آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” ہم دیکھیں گے” کا خلاصہ پڑھیں گے ۔ اس نظم کے شاعر فیض احمد فیض ہیں ۔
خلاصہ کیا ہوتا ؟
خلاصہ کا لغوی مطلب اختصار ، لُب لباب ، ماحصل ، اصل مطلب وغیرہ ۔
اصطلاحی طور پر خلاصہ کسی تحقیقی مضمون، مقالہ ، جائزہ، کانفرنس کی کارروائی ، یا کسی خاص موضوع کا گہرائی سے تجزیہ کا ایک مختصر خلاصہ ہوتا ہے ۔
نظم “ہم دیکھیں گے” از فیض احمد فیض – خلاصہ
یہ نظم ظلم و جبر کے خلاف بغاوت اور امید کا پیغام ہے۔ شاعر اس یقین کا اظہار کرتے ہیں کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب ظلم و ستم ختم ہو جائے گا اور انصاف کا بول بالا ہوگا۔
نظم کا خلاصہ:
فیض احمد فیض اس نظم میں ایک ایسے دن کی پیش گوئی کرتے ہیں جو “لوحِ ازل” میں لکھا ہوا ہے، یعنی تقدیر میں مقرر ہے۔ اس دن ظالموں کے جبر و استبداد کی بڑی بڑی چٹانیں روئی کی طرح بکھر جائیں گی، اور محکوم عوام آزادی کا جشن منائیں گے۔ زمین عدل و انصاف کے ساتھ دھڑک اٹھے گی اور ظالم حکمرانوں کے سروں پر بجلیاں کڑکیں گی۔
یہ نظم مذہبی استعاروں کا استعمال کرتے ہوئے جبر کے خلاف آواز بلند کرتی ہے۔ شاعر بتاتے ہیں کہ جب زمین کے “کعبے” یعنی مقدس مقامات سے ظلم و جبر کی نشانیوں (باطل کے بتوں) کو مٹایا جائے گا، تب محروم اور دبے کچلے لوگ عزت و وقار کی مسند پر فائز ہوں گے۔
فیض انقلاب کی علامت کے طور پر یہ بھی کہتے ہیں کہ ظالم بادشاہوں کے تاج اچھال دیے جائیں گے اور ان کے تخت گرائے جائیں گے۔ آخر میں، شاعر اس تصور کو پیش کرتے ہیں کہ حقیقی حکمرانی صرف اللہ کی ہوگی، جو ہر جگہ موجود اور ہر چیز پر ناظر ہے۔
نظم کے آخری اشعار میں “انا الحق” (میں حق ہوں) کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے، جو منصور حلاج کے مشہور قول کی طرف اشارہ ہے۔ اس سے شاعر یہ باور کراتے ہیں کہ جب عوام میں شعور بیدار ہوگا، تو وہ اپنی طاقت کو پہچانیں گے اور خود کو حاکم بنائیں گے۔ یوں، دنیا میں انصاف اور برابری کی حکمرانی ہوگی، جہاں ہر انسان باوقار زندگی گزارے گا۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” ہم دیکھیں گے کے خلاصے کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.