کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا 

آج کی اس پوسٹ میں ہم احمد ندیم قاسمی کی ایک غزل ” کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا  ” کی لغت ، مفہوم اور تشریح پر جامع گفتگو کریں گے ۔

شعر نمبر 1 : 

کون کہتا ہے کہ  موت آئی تو مر جاؤں گا

میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

مشکل الفاظ کے معانی : مر جانا( مراد فنا ہو جانا ، مٹ جانا) ،  سمندر میں اترنا( مراد امر ہو جانا )

مفہوم :  موت کے بعد میں فنا نہیں ہو جاؤں گا بلکہ جس طرح دریا سمندر میں گرنے کے بعد بے کراں ہو جاتا ہے ۔ موت کے بعد میں بھی امر ہو جاؤں گا۔ تشریح : احمد ندیم قاسمی کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں وہ ایک بلند پایہ شاعر ، منفرد افسانہ نگار ، ممتاز صحافی اور عمدہ نقاد تھے ۔ احمد ندیم قاسمی کی شخصیت پر ان کے چچا جان بہادر حیدر شاہ کا گہرا اثر تھا ۔ ان کے چچا علامہ اقبال کے ہم سبق تھے۔ اس طرح احمد ندیم قاسمی کو شعر و ادب سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ احمد ندیم قاسمی نے صحافت میں بھی دلچسپی لی ۔ انھوں نے کئی ادبی رسائل شائع کیے ۔ جن میں پھول ، تعلیم نسواں ، نقوش ، س فنون اور روزنامہ امروز شامل ہیں بلکہ فنون تو ان کی شخصیت کی پہچان بن گیا ۔ وہ حرف و حکایت کے نام سے اخبارات میں فقاہیہ کالم بھی لکھتے رہے۔ احمد ندیم قاسمی کی تحریر سادہ اور رواں ہے۔ ان کے افسانوں کا موضوع دیہات کے رہنے والے عام لوگوں کے مسائل اور جذبات ہیں۔ محبت کا جذبہ ایک کائناتی حقیقت ہے۔ دیہات کے لوگ محنتی ، جفاکش اور زندگی کی بہت سی سہولیات سے محروم ہوتے ہیں لیکن محبت کا جذبہ ان کے ہاں بھی کار فرما ہوتا ہے اور یہی حقیقت احمد ندیم قاسمی کا موضوع ہے۔ ان کے افسانوں میں حقیقی زندگی کا عکس ملتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی ترقی پسند شاعر ہیں ۔ ان کی شاعری احساس کی شدت اور مضامین کی جدت کی شاعری ہے۔ ان کے کلام میں سادگی اور معنویت پائی جاتی ہے۔ وہ شعر یوں کہتے ہیں جیسے بات کر رہے ہوں ۔ ان کی شاعری پر اقبال کے خیالات کی گرفت بھی نظر آتی ہے کیونکہ یہ بھی اقبال ہی کے انداز فکر میں شاعری کرتے ہیں۔ جو انسان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے مگر اقبال کی نسبت ان کے کلام میں سادگی کا عنصر نمایاں ہے ۔

نوٹ: مندرجہ بالا اقتباس اس غزل کے کسی بھی شعر کے شروع میں لکھا جا سکتا ہے ۔

تشریح طلب شعر میں شاعر نے زندگی اور موت کا فلسفہ بیان کیا ہے۔ عموماً لوگ سمجھتے ہیں کہ جب موت آتی ہے تو انسان مر جاتا ہے اور اس کی ہستی فنا ہو جاتی ہے ۔ موت سے انسان کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔ جس پر موت آ جاتی ہے گویا وہ زندگی کی بازی ہار جاتا ہے لیکن درحقیقت انسان موت کے بعد فنا نہیں ہوتا بلکہ ایک دوسرے جہان میں چلا جاتا ہے۔ دنیا کی عارضی اور مختصر زندگی سے نکل کر آخرت کی ابدی حیات میں داخل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ کون کہتا ہے کہ موت آنے سے میں مر جاؤں گا اور میری ہستی اور شخصیت فنا ہو جائے گی ایسا ہرگز نہیں ہے مرنے کے بعد تو مجھے ابدی حیات مل جائے گی۔ میں دنیا کی عارضی اور مختصر زندگی سے نکل کر آخرت کی ابدی حیات میں داخل ہو جاؤں گا۔ جو دنیا کی زندگی سے ہزارہا درجے بہتر ہے۔ دنیا کی زندگی تو چند روزہ ہے جبکہ آخرت کی زندگی ابدی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہے ۔

جس طرح جب دریا سمندر میں گرتا ہے تو بظاہر دریا ختم ہو جاتا ہے لیکن درحقیقت وہ فنا نہیں ہوتا بلکہ ایک بے کراں سمندر میں ضم ہو جاتا ہے اور اس سمندر کا حصہ بن جاتا ہے اس کے گہرائی اور وسعت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح موت کے بعد میں فنا نہیں ہو جاؤں گا بلکہ مجھے ابدی حیات مل جائے گی۔ میں بھی آخرت کے سمندر میں ضم ہو جاؤں گا۔

بقول علامہ اقبال :

جوہر انسان فنا سے آشنا ہوتا نہیں

آنکھ سے غائب تو رہتا ہے فنا ہوتا نہیں

موت سے انسان کا ظاہری وجود ختم ہو جاتا ہے لیکن اس کی شخصیت فنا نہیں ہوتی ۔ اس حوالے سے شاعر نے دنیاوی زندگی کے لیے دریا کا استعارہ استعمال کیا ہے اور آخرت کی ابدی حیات کے لیے سمندر کا استعارہ استعمال کیا ہے ۔ شاعر نے اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ اگرچہ لوگ موت کو زندگی کا خاتمہ سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں موت فانی زندگی سے ابدی حیات میں داخل ہونے کا نام ہے۔ موت جسم کو آتی ہے انسان کی روح کو موت نہیں آتی ۔ جسم تو فنا ہو جاتا ہے لیکن روح ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ موت کے بعد ایک دوسری زندگی کا اغثاز ہو جاتا ہے جو دنیا کی زندگی سے بہتر ہے ۔

بقول علامہ اقبال :

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی

ہے یہ شام زندگی صبح دوام  زندگی

شعر کا دوسرے پہلو یہ ہے کہ شاعر نے اس حقیقت میں صوفیانہ فلسفہ وحدت الوجود کو بیان کیا ہے۔ اس کی روح سے اللہ کی ذات کل ہے اور کائنات اور کائنات میں موجود تمام اشیاء جزو ہیں۔ جزو اپنے کل سے ملنے کے لیے بے قرار اور بے تاب رہتا ہے۔ جس طرح مچھلی سمندر میں جانے کے لیے بے قرار رہتی ہے۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے دنیا میں میری ہستی ایک جزو ہے جس کی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں لیکن مرنے کے بعد میں فنا فی اللہ ہو جاؤں گا اور جزو سے کل میں تبدیل ہو جاؤں گا ۔ جیسے دریا سمندر میں گر کر بے کراں ہو جاتا ہے۔ صوفیا کا قول ہے قطرے کی بقا اس میں ہے کہ وہ خود کو سمندر میں فنا کر دے اور علامہ اقبال اسی طرف اشارہ کرتے ہیں:

تو ہے محیط بے کراں میں ہوں ذرا سی آبجو

یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر

شعر نمبر 2:

تیرا در چھوڑ کے میں اور کدھر جاؤں گا

گھر میں گھر جاؤں گا صحرا میں بکھر جاؤں گا

مشکل الفاظ کے معانی : در( دروازہ ) ، چوکھٹ (دہلیز ) ، گھر جانا( محدود ہونا ، قید ہونا) ،  صحرا (ریگستان) ،  بکھر جانا (منتشر ہو جانا )

مفہوم : تیرا در چھوڑ کے میں کہاں جا سکتا ہوں اگر میں نے ایسا کیا تو میں اپنے ہی گھر میں قید ہو جاؤں گا یا صحرا میں بکھر جاؤں گا ۔

تشریح :  تشریح طلب شعر میں شاعر محبوب سے وابستگی اور محبت کا اظہار کرتا ہے ۔ حقیقی معنوں میں شاعر کا مخاطب محبوبِ حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات ہو سکتی ہے چنانچہ شاعر اللہ تعالیٰ سے کہتا ہے کہ تیرے سوا میرا اس جہان میں کوئی ٹھکانہ نہیں ۔ اے اللہ تو میرا خالق و مالک ہے اور تو ہی میرا معبود برحق ہے۔ میں تیرا عاجز بندہ ہوں۔ تیرے ہی در سے مانگتا ہوں ۔ تیرے در کے سوا میرا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ تجھے چھوڑ کر میں کہاں جا سکتا ہوں ۔ میری تمام تر امیدیں تجھی سے وابستہ ہیں۔ تیرے سوا کوئی نہیں جس کے آگے میں دست سوال دراز کروں ۔ اگر مجھ سے تیرا در اور تیری چوکھٹ چھوٹ گئی تو میں اپنے ہی گھر میں محصور ہو جاؤں گا اور اپنی ذات میں قید ہو کر رہ جاؤں گا یا صحراؤں میں ریت کی مانند میری ہستی بکھر جائے گی اور میرا وجود گم ہو جائے گا ۔ میرے لیے ہر طرف دکھ ہی دکھ ہیں۔ تیرے بغیر میری کوئی حیثیت اور وقعت نہیں ۔

