آج کی اس پوسٹ میں ہم جماعت گیارہویں ، پنجاب بورڈ کی غزل ” ہوائے دور مے خوش گوار راہ میں ہے ” کی تشریح و تفسیر کے بارے میں پڑھیں گے ۔
شعر نمبر 1 :
ہوائے دور مے خوش گوار راہ میں ہے
خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے
مشکل الفاظ کے معانی: ہوائے دور مے خوش گوار ( بہار کا موسم مراد ہے اچھے دن )
مفہوم : تشریح: مطلع کا شعر ہے ۔ حیدر علی آتش کو اردو کی لکھنوی شاعری میں ایک ممتاز مقام حاصل ہے ۔ اس شعر میں ان کا لہجہ رجائی ہے اور وہ حالات کی ستم ظریفیوں اور وقت کی سفاکیوں سے بالکل ناامید نہیں ہیں ۔ انھیں قوی یقین ہے کہ شب جتنی تاریک ہو گی سحر اتنی ہی تابناک ہو گی ۔ شاعر کہتا ہے کہ اچھے دنوں کا موسم بہت قریب آنے والا ہے اور یہ مایوسیوں اور دکھوں کے موسم جلد ہی ختم ہو جائیں گے ۔ آج چمن کے اندر جو خزاں کا دور دورہ یہ جلد ختم ہونے والا ہے ۔ اس کی جگہ بہاروں کے موسم خوشیاں اور خوشحالی کے کر آئیں گے ۔ گویا شاعر اپنے مستقبل کے حوالےسے بڑا ہی پر امید ہے اور موجودہ حالات سے بڑی مردانگی کے ساتھ نبرد آزما ہے ۔ حالات سے گھبرایا نہیں ہے اور یہی گیت گا رہا ہے کہ اندھیروں کا یہ موسم چھٹ جائے گا ۔ اچھے اور پھولوں کے موسم یعنی موسم بہاراں راہ میں ہیں ۔ بس چند دنوں کی دوری ہے پھر چمن کے اندر ایسی بہار آئے گی جسے اندھیروں کا خوف نہیں ہو گا ۔ شاعر آنے والے اچھے وقت سے پر عزم ہے کہ تھوڑے دنوں کی بات ہے پھر پستیوں کا یہ سفر بلندیوں اور نئی نئی رفعتوں کی طرف رواں دواں ہو گا ۔
بقول ناصر کاظمی:
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
جس طرح ہر زوال کے بعد عروج ہوتا ہے اسی طرح حیدر علی آتش نے اس شعر میں یہی مفہوم سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اچھے دن راستے میں ہیں یعنی بہت قریب ہیں اور برے دنوں ، مایوسیوں اور ناکامیوں کے موسم دم توڑ دیں گے اور پھولوں کے ، تتلیوں کے اور بہاروں کے موسم آنے والے ہیں ۔
شعر نمبر 2 :
عدم کے کوچ کی لازم ہے فکر ، ہستی میں
نہ کوئی شہر نہ کوئی دیار راہ میں ہے
مشکل الفاظ کے معانی : عدم (آخرت ) ، کوچ( سفر) ، دیار (شہر) ، ہستی( زندگی )
مفہوم : اس مختصر سی زندگی میں ہمیں آخرت کی زندگی کا سامان اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے ۔
تشریح : حیدر علی آتش نے تشریح طلب شیر میں ایک روایتی موضوع بیان کیا ہے کہ ہر انسان جو اس دنیا میں آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن یہاں سے جانا ہے مگر عقلمند انسان وہی ہے جو مرنے سے پہلے موت کی تیاری کر لے ۔ یہ انمول زندگی صرف ایک بار ملتی ہے ۔ اسی میسر شدہ زندگی میں انسان کو چاہیے کہ وہ آخرت کا زاد راہ اکٹھا کر لے کیونکہ ہر انسان نے آخرت کی طرف جانا ہے۔ اگر آخرت کے لیے کچھ غور و فکر کر لی جائے گی تو وہی آخرت کے سفر میں توشہ آخرت ثابت ہوگی وگرنہ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کو دوبارہ فکر و تدبر کرنے کا کوئی موقع میسر نہیں آتا اور نہ ہی دوبارہ مہلت ملتی ہے۔ جب ایک بار موت آ جائے گی تو پھر توبہ کرنے کا موقع نہیں ملتا بس اسی مختصر زندگی میں ہی آخرت کے لیے کچھ نیک اعمال کر لیے جائیں گے تو وہ مفید ثابت ہوں گے ۔ جب انسان کی سواری آخرت کی طرف کوچ کرے گی تو راستے میں اس کا کوئی پڑاؤ نہیں آئے گا ۔ وہ ملک آخرت میں جا کر رکے گی ۔ شاعر نے اس شعر میں یہی بات کی ہے کہ ہر انسان کو چاہیے کہ اس زندگی میں آخرت کی زندگی کے بارے میں سوچ بچار کر لے کیونکہ پھر دوبارہ یہ وقت ہاتھ نہیں آئے گا ۔
شعر نمبر 3 :
نہ بدرقہ ہے نہ کوئی رفیق ساتھ اپنے
فقط عنایت پروردگار راہ میں ہے
مشکل الفاظ کے معانی : بدرقہ( رہنما ) ، رفیق (دوست ، ساتھی)
مفہوم : میرا اس دنیا میں کوئی دوست اور ہمسفر نہیں سوائے اللّٰہ تعالیٰ کے اور جسے اللّٰہ مل گیا اسے کیا چاہیے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر کے اندر شاعر کا لہجہ بڑا رجائی ہے ۔ شاعر کا پختہ ایمان اور قوی یقین ہے کہ زندگی کی انوکھی اور پرپیچ راہوں پہ جب اپنے بیگانے سبھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں تو تب بھی ایک ذات ایسی ہے جو ہر حال میں انسان کے ساتھ رہتی ہے اور وہ ذات اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ زندگی کی ان ، ان دیکھی راہوں پہ کسی نہ کسی رہنما کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے اور کسی ایسے رفیق کی ضرورت بھی محسوس کرتا ہے کہ جس کے کاندھے پہ ہاتھ رکھ کر وہ صدیوں کا سفر طے کر سکے مگر شاعر کی بدقسمتی کہ اسے نہ تو کوئی رہنما ملا اور نہ ہی کوئی ساتھ ملا ۔ شاعر اس ساری صورتحال میں بھی خود کو خوش نصیب کہتا ہے اور اس بے کسی اور تنہائی کے عالم میں بھی مطمئن نظر آتا ہے ۔ اسے اس بات پر خوشی ہے کہ آج اگر مجھے کوئی رہنما نہیں ملا تو کوئی بات نہیں ہے کوئی غم نہیں ہے کیونکہ جن کا کوئی نہیں ہوتا تو ان کا خدا ہوتا ہے اور جن کے ساتھ خدا ہوتا ہے ان کو کسی اور کے ساتھ کی ضرورت بالکل نہیں ہوتی ۔
شاعر کا یقین ہے کہ میرے ساتھ خدا کی عنایت شامل ہے سو آج میں خود کو اکیلا محسوس نہیں کر رہا کیونکہ بھیڑ میں اور تنہائی میں جو ذات ہر لمحہ میرے ساتھ موجود ہے وہ خدا کی ذات ہے ۔ شاعر کو رہنما اور دوست کے نہ ملنے کا بھی ذرا ملال نہیں کیونکہ اس کے ساتھ خدا کی نصرت ہے ۔
شعر نمبر 4 :
سفر ہے شرط ، مسافر نواز بتیرے
ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
مشکل الفاظ کے معانی : مسافر نواز (مسافروں کی خدمت کرنے والے) ، بتیرے( بہت زیادہ ، کافی) مفہوم : سفر کی ابتدا کرنا ضروری ہے ۔ جب انسان کوئی سفر شروع کر دیتا ہے تو آخر کار منزل تک پہنچ ہی جاتا ہے ۔
تشریح : اس شعر میں شاعر نے مسلسل جدوجہد اور کام کرنے کی لگن پر زور دیا ہے زندگی حرکت سے عبارت ہے جو لوگ محنت کرتے ہیں کامیابیاں اور کامرانیاں بھی انھیں لوگوں کا مقدر ٹھہرتی ہیں ۔ جو لوگ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں وہ پھر ناکامیوں کا منہ ہی تکتے رہ جاتے ہیں ۔
بقول علامہ اقبال :
چلنے والے ، نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ، ذرا کچل گئے ہیں
انسان کو اپنی منزلوں کے حصول کے لیے سفر اور جدوجہد کرنی پڑتی ہے تب جا کر کہی منزل تک رسائی ممکن ہوتی ہے ۔ جب انسان محنت نہ کرے اور منزلوں کے خواب دیکھتا رہے تو کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ زندگی کے ہر کام میں بنیادی کنجی محنت ہے ۔ کسی بھی کام کے حصول کے لیے جب آپ اپنے دل میں پختہ ارادہ کر کے محنت کے لیے تیار ہو جاتے ہیں تو اس منزل کی جانب اٹھنے والے پہلے ہی قدم پر آپ کی منزل آسان ہو جاتی ہے ۔ اگر انسان منزل کی طرف جانے والے دشوار گزار راستوں سے ہی خوف کھاتا رہے تو اسے یوں گھر بیٹھے بٹھائے کسی منزل کا پتہ نہیں مل سکتا ۔ جو بھی محنت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتے ہیں ۔ جب انسان پوری آب و تاب کے ساتھ کسی کام کے لیے نکل کھڑا ہوتا ہے اس کی مشکلیں پہلے قدم پر ہی آسان ہونا شروع ہو جاتی ہیں ۔ جب مکان کی پہلی اینٹ رکھی جاتی ہے تو مکان اسی وقت بننا شروع ہو جاتا ہے ۔ شاعر نے اس شعر میں یہی پیغام دیا ہے کہ جو لوگ سچے دل سے محنت کا ارادہ کر کے نکلتے ہیں ان کے راستے ہموار اور آسان ہوتے چلے جاتے ہیں۔ خدا کی ذات ان کے لیے آسانیاں اور اسباب پیدا فرما دیتی ہے ۔ سفر پر نکل کھڑے ہوں تو مسافر نواز اور آرام کرنے کے لیے سایہ دار درخت مل ہی جاتے ہیں ۔
شعر نمبر 5 :
مقام تک بھی ہم اپنے پہنچ ہی جائیں گے
خدا تو دوست ہے دشمن ہزار راہ میں ہے
مشکل الفاظ کے معانی : مقام ( گھر ، جگہ ، منزل )
مفہوم : منزل تک پہنچنے کے لیے ہزاروں دشمنوں اور خار زاروں سے پالا پڑے گا مگر جب اللّٰہ ساتھ ہو تو دشمنوں کی کوئی پرواہ نہیں ۔
تشریح : یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ منزلوں تک رسائی پانے کے لیے مشکل اور مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ منزل یونہی نہیں مل جایا کرتی لیکن منزل تک پہنچنے کے لیے پختہ ارادے کا ہونا لازمی ہے شرط ہے ۔ تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میں اپنی منزل تک پہنچ کر دم لوں گا مجھے اس بات کا قوی یقین ہے کہ راستہ جتنا بھی پرخطر اور خار زار کیوں نہ ہو مجھے منزل مقصود تک پہنچنے میں ناکام نہیں رکھ سکتا ۔ شاعر کہتا ہے کہ میرے دوستوں کی ایک لمبی تعداد اس بات پر بضد ہے کہ یہ آدمی کبھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ پائے گا اور آج اس حسد کی جنگ میں جو دوست تھے وہ بھی دشمن بن گئے ہیں ۔ یوں سارے لوگ میری منزل کے راستے میں روڑے اٹکانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر ان تمام مشکلوں اور دشمنوں سے قطعاً کوئی خوف نہیں کیونکہ میرا خدا میرے ساتھ ہے ۔ اسی لیے مجھے میری منزل تک پہنچنے سے کوئی مشکل نہیں روک سکتی کیونکہ ہوگا وہی جو منظورِ خدا ہوگا اور میرا خدا میرے ساتھ ہے ۔ اس لیے میری راہ میں جو ہزاروں کی تعداد میں دشمن اس کوشش اور امید میں ہیں کہ میں کبھی اپنی منزل تک نہ پہنچ پاؤں گا یہ ان لوگوں کی محض خام خیالی ہی ہے ۔
شعر نمبر 6 :
تھکیں جو پاؤں تو چل سر کے بل ، نہ ٹھہر آتش
گل مراد ہے منزل میں ، خار راہ میں ہے
مشکل الفاظ کے معانی : سر کے بل چلنا (سر کے سہارے چلنا ) ، گل مراد( تمنا کا پھول) ، خار (کانٹے)
مفہوم : تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر حرکت ، جدوجہد اور محنت کا جذبہ ابھار رہا ہے اور ہر قسم کی تکلیف و مصائب میں ڈٹے رہنے کا درس دے رہا ہے ۔ سفر خواہ کتنا ہی طویل اور کٹھن کیوں نہ ہو اگر انسان چلتا رہے اور ہمت نہ ہارے تو منزل تک پہنچ ہی جاتا ہے ۔ لیکن اگر آدمی ہمت ہار دے اور مصائب سے گھبرا جائے تو کبھی منزل مقصود سے ہم کنار نہیں ہو سکتا ۔
آتش کہتے ہیں کہ ہر حال میں مسافر کو اپنا سفر جاری و ساری رکھنا چاہیے ۔ اگر مسافر چلتے چلتے تھک کر جی ہار دے اور سفر ترک کر دے یا پھر رک کر آرام کرنے بیٹھ جائے تو منزل اس سے دور ہو جائے گی ۔ مسافر کے لیے ضروری ہے کہ جب وہ اپنی منزل کا تعین کر لے تو پھر راستے کی مشکلات یا تھکاوٹ کے سبب نہ تو سفر کا ارادہ ملتوی کرے اور نہ ہی راہ میں کسی جگہ ٹھہرنے کے بارے میں سوچے کیونکہ مستقل مزاجی اور چلتے رہنے سے ہی منزل ملتی ہے۔
شاعر کہتا ہے کہ پاؤں تھک جائیں تو سر کے بل چلنا شروع کر دیں یعنی ہر قسم کے حالات میں ہر صورت میں سفر جاری و ساری رکھو کیونکہ کامیابی کا پھول منزل پر پہنچ کر ہی ملے گا ۔ راستے میں جتنے بھی کانٹے آئیں ہماری نظر منزل پر موجود پھول پر ہی ہونی چاہیے ۔ منزل پر پہنچنے کا عزم اور شوق ہی ہمیں پرخار راستوں سے گزرنے میں مدد دے گا پس ہمیں زندگی کے سفر میں کہیں بھی اور کبھی بھی حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے بلکہ ہزار رکاوٹوں ، مشکلات اور نامساعد حالات کے باوجود اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے ۔ مسافر کے حوصلہ مندی ، ہمت ، عزم اور استقامت اس کا سب سے بڑا زاد راہ ہوتے ہیں اور ایسے ہی مسافر راستے کے کانٹوں اور پرخار وادیوں سے گزر کر منزل کا پھول حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ کامیابی و کامرانی ایسے ہی حوصلہ مند مسافروں کے قدم چومتی ہے اور منزل مراد ایسے ہی پرعزم اور سراپا استقامت انسانوں کا مقدر بنتی ہے ۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
میدانِ زندگی میں نہیں بیٹھنے سے کام
گر پاؤں ٹوٹ جائیں یہاں ، سر کے بل چلو
نوٹ : امید ہے کہ آپ خواجہ حیدرعلی آتش کی غزل کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.