کس کا نظام راہ نما ہے افق افق” تشریح حمد “

کس کا نظام راہ نما ہے افق افق

آج کی اس پوسٹ میں ہم جماعت گیارہویں ، فیڈرل بورڈ کی نظم” حمد ”  ” کس کا نظام راہ نما ہے افق افق” کا مفہوم ، لغت اور تشریح پڑھیں گے ۔

شعر نمبر 1 :

  کس کا نظام رہنما ہے افق افق

جس کا دوام گونج رہا ہے افق افق

مشکل الفاظ کے معانی : رہنما (راہ دکھانے والا ، رہبر) ،  افق(  آسمان کا کنارہ مراد دنیا ) ، دوام (ہمیشگی  ، ابدیت)  ، گونج( بلند آواز )

مفہوم : اللہ تعالیٰ کا وضع کردہ نظام ساری دنیا کی رہنمائی کر رہا ہے اور اس کی ابدیت کا ڈنکا پورے عالم میں بج رہا ہے ۔

تشریح  : حفیظ تائب دور جدید کے ممتاز حمد اور   نعت گو  شاعر ہیں ان کا شمار ان شعراء میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی شاعری کو تقدیسی ادب تک محدود کر لیا تھا ۔ ان کی شاعری ایک مقصد کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہے ۔ ان کا اسلوب مبالغہ آرائی سے پاک ہے ۔ عمدہ تراکیب ، تشبیہات ، استعارات اور خوبصورت الفاظ کی بندش ان کے کلام کی اہم خصوصیات ہیں ۔ تشریح طلب شعر  میں شاعر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور اس کی قدرت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کون ہے وہ ذات جس کے نظام سے کاروبار جہاں چل رہا ہے یہ کائنات اور اس میں موجود اشیاء اسی کی رہبری اور رہنمائی میں چل رہی ہیں ۔ چاند کا گھٹنا بڑھنا ، سورج کا طلوع و غروب ، ستاروں کا چمکنا اور سیاروں کی گردش دن اور رات کا آنا جانا ، موسموں کا تبدیل ہونا ان سب کو اسی ہستی نے ایک نظم و ضبط اور قاعدے میں باندھ رکھا ہے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے جس کا مفہوم ہے ” سورج ایک مقررہ راستے پر چل رہا ہے یہ خدائے عزیز و علیم کا مقرر کردہ اندازہ ہے اور چاند کے لیے ہم نے منزل مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ وہ گھٹتے گھٹتے کھجور کی پرانی شاخ کی مانند ہو جاتا ہے نہ سورج کی مجال ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن سے آگے بڑھ سکتی ہے یہ سب ایک مدار میں گردش کر رہے ہیں ” ۔

سورۃ یسین آیت نمبر 37

40 بقول حفیظ جالندھری :

نظام آسمانی ہے اسی کی حکمرانی سے

بہار جاودانی ہے اسی کی باغبانی سے

یہ کائنات اسی کی تخلیق کردہ ہے ۔ اس نے اس کائنات میں ایسی ترتیب تنظیم رکھی ہے کہ کہیں ذرہ برابر بھی نقص اور اونچ نیچ نظر نہیں آتی ۔ ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے اور اسی کی گواہی دے رہی ہے ۔  چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے جس کا مفہوم ہے ۔ ” وہی ہے جس نے تہ بہ تہ سات آسمان بنائے رحمٰن کی تخلیق میں تم کوئی خلل نہ پاؤ گے پھر پلٹ کر دیکھو کیا کوئی نقص کہیں پاتے ہو پھر بار بار نگاہ دوڑاؤ تمہاری نگاہ تھک کر تمہارے پاس ناکام لوٹ آئے گی ” ۔

سورۃ ملک آیت نمبر تین چار ۔۔۔۔۔۔

اگر انسان عقل و شعور سے کام لے اور کائنات پر غور کرے تو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کر سکتا ہے زمین و آسمان میں بکھری ہوئی ہزاروں نشانیاں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ اس کارخانہ حیات کو چلانے والی کوئی ہستی موجود ہے ۔ یہ کائنات خود بخود وجود میں نہیں آگئی بلکہ اس کا ایک خالق و مالک ہے جس نے ایک مقصد کے تحت اس کائنات اور اس کی مخلوقات کو پیدا کیا ہے ۔ اس کے وضع کردہ نظام کی رہنمائی کے تحت ہی یہ کائنات چل رہی ہے جس طرح ایک مکان کو دیکھ کر اس کے معمار کا تصور ذہن میں آتا ہے  ۔ ایک گھڑی کو دیکھ کر گھڑی ساز کا تصور ذہن میں آتا ہے اور کرسی کو دیکھ کر بڑھئی کا تصور ذہن میں آتا ہے ۔ اسی طرح کائنات کا بغور مشاہدہ کرنے سے اس کے خالق کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے اور بالاخر اللہ تعالیٰ کی ذات عیاں ہو جاتی ہے۔  قران مجید میں اللہ تعالیٰ جگہ جگہ اپنی پہچان کے لیے اہل عقل کو کائنات کے مشاہدے کی دعوت دیتا ہے ۔ قران مجید میں ایک اور جگہ ارشاد ہے جس کا ترجمہ ہے ۔

” بے شک زمین و آسمان کی پیدائش میں اور دن اور رات کے آنے جانے میں اہل عقل کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں ” ۔

سورۃ آل عمران

بقول خواجہ میر درد :

اسی کا یہ جلوہ ہے چاروں طرف

ہزاروں نشاں ہیں ہزاروں طرف

 ،کائنات اور اس میں موجود اشیاء چاند ، سورج ستارے ، موسم ، ہوا ، بادل ، بارش ، دریا اور سمندر ذرے ایٹم سے لے کر سورج تک ہر چیز میں ایک نظم و ترتیب کا قائم ہونا کسی زبردست کے خالق کے ہونے کی گواہی دیتا ہے ۔

بقول شاعر :

ہر ایک شے میں جھلک وہ اپنی ربوبیت کی دکھا رہا ہے

نظام اس کائنات کا جو بحسن خوبی چلا رہا ہے

انسان کی جسمانی ساخت دل اور خون کا نظام دماغ کا نظام پھیپھڑوں اور گردوں کا نظام ڈی این اے میں پوشیدہ اس کی تمام ہسٹری اس بات کا پکار پکار کر اعلان کر رہی ہے کہ اس کا کوئی خالق ہے جو زبردست علم والا ہے ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے ۔ ہر انسان چاہے وہ مسلم گھرانے میں پیدا ہوا ہو یا غیر مسلم میں اس کے باطن اور ضمیر میں نیکی اور بدی کا شعور موجود ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ سچ ایک اچھائی ہے اور جھوٹ ایک برائی ہے یہ وہ ہدایت ہے جو خدا نے اسے ودیعت کی ہے انسان کا باطن یا ضمیر اسے پکار پکار کر کہتا ہے کہ کوئی اس کا خالق ہے وہ بے وجہ اور بے مقصد پیدا نہیں کیا گیا ۔

اس کے علاوہ خدا نے انسان کی مزید ہدایت اور رہنمائی کے لیے پیغمبروں اور کتابوں کا سلسلہ شروع کیا شاعر مزید کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جسے ہمیشگی اور دوام حاصل ہے کائنات کی ہر چیز پکار پکار کر اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اس کا خالق و مالک ابدی و ازلی ہے اور وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا دنیا اور دنیا کی مخلوقات مرتی اور مٹتی رہتی ہیں خدا کی ذات ہر قسم کے تغیر و تبدل سے مبرہ ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :

” زمین پر موجود ہر شے فانی ہے صرف تیرے رب کی ذات جلالت والی ذات ہی باقی رہنے والی ہے ” ۔

سورۃ رحمن آیت نمبر 26 27

شعر نمبر 2 : 

شان جلال کس کی عیاں ہے جبل جبل

رنگ جمال کس کا جمع ہے افق افق

مشکل الفاظ کے معانی : شان جلال (روعب و دبدبہ ،  شان عظمت و بزرگی) ،  عیاں ( ظاہر) ، جبل ( پہاڑ) ، رنگ جمال (خوبصورتی کا رنگ)  جما (ثبت)

  مفہوم :  خدا کی ہیبت اور شان کی عکاسی پہاڑوں سے عیاں ہے اور اس کی خوبصورتی تمام دنیا پر چھائی ہوئی ہے ۔

تشریح :  تشریح طلب شعر میں شاعر اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت بیان کرتا ہے اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا خالق و مالک ہے ۔ اس کے قبضہ قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں اس کی بادشاہت تمام عالم پر قائم ہے اس کے روعب و جلال سے شجر و حجر کانپتے ہیں ۔ بلند و بالا پہاڑ اس کی عظمت اور جلال کی نشانی ہے اللہ تعالیٰ کی بہت سی صفات ہیں جس طرح رحمان رحیم اس کی صفت ہے اسی طرح قہار جبار عزیز اور ذوالجلال والا کرم بھی اسی کی صفات ہیں ۔ یہ صفات اس کی ہیبت و جلالت رعب و دبدبہ اور قبضہ قدرت کو ظاہر کرتی ہیں ۔ خدا کی ان صفات کا اظہار کائنات کی مختلف چیزوں میں نظر آتا ہے چنانچہ شاعر کہتا ہے پہاڑ اللہ تعالیٰ کی صفت جلال کی علامت ہے ۔ یہ اسی کی قدرت کے کرشمے ہیں کہ اس نے طویل پہاڑی سلسلے تخلیق کیے جن میں ایک ایک پہاڑ کی بلندی ہزاروں میٹر ہے ۔ یہ بلند و بالا پہاڑ اور پہاڑی سلسلے ہیبت اور رعب و جلال کی علامت ہیں انہیں دیکھ کر ان کے خالق کی عظمت اور اس کے رعب و جلال کی دھاک دل میں بیٹھ جاتی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔

” ہم نے زمین میں پہاڑ گاڑ دیے کہ وہ انہیں لے کر لڑھک نہ پڑے “

سورۃ انبیاء آیت نمبر 31 ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو زمین کی میخیں قرار دیا چنانچہ ارشاد ہوتا ہے ۔ ”  کیا ہم نے زمین کو گہوارہ نہیں بنایا اور پہاڑوں کو اس کی میخیں بنایا ۔ “

سورۃ نبا آیت نمبر چھ سات

اسی طرح خدا کی ایک اور صفت جمیل بھی ہے جس کے معنی خوبصورتی اور حسن و جمال کے ہیں یہ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے ۔”  بے شک اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے ” ۔  کائنات میں بکھرا ہوا حسن و جمال رونقیں اور نظارے سب اس کی صفت جمال کا اظہار ہے ۔ خوبصورت رنگ برنگے پھول بہتی ندیاں ، گرتی آبشاریں ، روشن ستارے ، قوس قضا کے نظارے ، برف سے ڈھکے بلند و بالا کوہسار ، جنت نظیر وادی سبزہ زار ، چہچہاتے پرندے ، موسموں کی دلکشی ، افق کی سرخی ، چاند کی چاندنی الغرض پوری کائنات میں موجود حسن و جمال خدا کی عکاسی کرتا ہے ۔

بقول شاعر :

جہاں میں خدایا تیرا رنگ بو ہے

جدھر میں نے دیکھا ادھر تو ہی تو ہے

وہ احسن الخالقین ہے چاند ، سورج ، ستاروں اور سیاروں کی گردش میں ایک ترتیب و تنظیم ہے ۔ دن رات اور موسموں کے بدلنے میں ایک نظم و ضبط ہے ۔ ایک چھوٹے سے ذرے سے لے کر سورج تک اس کی ہر تخلیق حسن و جمال اور ترتیب و تنظیم کا بے مثال نمونہ ہے ۔

شعر نمبر 3 : 

مکتوم کس کی موج کرم ہے صدف صدف

مرقوم کس کا حرف وفا ہے افق افق

 مکتوم (مخفی چھپا ہوا) ،  موج کرم ( فضل و رحمت کی لہر ) ، صدف (سیپ جس میں موتی بنتا ہے)  ، مرقوم (لکھا ہوا ،  رقم کیا گیا ) ، حرف وفا (وفا کی بات)

مفہوم : سیپ میں کس کا فضل و کرم مخفی ہے اور کس کی وفاداری پوری دنیا میں مرقوم ہے۔