بقول شاعر :

میں نہیں جاؤں گا تیرا در چھوڑ کر

کیوں اندھیروں میں بھٹکوں سحر چھوڑ کر

اللہ تعالیٰ کائنات کا خالق و مالک ہے ۔ وہ دنیا میں کسی کا محتاج نہیں لیکن تمام دنیا اس کی محتاج ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے اذن ، مرضی اور منشا کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ اللہ ہی کی مدد اور مہربانی سے دنیا کے سب انسانوں کے کام بنتے ہیں ۔ اس کی توفیق اور عطا سے لوگ کامیابیاں سمیٹتے ہیں ۔ اس کی دی ہوئی طاقت اور توانائی سے وہ منازل طے کرتے ہیں ۔ اگر اللہ کا ارادہ شامل حال نہ ہو تو کوئی بھی کام نہیں ہو سکتا ۔ اس لیے شاعر کہتا ہے کہ اے اللہ تجھے چھوڑ کر میں کہاں جاؤں گا ۔ تیرے سوا میرا کوئی ٹھکانہ نہیں ۔

بقول شاعر :

میں تیرا در چھوڑ کر جاؤں کہاں

چین دل آرام جان پاؤں کہاں

مجازی معنوں میں شاعر کا مخاطب محبوب ہو سکتا ہے ۔ عاشق کے لیے محبوب سے جدا ہونا ، محبوب کا در اور گلی کوچہ چھوڑنا سب سے کٹھن کام ہوتا ہے۔ محبوب کے دیدار کے لیے وہ اس کی گلی میں بار بار جاتا ہے ۔ محبوب کا در اور اس کی گلی اس کے لیے متاعِ جان ہوتی ہے ۔ محبوب کی گلی سے اٹھنا گویا جہان سے اٹھنے کی مانند ہے ۔

بقول میر تقی میر

یوں اٹھے آہ اس گلی سے ہم

جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے

اور بقول واصف علی واصف

زندگی سنگ در یار سے آگے نہ بڑھی

عاشقی مطلع دیدار سے آگے نہ بڑھی

چنانچہ تشریح طلب شعر میں شاعر محبوب سے والہانہ عشق کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے محبوب ! میری زندگی کی بقا ، سلامتی اور خوشی و مسرت کے لیے تیرا در ، تیری چوکھٹ اور تیرا کوچہ بہت ضروری ہے۔ ورنہ دنیا میں میرے لیے کوئی ٹھکانہ نہیں ہوگا اور نہ سکون کی کوئی جگہ ہوگی۔ اگر میں تیرا در چھوڑ دوں اور تجھ سے میرا تعلق ٹوٹ جائے تو میری زندگی قید خانہ بن جائے گی۔ میں خاک میں مل جاؤں گا اور برباد ہو جاؤں گا ۔ میں تنہائی کا شکار ہو کر گھر میں قید ہو جاؤں گا۔ دیوانوں کی طرح مجھ پر وحشت جنون طاری ہو جائے گا اور میں ویرانوں اور صحرا کا رخ کروں گا۔ اس طرح میری زندگی صحرا کی خاک چھانتے ہوئے گزرے گی ۔ میرے لیے پھر ہر طرف دکھ ہی دکھ ہوں گے۔ الغرض تجھ سے اور تیرے در سے جدا ہونے کے بعد میری زندگی ریگستان کی ریت کی مانند بکھر کر رہ جائے گی ۔

بقول شاعر

ریت کے بت کی طرح تجھ سے ہوئے ہیں رخصت

گھر کہاں پہنچے ہواؤں میں بکھر آئے ہیں

شعر نمبر 3:

تیرے پہلو سے جو اٹھوں گا تو مشکل یہ ہے

صرف ایک ہی شخص کو پاؤں گا جدھر جاؤں گا

مشکل الفاظ کے معانی : پہلو سے اٹھنا( برابر سے اٹھنا ، پاس سے اٹھنا ، محفل سے اٹھنا)

مفہوم :  اگر میں تیرے پاس سے اٹھ کر گیا تو مجھے کہیں بھی سکھ کا سانس نہیں ملے گا ۔ ہر طرف مجھے صرف تو ہی نظر آئے گا ۔

تشریح :  بعض اوقات انسان انا اور غصے میں کسی سے ترک تعلق تو اختیار کر لیتا ہے لیکن چونکہ ایک عرصہ ساتھ رہنے کی وجہ سے دل کا میلان اسی کی جانب ہوتا ہے ۔ اس لیے دل کے جذبات عقل پر غالب آ جاتے ہیں اور انسان کو پھر اس کی کمی محسوس ہونے لگتی ہے ۔ اس کے دل و دماغ پر اسی کے خیالات اور تصورات چھائے رہتے ہیں اور وہ ایک بے قراری اور بے چینی کی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے ۔

بقول جون ایلیا  :

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا

ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

تشریح طلب شعر میں شاعر محبوب سے محبت کا والہانہ اظہار کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب میری خواہش ہے کہ میں ہمہ وقت تمہارے سنگ رہوں۔ محفل میں تمہاری تمام تر توجہ میری ہی جانب ہو اور تم مجھ سے ہی گفتگو کرو لیکن جب تم مجھے نظر انداز کرتے ہو ، سرد مہری اور بے رخی کا رویہ اپناتے ہو تو میرا دل اندر ہی اندر کڑتا رہتا ہے۔ غم و غصہ میں میرا دل چاہتا ہے کہ میں بھی تمہیں نظر انداز کروں اور تمہاری محفل سے اٹھ کر چلا جاؤں لیکن میری مجبوری اور مشکل یہ ہے کہ اگر میں تمہاری محفل سے اٹھ کر جاؤں گا تو میں جہاں بھی جاؤں گا ہر طرف مجھے تم ہی تم دکھائی دو گے۔ تمھارا ہی خیال میرے دل و دماغ پر چھایا رہے گا۔ مجھے ہر طرف تمہارا ہی جلوہ اور عکس نظر آئے گا ۔ ہر شخص کی ذات میں مجھے تمہاری ہی ذات نظر آئے گی۔ ہر چہرہ مجھے تمہارا ہی چہرہ نظر آئے گا ۔

بقول ندا فاصلی :

تم یہ کیسے جدا ہو گئے

ہر طرف ہر جگہ ہو گئے

عاشق ہمہ وقت محبوب کے تصور اور خیالات میں گم رہتا ہے۔ جب وہ محبوب کے پاس ہو تو اسے دیکھنے اور اس کے حسن و جمال کے نظارے میں دنیا و مافیا سے بے خبر ہو جاتا ہے اور جب وہ محبوب سے جدا ہوتا ہے تو اپنے تصور اور خیالوں میں محبوب کو اپنے قریب پاتا ہے۔ اس کی یاد اس کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں جو ہر وقت دل و دماغ پر چھائی رہتی ہے۔ محبوب سے جدا ہو کر بھی اسے ہر طرف محبوب ہی دکھائی دیتا ہے۔ ہر چیز اور ہر چہرے میں محبوب کا چہرہ ہی نظر آتا ہے ۔ ایک لمحہ کے لیے بھی محبوب کا چہرہ اس کے خیالوں سے محو نہیں ہوتا ۔ اس کا تصور اور خیال اتنا پختہ ہوتا ہے کہ وہ خیالوں ہی خیالوں میں محبوب کو مجسم صورت میں اسے سامنے پاتا ہے ۔ وہ تصور ہی میں اس سے باتیں کرتا ہے ۔

بقول مومن خان مومن:

تم میرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

تشریح طلب شعر میں بھی شاعر نے اپنے خیال اور تصور کی پختگی اور محبت کی انتہا کو بیان کیا ہے کہ اگر میں محبوب سے جدا ہو جاؤں گا تو بھی میں ہر طرف محبوب کو اپنے قریب پاؤں گا ۔ اس کی خاموشی بھی مجھ سے گفتگو کرے گی ۔

بقول ناصر کاظمی :

تو شریکِ سخن نہیں ہے تو کیا

ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی

شعر نمبر 4 :

اب تیرے شہر میں آؤں گا مسافر کی طرح

سایہ ابر کی مانند گزر جاؤں گا

مشکل الفاظ کے معانی : مسافر کی طرح( مراد اجنبی کی طرح) ،  سایہ ابر( بادل کا سایہ)

مفہوم :  اب میں تیرے شہر میں مسافر کی طرح آیا کروں گا اور بادل کے سائے کی طرح گزر جایا کروں گا۔

تشریح :  غزل کے روایتی انداز میں محبوب کو ظالم اور سنگ دل دکھایا جاتا ہے ۔ جو عاشق پر طرح طرح کے ظلم روا رکھتا ہے جبکہ عاشق محبوب کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے قرار اور بے چین رہتا ہے ۔ اس کے گلی کوچوں کا طواف کرتا رہتا ہے اور محبوب کے دیار ہی میں ڈیرہ ڈال لیتا ہے ۔ اس کے شہر کی ایک ایک چیز کو عزیز رکھتا ہے ۔ محبوب عاشق کی تمام تر وفاؤں اور قربانیوں کو کسی خاطر میں نہیں لاتا ہمیشہ اس سے بے رخی اور سرد مہری سے پیش آتا ہے ۔ اس کی کسی آہ و فریاد پر کان نہیں دھرتا بلکہ ہمیشہ لا پرواہی برتتا ہے ۔ چنانچہ عاشق دل برداشت ہو کر محبوب سے ترک تعلق اختیار کرنے کی ٹھان لیتا ہے اور محبوب کا شہر چھوڑنے کا عزم کر لیتا ہے ۔

بقول حمایت علی شاعر :

آئے تھے تیرے شہر میں کتنی لگن سے ہم

منسوب ہو سکے نا تیری انجمن سے ہم

تشریح طلب شعر میں بھی شاعر درپردہ محبوب کی بے رخی اور بے وفائی کا شکوہ کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب تم نے میری چاہتوں کا صلہ نہیں دیا۔ تمہارے ظلم و ستم اور سنگ دلانا رویے سے میں دل برداشتہ ہو کر شہر چھوڑ رہا ہوں تاکہ نہ تم نظر آؤ گے اور نہ مجھے ان مصائب سے گزرنا پڑے گا ۔ اے محبوب اگر تم میری جانب توجہ اور التفات نہیں کرتے تو میں بھی تمہارے شہر میں قیام نہیں کروں گا ۔ اگر کبھی دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر مجھے اس شہر کا رخ کرنا بھی پڑا تو یہاں میرا قیام عارضی ہوگا ۔ میں مسافر کی طرح تھوڑی دیر کے لیے آؤں گا اور پھر رخصت ہو جاؤں گا ۔ جس طرح مسافر اگر کسی شہر میں یا سرائے میں یا مسافر خانہ میں قیام کرتا ہے تو اس کا وہ قیام عارضی ہوتا ہے اور وہ وہاں کی چیزوں سے دل نہیں لگاتا کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس کی منزل نہیں ہے ۔ چنانچہ میرا قیام بھی اب سے تمہارے شہر میں عارضی ہوا کرے گا ۔ بقول احمد ندیم قاسمی :

اپنی آواز کی لرزش پہ تو قابو پا لو

پیار کے بول تو ہونٹوں سے نکل جاتے ہیں

اپنے تیور بھی سنبھالو کہ کوئی یہ نہ کہے

دل بدلتے ہیں تو چہرے بھی بدل جاتے ہیں

دوسرے مصرع میں شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب میں تمہارے شہر سے بادل کے سائے کی مانند گزر جاؤں گا جیسے بادل کا سایہ کچھ دیر کے لیے سایہ فگن ہو کر لوگوں کو دھوپ سے بچا لیتا ہے اور پھر چلا جاتا ہے۔ بادل کے سائے میں عارضی قیام کی طرف اشارہ ہے۔ بادل کا سایہ بھی تھوڑی دیر کے لیے ہی ہوتا ہے پھر وہ آگے چلا جاتا ہے ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اب جب کبھی میں تمہارے شہر آؤں گا تو بادل کے سائے کی طرح آؤں گا اور کچھ دیر گزارنے کے بعد چلا جاؤں گا ۔ جس طرح بادل بغیر برسات کے ہی گزر جاتا ہے اور لوگوں کو افسردہ چھوڑ جاتا ہے ۔ میں بھی تجھ سے ملاقات کیے بغیر ہی چلا جاؤں گا۔ شاعر نے پہلا مصرع میں مسافر اور دوسرے مصرع میں سایہ ابر کی تشبیہات عارضی قیام کے اظہار کے لیے استعمال کی ہیں ۔

بقول شاعر :

ہم تیرے شہر میں آئے ہیں مسافر کی طرح

شعر نمبر 5 :

تیرا پیمانِ وفا راہ کی دیوار بنا

ورنہ سوچا تھا کہ جب چاہوں گا مر جاؤں گا

مشکل الفاظ کے معانی : پیمانِ وفا (وفا کا عہد ، ساتھ نبھانے کا وعدہ ( ، راہ کی دیوار (مراد رکاوٹ، مشکل)

مفہوم : تمہارے ساتھ وفا کا وعدہ رکاوٹ بن گیا ورنہ میں جب چاہتا مر جاتا ۔

تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر اپنی وفاداری اور ایفائے عہد کو بیان کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب میں نے تجھ سے ہمیشہ ساتھ نبھانے کا وعدہ کیا تھا یہی وعدہ مجھے اب تک زندہ رکھے ہوئے ہے۔ ورنہ تو کب کا مر چکا ہوتا ۔ اگر مجھے اپنے وعدے کا پاس نہ ہوتا تو میں جب چاہتا آسانی سے مر جاتا۔ لیکن تم سے کیا ہوا وعدہ میری راہ میں رکاوٹ بنا رہا۔ شاعر درپردہ حالات کی خرابی کا ذمہ دار محبوب کو ٹھہرا رہا ہے ۔ شعر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ شاعر محبوب کے ظلم و ستم اور اس کے سنگ دلانا رویے سے تنگ آ چکا ہے ۔ اس کی آہ و فریاد کا محبوب پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔  محبوب کی سرد مہری بے رخی اور بے وفائی کی وجہ سے اس کی گلی کی تمام تر رعنائیاں اور خوشیاں ختم ہو چکی ہیں ۔ وہ اپنی زندگی سے بیزار ہو چکا ہے ۔ وہ مزید جینا نہیں چاہتا لیکن وہ مر بھی نہیں سکتا کیونکہ اس نے محبوب سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہمیشہ کے لیے تمہارا ساتھ نبھائے گا ۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب تیرا پیمانِ وفا ہی مجھے زندہ رکھے ہوئے ہے ورنہ میں کب کا مر چکا ہوتا ۔ میں اپنے وعدے کی پاسداری میں اب تک زندہ ہوں۔ شاعر محبوب کو پیمانِ وفا یاد کروا کر اسے بے وفائی کا طعنہ دے رہا ہے اور درپردہ محبوب کو ظلم و ستم اور بے رخی پر طنز کر رہا ہے کہ میں تو اپنا وعدہ وفا کر رہا ہوں لیکن تم نے اپنا وعدہ وفا نہیں کیا ۔ تم نے بے اعتنائی اور سرد مہری کا رویہ اپنایا ہوا ہے ۔

بقول وزیر علی صبا :

آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں

ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

شاعر کو محبوب کے وعدے پر اعتبار تو نہیں لیکن پھر بھی وہ ایک امید لگائے ہوئے ہے کہ شاید کسی وقت محبوب مہربان ہو جائے ۔ اسی لیے وہ مرنا نہیں چاہتا ۔

بقول مرزا غالب :

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید

جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

شعر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ شاعر زمانے کی تلخیوں اور غموں کی وجہ سے زندگی سے بیزار ہے اور اکتا گیا ہے ۔ وہ مزید جینا نہیں چاہتا ۔ وہ مر جانا چاہتا ہے تاکہ اسے دکھوں بھری زندگی سے نجات مل جائے۔ لیکن اسے محبوب سے کیے ہوئے وعدے کا پاس ہے۔ چنانچہ وہ محبوب سے کہتا ہے کہ میں نے تم سے ہمیشہ ساتھ دینے اور وفا نبھانے کا عہد کیا تھا۔ اسی عہد کی بنا پر میں جی رہا ہوں ۔ جب بھی میں مرنا چاہتا ہوں ہر بار محبوب سے کیا ہوا وعدہ یاد آ جاتا ہے ۔ اگر میں وعدہ خلافی کرتا ہوں تو یہ محبت کے اداب کے خلاف ہے ۔ چنانچہ میں محبوب سے کیے وعدے کی پاسداری میں اب تک جی رہا ہوں۔

بقول شاعر :

میں تو جیتا ہوں فقط تیری رضا کے واسطے

ورنہ مجھ کو اس جہاں سے کوئی دلچسپی نہیں

شعر نمبر 6 :

چارہ سازوں سے الگ ہے میرا معیار کہ میں

زخم کھاؤں گا تو کچھ اور سنور جاؤں گا

مشکل الفاظ کے معانی : چارہ ساز (علاج کرنے والے، ،  مسیحا )معیار( اصول ، ضابطہ ، طریقہ) ،  سنور جانا ( درست ہو جانا  ، نکھر جانا ، مہذب ہو جانا)  مفہوم : میرا اصول مسیحاؤں سے مختلف ہے ۔ میں زخم کھا کر اور سنور جاتا ہوں ۔

تشریح :  تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ کسی کو جب کوئی زخم لگتا ہے تو وہ تکلیف محسوس کرتا ہے ۔ زخم گہرے ہوں اور خون زیادہ بہ جائے تو چہرہ بھی مرجھا کر بے رونق ہو جاتا ہے ۔ چارہ ساز یعنی علاج کرنے والے مسیحا اس کے زخموں کی مرہم پٹی کرتے ہیں اور اس کا علاج معالجہ کرتے ہیں ۔ اس طرح کچھ عرصے بعد اس کے زخم بھر جاتے ہیں اور زخموں کی تکلیف ختم ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح یہ سمجھا جاتا ہے کہ پریشانیوں ، غموں اور مصائب کے تسلسل سے انسان پژ مردہ ہو جاتا ہے اور گھبرا اٹھتا ہے ۔ اس کے چہرے پر مردنی چھا جاتی ہے اور اس کا رنگ زرد پڑ جاتا ہے۔ چارہ ساز یعنی ڈاکٹر اور حکیم وغیرہ کا بھی کہنا ہے کہ رنج و الم انسان کو کمزور کر دیتے ہیں اور اس کے چہرے کی رونق ، بشاشت اور رعنائی کا خاتمہ کر دیتے ہیں ۔ اس کے چارہ ساز ، ہمدرد اور خیر خواہ لوگ پریشانیوں اور غموں میں اس کی ہمت بن جاتے ہیں ۔ حوصلہ افزائی اور تسلی اور تشفی کرتے ہیں اور اسے نصیحت کرتے ہیں کہ غموں پریشانیوں اور تکلیفوں سے دور رہے تاکہ چہرے کی رونق شادابی بحال ہو جائے ۔ لیکن تشریح طلب شعر میں شاعر نے اس سے مختلف بات کی ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ میرا معیار چارہ سازوں سے مختلف ہے ۔ میں زخم کھا کر مزید سنور جاتا ہوں ۔ جتنے زیادہ مجھے زخم ملتے ہیں میں اتنا ہی سنورتا اور نکھرتا ہوں ۔میں زخم کھا کر مرھجاتا نہیں بلکہ سرشار ہو جاتا ہوں اور خوش ہوتا ہوں کہ یہ زخم میری وفاداری اور عشق میں صداقت کی علامت ہیں ۔

بقول علامہ اقبال :

جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں

ستم نہ ہو محبت میں کچھ مزہ ہی نہیں

عاشق صادق کی پہچان بھی یہی ہے کہ وہ محبوب کے ہاتھوں ملنے والی تکالیف پر غم ہونے کی بجائے خوش ہوتا ہے ۔ عشق کی راہ میں ملنے والی تکلیفیں اور اذیتیں عشاق کے لیے کرب اور دکھ کی بجائے لذت و تسکین کا باعث ہوتی ہیں۔ محبوب کے ظلم و ستم جور و جفا اور ایسا رسانیاں  عاشق کے لیے تکلیف کی بجائے آرام رنج کی بجائے راحت دکھ کی بجائے سکھ کرب کی بجائے طرب اور نیش( زہر) کی بجائے نوش کا سامان ہوتی ہیں ۔ محبوب کی طرف سے ڈھائے گئے ظلم و ستم میں اسے کچھ اور ہی مزہ ملتا ہے ۔

بقول علامہ اقبال :

دو عالم سے کرتی ہے بیگا نہ دل کو

عجب چیز ہے لذت آشنائی

چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ میرا معیار چارہ سازوں سے مختلف ہے ۔ میں زخم کھا کر پریشان نہیں اور نہ میرے چہرے پر مردنی چھاتی  ہے بلکہ یہ زخم تو مجھے مزید سنوارتے اور نکھارتے ہیں ۔ زخم کھا کر میں آنسو نہیں بہاتا بلکہ مسکراتا ہوں۔ اس لیے اپنے زخموں کا علاج چارہ سازوں سے نہیں کرانا چاہتا۔ بقول جون ایلیا :

  چارہ سازوں کی چارہ سازی سے

درد بدنام تو نہیں ہوگا

ہاں دوا دو مگر یہ بتلا دو

مجھے آرام تو نہیں ہوگا

دوسرا پہلو یہ ہے کہ زمانے کی تلخیاں مصائب اور پریشانیوں سے انسان اگر ہمت کے ساتھ نبرد آزما ہو تو یہ دکھ اور مصائب انسان کو مزید پختہ کر دیتے ہیں ۔ وہ مصائب اور پریشانیاں جھیل کر سخت جان اور کندن بن جاتا ہے ۔ پھر وہ بڑی سے بڑی آزمائش اور امتحان سے بھی نہیں گھبراتا بلکہ ڈٹ کر اس کا مقابلہ کرتا ہے ۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ زمانے کی تلخیاں اور غم بھی مجھے پریشان نہیں کرتے بلکہ میں ان سے مزید سنور جاتا ہوں ۔

بقول حکیم ناصر :

پی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کے ناصر

غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزار رکھا

شعر نمبر 7 :

زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیم

بجھ تو  جاؤں گا مگر صبح تو کر جاؤں گا

مشکل الفاظ کے معانی : شمع کی مانند( موم بتی کی طرح) ،  بجھ جانا( مراد مر جانا ختم ہو جانا)

مفہوم :  میری زندگی شمع کی مانند ہے جو تاریکی مٹاتی ہوئی بجھ تو جاتی ہے لیکن سحر ضرور کر جاتی ہے۔

تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر ظلم و جہالت کے خلاف جنگ میں اپنے عزم کا اظہار کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ میرے افکار و خیالات اور اشعار جو شمع کی طرح روشن ہیں اور جن کی روشنی میں بھٹکے ہوئے لوگوں کو ان کی منزل ملتی ہے ۔ میرے دنیا سے جانے کے بعد بھی لوگوں کو اسی طرح راہ دکھاتے رہیں گے ۔

تشریح طلب شعر میں شاعر نے خود کو شمع سے تشبیہ دی ہے ۔ شمع خود تو آگ میں جلتی رہتی ہے اور پگھلتی رہتی ہے لیکن دنیا کو روشنی فراہم کرتی ہے۔ اندھیروں کو اجالوں میں تبدیل کر دیتی ہے یہاں تک کہ رات کے اختتام پر جب شمع جل کر ختم ہو جاتی ہے  تو سپیدہ سحر نمودار ہوتی ہے ۔ شاعر کہتا ہے میری زندگی بھی شمع کی مانند ہے جو خود کو آگ میں جلتی ہے لیکن دنیا والوں کو روشنی فراہم کرتی ہے۔ اندھیروں کو اجالوں میں بدل دیتی ہے ۔ اسی طرح میں خود بھی مشکلات جھیل کر اور تکالیف برداشت کر کے اہل دنیا کو فائدہ دوں گا ۔ میں ظلمت اور تاریکی کے زمانے میں حق کی آواز بلند رکھوں گا اور ظلم کے خلاف لڑتا رہوں گا ۔ چاہے اس کے لیے میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے ۔ میری جان تو قربان ہو جائے گی لیکن اس کے نتیجے میں ظلم و ستم اور جہالت کے اندھیرے تو ختم ہو جائیں گے۔ جس طرح شمع خود تو بجھ جاتی ہے لیکن تاریکی ختم کر کے اپنے بعد نئی صبح طلوع کر جاتی ہے ۔ اسی طرح میری موت کے بعد بھی دنیا میں امن و سکون اور علم و دانش کی روشنی پھیل جائے گی اور مجھے اپنی موت پر افسوس نہیں ہوگا ۔

بقول قتیل شفائی :

اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی

ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا

شمع قوم کے لیے ایثار و قربانی اور فائدہ مندی کی علامت ہے۔ احمد ندیم قاسمی ترقی پسند شاعر، افسانہ نگار اور صحافی تھے انھوں نے اپنی شاعری اور تحریروں کے ذریعے مزدوروں کو استحصال اور غربت و افلاس نا انصافی اور دولت کی غیر مساوی تقسیم کے خلاف علم جہاد بلند کیے رکھا۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ احمد ندیم قاسمی کی غزل کی تشریح  کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply