ہستی اپنی حباب کی سی ہے
آج کی اس پوسٹ میں ہم میر تقی میر کی مشہور غزل ” ہستی اپنی حباب کی سی ہے ” کی لغت ، مفہوم اور تشریح پر سیر حاصل گفتگو کریں گے ۔
شعر نمبر 1 :
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
حل لغت : ہستی ( وجود ، زندگی) ، حباب (پانی کا بلبلہ) ، سراب ( ریتلی زمین کی چمک جس پر پانی کا دھوکہ ہوتا ہے ، دھوکا ہی دھوکہ) ، کی سی( کی طرح ، کی مانند) ، نمائش ( دکھاوا )
مفہوم : اپنی زندگی تو بلبلے کی طرح ہے یہ نمائش اور دکھاوا تو سراب کی مانند ہے ۔ زندگی کو پانی کے بلبلے اور نمائش کو سراب سے تشبیہ دی گئی ہے ۔
تشریح : میر تقی میر نے مختلف اصنافِ شعر میں طبع آزمائی کی لیکن غزل گوئی ہی ان کی پہچان بنی ۔ آپ کو خدائے سخن بھی کہا جاتا ہے ۔ خلوص ، درد و غم ، ترنم اور سادگی کی بدولت ان کی غزلیں دل پر بہت اثر کرتی ہیں ۔ آپ یقیناً غزل کے بادشاہ ہیں ۔ میر تقی میر کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف بڑے بڑے شعرا نے بھی کیا ہے ۔ بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے میر کو ” سرتاج شعراء ” اردو قرار دیا ہے ۔ میر کی آخری عمر تنگدستی اور بیماری میں بسر ہوئی ۔
نوٹ : مندرجہ بالا اقتباس اس غزل کے کسی بھی شعر کے شروع میں لکھا جا سکتا ہے ۔
میر کو خدا سخن کہا جاتا ہے ۔ آپ کی شاعری درد و غم اور زندگی کی حقیقتوں پر مبنی ہے۔ آپ کے اشعار بہت پراثر اور زندگی کا فلسفہ بیان کرتے ہیں۔ اس شعر میں بھی انھوں نے زندگی کا ایک فلسفہ بیان کیا ہے ۔ کہتے ہیں زندگی کیا ہے ؟ یہ ایک بلبلہ ہے ۔ جس طرح بلبلے کو دوام اور ہمیشگی نہیں اسی طرح زندگی بھی عارضی ہے ۔ بلبلے کو ذرا سی ٹھیس پہنچے یا معمولی سی ٹکر لگے تو وہ اپنا وجود ختم کر بیٹھتا ہے ۔ زندگی اس ریتلی زمین کی چمک کے مانند ہے جس پر پانی کا دھوکہ ہوتا ہے۔ پیاسے راہگیر سمجھتے ہیں کہ سامنے پانی ہے ۔ وہ چلتے چلتے تھک جاتے ہیں لیکن دور دور تک پانی کا نشان نہیں نظر آتا گویا انسانی وجود ایک دکھاوا ہے ۔ حقیقت میں یہ کچھ بھی نہیں ۔ دنیا کی تمام رونقیں عارضی ہیں اور دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ ہر مخلوق نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔ قران مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ جس کا ترجمہ ہے ۔
” اور دنیا کی زندگی تو محض کھیل اور تماشا ہے ” ۔
یہ دنیا آزمائش کے لیے بنائی گئی ہے ۔ دنیا کی ہر چیز محض دھوکہ ہے ۔ اس دنیا میں ہر نعمت بھی ایک آزمائش ہے ۔ اس لیے دنیا میں دل نہیں لگانا چاہیے ۔ بقول شاعر :
زندگی تجھ پہ بہت غور کیا ہے میں نے
تو صرف رنگ ہے رنگوں کے سوا کچھ بھی نہیں
جبکہ بہادر شاہ ظفر بھی اسی طرف اشارہ فرماتے ہیں :
لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائیدار میں
شعر نمبر 2 :
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی ایک گلاب کی سی ہے
مشکل الفاظ کے معانی : نازکی ( نزاکت ، ملائمت) ، گلاب 🌹 (ایک پھول) ، لب (ہونٹ) ، اک( ایک) ، پنکھڑی (پھول کی پتی) ، کی سی( کی مانند ، کی طرح )
مفہوم : محبوب کے لب کی ملائمت کے کیا کہنے ! بس گلاب کے پھول کی ایک پتی ہے ۔
تشریح : میر کی شاعری میں ترنم اور سادگی ہے ۔ آپ غزل کے بادشاہ ہیں۔ میر تقی میر کی شاعرانہ عظمت کے اعتراف بڑے بڑے شعراء نے بھی کیا ہے۔ مذکورہ شعر میں وہ کہتے ہیں اپنے محبوب کے حسن و جمال اور خوبصورتی کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرا محبوب اتنا حسین و جمیل ہے کہ اس کے ہونٹ گلاب کے پھول کی پتی کی طرح نرم و نازک ، ملائم پتلے اور خوبصورت ہیں ۔ ہونٹوں کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ۔ یہ نرم و نازک اور سرخی لیے ہوئے ہیں ۔ شاعر نے اپنے محبوب کے ہونٹ کو گلاب کے پھول کی ریشم کی طرح نرم و ملائم پنکھڑی سے تشبیہ دے کر اپنے محبوب کی بے مثال خوبصورتی و نزاکت کی ایک ادنیٰ سی مثال پیش کی ہے ۔ عشق میں مبتلا ہو کر عاشق کو اپنے محبوب کی ہر شے اچھی لگتی ہے ۔ عموماً شاعر اپنے اشعار میں محبوب کی آنکھوں ، ٹھوڑی کے گڑھے ، رخسار ، تل اور قد کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں ۔
بقول شاعر :
یاد ہے وہ آنکھیں ، رخسار وہ ہونٹ
زندگی جس کے تصور میں لٹا دی ہم نے
آتش اپنے محبوب کی ٹھوڑی کے گڑھے کی تعریف یوں کرتے ہیں :
زنخداں سے آتش محبت رہی
کنواں میں اپنا دل ڈبویا کیا
شعر نمبر 3 :
چشم دل کھول اس بھی عالم پر
یہاں کی اوقات خواب کی سی ہے
چشم (آنکھ) ، خواب (سپنا ، نیند ، خیال ) ، عالم (دنیا) ، اوقات (وقت کی جمع زمانے، حیثیت) ، یاں (یہاں) ، کی سی( کے جیسی )
مفہوم : فکر آخرت بھی کیا کرو یہاں کی زندگی تو عارضی ہے زندگی کو خواب سے تشبیہ دی گئی ہے۔ تشریح : میر کی شاعری میں درد و غم اور زندگی کے دکھ سموئے ہوئے ہیں مذکورہ شعر میں وہ کہتے ہیں اے انسان ! تو اس دنیا کی رنگینیوں میں کھو گیا ہے ۔ فضول کاموں اور کھیل تماشوں میں گم ہو کر خدا کو بھول بیٹھا ہے ۔ عقلمندی اور دانائی سے کام لے غور کر یہاں کی زندگی عارضی ہے۔ اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں اس لیے فکر آخرت کر اور اللہ کی عبادت کر کے اس کا محبوب بندہ بن جا ۔ دراصل اس شعر میں شاعر نے دنیاوی زندگی کو ایک خواب جیسی کیفیت کا نام دیا ہے اور انسان کو خواب غفلت سے بیدار ہو کر فکر آخرت کرنے کا درس دیا ہے ۔ آخروی زندگی ہی اصل میں دائمی زندگی ہوگی ۔ یہ دنیا کی زندگی تو خواب کی مانند ہے ۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ دنیا کی زندگی میں نہ کھویا رہے بلکہ آخرت میں کامیابی و کامرانی کے لیے ہر ممکن کوشش کرے ۔ میر کا یہ شعر فکر آخرت کے بارے میں عالمگیری سچائی کا حامل ہے ۔
بقول شاعر :
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدہ دل وا کرے کوئی
حدیث شریف کا مفہوم ہے :
“مر جاؤ مرنے سے پہلے “
اس کا مطلب ہے کہ مرنے سے پہلے اس عالم کا مشاہدہ کر لیا جائے جہاں ہم نے مرنے کے بعد جانا ہے۔ اس عالم کا مشاہدہ باطنی آنکھ کھولے بغیر ممکن نہیں۔
اس لیے علامہ اقبال فرماتے ہیں :
دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
شعر نمبر 4 :
حالت اب اضطرار کی سی ہے
مشکل الفاظ کے معانی : در (دروازہ ، چوکھٹ) ، حالت( کیفیت ) ، اضطراب (بے چینی بے ، قراری)
مفہوم : بے قراری کا عالم یہ ہے کہ میں بار بار محبوب کے ہاں جاتا ہوں پھر بھی میری بے قراری ختم نہیں ہو رہی ۔
تشریح : میر ایک قادر الکلام شاعر ہیں ۔ ان کی غزلوں میں دکھ اور اضطراب کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ مذکورہ شعر میں وہ کہتے ہیں کہ میں محبوب سے ملاقات کے لیے اس کے دروازے پر بار بار جا رہا ہوں لیکن دلی خواہش پوری نہیں ہو رہی۔ اس کی بے رخی نے پریشان سا کر دیا ہے ۔ ناکامی میرا مقدر بن گئی ہے اور محبوب سے مل نہیں پا رہا۔ میں نے بھی اسے ملنے کے لیے بار بار جانا نہیں چھوڑا۔ اس امید پر کہ شاید مل جائے اس کی چوکھٹ پر مسلسل حاضری دے رہا ہوں۔ اب طبیعت میں ایک بے چینی سی رہنے لگی ہے ۔ بے اختیار میرے قدم محبوب کے کوچے کی جانب بڑھتے ہیں ۔ محبوب کی بے رخی سے دل مضطرب ہے اور کسی پل چین و بے قرار نصیب نہیں ۔ عشق انسان کو مضطرب اور غمزدہ بنا دیتا ہے۔
بقول شاعر :
کہا میں نے ان سے کہ دل مضطرب ہے
جواب ان کا آیا محبت نہ کرتے
عشق میں انسان بار بار محبوب کے دیدار کے لیے اس کی گلی کوچوں اور دروازے کی چوکھٹ کا طواف کرتا ہے۔ انسان کو خود معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی یہ حالت ایسی کیوں ہے۔
بقول داغ دہلوی :
تیرے کوچے اس بہانے مجھے دن سے رات کرنا
کبھی اس سے بات کرنا کبھی اس سے بات کرنا
شعر نمبر 5 :
میں جو بولا کہا کہ یہ آواز
اسی خانہ خراب کی سی ہے
مشکل الفاظ کے معانی : خانہ خراب( اجڑا ہوا ، تباہ و برباد ، آوارہ ) ، خانہ( گھر ، مکان)
مفہوم : محبوب بڑا ظالم اور بے وفا ہے ۔ عاشق کی آواز سنتے ہی مشتعل ہو جاتا ہے۔ عاشق کو ویران کھنڈر سے تشبیہ دی گئی ہے ۔
تشریح : اس شعر میں ہماری اردو شاعری کے روایتی موضوع کی ترجمانی کی گئی ہے ۔ شاعر میر تقی میر اپنے محبوب سے کہتے ہیں کہ میں نے تجھ سے بات کرنے کے لیے زبان کھولی تو تو نے پہلے کی طرح بے رخی دکھائی بات تک نہ کی۔ تیرا باتیں نہ کرنا میرے لیے پریشان کن تو تھا ہی لیکن جب تو نے یہ کہا کہ یہ آواز اسی آوارہ و پریشان حال عاشق کی ہے تو میرے دل پر چھریاں چل گئیں۔ گویا میری آواز سن کر کوئی جواب نہ دینا اور بے رخی کا برملا اظہار کرنا تو ایک طرف، تیرا مجھے آوارہ مزاج کے نام سے پکارنا میرے لیے مزید دکھ اور تکلیف کا باعث بنتا ہے۔
بقول شاعر :
اپنا سمجھ کے جس کے لیے میں اجڑ گیا
کل رات جا رہا تھا کسی اجنبی کے ساتھ
شاعر کی خستہ حالت محبوب کے عشق کی بنا پر ہوئی مگر شاعر کے بولنے پر محبوب کا یوں مذاق اڑانا اور اسے خانہ خراب کہنا شاعر کو دکھی کر گیا۔ بقول شاعر :
تیری محفل سے اٹھاتا مجھے اغیار کی جرات نہ تھی
دیکھا تجھے تو تو نے بھی اشارہ کر دیا
شعر نمبر 6 :
آتش غم میں دل بھنا شاید
دیر سے بو کباب کی سی ہے
مشکل الفاظ کے معانی : آتش (آگ ،جلن) ، آتش غم (دکھوں کی آگ ) ، کباب (گھی میں تلی ہوئی قیمہ کی ٹکیاں مراد جلا ہوا )
مفہوم : غم کی آگ میں جلتے جلتے عاشق کا دل کباب ہو جاتا ہے کیونکہ اس میں سے کباب کی مہک آتی ہے ۔
تشریح : میر تقی میر کی تمام زندگی تنہائی اور غموں میں گزری۔ فکر معاش نے کہیں کا نہ چھوڑا نازک طبیعت نے انہیں کہیں بھی سکھ کا سانس نہ لینے دیا۔ مذکورہ شعر میں کہتے ہیں محبوب کی جدائی زمانے کی تکلیفوں اور دشمنوں کے ظلم و ستم سے پریشان حال، غمزدہ عاشق دکھوں کی آگ میں دن رات جلتا رہتا ہے۔ ایک آگ سی ہے جو سینے میں لگی ہوئی ہے۔ دل ہے کہ غم کے شعلوں میں بھنا جا رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کافی دیر سے دل کے جلنے کی بو اسی طرح آرہی ہے جیسے کباب کی آتی ہے ۔ گویا غموں اور دکھوں کی اس آگ کی تیز آنچ نے دل کو اپنی لپیٹ لپیٹ میں لے کر جلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور دل جل کر کباب ہو چکا ہے ۔ اس شعر میں میر تقی میر نے اپنے محبوب کے مظالم بیان کرنے کے لیے ایک منفرد انداز اختیار کیا ہے۔
بقول شاعر :
اے شمع دل جلوں سے تیرے نصیب اچھے
تو اک بار جلی ہے اور میں برسوں سے جل رہا ہوں
ایک شاعر نے دل جلنے کا تذکرہ اس طرح کیا ہے :
اے شمع ذرا ہٹ کے جل میرے مزار سے
میں تو خود ہی جل رہا ہوں دل بے مراد سے
شعر نمبر 7 :
میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
مشکل الفاظ کے معانی : نیم باز (آدھی کھلی) ، مستی( نشہ ، خمار ، مدہوشی)
تشریح : شعر میر تقی میر اپنی اس غزل کے مقطع میں کہتے ہیں کہ ان کا محبوب شوخ و چنچل ہے۔ اس کی آدھی کھلی آنکھوں میں شراب کی سی مدہوشی جھلکتی ہے۔ محبوب کی دل لبھانے والی یہ ادا بھلی لگتی ہے۔ وہ سنگ دل سہی مگر اس کی مخمور نگاہیں شاعر کے دل لوٹ لیتی ہیں۔ دراصل محبت کرنے والے کو اپنے محبوب کی ہر ادا سے پیار ہوتا ہے اور وہ اپنے محبوب کی خوبصورتی اور ناز و ادا کا دیوانہ ہو جاتا ہے۔ اسی لیے میر تقی میر کو اپنے محبوب کا آدھی کھلی آنکھوں سے دیکھنا بھی بہت بھاتا ہے اور اسے محبوب کی آنکھوں میں شراب کا سا خمار محسوس ہوتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں جیسے شراب پینے والا مدہوش ہو جاتا ہے اسی طرح میرے محبوب کو ایک نظر دیکھنا بھی شراب کے نشے میں دھت ہونے سے کم نہیں۔
احمد فراز ایسی آنکھوں کے بارے میں کہتے ہیں:
ان کی آنکھوں کو کبھی غور سے دیکھا ہے فراز
سونے والوں کی طرح جاگنے والوں جیسی
ایک اور شاعر اپنے محبوب کی آنکھوں کی تعریف اس طرح کرتے ہیں :
جھیل اچھی ہے کنول اچھا ہے کہ جام اچھا ہے
تیری آنکھوں کے لیے کون سا نام اچھا ہے
نوٹ : امید ہے کہ آپ میر تقی میر کی اس غزل کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.