آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں” جس کے شاعر منیر نیازی ہیں کی تشریح پڑھیں گے ۔
بند نمبر 1 :
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کرنی ہو ، کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں
مشکل الفاظ کے معانی : وعدہ نبھانا( وعدہ پورا کرنا) ، آواز دینا( پکارنا، بلانا)
مفہوم : میں ہر کام میں دیر کر دیتا ہوں کسی سے کوئی ضروری بات کرنی ہو یا وعدہ پورا کرنا ہو یا محبوب کو واپس بلانا ہو۔ میں ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں۔
تشریح : منیر نیازی دور جدید کے اردو اور پنجابی کے مشہور شاعر ہیں ۔ منفرد لب و لہجے اور اسلوب کے شاعر ہیں ۔ ان کی شاعری میں تحیر اور سادگی کا عنصر نمایاں ہے ۔ منیر نیازی کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ ہر کام میں دیر کر دیتے ہیں ۔ معاملات میں ، لین دین میں ، کہیں آنے جانے میں ، غرض ہر کام میں وہ ہمیشہ تاخیر کر دیتے ہیں۔ یہ نظم ان کی اسی عادت کی عکاسی کرتی ہے ۔ منیر نیازی کی یہ نظم اتنی مشہور ہوئی کہ وہ جب بھی کسی مشاعر میں جاتے لوگ ان سے یہی نظم سنانے کی فرمائش کرتے اور وہ مخصوص لہجے میں نم آنکھوں سے یہ نظم سناتے ۔ یہ ایک آزاد نظم ہے جس میں انسانی نفسیات کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے ۔ جب کوئی کام مقرر وقت پر انجام نہ دیا جائے تو وہ اپنی اہمیت کھو دیتا ہے ۔ انسان اپنے جذبات اور احساسات بروقت اور بر محل دوسروں تک نہ پہنچائے تو وہ غیر موثر ہو جاتے ہیں اور بعد میں صرف ندامت ہی ہاتھ آتی ہے ۔
بقول وسیم بریلوی :
کون سی بات کہاں کیسے کہی جاتی ہے
یہ سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاتی ہے
تشریح طلب بند میں شاعر کہتا ہے کہ میری یہ کمزوری ہے کہ میں ہر کام میں دیر کر دیتا ہوں ۔ کام کرنے کے بعد مجھے خیال آتا ہے کہ یہ کام مجھے بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا ۔ لیکن تب وقت گزر چکا ہوتا ہے ۔ کبھی کوئی کام وقت پر سر انجام نہیں دیتا ہمیشہ سستی کا مظاہرہ کرتا ہوں ۔ کسی سے کوئی اہم اور ضروری بات کرنی ہو تو مجھے خیال آتا ہے کہ ابھی نہیں پھر کبھی سہی یہ خیال آتا ہے کہ یہ بات ہو سکتی ہے میرے نزدیک اہم ہو لیکن دوسروں کے نزدیک معمولی ہو ۔ اسی کشمکش میں وقت گزر جاتا ہے اور بعد میں مجھے افسوس ہوتا ہے کہ وہ اہم بات اسی وقت کیوں نہ کی ۔ لیکن تب تک بہت تاخیر ہو چکی ہوتی ہے اور وہ بات اپنی اہمیت کھو چکی ہوتی ہے ۔
بقول داغ دہلوی :
سنانے کے قابل جو تھی بات ان کو
وہی رہ گئی درمیاں آتے آتے
شاعر مزید کہتا ہے کہ کسی سے کیا ہوا کوئی وعدہ نبھانا ہو تو اس میں بھی مجھ سے تاخیر ہو جاتی ہے اور وعدہ وفا نہیں ہوتا ۔ کسی کو اپنے پاس بلانا ہو یا کسی روٹھے ہوئے دوست کو منانا ہو ۔ چھوڑ کر جانے والے کو واپس بلانا ہو میں ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں ۔ میرا ذہن مختلف خیالوں کی آماج گاہ بنا ہوتا ہے ۔ اسی ذہنی خلفشار کی وجہ سے مجھ سے ہر کام میں تاخیر ہو جاتی ہے ۔
بقول حفیظ جالندھری :
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے ، کہیں ویسا نہ ہو جائے
بند نمبر 2 :
مدد کرنی ہو اس کی ، یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں
مشکل الفاظ کے معانی : یار (دوست) ، ڈھارس بندھانا (تسلی دینا ، ہمت بندھانا ) ، دیرینہ( پرانے)
مفہوم : کسی کی مدد کرنا ہو یا کسی کو تسلی دینی ہو یا کسی سے ملنے جانا ہو میں ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں ۔
تشریح : تشریح طلب بند میں شاعر کہتا ہے کہ میں کسی کی بروقت مدد نہیں کر پاتا ۔ کسی کی مدد کرنی ہو تو مجھ سے ہمیشہ دیر ہو جاتی ہے اور مدد کا وقت گزر جاتا ہے ۔ اگر کسی دوست کو مصیبت یا کسی غم میں تسلی دینی ہو اس کی ہمت افزائی کرنی ہو تب بھی مجھ سے تاخیر ہو جاتی ہے اور میں اس کے کام نہیں آ سکتا ۔ کسی کو غم یا مصیبت کے وقت تسلی دینا اخلاقی فرض ہے ۔ غم بانٹنے سے کم ہو جاتے ہیں اور خوشیاں بانٹنے سے زیادہ ہو جاتی ہیں ۔ انسان وہ چہرہ کبھی نہیں بھولتا جو اسے مصیبت کے وقت حوصلہ دیتا ہے اور اس کی ہمت بندھاتا ہے ۔ اس سے نہ صرف انسان کو روحانی سکون حاصل ہوتا ہے بلکہ رشتے اور تعلقات میں بھی مضبوطی پیدا ہوتی ہے ۔
بقول شاعر :
غم بانٹنے کی چیز نہیں ہے پھر بھی دوستو
اک دوسرے کے حال سے واقف رہا کرو
شاعر کہتا ہے کہ میں اپنی اس عادت کی وجہ سے کسی کے برے وقت میں اس کے کام نہ آ سکا ۔ اسی طرح اگر مدتوں بعد پرانے تعلقات دوبارہ سے استوار کرنے ہوں ۔ بہت پرانے جانے پہچانے راستوں پر کسی پرانے دوست سے ملنے جانا ہو ۔ اس میں بھی مجھ سے تاخیر ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے مجھے ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تب مجھے یہی خیال آتا ہے کاش یہ کام میں پہلے کر لیتا ۔
بقول شاعر :
جو ہر کام کرتا رہے وقت پر
ملے اس کو آرام شام و سحر
بند نمبر 3 :
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں
مشکل الفاظ کے معانی : دل کو لگانا (محبت کرنا)
مفہوم : بدلتے موسموں میں دل لگانا ہو کسی کو یاد رکھنا ہو یا بھول جانا ہو ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں ۔
تشریح : تشریح طلب بند میں شاعر کہتا ہے کہ کوئی موسم بدل رہا ہو گرمی سردی میں بدل رہی ہو یا خزاں بہار میں بدل رہی ہو تو نئے موسم سے دل لگانے میں مجھ سے تاخیر ہو جاتی ہے ۔ عموماً موسموں کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ مزاج میں بھی تبدیلی آ جاتی ہے ۔ ہر موسم کی اپنی خوبصورتی ہوتی ہے جس سے انسان لطف اندوز ہوتا ہے ۔ لیکن شاعر کہتا ہے کہ جب موسم تبدیل ہوتے ہیں اور ان کی خوبصورتی اور رنگینی سے لطف اندوز ہونے کا وقت ہوتا ہے تب مجھے خیال نہیں ہوتا ۔ لیکن جب میں دل لگانے لگتا ہوں تب موسم گزر چکا ہوتا ہے ۔ بدلتے موسموں سے مراد بدلتے ہوئے حالات بھی ہو سکتے ہیں ۔ انسان کی زندگی میں اچھے برے حالات آتے رہتے ہیں ۔ نشیب و فراز ، خوشی غمی ، مصائب و مشکلات سب زندگی کا حصہ ہیں ۔ انسان حالات کے مطابق خود کو ڈھال لیتا ہے لیکن شاعر کہتا ہے کہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ڈھالنے ، ان سے دل لگانے اور لطف اندوز ہونے میں بھی مجھ سے تاخیر ہو جاتی ہے اور میں ماضی کی یادوں میں کھویا رہتا ہوں ۔ شاعر مزید کہتا ہے کہ کسی خوشگوار واقعہ یا شخص کو دل میں یاد رکھنا ہو اس میں بھی مجھ سے تاخیر ہو جاتی ہے اور کسی تلخ یاد کو دل سے نکالنا ہو ، کسی برے حادثے یا محبوب کی بے وفائی کو بھلانا ہو اور نئی زندگی شروع کرنی ہو تو وہ یادیں بھی مجھ سے بھلائی نہیں جاتی ۔ اس میں بھی مجھ سے تاخیر ہو جاتی ہے ۔
بقول اختر انصاری :
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
اور بقول حسرت موہانی :
بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الٰہی ترک الفت میں وہ کیوں کر یاد آتے ہیں
بند نمبر 4 :
کسی کی موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کر یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں
مشکل الفاظ کے معانی : غم سے بچانا (دکھ سے بچانا) ، حقیقت( سچائی)
مفہوم : موت سے پہلے کسی کو غم سے بچانا ہو اور اس کی غلط فہمی دور کرنی ہو میں ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں ۔
تشریح : تشریح طلب بند میں شاعر کہتا ہے کہ کسی کو مرنے سے پہلے غم سے نجات دلانی ہو اور اسے حقیقت بتا کر اس کی غلط فہمی دور کرنی ہو تاکہ اس کا ذہن پرسکون ہو سکے تو اس میں بھی مجھ سے کوتاہی ہو جاتی ہے اور اس میں بھی میں تاخیر کر دیتا ہوں ۔ بعد میں مجھے افسوس ہوتا ہے کہ کاش میں اسے یہ حقیقت پہلے بتا دیتا ۔
بقول داغ دہلوی :
نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
بعض اوقات انسان کسی غلط فہمی یا بدگمانی کا شکار ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بہت سی باتیں بغیر ثبوت اور تصدیق کے مانتا رہتا ہے ۔ اس طرح دلوں میں دوریاں پیدا ہوتی رہتی ہیں اور رشتے ٹوٹ جاتے ہیں ۔ لیکن اگر انسان بروقت غلط فہمی دور کر دے اور وضاحت کر دے کہ جو تم سمجھ رہے ہو حقیقت وہ نہیں بلکہ حقیقت کچھ اور ہے تو رشتے ٹوٹنے سے بچ جاتے ہیں اور دلوں میں نفرتیں پیدا نہیں ہوتی ۔
بقول حفیظ ہوشیار پوری :
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
شاعر کہتا ہے ایسے ضروری کام اور ایسی نازک صورتحال میں بھی مجھ سے دیر ہو جاتی ہے ۔ کسی کی غلط فہمی یا بدگمانی دور کرنی ہو اس سے اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہو اور یہ بتانا ہو کہ جو تم سمجھ رہے ہو حقیقت اور سچائی وہ نہیں بلکہ کچھ اور ہے ۔ ایسی صورت حال میں بھی میں بروقت اس تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہوں اور تاخیر سے پہنچتا ہوں جس کی وجہ سے مجھے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ منیر نیازی کی نظم ” ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں” کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.