ہم دیکھیں گے نظم

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” ہم دیکھیں گے” جس کے شاعر فیض احمد فیض ہیں کے تمام اشعار پڑھیں گے اور اگلی پوسٹ میں ہم اس نظم کا خلاصہ ، مرکزی خیال اور فکری و فنی جائزہ پیش کریں گے ۔ ان شاءاللہ

سال 1985 میں جنرل ضیا الحق کے فرمان کے تحت عورتوں کے ساڑی پہننے پر پابندی لگا دی گئی تھی ۔ پاکستان کی مشہور گلوکارہ اقبال بانو نے احتجاج درج کراتے ہوئے لاہور کے ایک اسٹیڈیم میں کالے رنگ کی ساڑی پہن کر 50,000 سامعین کے سامنے فیض احمد فیض کی یہ نظم گائی ۔نظم کے بیچ بیچ میں سامعین کی طرف انقلاب زندہ باد کے نعرے گونجتے رہے ۔

ہم دیکھیں گے

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے

جو لوح ازل میں لکھا ہے

جب ظلم و ستم کے کوہ گراں

روئی کی طرح اڑ جائیں گے

ہم محکوموں کے پاؤں تلے

جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی

اور اہل حکم کے سر اوپر

جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی

جب ارض خدا کے کعبے سے

سب بت اٹھوائے جائیں گے

ہم اہل صفا مردود حرم

مسند پہ بٹھائے جائیں گے

سب تاج اچھالے جائیں گے

سب تخت گرائے جائیں گے

بس نام رہے گا اللہ کا

جو غائب بھی ہے حاضر بھی

جو منظر بھی ہے ناظر بھی

اٹھے گا انا الحق کا نعرہ

جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

اور راج کرے گی خلق خدا

جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply