گل کو ہوتا صبا ! قرار اے کاش !
آج کی اس پوسٹ میں ہم میر تقی میر کی ایک غزل جو کہ پنجاب بورڈ جماعت گیارہویں کے نصاب میں شامل ہے ، کی تشریح و توضیح کریں گے ۔
شعر نمبر 1 :
گل کو ہوتا صبا ! قرار ہے کاش!
رہتی ایک آدھ دن بہار ہے کاش!
مشکل الفاظ کے معانی : قرار (قیام ، ٹھہرنا) ، کاش (حسرت کے لیے جو کلمہ بولا جاتا ہے )
مفہوم : کاش کہ جو پھول کھلا ہے کچھ دیر کھلا ہی رہتا اور جو بہار آئی ہے اس کی مدت میں چند دنوں ک اضافہ ہو جاتا ۔
تشریح : اس شعر میں میر تقی میر صبح کی ہوا سے مخاطب ہو کر کہہ رہے ہیں کہ کاش ایسا ہوتا کہ چمن میں پھول کچھ دیر کے لیے کھلے رہتے ۔ صبح سویرے ہوا جب غنچوں کو مس کرتی ہے تو پھول کھل اٹھتے ۔ اس لیے میر تقی میر نے صبا کو بڑی حسرت اور مان ارمان کے ساتھ مخاطب کر کے یہ کہا ہے کہ چمن کے اندر جو پھول ہے کچھ مزید وقت کے لیے کھلا رہے مگر قانونِ فطرت ہے کہ پھول کھلنے کے بعد مرجھا جاتا ہے ۔ ساتھ ہی دوسرے مصرعے میں میر نے یہ خواہش کی ہے کہ اب کی بار جو موسم بہار آیا ، کتنا اچھا ہوتا ہے اس کی مہلت میں بھی تھوڑا سا اضافہ ہو جاتا لیکن میر کی یہ خواہش بھی پوری نہ ہو سکی کیونکہ موسم بہار تھوڑے عرصے کے لیے آتا ہے پھر مخصوص مدت کے بعد رخصت ہو جاتا ہے ۔ یہاں شاعر کے ذاتی حالات کو دیکھیں تو ان کی زندگی میں خوشیوں اور خوشحالیوں کو عمل دخل نہیں ہے ۔ جس کی بدولت میر نے یہ خواہش کی ہے کہ اگر میری زندگی میں چند دنوں کی خوشیاں آتی ہیں ، کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان میں اضافہ ہو جاتا ہے یہ خوشیوں کا موسم کچھ دیر کے لیے رک جاتا مگر میر تقی میر کی یہ دونوں خواہشیں دل میں ہی رہ جاتی ہیں ۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
کرتے ہیں محبت سب ہی مگر ہر دل کو صلہ کا ملتا ہے
آتی ہے بہاریں گلشن میں ہر پھول مگر کب کھلتا ہے
اس شعر میں شاعر نے انسانی زندگی کی ناپائیداری اور فانی ہونے کا مضمون باندھا ہے ۔ دنیا کی زندگی چار روزہ ہے اس بے ثبات جہان رنگ و بو میں کسی کو دوام حاصل نہیں۔ انسان کو موت کی تلوار فنا کے گھاٹ اتار دیتی ہے ۔ گویا اس دنیا کی مثال پھول اور بہار کی مانند ہے ۔ جس طرح وہ تھوڑے عرصے کے لیے ہوتے ہیں ۔ اسی طرح یہ دنیا اور دنیا کی تمام چیزیں مع انسان بھی تھوڑے وقت کے لیے ہے۔ اس لیے اس عالمِ ناپائیدار کی کوئی چیز بھی آج تک فنا کے اصول سے بچ نہیں سکی۔
شعر نمبر 2 :
یہ جو دو آنکھیں مند گئیں میری
اس پہ وا ہوتیں ، ایک بار اے کاش
مشکل الفاظ کے معانی : آنکھیں مند جانا (آنکھوں کا بند ہو جانا) ، وا ہونا (کھلنا )
مفہوم : کاش کہ مرنے سے پہلے پہلے یہ آنکھیں ایک بار محبوب کے دیدار کا شرف حاصل کر لیتی مگر افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا ۔
تشریح : ہر عاشق اپنے محبوب کے وصال کے لیے خواہش مند ہوتا ہے یا یہ کہ کم سے کم اپنے محبوب کا دیدار تو ہو جائے مگر ایسا خوش نصیب لوگوں کے ساتھ ہی ہوتا ہے کہ انہیں اپنا پیار مل جائے اور اپنے محبوب کا دیدار ہو جائے ۔ تشرح طلب شعر میں میر تقی میر نے محبوب کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بڑی حسرت کی ہے مگر شاعر کو ناکامی ہوئی ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ اے کاش ایسا ہوتا کہ میں مرنے سے پہلے پہلے ایک بار اپنے محبوب کو دیکھ لیتا مگر میری آنکھیں محبوب کی دید کو ترستی ہی رہیں ۔ اس خواہش نے میرے اندر ہی دم توڑ دیا کیونکہ محبوب نے اتنا ظلم روا رکھا ہے کہ اسے زندگی کے آخری لمحے بھی ملنے نہیں آیا اور یوں عاشق صادق اپنے محبوب کا دیدار کیے بغیر ہی ملک عدم سدھار گیا ۔ سچی لگن ہو تو عاشق کا دل اپنے محبوب کے لیے بے قرار رہتا ہے کیونکہ اس کے دل کی ہر دھڑکن اسی امید پر دھڑکتی ہے کہ شاید محبوب کا دل نرم ہو جائے ۔
بقول مرزا غالب :
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
شاعر آخری ہچکی تک اپنے محبوب کی ایک دید کے لیے مضطرب رہا کہ کاش یہ آنکھیں ایک بار اس کو دیکھ لیں۔ پھر ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں مگر افسوس کہ یہ آنکھیں محبوب پر وا نہ ہو سکی اور اس کی دید کیے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہو گئی ۔ بقول مومن خان مومن :
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
مگر شاعر آخری سانس تک منتظر رہا کہ ہو سکتا ہے کہ اس کا محبوب آ جائے مگر محبوب پر جوں تک نہ رینگی اور شاعر کی محبوب کو دیکھنے کی خواہش ، خواہش نا تمام سے آگے نہ بڑھ سکی ۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
یہ محرومی نہیں پاسِ وفا ہے
کوئی تیرے سوا دیکھا نہ جائے
شعر نمبر 3 :
کن نے اپنی مصیبتیں نہ گنیں
رکھتے میرے بھی غم شمار ہے کاش !
مشکل الفاظ کے معانی : شمار کرنا( گنتی کرنا)
مفہوم: ہر شخص اپنے دکھی دل کی داستاں مجھے سنا رہا ہے مگر افسوس کہ میرے دل کی داستاں سننے والا کوئی نہیں ۔
تشریح : انسانی نفسیات ہے کہ جب وہ دکھی ہوتا ہے تو اپنے دکھ اور غم دوسروں کو بتاتا ہے ۔ ہر انسان اپنے دکھوں کی داستان اور غم کا فسانہ اپنے چاہنے والوں کو سناتا ہے اور یہی سمجھتا ہے کہ وہ اس کائنات میں بڑا دکھی ہے اور کرب کے لمحوں میں جی رہا ہے ۔ سارے انسان اپنے غموں کا مداوا اور اس کی تشہیر کسی نہ کسی ذریعے سے کرتے رہتے ہیں ۔ تشریح طلب شعر میں میر تقی میر نے بڑے خوبصورت انداز میں کہا ہے کہ کون ایسا ہے جو اپنی مصیبتوں کو شمار میں نہ لاتا ہو یا اپنے غموں کی گنتی نہ کرتا ہو ۔ کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس نے اپنے غموں کے بارے میں کسی نہ کسی کو نہ بتایا ہو ۔ میر تقی میر جو غموں میں پل کر جوان ہوئے تھے۔ اس شعر کے دوسرے مصرعے میں یہی خواہش کر رہے ہیں کہ کاش کوئی میرے غموں کو بھی شمار میں لاتا ۔ کوئی میرے دکھوں کا ساتھی ہوتا ۔ جو میرے دکھ درد میں شریک ہوتا ۔ میرے ایک ایک دکھ اور کرب کے بارے میں پوچھتا اور ان دکھوں اور غموں سے مجھے نجات دلانے کی کوشش کرتا مگر افسوس کہ میرے غموں اور دکھوں کا گیت سننے والا کوئی نہیں ہے ۔
کسی شاعر نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے:
وہ جو گیت تم نے سنا نہیں میری عمر بھر کر ریاض تھا
میرے درد کی تھی وہ داستان جسے تم ہنسی میں اڑا گئے
شاعر اپنی بے بسی کا نوحہ سناتے ہوئے یہی کہہ رہا ہے کہ ساری دنیا مجھے اپنے دکھ درد کی کہانیاں سنا سنا کے روتی ہے اور خود کو دکھی ثابت کرتی ہے مگر کبھی کسی نے میرے دکھ اور مجھ پر گزرنے والی قیامتوں کا حال پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی ۔ شاعر اسی سوچ میں گم ہے کہ ہر شخص اپنا ہی غم سناتا ہے اور اپنے ہی بارے میں غمزدہ ہے ۔ کسی کو یہ فرصت نہیں کہ کبھی میرا حال ہی پوچھ لیتا ہے مگر یہ خواہش حسرت داماں کی صورت شاعر کے دکھی دل میں دفن ہو گئی اور شاعر کا درد آشنا کوئی نہیں ۔
شعر نمبر 4 :
جان آخر تو جانے والی تھی
اس پہ کی ہوتی میں نثار اے کاش!
مشکل الفاظ کے معانی : نثار (قربان کرنا ، نچھاور کرنا)
مفہوم : جان فانی ہے آخر چلی جائے گی ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اسے کسی عظیم مقصد کے حصول کے لیے قربان کر دیا جائے ۔
تشریح : میر تقی میر نے اس شعر میں ایک روایتی مضمون باندھا ہے ۔ اس کائنات کے اندر موجود ہر چیز نے ٹوٹنا ہے ہر انسان نے موت کی آغوش میں جانا ہے ۔ انسان اس کائنات میں ہزار سال بھی جی لے ، آخر ایک دن موت کو گلے لگانا ہی ہے ۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے اور اس سے چھٹکارا ممکن نہیں ۔ اسی جان کو انسان اگر کسی اچھے کام کے لیے قربان کر دے تو وہ جان ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتی ہے اور انسان ہمیشہ کے لیے سرخرو ہو جاتا ہے ۔ کسی نہ کسی دن مرنا تو ہے ہی اگر اس زندگی کو کسی پر قربان کر دیا جائے تو یہ ایک بہت بڑی سعادت ہے۔ اس شعر میں شاعر عشق حقیقی کی بات کرتا ہے ۔ یہ جان خدا نے ہی دی ہے اور ایک نہ ایک دن مر ہی جانا تھا ۔ کتنا ہی اچھا ہوتا کہ یہ جان خدا کے لیے قربان کر دی جائے اس جان کا صحیح مصرف بھی یہی ہے کہ جس نے جان عطا کی ہے اسی کی خاطر لڑا دی جائے ۔
مرزا غالب نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے :
جان دی ، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
شاعر کی دلی خواہش تھی کہ وہ اپنی جان کسی عظیم مقصد کی خاطر نثار کر دے کیونکہ وہی لوگ عظیم کہلاتے ہیں جو کسی خاص مقصد کے لیے اپنا تن ، من اور دھن وار دیتے ہیں ۔ عاشق کے لیے اس سے بڑی سعادت اور خوشی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کی جان محبوب پر نچھاور کر دی جائے ۔ عاشق اسی حسرت کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ یہ جان تو ایک دن چلی جائے گی کتنا ہی اچھا ہوتا اس جان کو محبوب کی خاطر قربان کر دیا جائے یعنی یہ جان محبوب پر نثار کر دی جائے مگر عاشق کی یہ حسرت پوری نہیں ہو سکی
شعر نمبر 5 :
اس میں راہ سخن نکلتی تھی
شعر ہوتا تیرا شعار ہے کاش !
مشکل الفاظ کے معانی : راہ سخن ( بات کرنے کی راہ ) ، شعار( طریقہ )
مفہوم : کاش کہ میرے محبوب کو بھی شاعری کا شوق ہوتا تو ہم شاعری کی زباں میں ہی ایک دوسرے سے کلام کرتے اور کسی کو معلوم ہی نہ پڑتا ۔
تشریح : میر تقی میر نے اس شعر میں بڑا عمدہ مضمون بیان کیا ہے کہ اگر میرے محبوب کو شعر فہمی کا ذوق و شوق ہوتا تو کتنا ہی اچھا ہوتا میں اپنے دل کا حال شاعری کے ذریعے بیان کر دیتا اور میرا محبوب اپنا حال بھی شاعری کی صورت میں مجھے پہنچا دیتا ۔ یوں ہمارے لیے بات چیت کرنے کا آسان سا راستہ نکل آتا مگر ایسا ممکن نہیں ہو سکا ۔ محبوب کو شاعری کی الف ب کا بھی علم نہیں ۔ شعر کہنا اور شعر سمجھنا تو دور کی بات ہے گویا شاعر کے دل کی حسرت پوری نہ ہو سکی کہ وہ اپنی دلی کیفیات اور جذبات کو شاعری کا لباس پہنا کر اسے بتا دیتا کیونکہ محبوب کو شاعری سے کوئی واسطہ نہیں ۔ اس لیے شاعر کی یہ آرزو ، محض آرزو تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اسے تکمیل نہیں مل سکا اور شاعر کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا کہ وہ اپنے دل کا مدعا شاعری کے پیرہن میں چوری چوری اپنے محبوب تک باہم پہنچا دے ۔
شعر نمبر 6 :
شش جہت اب تو تنگ ہے ہم پر
اس سے ہوتے نہ ہم دو چار کاش
مشکل الفاظ کے معانی : شش جہت (چھ اطراف ، چھ سمتیں) ، دو چار ہونا( آمنے سامنے ہونا)
مفہوم : تشریح : یہ سچ ہے کہ عشق راستے نا دیدہ ، جزیروں اور انجان گھاٹیوں میں جا کر گم ہو جاتے ہیں ۔ عشق و محبت کی پرپیچ وادی میں سفر کرنے والوں کی منزل کوئی نا کوئی دلدل ہی ٹھہرتی ہے ۔ عاشق راہ محبت میں چلتے چلتے جب اذیتوں اور مصیبتوں میں پھنس گیا تو تب اسے معلوم ہوا کہ یہ راستہ تو کانٹوں بھرا ہوا ہے ۔ یہاں قدم قدم پر ٹھوکریں اور مشکلیں ہیں۔ عاشق کو راہ عشق میں چار سو دکھوں کی آندھیوں نے آن گھیرا تو اسے پتا چلا کہ ہر طرف سے مصائب اور آلام کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں ۔ جو ہر بار ایک نیا دکھ لاتے ہیں اور جن کی وجہ سے زندگی کا قافیہ تنگ ہو چکا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ میں جدھر بھی دیکھتا ہوں ایک نیا غم میرے قلب و جگر کو رنجیدہ کر دیتا ہے ۔ حتیٰ کہ چھ کے چھ اطراف(اوپر ، نیچے ، دایاں ، بائیں ، آگے ، پیچھے) مجھ پر تنگ دکھائی دیتے ہیں ۔ اسی تنگی سے گھبرا کر شاعر کہتا ہے کہ اے کاش میں اس عشق کی وادی میں نہ اترا ہوتا مگر اب یہ ہو چکا ہے ۔ جب انسان دنیا میں آتا ہے تو اس کا دکھ اور مصیبتوں سے پالا پڑتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں شاعر نے یہ بھی کہنے کی سعی کی ہے کہ کاش میں اس دنیا میں نہ آتا تو آج یوں اذیت اور پریشانیوں میں نہ گھرا ہوتا ۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ میر تقی میر کی غزل کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.