تشریح :  تشریح طلب شعر میں شاعر اللہ تعالیٰ کی کاریگری اور حسن تخلیق کو بیان کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات احسن الخالقین ہے اس کی تخلیق کے بے مثال نمونے تمام کائنات میں جا بجا موجود ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا بادل جب جہان پر برستا ہے تو بارش کے قطرے جہاں کھیت کھلیانوں کو سیراب کر کے سر سبز و شاداب کرتے ہیں اور پھولوں ، پھلوں اور اناج کے بننے کا باعث بنتے ہیں ۔ وہیں وہ قطرہ اب سمندر کنارے سیپ میں داخل ہو کر موتی بن جاتا ہے ۔ یہ خدا کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ پانی زمین میں جا کر کھیتی کی شادابی کا باعث بنتا ہے ۔ جانور جب اس پانی کو پیتے ہیں تو وہ دودھ بن جاتا ہے ۔ سانپ کے منہ میں جا کر وہی پانی زہر بن جاتا ہے اور شہد کی مکھی اس سے شیریں شہد تیار کر لیتی ہے اور سیب میں داخل ہو کر وہی پانی بیش قیمت موتی میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ ہر صدف میں جو موتی بننے کا عمل ہے اس کے پس پردہ خدا کی رحمت اور فضل و کرم مخفی ہے ۔ یہ اس کی کاریگری اور کرشمہ قدرت ہے کہ وہ پانی کو نایاب موتی میں تبدیل کر دیتا ہے۔  بقول شاعر :

پھول میں مثل بو چھپ کے بیٹھا ہے تو

جس نے کی جستجو مل گیا اس کو تو

دوسرے مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ اس کائنات کا پالنے والا اور پروردگار صرف خدا ہی ہے ۔ کائنات کی ہر شے اسی کے دم سے خوشنما ہے اور پھل پھول رہی ہے وہی تمام کائنات کا نظم و نسق احسن طریقے سے چلا رہا ہے ۔ جس طرح ایک مالی اپنے باغ سے وفاداری کرتا ہے اور اس کی دیکھ بھال میں مصروف رہتا ہے ۔ وقت پر پانی دیتا ہے اور اس کی کانٹ چھانٹ کرتا ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی کائنات کی نگہبانی کرتا ہے وہ اس کائنات کا محافظ بھی ہے اور رازق بھی وہ اس دنیا کے گلشن کی تزین و آرائش بھی کرتا ہے اور اسی کے سہارے یہ نظام احسن طریقے سے چل رہا ہے ۔ کائنات کی ایک ایک چیز پر اسی کا نام اور اسی کی کاریگری ثبت ہے ہر چیز اس عظیم خالق کی نشانی ہے ۔

شیر نمبر 4  :

کس کی طلب میں اہل محبت ہیں داغ داغ

کس کی ادا سے حشر بپا ہے افق  افق

مشکل الفاظ کے معانی : طلب ( چاہت ، محبت ) ، اہل محبت( محبت کرنے والے  ، عاشق) ،  داغ داغ (زخم زخم) ،  ادا ( ناز ، شان) ، حشر بپا ، (حشر قائم ہونا)

مفہوم : اہل محبت خدا کی چاہت میں بے قرار ہیں اور اسی کی اداؤں سے دنیامیں حشر بپا ہے ۔

تشریح :  تشریح طلب شعر میں شاعر بیان کرتا ہے کہ ہر دل میں خدا کی محبت کا دریا موجزن ہے ۔ ہر دل میں اس کی طلب اور چاہت میں بے قرار ہے ۔ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کا خالق و مالک ہے اور ان کا روزی رساں ہے ۔ تمام مخلوقات اپنے خالق سے محبت کرتی ہے ۔ خدا کی قدرت اور کاریگری کے کرشمے اہل محبت کو اس کی محبت میں دیوانہ کر دیتے ہیں۔ ہر روز خدا کی ادا اور اس کی شان نرالی ہوتی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے  جس کا ترجمہ ہے ۔ ”   ہر روز اس کی شان جدا ہے ۔ “

سورۃ رحمٰن

ہر شے میں خدا کی جلوہ گری اور اس کی صفات و تجلیات کا اظہار ہے ۔ ہر زمانے ہر دور ہر روز اور ہر وقت خدا ایک نئے انداز میں ایک نئی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے ۔ وہ محتاج کو غنی کرتا ہے ۔ ٹوٹے ہوئے کو جوڑتا ہے کسی کو عطا کرتا ہے کسی کو محروم کرتا ہے ۔ وہ موت دیتا ہے وہ زندگی دیتا ہے کسی کو پست کرتا ہے کسی کو بلند کرتا ہے ۔ الغرض ایک حشر اصغر کا ساماں ہوتا ہے ۔ اس کی نوازشیں اور اس کا لطف و کرم ہر آن اور ہر لحظہ تمام مخلوقات پر سایہ فگن رہتا ہے ۔ جس طرح ایک دنیا دار عاشق اپنے مجازی محبوب کی طلب اور چاہت میں سرگرداں رہتا ہے ۔ اس کے دیدار کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے قرار بے تاب ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح اللہ کے عشاق اور صوفیاء اپنے محبوب حقیقی کی طلب میں جنگلوں ، وادیوں ، پہاڑوں اور صحراؤں میں سرگرداں رہتے ہیں ۔ اسی کے جلوہ حسن کو دیکھنے کے لیے بے تاب و بے قرار رہتے ہیں ۔

بقول میر درد :

تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا

برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا

وہ اپنے آپ کو دنیاوی آلائشوں ، کثافتوں اور خواہشوں کے غبار سے پاک کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس مقصد کے لیے ہزار ہا ریاضت و مشقت اور مراقبے کرتے ہیں ۔ خدا کے عاشقوں نے سن رکھا ہوتا ہے کہ روز قیامت خدا اپنے چاہنے والوں کو اپنا دیدار کرائے گا ۔ چنانچہ ایک سچا عاشق  اللہ کے دیدار کے لیے روز قیامت کا منتظر ہوتا ہے ۔ وہ محبوب حقیقی کے جلوہ حسن کو دیکھنے کی خاطر موت کا بھی خواہش مند ہوتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد ہی خدا کا دیدار ہو سکتا ہے ۔

بقول شاعر :

خدایا جلد ہو روزِ قیامت

تیرے دیدار کی مجھ کو طلب ہے

اللہ کے عاشق جنت کے طلبگار بھی صرف اس لیے ہوتے ہیں کہ وہاں انہیں اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہو سکے گا ۔ ورنہ انہیں جنت کی بھی کوئی خاص رغبت نہیں ہوتی ۔ وہ تو صرف خدا کا قرب چاہتے ہیں ۔

بقول علامہ محمد اقبال :

یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو

کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

فلسفہ تصوف کی روح سے اللہ تعالیٰ کی ذات کل ہے اور انسان جزو ہے ۔ جزو ہمیشہ اپنے کل سے ملنے کے لیے بے قرار رہتا ہے ۔ جس طرح مچھلی پانی کے لیے تڑپتی ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ کے عاشق اللہ سے ملاقات اور اس کے دیدار کے لیے ہمیشہ بے قرار و بے تاب رہتے ہیں ۔

بقول پیر نصیر الدین شاہ :

سر طور ہو ، سر حشر ہو ہمیں انتظار قبول ہے

وہ کبھی ملیں وہ کہیں ملیں وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی

شعر نمبر 5  :

سوزاں ہے کس کی یاد میں تائب نفس نفس

فرقت میں کس کی شعلہ نوا ہے افق افق

مشکل الفاظ کے معانی : سوزا( بے قرار ، تڑپنا) ،  نفس نفس ( ہر سانس ، ہر لمحہ) ،  فرقت ( جدائی ، ہجر)  شعلہ نوا ( آتش بیانی ، آواز میں گرم جوشی)  مفہومتائب خدا کی یاد میں ہر لمحہ بے قرار ہے اور اسی کے فراق میں دنیا بھر میں اس کی آتش بیانی کی دھوم ہے ۔

تشریح :  تشریح طلب شعر میں شاعر بیان کرتا ہے کہ میں ہر لمحہ خدا کی یاد میں مشغول رہتا ہوں ۔ جس طرح ایک عاشق محبوب کی یاد میں بے قرار رہتا ہے ۔ خدا کی یاد مجھے اس سے ملاقات کے لیے بے قرار رکھتی ہے ۔ کس وقت میں خدا سے ملاقات کر سکوں گا اور کب مجھے اس کا دیدار نصیب ہوگا ۔ میری ہر ہر سانس خدا کی یاد میں سوزاں ہے اس کی جدائی میں میرے جذبات اور احساسات اشعار کی صورت زبان پر نمودار ہوتے ہیں ۔ ان اشعار میں وہ سوز تڑپ اور آتش بیانی ہے کہ ساری دنیا میں اس کی دھوم ہے ۔ یہ سب خدا کے ہجر اور فرقت کے باعث ہیں ۔

بقول مولانا الطاف حسین حالی :

ہر بول تیرا دل سے ٹکرا کے گزرتا ہے

کچھ رنگ بیاں حالی ہے سب سے جدا تیرا

اور اسی طرح بقول ساغر صدیقی

افلاک میں گونجی ہے میری شعلہ نوائی

نالے میرے افلاک کا پیوند رہے ہیں

نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم حمد جس کے شاعر حفیظ تائب ہیں ، کی تشریح  کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply