ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی

ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی

آج کی اس پوسٹ میں ہم غزل ” ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی” کی تشریح و تفسیر پڑھیں گے ۔ اس غزل کے شاعر حسرت موہانی ہیں ۔

شعر نمبر 1 :

ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی

اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی

مشکل الفاظ کے معانی: مشقِ سخن ( شاعری کی مشق، کلام بنانے کی کوشش) ،  چکی کی مشقت (جسمانی محنت، روزی روٹی کے لیے سخت مشقت) ، طرفہ ( تماشا) ، نرالا (عجیب، حیران کن منظر) ، طبیعت (مزاج، فطرت، ذوق، اندرونی جذبہ )

مفہوم: ایک طرف میں مشقِ سخن یعنی شاعری کی مشق میں مشغول ہوں اور دوسری طرف مجھے چکی پیسنے جیسی جسمانی مشقت بھی کرنی پڑ رہی ہے۔ یہ ایک عجیب اور نرالا تماشا ہے۔

تشریح: حسرت موہانی ایک بلند پایہ غزل گو شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں عشق، جمالیات، تصوف، حب الوطنی اور احتجاج کا امتزاج ملتا ہے۔ حسرت موہانی صرف ایک شاعر نہیں بلکہ ایک فلسفی، صحافی، اور مجاہد آزادی ہند تھے ۔ ان کا کلام روایت سے جڑا ہوا ہے مگر اس میں زندگی کے جدید تقاضے بھی شامل ہیں ۔ ان کو رئیس المتغزلین بھی کہا جاتا ہے ۔

نوٹ : مندرجہ بالا اقتباس کو اس غزل کے کسی بھی شعر کے شروع میں لکھا جا سکتا ہے ۔

تشریح طلب شعر میں حسرت موہانی اپنی زندگی کے ایک عجیب اور دلچسپ تضاد کو بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک طرف تو ان کی سخن کی مشق (شعر کہنے کی ریاضت) جاری ہے یعنی وہ شعر و شاعری میں مصروف ہیں اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھار رہے ہیں۔ دوسری طرف انہیں چکی کی مشقت بھی برداشت کرنی پڑ رہی ہے۔ چکی کی مشقت سے مراد جیل کی سخت اور جسمانی مشقت ہے جو انہیں سیاسی قیدی ہونے کی وجہ سے سہنی پڑ رہی تھی۔

شاعر اس صورتحال کو “اک طرفہ تماشا” قرار دیتے ہیں۔ “طرفہ” کا مطلب ہے عجیب، انوکھا، دلچسپ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک عجیب و غریب منظر ہے کہ ایک شخص جو شعر و شاعری جیسا لطیف اور فکری کام کر رہا ہے وہیں اسے چکی پیسنے جیسی سخت جسمانی مشقت بھی کرنی پڑ رہی ہے۔

شاعر کہتا ہے کہ میں شاعری کی مسلسل مشق کر رہا ہوں ۔ خیالات کو الفاظ میں ڈھال رہا ہوں ۔ فن کی آبیاری میں مصروف ہوں۔اس کے ساتھ ساتھ میں چکی پیسنے جیسی جسمانی مشقت بھی کر رہا ہوں۔ یہاں “چکی کی مشقت” ایک استعارہ ہے غربت، محنت مزدوری، یا زندگی کی بنیادی جسمانی ضروریات کو پورا کرنے کی جدو جہد کے لیے ۔

یہ شعر خود شناسی، فقر، سادگی، فن سے محبت اور صبر و استقامت کا عکاس ہے۔ شاعر دکھاتا ہے کہ وہ نہایت مشکل حالات میں بھی اپنے فن سے جُڑا ہوا ہے جو ایک عظمت کی علامت ہے۔

شعر نمبر 2 : 

جو چاہو سزا دے لو تم اور بھی کھل کھیلو

پر ہم سے قسم لے لو ، کی ہو جو شکایت بھی

مشکل الفاظ کے معانی: سزا دینا ( تکلیف دینا ) ، کھل کھیلو ( بے تکلف ہو کر عمل کرنا، دل کھول کر جیسا دل چاہے ویسا برتاؤ کرنا ) ، قسم لینا( کسی سے حلف لینا کہ وہ کوئی بات نہ کہے یا کرے) ،  شکایت (گلہ،ناراضی کا اظہار)

مفہوم:  تم میرے ساتھ جو چاہو سلوک کرو ۔ مجھے سزا دو ۔ مجھ پر ظلم کرو ۔ اپنی مرضی سے جیسے چاہو رویہ اختیار کرو ۔ میں کوئی شکایت نہیں کروں گا ۔

تشریح : تشریح طلب شعر عشقِ مجازی کی گہرائی اور عاشق کی مکمل تسلیم و رضا کو ظاہر کرتا ہے۔ شاعر محبوب کو مکمل اختیار دیتا ہے کہ جیسے چاہو برتاؤ کرو کیونکہ عاشق کو اپنی ذات کی پروا نہیں لیکن اسے ایک فکر ضرور  ہے اور وہ یہ ہے کہ  محبوب کسی تیسرے سے شکایت نہ کرے ۔ اس میں عشق کی خودسپردگی اور راز داری کا جذبہ غالب ہے۔ عاشق چاہتا ہے کہ اس کی کمزوری یا خطا کسی دوسرے پر ظاہر نہ ہو کہ یہ نہ صرف اس کی ذات بلکہ عشق کی حرمت کے بھی خلاف ہے ۔ یہ شعر عشقِ حقیقی یا کسی خاص مقصد کے لیے استقامت کی علامت ہے۔ حسرت موہانی چونکہ آزادی کے مجاہد تھے اور آزادی کے حصول کے لیے انھوں نے بڑی بڑی تکالیف کا سامنا کیا ۔ ان تکالیف کے سامنے انھوں نے صبر و رضا، ظلم کے سامنے ڈٹ جانے اور اپنے عزم پر ثابت قدمی کا اظہار کیا ہے ۔  یہ ان کے سیاسی یا عشقیہ مزاحمتی رویے کی عکاسی بھی ہو سکتی ہے ۔جہاں وہ کہتے ہیں کہ تمہارے ظلم کی کوئی حد نہیں، لیکن ہمارا صبر بھی لا محدود ہے۔

شعر نمبر 3 : 

خود عشق کی گستاخی سب تجھ کو سکھا دے گی

اے حسنِ حیا پرور ، شوخی بھی شرارت بھی

مشکل الفاظ کے معانی: عشق (محبت، یہاں مجازی عشق مراد ہے (محبوب سے عشق) ،  گستاخی ( بے باکی، حد سے بڑھ جانا، ادب کے دائرے سے نکلنا) ،  سکھا دے گی ( سکھا دینا، سلیقہ و انداز سکھا دینا) ،  حسنِ حیا پرور ( وہ خوب صورتی جو شرم و حیا پیدا کرے، ایسا حسن جو حجاب اور معصومیت کو جنم دے) ،  شوخی ( چنچل پن، نرمی کے ساتھ بے باکی، بے ساختہ ناز) ،  شرارت ( شرارتی پن، معصوم فریب، نخرہ بازی) 

مفہوم: اے وہ حسن( محبوب ) جو حیا کی پرورش کرتا ہے تجھ میں شوخی بھی ہے اور شرارت بھی۔ مگر تجھے عشق خود ہی سکھا دے گا کہ گستاخ (بے باک) کیسے بننا ہے ۔

تشریح: اس شعر میں محبوب کی معصومیت اور عشق کی تربیتی قوت دونوں کا خوبصورت امتزاج ہے۔ شاعر ایک متوازن تضاد پیش کرتا ہے ۔ایک طرف شرم و حیا میں ڈوبا ہوا حسن ہے تو دوسری طرف وہ شوخی و شرارت ہے جو عشق کی دین ہوتی ہے۔

شاعر کہہ رہا ہے کہ اے محبوب آپ جتنے بھی معصوم اور شرمیلے ہو، عشق کی آگ میں تمھاری معصومیت بھی نکھر کر شوخی میں بدل جائے گی اور وہ گستاخی پیدا ہوگی جو حسن کو کامل بناتی ہے ۔

یہ شوخی اور شرارت برائی کے معنوں میں نہیں بلکہ عشق میں فطری جذبات کی روانی کے طور پر ہے۔ یہاں عشق کو ایک معلم کی طرح پیش کیا گیا ہے جو انسان کو روایتی حدود سے باہر نکلنے کی ترغیب دیتا ہے۔ حسن میں حیا کے ساتھ شوخی کا ہونا اس کے دوہرے تاثر کو ظاہر کرتا ہے—ایک طرف پاکیزگی، دوسری طرف دلربائی۔

تشریح ابھی جاری ہے


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply