کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں ، کب ہات میں تیرا ہات نہیں
آج کی اس پوسٹ میں ہم فیض احمد فیض کی ایک مشہور غزل کی تشریح پڑھیں گے ۔
غزل کے شاعر کا تعارف: اس تعارف کو آپ اس غزل کے کسی بھی شعر کے شروع میں لکھ سکتے ۔
ترقی پسند تحریک سے وابستہ شعرا میں فیض احمد فیض کا مقام بہت بلند اور منفرد ہے ۔ فیض کو پیکر تراشی میں ایک خاص ملکہ تھا۔ لفظی تصویر کشی میں مہارت رکھتے تھے وہ سراسر جمالیات کے شاعر ہیں ۔ انھوں نے نغمگی، امیجری، استعار اور تشبیہ جیسے فنی لوازمات کو بڑی ہنر مندی سے استعمال کیا ۔ فیض اردو شاعری کی روایت سے بخوبی آگاہ تھے اور فارسی و انگریزی شاعری سے بھی واقف تھے۔ ان کی شاعری کا آغاز رومان اور وجدان سے ہوتا ہے لیکن زندگی کے سخت اور کڑے حقائق جلد ان کی شاعری کی مستقل راہ ہموار کر دیتے ہیں ۔ ذاتی دکھ کے علاوہ عالم انسانیت کے رنج و علم اپنے اندر محسوس کرتے ہیں اور وہ ان کی شاعری محبت اور حقیقت کا حسین امتزاج بن جاتی ہے۔ فیض احمد فیض نے یہ غزل اس وقت کہی جب وہ راولپنڈی سازش کیس کے سلسلے میں جیل میں قید تھے۔ فیض اور ان کے ساتھیوں پر الزام تھا کہ انھوں نے ملک میں انتشار پھیلا کر حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی ہے ۔ فیض اپنے اشتراکی نظریات کے باعث ملک میں ایسی تبدیلی چاہتے تھے جس سے مجبور ، غریب ، بے بس لوگوں اور کسانوں کا استحصال نہ ہو لیکن انھیں وطن دشمنی اور غداری کے الزام میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں یہاں تک کہ روس کے شہر ماسکو میں جلا وطنی کی زندگی بھی گزارنی پڑی۔ یہ غزل انھوں نے قید کے دوران میں لکھی اور ان کی کتاب ” زندان نامہ ” سے لی گئی ہے۔ اس غزل میں ان کا وطن سے شدید محبت کا جذبہ نظر آتا ہے ۔
نوٹ: مندرجہ بالا اقتباس اس غزل کے کسی بھی شعر کے شروع میں لکھا جا سکتا ہے ۔
شعر نمبر 1 :
کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، کب ہات میں تیرا ہات نہیں
صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں
مشکل الفاظ کے معانی : ہات( ہاتھ شاعر نے شعر کی ضرورت کے تحت ہاتھ کو ہات لکھا ہے تاکہ دوسرے مصرعے میں وہ رات کا قافیہ بن سکے ) ، صد شکر (سو بار شکر) ، ہجر (جدائی ، دوری ، فراق)
مفہوم : اے محبوب میری یادوں میں تمہارا ساتھ ہے اور میرے ہاتھوں میں تمہارا ہاتھ ہے ۔ اللہ کا بہت شکر ہے کہ میری راتوں میں اب جدائی کی کوئی رات نہیں ۔
تشریح : سر زمین سیالکوٹ نے دو بڑے شاعر پیدا کیے ہیں ۔ ایک علامہ اقبال اور دوسرے فیض احمد فیض ۔ فیض احمد فیض جدید اردو شاعری میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔ یہ ترقی پسند اور انقلابی فکر کے حامل ہیں ۔ ان کی شاعری میں رومانیت اور وطن سے بے پناہ محبت کا اظہار ملتا ہے ۔ انھوں نے مزدور ، محنت کش، کسان اور کمزور طبقے کے دکھ کی سچی ترجمانی کی ۔تشریح طلب شعر میں فیض نے انسانی نفسیات کا وہ پہلو پیش کیا ہے جسے یاد کہتے ہیں ۔ اس کی رو سے انسان کسی بھی لمحے اپنے دوست یا محبوب سے جدا نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ وہ دنیا کی نظروں میں تنہا ہوتا ہے مگر وہ خود کو یادوں کی دنیا میں اپنے کسی عزیز دوست یا محبوب کے قریب پاتا ہے اور اس کو اپنے پاس پاتا ہے۔ اس سے باتیں کرتا ہے اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں محسوس کرتا ہے ۔ یاد کے اس سلسلے کو جتنا چاہے طویل کیا جا سکتا ہے ۔ اس میں جدائی کا خطرہ نہیں ۔
جیسا کہ مومن خان مومن کہتے ہیں :
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ اگرچہ میں بالکل تن تنہا ہوں کوئی میرے آس پاس نہیں اور محبوب سے جدائی کا زمانہ ہے لیکن میں نے محبوب کی جدائی کے کٹھن لمحات میں ہجر اور اذیت سے بچنے کے لیے ایک انوکھا طریقہ ڈھونڈا ہے کہ میں اس عالم تنہائی میں بھی محبوب کے خیالوں میں گم ہو جاتا ہوں۔ میرے دل و دماغ میں محبوب کا تصور اس قدر نقش ہے اور میرا خیال اتنا پختہ ہے کہ میں خیالوں ہی خیالوں میں محبوب کو مجسم انداز میں اپنے قریب پاتا ہوں ۔ عالم تخیل میں اس سے باتیں کرتا ہوں اور یوں محسوس کرتا ہوں گویا اس کا ہاتھ میرے ہاتھوں میں ہے۔ اگرچہ جسمانی طور پر حالت فراق ہی ہے لیکن اب ذہنی اور قلبی ہجر ختم ہو چکا ہے۔ دور ہجر ہے لیکن یہ دور وصل بھی ہے ۔
بقول شاعر :
کبھی خواب میں تیری یاد ہے ، کبھی یاد میں تیرا ساتھ ہے
میرے چارہ گر ، میرے ہم نوا ، میرے ہم نفس، میرے ساتھیا
شاعر مزید کہتا ہے کہ اس طرح میں دن رات محبوب کی یاد میں مگن رہتا ہوں اور شب کو بھی مجھے وصل کا احساس ہوتا ہے۔ میں بالکل ایسا تصور کرتا ہوں جیسے اب محبوب تم میرے پاس بیٹھے ہو اور تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہے ۔ لفظ اب زمانہ حال کا گواہ ہے یعنی حال کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں شاعر کی زندگی میں جدائی کی راتیں گزر چکی ہیں مگر اب وصل کی رات ہے ۔ جس پر شاعر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اب کوئی شب شبِ فراق نہیں ۔
بقول لیاقت علی عاصم :
کوئی آس پاس نہیں رہا تو خیال تیری طرف گیا
مجھے اپنا ہاتھ بھی چھو گیا تو خیال تیری طرف گیا
شعر کا دوسرے پہلو یہ ہے کہ فیض محبوب کے پردے میں وطن سے مخاطب ہے کیونکہ انھوں نے وطن کو محبوب کا درجہ دے رکھا تھا ۔ یہ شعر ان کے زمانہ جلا وطنی کی کیفیت کا غماز ہے ۔ ایک دور تھا کہ حکام نے انہیں ملک و ملت کا باغی قرار دے کر جلا وطن کر دیا تھا لیکن فیض تو وہ شاعر ہیں جو خوف فنا فی المحبوب کی بجائے فن الحب وطن کے رتبے پر فائز ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ جلاوطنی کے زمانے میں ہر وقت میں وطن کو یاد کرتا رہتا ہوں ۔ ملک کی کچی گلیاں جو عوام کی حق تلفی کی غماز ہیں ملک کے استحصال زدہ مزدور جو امراء کے عیش کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں اور حکمرانوں کے تاج محل جن کی بنیادوں میں غریبوں اور مزدوروں کا لہو ہے ۔ میری آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں ۔ وطن کی یاد مجھے ستاتی رہتی ہے ۔ اگرچہ میں وطن سے کوسوں دور بیٹھا ہوں تاہم عالم تخیل میں وطن ہی میں ہوتا ہوں ۔ رات کے وقت بھی میں اپنے دل کو یاد وطن سے بہلاتا ہوں ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میری راتیں بھی یاد وطن سے معمور ہیں اور میں حجر وطن کے غم کو فراموش کیے بیٹھا ہوں ۔ بقول انور شعور :
اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں
اب میں اکثر میں نہیں رہتا ، تم ہو جاتا ہوں
اور بقول منشی موجی رام :
دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
شعر نمبر 2 :
مشکل ہیں اگر حالات وہاں دل بیچ آئیں ، جاں دے آئیں
دل والوں کوچہ جاناں میں ، کیا ایسے بھی حالات نہیں
مشکل الفاظ کے معانی : مشکل حالات (ناسازگار حالات) ، دل بیچ آئیں (مراد دل قربان کریں) ، دل والوں( عشاق وطن سے محبت کرنے والوں) ، کوچہ جاناں (محبوب کی گلی مراد وطن کی گلیاں )
مفہوم : محبوب کی گلی میں جانا اگر مشکل ہے تو اے عشاق آؤ ہم وہاں جانے کے لیے دل و جان کی بازی لگا دیں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر نے دل والوں کو مخاطب کیا ہے ۔ غزل کے روایتی انداز میں دل والوں سے مراد وہ عشاق ہیں جو محبوب کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کی خاطر ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں ۔ غزل کی روایت میں محبوب کی گلی یا محفل میں عاشق کو کبھی خوش آمدید نہیں کہا جاتا بلکہ ہمیشہ اسے طعن و تشنیع ہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ اگر محبوب کی گلی میں حالات اچھے نہیں ہیں تو کیا ہوا ہمیں کس بات کا خوف ہو کیونکہ ہم نے تو محبوب پر دل و جان نچھاور کرنے کا عہد کیا ہوا ہے ۔ تو پھر لوگوں اور رقیبوں کا خوف کیا معنی رکھتا ہے یعنی شاعر عاشقوں کو بے خوف و خطر محبوب کی گلی میں جانے کا درس دے رہا ہے تاکہ محبوب کا حاصل کرنا آسان ہو سکے ۔
بقول خواجہ عزیز الحسن مجزوب :
دیکھ یہ راہ عشق ہے ، ہوتی ہے بس یونہی یہ طے
سینے پہ تیر کھائے جا ، آگے قدم بڑھائے جا
شعر میں دل والوں سے مراد فیض کے ہم خیال دوست ہیں ۔ جو زندہ دل ہیں اور وطن کی محبت کے جرم میں جابر طاقتوں کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اس راہ میں ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں ۔ ” کوچہ جاناں ” سے مراد وطن عزیز ہے ۔ ” حالات ” سے مراد وہ مشکل حالات ہیں جن سے محبت وطن دو چار ہیں ۔ دل بیچنے اور جان دینے سے مراد وہ قربانیاں ہیں جو شاعر اور اس کے دوست وطن عزیز کے لیے دینے کو تیار ہیں ۔ چنانچہ شاعر اپنے ہم خیال دوستوں کو دل والے کہہ کر مخاطب کرتا ہے ۔ حالات جلا وطنی میں اس کے دوست اسے بتاتے ہیں ۔ اس وقت وطن کے حالات نہایت پرخطر ہیں ۔ ان حالات میں وطن واپس آنا بہت خطرناک ہے ۔ چنانچہ شاعر استفامیہ انداز میں اپنے دوستوں سے پوچھتا ہے کہ کیا میرے وطن کے حالات اتنے پرخطر اور مخدوش ہیں کہ وہاں جانے کے لیے ہم اپنے دل و جان بھی قربان نہیں کر سکتے ۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ میرے دوستو ! اگر آج ملکی حالات کڑے ہیں تو کیا غم ہیں اگر ظالم و جابر طبقہ برسرِ اقتدار ہے اور ہم جیسے حق کے علم برداروں کی جان کے درپے ہے تو گھبرانے کی کیا بات ہے کیونکہ علم برادران حق کو ہمیشہ ایسے ہی حالات سے واسطہ پڑتا ہے ۔ ظلم و ستم کا خاتمہ چاہنے والوں کا ظلم و ستم سے سابقہ پڑنا ناگزیر ہے لیکن ہم بھی تو دل و جان کے نذرانے پیش کرنے کے لیے تیار ہیں ۔
بقول شاعر :
خونِ دل دے کے نکھاریں گے رخ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
وطن کے حالات چاہے کتنے ہی ہمارے خلاف کیوں نہ ہوں لیکن ہمارے دل اور جان کے نذرانوں کے سامنے وہ بھی ہیچ ہیں کیونکہ مخالفین زیادہ سے زیادہ کر بھی کیا سکتے ہیں یہی کہ ہمیں زندگی سے محروم کر دیں گے یعنی موت کی آغوش میں سلا دیں گے تو اس کے لیے تو ہم پہلے سے ہی تیار ہیں اور وطن کی راہ میں جدو جہد کرتے ہوئے جان قربان کرنا ویسے ہی ہمارے لیے باعث فخر ہے ۔ پھر ہمیں وطن کے حالات سے گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ دل و جان تو ہم فخریہ طور پر قربان کر رہے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں شاعر کہہ رہا ہے کہ وہ راہ حق میں ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں اور اس کے ساتھ بڑے دھیمے اور پر اثر ر لہجے میں وہ اپنے دوستوں کو آمروں اور غاصبوں کے خلاف جدو جہد اور بغاوت پر آمادہ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ شاعر نے دبے الفاظ میں حکمرانوں کی بربریت پر نالہ و فریاد بھی کی ہے ۔
فیض احمد فیض ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
ہاں جاں کے زیاں کی ہم کو تشویش ہے لیکن کیا کیجئے
ہر راہ جو ادھر کو جاتی ہے مقتل سے گزر کر جاتی ہے
احسان دانش نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے۔
زخم پہ زخم کھا کے جی اپنے لہو کے گھونٹ پی
آہ نہ کر لبوں کو سی یہ عشق ہے دل لگی نہیں
شعر نمبر 3 :
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں
مشکل الفاظ کے معانی : شان و شوکت (انداز ) ، مقتل( قتل گاہ ) ، سلامت رہنا( زندہ رہنا ،باقی رہنا) ، آنی جانی (عارضی ، ختم ہونے والی)
مفہوم : جس شان سے کوئی موت کو گلے لگاتا ہے وہ شان ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ ورنہ یہ زندگی تو عارضی ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر نے زندگی کی بے ثباتی اور ناپائیداری کا ذکر کیا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ جان آخر ایک روز چلی جانی ہے یہ الگ بات ہے کہ کوئی میدان جنگ میں جان سپرد الٰہی کر دے یا کوئی بڑھاپے میں بستر مرگ پر لیٹا ہوا ختم ہو جائے۔ موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے کہ آج تک جس کا کوئی بھی انکار نہیں کر سکا۔ شاعر زندگی کے فانی ہونے کا اظہار کر کے بلند نصیب العین مقصد یا نظریے کے روح رواں لوگوں کو قربانی دینے کی طرف راغب کر رہا ہے ۔ اکثر اوقات اعلیٰ نصب العین اور اعلیٰ مقاصد کے حامل لوگوں کے نظریات حکام کے نظریات سے متصادم ہوتے ہیں کیونکہ عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ حکمرانوں کا طبقہ اکثر لاپرواہ ، غافل ، عیش کوش اور حق سے منحرف واقع ہوا ہے ۔ شاعر ظالم اور جابر طبقہ کی طرف سے حق علم برداروں کو کبھی تو پیسے کا لالچ دیا جاتا ہے یا قید و بند کی صعوبتیں دی جاتی ہیں یا پھر تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا ہے ۔
بقول شاعر :
ازل سے رچ گئی ہے سربلندی اپنی فطرت میں
ہمیں کٹنا تو آتا ہے مگر جھکنا نہیں آتا
سب سے پہلے تو انعام و اکرام کا لالچ دیا جاتا ہے۔ بعض بخوشی قبول کر لیتے ہیں اور بعض اپنے نظریات پر ڈٹے رہتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ان لوگوں کو طرح طرح کی تکالیف دی جاتی ہیں ۔ بعض تو مصائب کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں جبکہ کچھ ثابت قدم رہتے ہیں اور نصب العین کے سامنے کسی تکلیف کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ جس کی پاداش میں انھیں طرح طرح کی صعوبتیں اور اذیتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں ۔ کڑی سی کڑی آزمائشوں سے سابقہ پڑتا ہے یہاں تک کہ تختہ دار پر بھی جھولنا پڑتا ہے اور پھانسی کا پھندہ بھی پہننا پڑتا ہے ۔ چنانچہ وہ جس حوصلے ، عظمت شان اور آن بان سے تختہ دار یا قتل گاہ کی طرف جاتے ہیں وہ شان و شوکت اور عظمت انھیں زندہ جاوید اور امر کر دیتی ہے ۔ شاعر کے بقول جان تو ویسے بھی چند لمحات کی اور عارضی ہے لیکن جس انداز اور ڈھنگ سے کوئی جان دیتا ہے وہ انداز لوگوں کے دلوں پر نقش ہو جاتا ہے اور وہ انداز لوگوں کے لیے مثال بن جاتا ہے ۔ جس کا مظاہرہ انھوں نے تختہ دار پر کیا ہوتا ہے۔
بقول شاعر:
ہنستا ہوا ایک شخص گیا دار کی جانب
حیران کھڑی خلق خدا دیکھ رہی تھی
چنانچہ فیض احمد فیض اپنے ہم خیال دوستوں کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے ان سے کہتے ہیں کہ تم جان قربان کرو گے تو ہمیشہ یاد رکھے جاؤ گے ۔ یہ زندگی تو عارضی ہے کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہے کسی بیماری حادثہ کی صورت میں ایک نہ ایک دن ختم ہو ہی جائے گی۔ لیکن اگر کسی عظیم مقصد کی خاطر جان قربان کی تو ہمیشہ یاد رکھے جاؤ گے ۔ عاشق کے لیے راہ عشق میں جان قربان کرنا سب سے بڑا اعزاز ہوتا ہے یہی اس کی وفاداری اور صداقت کا اصل امتحان ہوتا ہے۔ ہم اپنے نصب العین پر ثابت قدم رہیں گے اور خود بخود ایک پروقار انداز سے پھندہ گلے میں پہن لیں گے کیونکہ پروقار شاندار موت مرنے والے تاریخ کے صفحات میں زندہ رہتے ہیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے 72 افراد کے ساتھ میدان جہاد میں جام شہادت نوش فرمایا اور آج بچہ بچہ انہیں جانتا ہے ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا ارشاد ہے :
” عزت کی موت زندگی عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے ” ۔
بقول مجید امجد اسلام امجد:
سلام ان پر تہ تیغ بھی جنھوں نے کہا
جو تیرا حکم ، جو تیری رضا ،جو تو چاہے
اسی طرح ٹیپو سلطان اگرچہ شہید ہو گئے اور ان سے غداری کرنے والے مال و دولت لے کر چند روز عیش کرتے رہے لیکن تاریخ میں ٹیپو سلطان ہمیشہ کے لیے ہیرو ٹھہرے ۔ انھوں نے کمال بہادری اور شان سے موت کو گلے لگایا اور ان کا آخری جملہ جو انھوں نے موت کے وقت کہا تھا تاریخ میں ہمیشہ زندہ ہو گیا ۔
بقول ٹیپو سلطان :
” شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے ” ۔
منصور حلاج مشہور صوفی بزرگ تھے انھوں نے انا الحق (میں خدا ہوں) کا نعرہ لگایا خلیفہ مقتدر عباسی نے اسے پھانسی پر لٹکانے کا حکم دیا تاہم حیران کن پہلو یہ ہے کہ منصور خود ہنستا ہوا آیا اور ان الحق کا نعرہ لگاتے ہوئے خود بخود اپنے آپ کو جلاد کے سپرد کر دیا۔ اس شان سے جان دی کہ اج تاریخ کے صفحات پر زندہ ہے۔
بقول شاعر :
نام منصور کا ہے آج بھی زندہ دیکھو
جس نے کھینچا تھا اسے دار پہ، ہے آج کہاں
ایسے ہی لوگ فی الحقیقت ہمیشہ کے لیے زندہ رہتے ہیں ورنہ اکثر لوگ جو موت سے خوفزدہ ہوتے ہیں گمنام موت مر جاتے ہیں۔
بقول شاعر:
کہاں گئے وہ لاکھوں مرگ خاموش انسان
خاک میں مل گئے۔ مٹ گیا نام و نشاں
حسین و حمزہ نے پائی ہے ابدی حیات
رہتا ہے عالم میں اسم شہداء عیاں
شعر نمبر 4 :
میدانِ وفات دربار نہیں یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں
عاشق تو کسی کا نام نہیں ، کچھ عشق کسی کی ذات نہیں
مشکل الفاظ کے معانی : میدان وفا (محبوب سے وفا کا میدان، عشق و محبت کی دنیا ) ، دربار (بادشاہ کی بارگاہ) ، یاں ( یہاں شاعر نے شعر ضرورت کے تحت یہاں کو یاں لکھا ہے) ، نام و نسب( نام اور خاندان مراد شجرہ نسب) ، ذات (قوم )
مفہوم : عشق کا میدان بادشاہ کا دربار نہیں ہے کہ جہاں آپ کا نام و نسب پوچھا جائے گا۔ عاشق کسی کا نام نہیں اور نہ عشق کسی کی ذات ہے۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر نے حسب و نسب اور نام کے مقابلہ میں عشق اور وفا کی برتری بیان کی ہے یعنی محبوب کے قرب کے لیے صرف وفات داری شرط ہے ۔ محبت کا میدان بادشاہ کا دربار نہیں کہ جہاں نام و نسب دیکھا جائے زمانہ قدیم میں بادشاہ کے دربار میں نشستیں لوگوں کے لیے حسب و نسب کے مطابق مقرر ہوتی تھی ۔ کوئی غریب اور پسماندہ شخص بادشاہ کے قریب تو درکنار دربار میں بھی داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ بادشاہ کے قریب نشستوں پر صرف اعلیٰ خاندان کے لوگ ہی بیٹھ سکتے تھے۔ مزید یہ کہ بادشاہ جب کسی کو مقام و مرتبہ تفویض کرتے تو اس بات کو مدنظر رکھتے کہ جس کو مرتبہ عطا کیا جا رہا ہے وہ کسی اعلیٰ خاندان کا چشم چراغ ہے اور ماضی میں اس کے خاندان کا معاشی اور سیاسی حیثیت سے کیا مقام رہا ہے ۔ گویا حسب و نسب کے اعتبار سے عہدے تقسیم ہوتے تھے لیکن اگر کوئی شخص سلطنت کا وفادار ہوتا تو اسے محض اس لیے ٹھکرا دیا جاتا کہ اس کے خاندان کے فلاں شخص نے بادشاہ کے ساتھ کامل وفاداری کا ثبوت نہیں دیا تھا۔ باپ یا دادا کی غداری کی وجہ سے بیٹے یا پوتے کی وفاداری بھی مشکوک ٹھہرتی تھی اور اسے کوئی شاہی عہدہ نہیں دیا جاتا تھا۔
تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ عشق کا میدان بادشاہوں کا دربار نہیں کہ جہاں مراتب عطا کرتے وقت شاہی قربت اور سلسلہ نسب آباؤ اجداد کو ملحوظ رکھا جاتا ہے بلکہ یہ ایک ایسا میدان ہے جہاں ہر کوئی قسمت آزمائی کر سکتا ہے لیکن وفادار ہونا شرط ہے ۔ امراء و غرباء سب کے لیے برابر دروازے کھلے ہیں کیونکہ عشق کے پلڑے میں وفا کا باٹ استعمال ہوتا ہے ۔ یہاں صرف وفا کا سکہ چلتا ہے۔ فرہاد ہی کو دیکھ لیجئے خود ایک غریب صحرا نورد تھا خسرو پرویز کی ملکہ شیریں پر عاشق ہو گیا ۔کہاں ملکہ کہاں یہ آوارہ مزاج ، پھٹا پرانا لباس پہننے والا یہ مساوات عشق ہے یہاں سلسلہ نسب کے بارے میں نہیں پوچھا جاتا آیا کہ اس کا باپ بھی عاشق تھا یا نہیں۔
بقول عدید :
ہم محبت میں بھی مساوات کے قائل ہیں ادید
پیار کرتے ہیں تو کب نام و نسب دیکھتے ہیں
دراصل میدان عشق ایسے قوانین سے مبرا ہے مزید براں عاشق کسی کا نام بھی نہیں ہے ایسا ہرگز نہیں ہے کہ کوئی اپنا نام عاشق رکھ لے تو اسے عشق کے میدان میں کامیابی ہوگی ۔ نہ عاشقوں کی کوئی قوم ہے کہ فلاں قوم عشاق کی ہے۔ جس کے تمام افراد ہی راہ عشق میں عشق راہی ہیں ۔ نہیں بلکہ یہ خام خیالی ہے یہاں ابو لہب خاندان کا ہو کر مردود ہو جاتا ہے اور بلال حبشی غلام ہو کر دربار رسالت میں معتبر ہو جاتا ہے۔ ابو جہل مکہ کا ہو کر غائب خاسر ہو جاتا ہے اور سلمان فار سی ، صہیب رومی دیار غیر کے ہو کر بھی بلند مقام پاتے ہیں ۔ میدان عشق وہ میدان ہے جہاں کسی کا نام و نسب نہیں پوچھا جاتا۔اس میدان میں وفا ، سچائی اور خلوص دیکھا جاتا ہے۔ اس کا حلقہ بہت وسیع ہے ۔
بقول مولانا الطاف حسین حالی :
قیس ہو ، کوہ کن ہو یا حالی
عاشق کچھ کسی کی ذات نہیں
چنانچہ شاعر اپنے ہم خیال دوستوں کو وطن پر جان قربان کرنے کے لیے آمادہ کرتے ہوئے ان کا حوصلہ بڑھاتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ اپنے وطن کی محبت سے ہر کوئی محبت کر سکتا ہے۔ اس میں کوئی سلسلہ نسب کی پوچھ گچھ نہیں۔ سب کے لیے وطن سے محبت کے یکساں مواقع ہیں ۔ وطن سے محبت ہر شہری کا فرض ہے۔ جو وطن کا حق ہے ۔ یہ ملک صرف امراء و حکام و رؤسا اور جاگیر داروں کا نہیں ہے۔ میدان وفات ویسی جگہ ہے جہاں امیر غریب، شاہ و گدا کے درمیان کوئی فرق نہیں ۔ کوئی بھی شخص اس میدان میں قدم رکھ سکتا ہے ۔ عشق میں وفاداری کی بدولت مجنوں کو شہرت ملی۔ بلال حبشی کو دوام ملا ۔ منصور کا نام باوقار ہوا ۔ حسین کی جیت ہوئی۔ اس میدان میں اصل شے وفاداری و جانثاری ہے۔
بقول علامہ اقبال :
اقبال کس کے عشق کا یہ فیض عام ہے
رومی فنا ہوا حبشی کو دوام ہے
ایک اور جگہ فرماتے ہیں :
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
شعر نمبر 5 :
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو باز ی مات نہیں
مشکل الفاظ کے معانی : بازی( کھیل، داؤ) ، مات( ہار، شکست)
مفہوم : عشق کی بازی ہے ، تو بے خطر جان کی بازی لگا دو کیونکہ اگر جیت گئے تو بہت خوب لیکن اگر ہار گئے تو بھی اس ہار کو شکست نہیں کہا جا سکتا۔
تشریح : ” بازی ” کھیل کو کہتے ہیں شاعر نے اس شعر میں عشق کو ایک کھیل سے تشبیہ دی ہے ۔ انسان جو بھی کھیل کھیلتا ہے اس کا مقصد کامیابی یا جیت ہوتا ہے ۔ جیت سے انسان کی عزت و وقار میں اضافہ ہوتا ہے اور ہار سے انسان کی شان گھٹ جاتی ہے۔ لیکن شاعر کہتا ہے کہ عشق کی بازی ایسی بازی ہے جس میں ہار جیت کو نہیں دیکھا جاتا ۔ اس میں دو ہی صورتیں ہیں ۔ اگر تم جیت گئے یعنی محبوب کی محبت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو تمہاری خوش قسمتی کا کیا کہنا اور اگر تم ہار گئے یعنی تم نے جان قربان کر دی تو بھی تم محبوب کی نگاہوں میں سر بلند ہو گئے ۔ دونوں صورتوں میں تم فائدے ہی میں رہو گے ۔
بقول فراق گورکھپوری:
بازی عشق کی پوچھ نہ بات
جیت کی جیت ہے مات کی مات
تشریح طلب شعر میں شاعر نے عاشقوں کو جان کی قربانی دینے کی ترغیب دی ہے ۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ محبوب کی خاطر جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ راہ عشق میں وہی لوگ سرخرو ہوتے ہیں جو سر پر کفن باندھ کر نکلتے ہیں۔ جو جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان وفا میں وفا ثابت کرنے آتے ہیں ۔ تاہم بعض عشاق محبوب کی راہ میں جان قربان کرنے سے ہچکچاتے ہیں ۔ شاعر ان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے جانثارو ! عشق کی بازی میں تمہیں ہرگز جان قربان کرتے ہوئے ہچکچانا نہیں چاہیے اور نہ یہ سوچو کہ منجدھار میں الجھنا چاہیے۔ بلکہ اس میدان میں بلا سوچے سمجھے بے خوف و خطر سر پر کفن پہن کر کود پڑنا چاہیے۔ کیونکہ یہ دنیا کی واحد بازی ہے جس میں شکست کے مواقع نہیں۔ اگر تم نے محبوب کو پا لیا تو سونے پر سہاگا اور اگر جان قربان کر دی تو پھر بھی گھاٹے کا سودا نہیں۔ کیونکہ محبوب کی نظر میں تمہاری وقعت بڑھ جائے گی اور تمہاری وفاداری پر مہر ثبت ہو جائے گی ۔
بقول پروین شاکر :
اس شرط پہ کھیلوں گی پیا پیار کی بازی
جیتوں تو تجھے پاؤں ہاروں تو پیا تیری
یہ غزل ، غزل مسلسل کا مزاج رکھتی ہے ۔ شاعر اپنے ہم خیال دوستوں کو وطن کے لیے جان کا نظرانہ پیش کرنے کی تلقین کرتا ہے ۔ شاعر وطن سے محبت کرنے والوں سے مخاطب ہے کہ مشکل حالات دیکھ کر تمہیں گھبرانا نہیں چاہیے۔ ظلم و ستم کا بازار گرم دیکھ کر خوف کی وجہ سے ظلم کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکنے چاہیئے ۔ اس خوف سے اپنے بلند نصب العین اور اعلیٰ مقاصد سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے کہ جابروں اور ظالموں کے خلاف آواز اٹھانے سے ہمارا جسم و روح کا سلسلہ منقطع نہ کر دیا جائے۔
شاعر کہتا ہے کہ تمہیں بلا سوچے سمجھے وطن کی خاطر جان قربان کر دینی چاہیے کیونکہ اس راہ میں ہر طرح سے تمہاری جیت ہے ۔ اگر تم اپنے مقصد اور نصب العین کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو سونے پر سہاگا اور اگر تمہاری عمر بھر کی جدوجہد اور کوشش رنگ لائی لیکن اگر تمہیں وطن کی خاطر جان کی قربانی دینی پڑے تو یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ تم ہار گئے بلکہ جیت پھر بھی تمہاری ہوگی ۔ تم شہید کہلاؤ گے۔ تاریخ تمہارا نام ہمیشہ زندہ رکھے گی اور تمہارا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ ناکامی ، کامیابی کا پہلا زینہ ہے ۔تمہاری شہادت کے بعد مزید اولو العزم اور جان نثار تمہاری جگہ لیں گے اور تمہارے نصب العین کو کامیابی سے سر سرفراز کریں گے ۔
بقول شاعر :
کھیل کوئی نہ عمر بھر کھیلے
ہم جو کھیلے تو جان پر کھیلے
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام کی سربلندی کے لیے جان قربان کی اور آج عالم اسلام کا بچہ بچہ ان کی شان میں رطب اللسان ہے ۔
بقول مظفر وارثی:
دل ٹوٹ بھی جائے تو محبت نہیں مٹتی
اس راہ میں لٹ کر بھی خسارہ نہیں ہوتا
نوٹ : امید ہے کہ آپ فیض احمد فیض اور ان کی غزل کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.