ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
آج کی اس پوسٹ میں ہم مرزا غالب کی غزل ٫٫ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے ،، کی تشریح پڑھیں گے ۔
شعر نمبر 1 :
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان، لیکن پھر بھی کم نکلے
مشکل الفاظ کے معانی: خواہشیں ( تمنا ، آرزو )، دم نکلنا( جان نکلنا ، نہایت فریفتہ ہونا ) ، ارمان (حسرت ، وہ خواہش جو پوری نہ ہو )
مفہوم : میرے دل میں بے شمار خواہشیں ایسی ہیں کہ جن کے پورا کرنے کے لیے دم نکلا جارہا ہے، میری بہت کی خواہشیں پوری ہوئی ہیں لیکن پھر بھی کم ہیں۔
تشریح : انسان اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات میں سب سے برتر اور شاہکار مخلوق ہے ۔ جہاں اس میں اور بہت ہی ممتاز خصوصیات ہیں وہاں ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ انسان خواہش رکھتا ہے اور خواب دیکھتا ہے۔ فرشتے اور انسان میں یہی فرق ہے کہ فرشتے کے دل میں خواہش کا گزر تک نہیں ہوتا جب کہ انسان کا دل خواہشات کا منبع ہوتا ہے۔ اس کے دل میں خواہشات پیدا ہوتی رہتی ہیں اور وہ کبھی ختم نہیں ہوتیں ۔ اگر اس کی ایک خواہش پوری ہوتی ہے تو اس کی جگہ کوئی دوسری خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔ امیر ہو یا غریب، بادشاہ ہو یا فقیر ہر ایک کی خواہشات ہوتی ہیں ۔ انسان خواہشات کو پورا کرنے کے لیے ساری زندگی تگ و دو کرتا رہتا ہے۔ بہت کی خواہشیں پوری ہو جاتی ہیں جب کہ بہت کی پوری نہیں ہوتیں ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے :
ضرورتیں فقیر کی بھی پوری ہو جاتی ہیں لیکن٫٫ خواہشیں بادشاہوں کی بھی پوری نہیں ہوتیں،، ۔
انسانی فطرت ہے کہ اس کی سو خواہشوں میں سے اگر ننانوے خواہشیں پوری ہو جائیں اور کوئی ایک خواہش پوری نہ ہو تو وہ ننانوے خواہشوں پر خوش ہونے کی بجائے اس ایک ادھوری خواہش پر روتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کو فتح کرنے والا سکندر یونانی بھی مرتے وقت وصیت کرتا ہے کہ میرے ہاتھ کفن سے باہر نکال دیے جائیں تا کہ لوگوں کو معلوم ہو میری خواہشات بھی پوری نہیں ہو سکیں۔ میں بھی بہت سی ادھوری خواہشیں دل میں لیے دنیا سے رخصت ہو رہا ہوں۔
تمنا وہ تمنا ہے جو دل کی دل میں رہ جائے
جو مر کر بھی نہ پورا ہو، اسے ارمان کہتے ہیں
تشریح طلب شعر میں غالب کہتے ہیں کہ میری بہت کی خواہشیں ایسی ہیں کہ ہر ایک خواہش کو پورا کرنے کے لیے میرا دم نکلا جا رہا ہے۔ اگرچہ میری بہت سی خواہشیں پوری ہوگئیں لیکن میرے لیے یہ بہت کم ہیں۔ میری بہت سی خواہشیں ادھوری رہ گئیں، دل میں ابھی بھی تشنگی باقی ہے اور خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے میرا دم نکلا جا رہا ہے۔ ایک اور جگہ غالب کہتے ہیں :
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
مولانا حالی اس شعر کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ خواہش پردم نکلنا سے مراد خواہش کے پورا ہونے کے لیے جلدی کرنا ہے۔ یعنی خواہش کی تکمیل کے لیے کیوں مرے جارہے ہو اس قدر جلدی کیوں مچا رہے ہو ۔ دراصل انسان کو جب پانی نہ ملے تو وہ سمجھتا کہ شاید وہ پانی کے بغیر مر جائے گا لیکن جب اسے پانی مل جاتا ہے تو وہ سمجھتا ہےکہ وہ پانی کے بغیر رہ سکتا تھا بالکل اس طرح انسان کی فطرت ہے کہ جب اس کے دل میں کسی چیز کی خواش پیدا ہوتی ہےتو وہ اے حاصل کرنے کے لیے تڑپتا رہتا ہے جب تک کہ اسے حاصل نہ کر لے اس کی جان پر رہتی ہے ۔ لیکن جب وہ اسے پالتا ہے تو آہستہ آہستہ اس کی اہمت کم ہوتی چلی جاتی ہے اور کوئی دوسری خواہش اس کے دل میں جنم لے لیتی ہے۔
: بقول کیفی
انسان کی خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں
دو گز زمیں بھی چاہیے دو گز کفن کے بعد
خواہشیں انسان کا سرمایہ بھی ہیں اور ساتھ ہی زندگی میں گہرے دکھ کا باعث بھی بنتی ہیں۔ انسان خواہشیں پالتا رہتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں ساری خواہشیں کسی کی بھی پوری نہیں ہوتیں۔ جب تک انسان زندہ ہے اس کے دل میں خواہشات جنم لیتی رہتی ہیں۔ ایک کے بعد دوسری ، دوسری کے بعد تیسری اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ انسان یہ کہتا ہوا قبر میں پہنچ جاتا ہے کہ اگرچہ میری بہت سی خواہشیں پوری ہوئیں لیکن پھر بھی بہت کم ہوئیں۔ الغرض قبر کی مٹی ہی انسان کی خواہشات کو ختم کرتی ہے۔
: بقول شاد عظیم آبادی
تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
شعر نمبر 2 :
ڈرے کیوں میرا قاتل؟ کیا رہے گا اس کی گردن پر؟
وہ خون جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بہ دم نکلے
مشکل الفاظ کے معانی: ڈرے ( خوف کھائے )، قاتل (قتل کرنے والا)، گردن پر خون ہوتا (قتل کا الزام لگنا) ، چشم تر ( نم آنکھ ، آنسوؤں بھری آنکھ ) ، دم بہ دم ( ہر وقت )
مفہوم : کیا میرا قاتل مجھے قتل کرنے سے اس لیے خوف زدہ ہے کہ اس کی گردن پر میرا خون ہوگا ؟ وہ خوف زدہ نہ ہو یہ خون تو مسلسل میری آنکھوں سے بہہ رہا ہے ۔
تشریح : یہ حقیقت ہے کہ مسلسل آہ و بکا اور گریہ و زاری سے ایک وقت ایسا آتا ہے جب آنکھوں میں آنسو بھی ختم ہو جاتے ہیں لیکن شدت غم کی وجہ سے اگر خون کا دباؤ بڑھ جائے تو آنکھوں میں موجود خون کی باریک باریک شریانیں پھٹ جاتی ہیں اور آنکھوں سے خون بہنے لگتا ہے۔ شاعری کی زبان میں اسے خون کے آنسو رونا کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ میر کا شعر ہے :
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لو ہو (لہو) آتا ہے جب نہیں آتا
تشریح طلب شعر میں غالب کہتے ہیں کہ شدت غم کی وجہ سے میری آنکھوں سے مسلسل خون کے آنسو جاری رہتے ہیں ۔ میرا محبوب جو مجھے قتل کرنے آیا تھا وہ میرے ان خون کے آنسوؤں کو دیکھ کر خوف زدہ ہو گیا کہ کہیں قتل کا الزام اس پر نہ آئے ۔ غالب اسے تسلی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم گھبراؤ نہیں میری آنکھوں سے یہ خون کے آنسو تو ہمہ وقت جاری رہتے ہیں اور دنیا والوں کو بھی یہ بات معلوم ہے اس لیے میرے قتل کا الزام تم پر ہرگز نہیں آئے گا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ غالب نے ظریفانہ انداز میں قاتل کی تسکین کا پہلو نکالا ہے کہ جس قدر خون میرے جسم میں تھا وہ سب تو آنکھوں کے راستے سے بہہ گیا۔ میرا قاتل اس بات سے نہ ڈرنے کہ میرا خون اس کی گردن پر رہے گا۔ کیوں کہ وہ خون جو چشم تر سے عمر بھر بہتا رہا، وہ اس کی گردن پر کیا ٹھہرے گا۔ آنکھوں میں نہیں رہا تو گردن پر کیا رہے گا۔ داغ دہلوی نے اس مضمون کو یوں بیان کیا ہے :
بخش دے اس بت سفاک کو اے داور محشر
خون ہی مجھ میں نہ تھا، خون کا دعویٰ کیسا
آنکھوں سے مسلسل خون کے آنسو بہنا انتہا درجے کا مبالغہ ہے۔ شاعر محبوب کی یاد میں مسلسل آنسو بہاتا ہے جس کی وجہ سے اس کے آنسو ختم ہو جاتے ہیں اور آنکھوں سے خون بہنے لگتا ہے۔ چناں چہ شاعر کہتا ہے کہ محبوب کے ظلم و ستم سے اور اس کی بے رخی و لاپروائی کی وجہ سے میری آنکھوں سے مسلسل خون کے آنسو جاری ہیں، یہ بھی ایک طرح سے میرا قتل ہے۔ لیکن اس قتل کا الزام محبوب پر نہیں آئے گا اس لیے محبوب کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ محبوب کو چاہیے کہ وہ اپنا ظلم وستم اسی طرح روا رکھے۔
بقول میر درد:
ادھر آ ستم گر ہنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
شعر کا دوسرا مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ محبوب قتل کے الزام کی وجہ سے اقدام قتل سے گریز کر رہا ہے لیکن اسے شاعر کی آنکھوں سے مسلسل بہنے والے خون کے آنسوؤں سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ بے رخی اور لاپروائی کے رویے کو بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ چناں چہ شاعر کہتا ہے اے محبوب کیا تم میرے قتل سے اس لیے ڈر گئے کہ تمھاری گردن پر میرا خون ہوگا ۔ تم پر میرے قتل کا الزام آئے گا۔ لیکن میری آنکھوں سے جو یہ مسلسل خون کے آنسو بہہ رہے ہیں ۔ تمھیں ان کا کوئی خوف نہیں؟اگرچہ غالب نے شعر میں محبوب کے ظلم وستم کا روایتی مضمون بیان کیا ہے لیکن یہاں بھی جدت ادا سے کام لیا ہے اور ایک انوکھے انداز میں محبوب کے ظالمانہ رویے کو بیان کیا ہے۔
بقول حالی :
غالب عام روش سے ہٹ کر چلتے ہیں
غالب محبوب پر طنز کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے چناں چہ اس شعر میں بھی طنز کا نشتر پوشیدہ ہے۔
شعر نمبر 3 :
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں، لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
مشکل الفاظ کے معانی: خلد (جنت)، آدم (حضرت آدم دنیا کے پہلے انسان ، بے آبرو ( بے عزت ) ، کوچے (گلی)
مفہوم : آدم کا جنت سے نکلنے کا واقعہ ہم سنتے آئے ہیں لیکن جس بے عزتی سے ہم تیری گلی سے نکالے گئے اس کی مثال نہیں۔
تشریح : یہ تلمیح کا شعر ہے۔ شاعر نے آدم علیہ السلام کے جنت سے نکالے جانے کے مشہور واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم اور ان کی بیوی حضرت حوا کو جنت میں آباد کیا تھا اور انھیں ہدایت کی تھی کہ ایک خاص شجر کے قریب نہ جاتا اور اس کا پھل نہ کھانا لیکن شیطان کے بہکاوے میں آکر آدم و حوا نے اس شجر کا پھل کھایا لیا جس کی وجہ سے ان کا لباس اتر گیا اور وہ جنت کے پتوں سے اپنے جسم ڈھانپنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں جنت سے نکل جانے کا حکم دیا اور انھیں زمین پر بھیج دیا۔ انھیں اپنی خطا پر ندامت ہوئی اور افسوس ہوا کہ وہ شیطان کے بہکاوے میں کیوں آئے جس کی وجہ سے انھیں جنت سے نکلنا پڑا۔
تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ہم بچپن سے یہ واقعہ سنتے آئے تھے کہ آدم کی خطا کی وجہ سے انھیں جنت سے نکال دیا گیا تھا لیکن جس بے عزتی اور رسوائی سے ہمیں تیری گلی سے نکالا گیا اس کی کوئی مثال نہیں ۔ شعر کا دوسرا پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ آدم کو تو ان کی خطا کی وجہ سے جنت سے نکالا گیا تھا لیکن ہم سے تو کوئی خطا بھی سرزد نہیں ہوئی پھر ہم اس رسوائی اور بے عزتی سے تیرے کوچے سے کیوں نکال دیے گیے ؟
عاشق کے لیے محبوب کی گلی میں جانا بڑی مسرت کا باعث ہوتا ہے۔ وہ محبوب کے دیدار کے لیے بار بار محبوب کی گلی کے چکر کاٹتا ہے۔ بعض اوقات اسے محبوب کی وجہ سے اجنبی لوگوں سے بھی بات چیت کرنی پڑتی ہے ۔
بقول مصحفی :
ترے کوچے اس بہانے مجھے دن سے رات کرنا
کبھی اس سے بات کرتا، کبھی اس سے بات کرنا
بعض اوقات اسے محبوب کی گلی میں جانے کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ بہت سی تکلیفیں اور رسوائیاں بھی جھیلنا پڑتی ہیں لیکن وہ ان سب کو ہنسی خوشی برداشت کر لیتا ہے۔ اس کے لیے سب سے تکلیف دہ اور رسوا کن بات یہ ہوتی ہے جب محبوب کی توجہ کسی غیر کی جانب ہو اور محبوب عاشق سے ملنے کی بجائے اسے اپنے کوچے سے نکل جانے کو کہتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ اس سے بڑی ذلت اور بے عزتی کی بات کیا ہوگی کہ میں دل میں ہزاروں آرزوئیں لیے محبوب سے ملنے اس کے کوچے میں بار بار جاتا ہوں لیکن وہ مجھ سے ملنے کی بجائے مجھے وہاں سے نکل جانے کا حکم دیتا ہے۔ چناں چہ شاعر کہتا ہے کہ ہم بڑے بے آبرو ہو کر محبوب کے کوچے سے نکالے گئے۔ ایک اور شعر میں غالب اسی قسم کا مضمون بیان کرتے ہیں :
میں نے کہا کہ بزم ناز چاہیے غیر سے تہی
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھایا دیا، کہ یوں؟
میر تقی میر محبوب کی گلی سے نکلنے کو یوں بیان کرتے ہیں:
یوں اٹھے آہ اس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
شعر نمبر 4:
بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرہ پر بیچ و خم کا بیچ و خم نکلے
مشکل الفاظ کے معانی: بھرم کھلنا( راز افشا ہونا ، حقیقت ظاہر ہونا) ، قامت (قد)، درازی (لمبائی ، طوالت ) ، طرہ (بالوں کا گچھا جو پیشانی پر بل کھائے ، پگڑی کا بل دار شملہ جو عزت کی علامت سمجھا جاتا ہے ) ، پیچ و خم ( بل، پھیر )
مفہوم : اگر تمھاری بل دار زلفوں کے گھونگر کھل جائیں تو تمھاری درازی قد کا بھید کھل جائے۔
تشرح : تشریح طلب شعر میں غالب کہتے ہیں کہ اے محجوب اگر تمھاری زلفیں کھل جائیں تو ان کی درازی تمھارے قد کی درازی سے زیادہ ہوگی اور تمھاری سرو قامتی کا بھرم کھل جائے گا۔ غالب نے بڑی عمدگی سے محبوب کی زلفوں کی تعریف کی ہے۔ غالب بتانا چاہتے ہیں کہ محبوب کے بال بہت گھنے ، لمبے اور گھنگرالے ہیں۔ زلفوں کا بل دار یا گھنگرالا ہونا اردو شاعری میں خوب صورتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے غالب نے طرہ پر پیچ و خم کی ترکیب استعمال کی ہے۔ جس کا مطلب گھنگرالے بل دار بال ہیں۔ غالب نے ایک منفرد انداز میں بڑی خوب صورتی سے محبوب کی زلفوں کا موازنہ محبوب کے قد سے کیا ہے۔ قد کا دراز ہونا بھی خوب صورتی کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔ محبوب نے اپنے قد کو دراز ظاہر کرنے کے لیے اپنے بل دار گھنگرالے بالوں کو ایک خاص انداز میں گچھا بنا کر سر پر رکھا ہوا ہے تاکہ اسکا قد دراز معلم ہوتا ۔
بقول مجاز لکھنوی:
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تیری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے
چنانچہ تشریح طلب شعر میں غائب کہتے ہیں کہ اسے جو اگر تمھاری زلفوں کے بل اور گھونگر کھل جائیں جائیں تو تمھارے بالوں کی اصل لمبائی ظاہر ہو جائے گی ۔ جو تمھارے قد سے بھی زیادہ دراز ہیں، اس طرح تمھاری درازی قد کی حقیقت کھل جائے گی ۔ لہٰذا تمھارا اپنے قد کی درازی پر ناز اور فخر کرنا ہے جا ہے۔ اگر فخر کرنا ہے تو زلفوں کی درازی پر کرو۔ ایک اور شاعر محبوب کی زلفوں کی تعریف یوں کرتے ہیں :
چوم لیتی ہیں لٹک کر کبھی چہرہ کبھی لب
تم نے زلفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا ہے
جو پھنسا پھر نہ کبھی اس نے رہائی مانگی
تیری زلفوں نے عجب جال بچھا رکھا ہے
شعر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ غالب کہتے ہیں اسے محبوب تمھاری قامت کی درازی کی لوگ بہت تعریف کرتے ہیں لیکن یہ تعریفیں اس وقت تک ہیں جب تک تمھاری زلفیں لپٹی ہوئی ہیں۔ جس وقت تمھاری طویل زلفوں کے بل کھلیں گے اور پیچ و خم نکلیں گے تو تمھاری قامت کی درازی کا بھید کھل جائے گا۔ لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ تمھاری زلفیں تمھارے قد سے بھی زیادہ دراز ہیں۔ غالب نے نہایت خوب صورتی سے بیان کیا ہے کہ محبوب کی زلفیں محبوب کے قد سے بھی زیادہ دراز ہیں ۔ مومن خان مومن نے محبوب کی زلفوں کی درازی کو اس طرح بیان کیا ہے :
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
طرہ کا ایک مطلب پگڑی کا شملہ بھی ہوتا ہے جو عزت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے شعر کا مفہوم یہ ہو گا کہ محبوب نے اپنا قد دراز ظاہر کرنے کے لیے اپنے سر پر ایک خاص طرے والی بل دار پگڑی باندھی ہے۔ جس کی وجہ سے محبوب کا قد دراز لگنے لگا ہے ۔ شاعر محبوب سے کہتا ہے اے محبوب مجھے معلوم ہے کہ تم دراز قد نہیں ہو ، اگر میں تمھاری پگڑی کے بل کھول دوں تو تمھاری درازی قد کی حقیقت کھل جائے۔
شعر نمبر 5 :
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستہ تیغِ ستم نکلے
مشکل الفاظ کے معانی: توقع (امید) خستگی ( شکستہ حالی ، خراب حالت)، داد ( تعریف و تحسین ) ، خستہ (خراب حالت ، زخمی) تیغِ ستم ( ظلم کی تلوار )
مفہوم : اپنی خستہ حالت پر جن سے ہمیں ہمدردی کی امید تھی وہ ہم سے بھی زیادہ ستم رسیدہ نکلے۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ جن لوگوں سے ہمیں امید تھی کہ وہ ہماری خستگی اور دردمندی کی داد دیں گے، ہم نے جس کسی سے بھی اپنی خستگی کی داد ملنے کی توقع کی، جس کے سامنے بھی اس بات کا فخر کرنا چاہا کہ ہم نے محبوب کے ہاتھوں اتنے ستم سہے ہیں، وہ لوگ ہم سے بھی زیادہ محبوب کے ہاتھوں زخمائے اور ستائے ہوئے نکلے۔ خستہ تیغِ ستم ” کا مطلب ظلم و ستم کی تلوار سے حالت خراب ہونا ہے۔ تیغِ ستم سے مراد محبوب بھی ہو سکتا ہے اور زمانہ بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی شاعر کی خستہ حالت محبوب کے ظلم و ستم اور اس کی بے رخی کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے اور زمانے کی مشکلات اور مصائب کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔ چناں چہ شعر کا دوسرا پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ ہمیں جن لوگوں سے یہ امید تھی کہ وہ ہماری خستہ حالی دیکھ کر ہم سے اظہارِ ہمدردی کریں گے، ہماری داد رسی اور دل جوئی کریں گے۔ ہمارا غم غلط کرنے کے لیے ہمیں تسلی دیں گے۔ جب ہم ان سے ملے اور ان کے سامنے اپنی خستہ حالی اور اپنا درد بیان کیا تو انھوں نے بھی اپنی درد بھری داستان سنائی۔ جس سے معلوم ہوا کہ وہ تو ہم سے بھی زیادہ خستہ حال اور ستم رسیدہ ہیں اور ہم سے بھی زیادہ زمانے کے ہاتھوں ستائے ہوئے ہیں۔
بقول شاعر:
جس کو دیکھو وہ کسی غم میں روتا کیوں ہے
ایسا ہوتا ہے جو دنیا میں تو ہوتا کیوں ہے
غالب کی ذاتی زندگی کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ غالب کو عمر بھر دکھوں اور غموں نے گھیرے رکھا۔ وہ بچپن ہی میں یتیم ہو گئے ۔ والد کی وفات کے بعد چچا کے زیرِ کفالت آگئے لیکن پانچ برس بعد ان کی بھی وفات ہوئی۔ جوانی میں غم روزگار کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی آمدنی کا کوئی مستقل ذریعہ نہیں تھا۔ ان کی تمام اولاد بچپن ہی میں فوت ہو گئی اس لیے اولاد سے محرومی کا دکھ الگ تھا۔ غدر کے بعد انگریزوں کا ظلم وستم انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ان کے بہت سے دوست احباب دلی چھوڑ کر چلے گئے جس کی وجہ سے غالب تنہا رہ گئے ۔ غرض عمر بھر انھیں دکھوں اور تکلیفوں کا سامنا ر ہا لیکن غالب کہتے ہیں میں نے جس کسی سے بھی اپنا غم بیان کیا وہ مجھ سے بھی زیادہ دکھی اور ستم رسیدہ نکلا ۔ ایک شعر میں اسد اللہ خاں غالب کہتے ہیں :
یہ لاش بے کفن، اسد خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا
ہر شخص کی زندگی میں ہزاروں غم آتے ہیں۔ کسی کی بھی حالت یکساں نہیں رہتی ۔ ہر شخص کو زندگی کے اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دکھ درد میں اگر کوئی دل جوئی کرنے والا اور تسلی دینے والا ہو تو تکلیف کی شدت کا احساس کم ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی غم بانٹنے والا نہ ہو، کوئی ہمدردی کرنے والا خیر خواہ نہ ملے تو غم اور بڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ غم بانٹنے سے کم ہو جاتے ہیں اور خوشیاں بانٹنے سے بڑھ جاتی ہیں ۔ شاعر کو اسی بات کا غم ہے کہ اسے کوئی تسلی دینے والا نہ ملا۔ جس کسی کو بھی غموں کی داستان سنانا چاہی وہ اس سے بھی زیادہ دکھی نکلا۔ ہر شخص نے اپنا غم بڑھا چڑھا کر بیان کیا۔ ہرشخص کو صرف اپنی پڑی ہوئی تھی ۔
بقول ناصر کاظمی :
ہر کوئی اپنے غم میں ہے مصروف
کس کو درد آشنا کہے کوئی
شعر نمبر 6 :
محبت میں نہیں ہے فرق مرنے اور جینے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
مشکل الفاظ کے معانی: کافر ( منکر، یہاں مراد محبوب ) ، دم نکلنا ( جان نکلنا )
مفہوم : محبت میں جینا اور مرنا یکساں ہے، میں جس پر مرتا ہوں اس کو دیکھ کر جیتا ہوں ۔
تشرح : تشریح طلب شعر یں شاعر کہتا ہے کہ محبت میں مرنے اور جینے کا امتیاز ختم ہو گیا۔ کیوں کہ جس کو دیکھ کر ہم جیتے ہیں، اس کافر پر ہم مرتے ہیں۔ مصرع اولیٰ میں مرنے اور جینے سے لفظی معنی مراد ہیں۔ لیکن مصرع ثانی میں جیتے ہیں” سے مراد خوش ہوتا ہے اور دم نکلنے سے مراد محبت کرتا ہے۔ یعنی شاعر کہتا ہے کہ جس کافر پر ہمار دم نکلتا ہے جس پر ہم مرتے ہیں اور جان قربان کرنے کو تیار ہیں اس کو دیکھ کر ہمیں راحت نصیب ہوتی ہے اور زندگی ملتی ہے۔ تو پھر اس میں کیا شک ہے کہ محبت میں مرنا اور جینا ایک ہی بات ہے۔ دونوں میں کوئی فرق نہیں ۔
بقول شاعر:
محبت میں نہیں ہے شرط جینے اور مرنے کی
یہ ان خود غرض لفظوں سے بہت آگے کی دنیا ہے
محبت میں زندگی اور موت کوئی معنی نہیں رکھتے ۔ عاشق کے لیے محبوب کی خوش نودی سب سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ اگر محبوب کی رضا و خوش نودی عاشق کی موت میں ہے تو عاشق کے لیے یہی سب سے بڑی راحت ہے اور اگر محبوب کی خوش نودی عاشق کی زندگی میں ہے تو عاشق کے لیے اس میں خوشی ہے۔ ایک سچا عاشق محبوب کو دیکھ کر راحت محسوس کرتا ہے اور زندگی پاتا ہے۔ اس کے برعکس محبوب کی جدائی یا اس سے دوری اس کے لیے موت کی مانند ہوتی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جس محبوب کے دیدار سے مجھے زندگی مل جاتی ہے اس محبوب کی جدائی میرے لیے موت کی مانند سخت ہے۔
بقول خواجہ عزیز الحسن مجذوب:
آگئے پہلو میں راحت ہو گئی
چل دیے اُٹھ کر قیامت ہو گئی
اور بقول فراق گورکھ پوری:
محبت میں مری تنہائیوں کے ہیں کئی عنواں
ترا آنا ، ترا ملنا ، ترا اٹھنا، ترا جانا
شعر کا دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ میرا محبوب ہی میری زندگی اور موت ہے۔ اگر محبوب مجھے محبت بھری نظر سے دیکھ لے تو مجھے نئی زندگی مل جاتی ہے لیکن اگر وہ مجھ سے نظریں چرا لے اور بے رخی کا رویہ اپنائے تو میرے لیے یہ تکلیف موت کی مانند ہے۔ ہم جس کی محبت کے حصول کے لیے جان دیتے ہیں اس کی محبت بھری نظر سے زندگی پاتے ہیں۔
شاعری میں محبوب کی سنگ دلی اور لاپروائی کے لیے محبوب کو پتھر ، صنم اور بت وغیرہ کے الفاظ سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ غالب نے اس شعر میں محبوب کو کافر کہ کر مخاطب کیا ہے۔ کافر خدا کے منکر شخص کو کہتے ہیں لیکن اس سے مراد عاشق کی محبت سے انکاری شخص ہے۔ جس پر عاشق کی کسی قربانی اور دعا کا اثر نہیں ہوتا۔ غالب محبوب کو کافر کہ کر اسے اس کے ظلم وستم اور زیادتیوں کا احساس دلا رہے ہیں۔
بقول میر تقی میر:
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
شعر نمبر 7 :
کہاں مے خانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
مشکل الفاظ کے معانی: مے خانہ (شراب خانہ )، واعظ ( نصیحت کرنے والا )
مفہوم : اے غالب ! واعظ کو مے خانے سے مطلب نہیں ہوتا لیکن کل جب ہم مے خانے سے نکلے تو واعظ داخل ہو رہا تھا۔
تشرح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ شراب ایسی چیز ہے کہ اسے واعظ بھی چھپ چھپ کر پیتے ہیں۔ واعظ شراب پینے سے دوسروں کو منع کرتا ہے اور شراب پینے والوں پر تنقید کرتا ہے۔ اس لیے کوئی سوچ بھی نہں سکتا کہ واعظ بھی مے خانے جا سکتا ہے۔ کہاں مے خانے کا دروازہ اور کہاں واعظ ؟ دونوں میں کوئی میل نہیں۔ لیکن کل کی بات ہے کہ ہم نے انھیں مے خانے میں جاتے دیکھا۔ ہم مے خانے سے شراب پی کر نکل رہے تھے اور حضرت واعظ مے خانے میں داخل ہورہے تھے ۔ گویا غالب طنزاً کہ رہے ہیں کہ واعظ کی پارسائی کی جس قدر دھوم ہے ہم اس سے بے خبرنہیں ہیں۔
بقول حسن رضا شائی
وہ بھی اپنی قبیل کا نکلا
ہم جسے پارسا سمجھتے تھے
غالب نے معاشرے کے منافقانہ رویے پر طنز کی ہے کہ بظاہر معاشرے میں نیک اور پارسا نظر آنے لوگوں کے بھی قول و فعل میں تضاد ہے ۔ جس چیز سے وہ دوسروں کو منع کرتے ہیں خود اس میں مبتلا ہوتے ہیں۔ الغرض شوخی اور طنز سے بھر پور شعر ہے۔ بقول دیوان غالب:
آیا جو مے کدے میں تو کئی جام پی گیا
زاہد بھی سر جھکا کے کئی جام پی گیا
نوٹ : امید ہے کہ آپ غالب کی اس غزل کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.