رہا ہے کہ اے آتش ! میری بدقسمتی کا حال مت پوچھ ہماری قسمت کا الٹ پھیر تو بیان سے باہر ہے میں اگر آسمان سے بارش کی آرزو کروں تو وہ آگ برسانا شروع کر دے اور اگر سونے کو ہاتھ لگاؤں تو وہ مٹی بن جائے ۔
آتش نے اپنی بے بسی اور بدقسمتی کو بڑے بھرپور انداز سے پیش کیا ہے ۔
کسی اور شاعر نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے :
جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا
ہم نے تو جب کلیاں مانگی کانٹوں کا ہار ملا
وائے ناکامی فلک نے تاک کر توڑا اسے
میں نے جس ڈالی کو توڑا آشیانہ کے لیے
نوٹ : امید ہے کہ آپ خواجہ حیدرعلی آتش کی اس غزل کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.