ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

آج کی اس پوسٹ میں ہم مرزا غالب کی غزل ٫٫ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے ،، کی تشریح پڑھیں گے ۔

شعر نمبر 1 : 

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے میرے ارمان، لیکن پھر بھی کم نکلے

مشکل الفاظ کے معانی: خواہشیں ( تمنا ، آرزو  )، دم نکلنا( جان نکلنا  ، نہایت فریفتہ ہونا ) ، ارمان (حسرت ، وہ خواہش جو پوری نہ ہو )

مفہوم : میرے دل میں بے شمار خواہشیں ایسی ہیں کہ جن کے پورا کرنے کے لیے دم نکلا جارہا ہے، میری بہت کی خواہشیں پوری ہوئی ہیں لیکن پھر بھی کم ہیں۔

تشریح :  انسان اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات میں سب سے برتر اور شاہکار مخلوق ہے ۔ جہاں اس میں اور بہت ہی ممتاز خصوصیات ہیں وہاں ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ انسان خواہش رکھتا ہے اور خواب دیکھتا ہے۔ فرشتے اور انسان میں یہی فرق ہے کہ فرشتے کے دل میں خواہش کا گزر تک نہیں ہوتا جب کہ انسان کا دل خواہشات کا منبع ہوتا ہے۔ اس کے دل میں خواہشات پیدا ہوتی رہتی ہیں اور وہ کبھی ختم نہیں ہوتیں ۔ اگر اس کی ایک خواہش پوری ہوتی ہے تو اس کی جگہ کوئی دوسری خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔ امیر ہو یا غریب، بادشاہ ہو یا فقیر ہر ایک کی خواہشات ہوتی ہیں ۔ انسان خواہشات کو پورا کرنے کے لیے ساری زندگی تگ و دو کرتا رہتا ہے۔ بہت کی خواہشیں پوری ہو جاتی ہیں جب کہ بہت کی پوری نہیں ہوتیں ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے :

ضرورتیں فقیر کی بھی پوری ہو جاتی ہیں لیکن٫٫  خواہشیں بادشاہوں کی بھی پوری نہیں ہوتیں،، ۔

انسانی فطرت ہے کہ اس کی سو خواہشوں میں سے اگر ننانوے خواہشیں پوری ہو جائیں اور کوئی ایک خواہش پوری نہ ہو تو وہ ننانوے خواہشوں پر خوش ہونے کی بجائے اس ایک ادھوری خواہش پر روتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کو فتح کرنے والا سکندر یونانی بھی مرتے وقت وصیت کرتا ہے کہ میرے ہاتھ کفن سے باہر نکال دیے جائیں تا کہ لوگوں کو معلوم ہو میری خواہشات بھی پوری نہیں ہو سکیں۔ میں بھی بہت سی ادھوری خواہشیں دل میں لیے دنیا سے رخصت ہو رہا ہوں۔

تمنا وہ تمنا ہے جو دل کی دل میں رہ جائے

جو مر کر بھی نہ پورا ہو، اسے ارمان کہتے ہیں

تشریح طلب شعر میں غالب کہتے ہیں کہ میری بہت کی خواہشیں ایسی ہیں کہ ہر ایک خواہش کو پورا کرنے کے لیے میرا دم نکلا جا رہا ہے۔ اگرچہ میری بہت سی خواہشیں پوری ہوگئیں لیکن میرے لیے یہ بہت کم ہیں۔ میری بہت سی خواہشیں ادھوری رہ گئیں، دل میں ابھی بھی تشنگی باقی ہے  اور خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے میرا دم نکلا جا رہا ہے۔ ایک اور جگہ غالب کہتے ہیں :

عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب

دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک

مولانا حالی اس شعر کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ خواہش پردم نکلنا سے مراد خواہش کے پورا ہونے کے لیے جلدی کرنا ہے۔ یعنی خواہش کی تکمیل کے لیے کیوں مرے جارہے ہو اس قدر جلدی کیوں مچا رہے ہو ۔  دراصل انسان کو جب پانی نہ ملے تو وہ سمجھتا کہ شاید وہ پانی کے بغیر مر جائے گا لیکن جب اسے پانی مل جاتا ہے تو وہ سمجھتا ہےکہ وہ پانی کے بغیر رہ سکتا تھا بالکل اس طرح انسان کی فطرت ہے کہ جب اس کے دل میں کسی چیز کی خواش پیدا ہوتی ہےتو وہ اے حاصل کرنے کے لیے تڑپتا رہتا ہے جب تک کہ اسے حاصل نہ کر لے اس کی جان پر رہتی ہے ۔ لیکن جب وہ اسے پالتا ہے تو آہستہ آہستہ اس کی اہمت کم ہوتی چلی جاتی ہے اور کوئی دوسری خواہش اس کے دل میں جنم لے لیتی ہے۔

 : بقول کیفی

انسان کی خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں

دو گز زمیں بھی چاہیے دو گز کفن کے بعد

خواہشیں انسان کا سرمایہ بھی ہیں اور ساتھ ہی زندگی میں گہرے دکھ کا باعث بھی بنتی ہیں۔ انسان خواہشیں پالتا رہتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں ساری خواہشیں کسی کی بھی پوری نہیں ہوتیں۔ جب تک انسان زندہ ہے اس کے دل میں خواہشات جنم لیتی رہتی ہیں۔ ایک کے بعد دوسری ، دوسری کے بعد تیسری اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ انسان یہ کہتا ہوا قبر میں پہنچ جاتا ہے کہ اگرچہ میری بہت سی خواہشیں پوری ہوئیں لیکن پھر بھی بہت کم ہوئیں۔ الغرض قبر کی مٹی ہی انسان کی خواہشات کو ختم کرتی ہے۔

: بقول شاد عظیم آبادی

تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں

کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں

شعر نمبر 2 :


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply