یوں کہنے کو پیرایہ اظہار بہت ہے

یوں کہنے کو پیرایہ اظہار بہت

” یوں کہنے کو پیرا یہ اظہار بہت ہے” آج کی اس پوسٹ میں ہم  اس غزل کی تشریح ، مفہوم اور مشکل الفاظ کے معانی پیش کریں گے ۔ اس غزل کی شاعری زہرا نگاہ ہیں ۔

شعر نمبر 1 : 

یوں کہنے کو پیرایہ اظہار بہت ہے

یہ دل، دل ناداں سہی، خوددار بہت ہے

مشکل الفاظ کے معانی: پیرایہ اظہار ( بات کہنے کا انداز، طریقہ اظہار، بیان کرنے کا ڈھنگ) ،  ناداں ( بے وقوف، ناسمجھ، سادہ لوح  ، خوددار ( اپنی عزت نفس کا خیال رکھنے والا، غیرت مند، انا پرست)

مفہوم: کہنے کو تو اظہارِ محبت کے بہت سے طریقے ہیں لیکن میرا دل چاہے جتنا بھی سادہ یا بھولا ہو اپنی عزتِ نفس پر قائم ہے خودداری سے بھرا ہوا ہے ۔

تشریح: زہرا نگاہ نے نہ صرف اردو نظم اور غزل میں خوب نام کمایا بلکہ ادبی، ثقافتی اور سماجی حلقوں میں بھی بھرپور شرکت کی۔ وہ پاکستان ٹیلی ویژن کی پہلی خاتون پروگرام ڈائریکٹر بھی رہیں۔زہرا نگاہ کا شمار اردو کی نمائندہ جدید شاعراؤں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے فیمینسٹ شعور، روحانی اقدار، کلاسیکی روایت اور عصری حسّیات کو خوبصورتی سے یکجا کیا۔

ان کا کلام جدید اردو شاعری میں خواتین کی آواز کو نہایت مؤثر انداز میں نمایاں کرتا ہے۔ وہ فہمیدہ ریاض اور کشور ناہید کی طرح نسائی لہجے کی علمبردار تو نہیں، لیکن ان کے ہاں نسوانی خودداری، روحانی لطافت اور تہذیبی وقار کا امتزاج نظر آتا ہے۔

نوٹ : مندرجہ بالا اقتباس کو آپ زہرا نگاہ کی کسی بھی غزل کے کسی بھی شعر کے شروع میں تعارف کے طور پر لکھ سکتے ہیں ۔

اس شعر میں شاعرہ ایک اہم انسانی نفسیات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ دنیا میں اپنے احساسات اور خیالات کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے مختلف انداز اور طریقے موجود ہیں۔ انسان مختلف الفاظ ، اشاروں اور کنایوں سے اپنی بات کہہ سکتا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اظہارِ خیال کی کوئی کمی نہیں ہے۔

لیکن دوسرے مصرعے میں وہ دل کی ایک خاص کیفیت بیان کرتی ہیں۔ وہ تسلیم کرتی ہیں کہ ان کا دل شاید ناداں اور سادہ لوح ہو یعنی دنیا کی پیچیدگیوں اور مکاریوں سے اتنا واقف نہ ہو۔ اس کے باوجود یہ دل ایک بہت اہم وصف کا حامل ہے اور وہ ہے “خودداری”۔ یہ دل اپنی عزت نفس پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتا۔ یہ اتنا غیرت مند ہے کہ شاید بہت سے مواقع پر اپنے جذبات کا اظہار اس لیے نہیں کرتا کیونکہ اسے اپنی خودداری مجروح ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔

اس شعر کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بظاہر تو کہنے کے بہت سے طریقے موجود ہیں لیکن دل کی خودداری اسے کچھ خاص باتیں کہنے سے روکتی ہے۔ یہ دل اپنی انا کی وجہ سے ہر کسی کے سامنے اپنے راز اور اپنی کمزوریوں کا اظہار نہیں کرنا چاہتا ۔ چاہے اس کے لیے کتنے ہی آسان طریقے موجود ہوں۔

: بقول پروین شاکر

کسی کی یاد میں ہم نے خود کو بھلا دیا

مگر یہ راز بھی دنیا کو کب دکھایا ہم نے

شاعرہ نے “دل ناداں سہی” کہہ کر ایک طرح کی عاجزی کا اظہار کیا ہے، لیکن فوراً ہی اسے “خوددار بہت ہے” کہہ کر اس کی ایک مضبوط اور قابل احترام صفت کو اجاگر کیا ہے۔ یہ تضاد دل کی پیچیدہ فطرت کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ بظاہر بھولا بھالا ہو سکتا ہے لیکن اپنی عزت کے معاملے میں بہت حساس اور محتاط ہوتا ہے۔

مجموعی طور پر یہ شعر اظہار خیال کی ظاہری آسانی کے برعکس دل کی گہری خودداری اور اس کے اثرات کو بیان کرتا ہے۔

شعر نمبر 2 : 

دیوانوں کو اب وسعتِ صحرا نہیں درکار

وحشت کے لیے، سایہ دیوار بہت ہے

مشکل الفاظ کے معانی: دیوانے ( مجازاً وہ لوگ جو عشق، جنون، یا داخلی اضطراب میں مبتلا ہوں ، وسعتِ صحرا  (کھلا میدان، پھیلاؤ والا بیابان (علامتی طور پر اظہارِ جنون کی آزادی) ، درکار (مطلوب، درکار ہونا  ، ضرورت ہونا ) ،  وحشت (دیوانگی، بے چینی، اضطراب، داخلی اضطراب) ،  سایۂ دیوار ( دیوار کا سایہ، ایک چھوٹا، محدود، محفوظ گوشہ (علامتی طور پر گھٹن، کمرہ، تنہائی)

مفہوم: اب دیوانوں کو اپنے جنون کے اظہار کے لیے کھلے صحراؤں، پھیلے میدانوں کی ضرورت نہیں رہی ۔اب تو صرف ایک دیوار کا سایہ بھی وحشت کے اظہار کے لیے کافی ہے۔

تشریح: یہ شعر انسانی نفسیات اور حالات کی تنگی کے اثرات کو بیان کرتا ہے۔ دیوانگی اور وحشت ایسی کیفیات ہیں جن میں انسان ایک طرح کی بے قراری اور اضطراب محسوس کرتا ہے۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایسی کیفیات میں کھلی اور وسیع جگہیں شاید سکون بخشیں یا کم از کم اس بے چینی کو پھیلنے کا موقع دیں۔ لیکن اس شعر میں ایک مختلف پہلو پیش کیا گیا ہے۔

شاعرہ کہتی ہیں کہ اب حالات اتنے ناسازگار اور زندگی اتنی محدود ہو گئی ہے کہ دیوانوں کو اپنی وحشت کے اظہار یا محسوس کرنے کے لیے صحرا کی وسعت کی ضرورت نہیں رہی۔ اب تو ایک دیوار کا سایہ جو کہ ایک محدود جگہ کی علامت ہے ہی ان کی اس کیفیت کو بڑھانے اور نمایاں کرنے کے لیے کافی ہے۔

بقول ن م راشد:

اور یہ دیوار، یہ دیوارِ گریہ

اس پہ لکھ دے کوئی افسانہ مرا

اس شعر کی مزید تفصیل اور وضاحت کے لیے اس کے ان پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی جا سکتی ہے :

  مایوسی اور بے بسی: شاید شاعرہ ان لوگوں کی مایوسی اور بے بسی کو ظاہر کر رہی ہیں جو اپنی اندرونی بے چینی اور اضطراب کو کہیں بھی ظاہر نہیں کر پاتے اور ایک محدود ماحول میں گھٹتے رہتے ہیں۔

  حالات کی تنگی: یہ شعر ان حالات کی تنگی کی طرف اشارہ بھی کر سکتا ہے جس میں لوگوں کی آزادیاں سلب کر لی گئی ہیں اور وہ ایک محدود دائرے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ایسی صورتحال میں ان کی اندرونی بے چینی اور بڑھ جاتی ہے۔

  شدتِ جذبات : یہ بھی ممکن ہے کہ شاعرہ یہ کہنا چاہ رہی ہوں کہ اب لوگوں کے جذبات اتنے شدید ہو گئے ہیں کہ انہیں محسوس کرنے کے لیے کسی وسیع منظر نامے کی ضرورت نہیں بلکہ ایک چھوٹی سی چیز یا ایک محدود جگہ بھی ان جذبات کو بھڑکانے کے لیے کافی ہے۔

مجموعی طور پر یہ شعر ایک گہرا معنی رکھتا ہے اور انسانی نفسیات اور سماجی حالات پر ایک بلیغ تبصرہ ہے ۔

شعر نمبر 3 :

بجتا ہے ، گلی کوچوں میں ، نقارہ الزام

ملزم کہ خموشی کا ، وفادار بہت ہے

مشکل الفاظ کے معانی :نقارۂ الزام ( الزام کا ڈھنڈورا، الزام کا اعلان ) ،  ملزم ( مجرم، جس پر الزام ہے ) ،  خموشی ( خاموشی، سکوت ) ، وفادار (وفا کرنے والا، اصولوں پر قائم رہنے والا)

مفہوم: گلی کوچوں میں الزام کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا جبکہ وفادار مجرم کسی مصلحت کی بنا پر خاموش ہے ۔

تشریح: اس شعر میں شاعرہ زہرہ نگاہ ایک ایسے شخص کی حالت بیان کر رہی ہیں جس پر ہر گلی کوچے میں الزام کی صدا گونج رہی ہے۔ گویا ہر طرف سے اس پر تہمتیں لگائی جا رہی ہیں اور اسے مجرم ٹھہرایا جا رہا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود وہ شخص اپنی خاموشی پر مضبوطی سے قائم ہے۔ اس کی خاموشی کسی بزدلی یا لاچاری کی وجہ سے نہیں، بلکہ وہ اپنی اس خاموشی کا وفادار ہے۔

شاعرہ اس شعر میں ایک اہم نفسیاتی اور سماجی پہلو کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ اکثر اوقات جب کسی پر مسلسل الزامات لگائے جاتے ہیں تو وہ شخص دفاع کرنے یا صفائی پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن یہاں ملزم کی خاموشی غیر معمولی ہے۔ یہ خاموشی کئی معانی رکھ سکتی ہے۔ ممکن ہے کہ وہ الزامات کو بے بنیاد سمجھتا ہو اور اس لیے جواب دینا ضروری نہ سمجھتا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ حالات سے مایوس ہو چکا ہو اور اس نے اپنا دفاع کرنا چھوڑ دیا ہو یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کی خاموشی کسی گہری حکمت یا مضبوط کردار کی نشان دہی کر رہی ہو کہ وہ بے جا شور و غل میں پڑنے کے بجائے خاموش رہنا بہتر سمجھتا ہو۔

بقول عدم :

الزام دھر رہے ہیں سو دھرتے رہیں عدمؔ

   ہم نے تو اپنی وضع نبھائی، سو نبھائی

تشریح طلب شعر میں شاعرہ کہتی ہے کہ ایک شخص جس پر ہر طرف سے الزامات کی بوچھاڑ ہو رہی ہے وہ اپنی خاموشی کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہے۔ اس کی یہ خاموشی اس کے کردار کی پختگی اور اپنی رائے پر ثابت قدم رہنے کی علامت ہے ۔ یہ شعر خاموشی کو جرم قرار دیے جانے پر طنز ہے۔ شاعرہ سماج کے شور، جھوٹے الزامات اور آوازوں کے درمیان خاموش، وفادار اور بااصول انسان کے المیے کو سامنے لاتی ہیں۔ ایسے لوگ جو خاموش رہ کر بھی سچائی سے جڑے ہوتے ہیں، وہ معاشرے میں اجنبی اور ملزم قرار پاتے ہیں ۔

شعر نمبر 4 : 

جب حسنِ تکلم پہ ، کڑا وقت پڑے تو

اور کچھ بھی نہ باقی ہو ، تو تکرار بہت

مشکل الفاظ کے معانی: حُسنِ تَکَلُّم (خوبصورت اندازِ گفتگو، سلیقے سے بات کرنا ) ، کڑا وقت پڑنا (سخت یا آزمائشی وقت آنا، مشکل حالات ہونا ) ، تکرار ( بار بار دہرانا، ایک ہی بات کو مسلسل کہنا )

مفہوم: جب بات کرنے کا سلیقہ اور خوبصورتی مفقود ہو جائے یا اس پر مشکل وقت آ جائے اور انسان کے پاس کہنے کو کچھ نیا باقی نہ رہے تو پھر لوگ صرف تکرار کرتے ہیں۔

تشریح: یہ شعر صرف زبان اور اظہار کے بارے میں نہیں بلکہ اظہارِ رائے کی آزادی، ذہنی جمود  اور معاشرتی جبر کے خلاف ایک لطیف احتجاج ہے۔جب کوئی معاشرہ یا فرد ایسا وقت جھیل رہا ہو جہاں اظہار کی خوبصورتی اور نرمی ممنوع ہو وہاں گفتگو کی معنویت ختم ہو جاتی ہے اور صرف تکرار باقی رہ جاتی ہے ۔

اس شعر میں شاعرہ زہرہ نگاہ ایک ایسی صورتحال بیان کر رہی ہیں جب کسی شخص کے پاس اپنی بات کہنے کا سلیقہ اور انداز قائم رکھنا مشکل ہو جائے۔ جب حالات اس قدر ناسازگار ہوں کہ خوبصورت اور موثر انداز میں گفتگو کرنا ممکن نہ رہے اور اس کے پاس کہنے کو کچھ نیا یا مختلف نہ بچے تو ایسی صورت میں وہ اپنی بات کو بار بار دہرانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

شاعرہ اس شعر میں انسانی نفسیات اور اظہارِ خیال کی مجبوری کو بیان کر رہی ہیں۔ جب کوئی شخص کسی مشکل یا دباؤ کا شکار ہوتا ہے یا جب اس کے پاس اپنے موقف کو واضح کرنے کے لیے نئے دلائل یا الفاظ نہیں ہوتے تو وہ اکثر اپنی پہلے سے کہی ہوئی باتوں کو ہی دہراتا رہتا ہے۔ یہ تکرار اس کی بے بسی، لاچاری یا پھر کسی خاص نکتے پر زور دینے کی کوشش کو ظاہر کرتی ہے ۔

بقول احمد فراز :

  کہانی اپنی ادھوری رہی تو کیا غم ہے

   وہ ان کا قصہ ہے اب جس کو بار بار کہیں

یہ شعر اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ مشکل حالات میں تخلیقی صلاحیتیں ماند پڑ جاتی ہیں اور انسان کے پاس اظہار کے لیے محدود وسائل رہ جاتے ہیں۔ جب “حسنِ تکلم” پر “کڑا وقت” آتا ہے، تو گفتگو کی خوبصورتی اور دلکشی ختم ہو جاتی ہے اور صرف باتوں کا دہرانا باقی رہ جاتا ہے۔

شعر نمبر 5 : 

خود آئینہ گر آئینہ چھوڑے ، تو نظر آئے

دہکا ہوا ہر شعلہ رخسار ، بہت ہے

مشکل الفاظ کے معانی : آئینہ گر آئینہ بنانے والا، تخلیق کرنے والا (علامتی طور پر خودی یا انسانِ باطن) ، آئینہ چھوڑے ( آئینے پر انحصار نہ کرے، ظاہر یا سطحی عکس کو چھوڑ دے ) ،  دہکا ہوا (جلتا ہوا، روشن، چمکتا ہوا ) ،  شعلہ رخسار ( آگ کی مانند چمکتا چہرہ، جلال یا شدت کا مظہر)

مفہوم: جب آئینہ بنانے والا خود ہی آئینے کو چھوڑ دے تو اصل حقیقتیں سامنے آتی ہیں۔ ہر چہرہ شعلہ رخسار بن جاتا ہے ۔ پھر ہر جذبہ، ہر چہرہ اپنی شدت، حرارت اور سچائی کے ساتھ بے نقاب ہو جاتا ہے۔

تشریح:یہ شعر خودفہمی، باطنی بصیرت، اور حقیقت بینی پر مبنی ہے:

“آئینہ” یہاں ظاہر، عکس، فریبِ نظر، یا دوسروں کی آنکھ سے دیکھی گئی دنیا کا استعارہ ہے۔

“آئینہ گر” وہ انسان ہے جو دوسروں کے لیے معنی، سچ، اور شناخت تراشتا ہے، لیکن جب وہ خود ظاہر کو چھوڑ کر باطن میں جھانکتا ہے، تو دنیا کی اصل تپش، سچائی، درد، اور شدت اس پر منکشف ہو جاتی ہے۔

ہر چہرہ، ہر احساس، ہر لمحہ — شعلے کی طرح دہکتا اور بولتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

یہ شعر فکری بیداری اور باطن کی آنکھ کھلنے کا استعارہ ہے۔

غزل کی تشریح ابھی جاری ہے


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply