آج کی اس پوسٹ میں ہم اردو ادب کے مشہور محقق اور نقاد ڈاکٹر صابر کلوروی کا تعارف پیش کریں گے ۔
ڈاکٹر صابر کلوروی کا تعارف: ڈاکٹر صابر کلوروی 31 اگست 1950ء کو شاہ میر خان کے ہاں کلور میں پیدا ہوئے جو بانڈی پیرخان کے پاس ایبٹ آباد سے کچھ دور واقع ہے۔ ان کے والد محترم نے دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے محاذ پر جنگ میں شرکت کی تھی۔ وہ جہان دیدہ شخص تھے اور تعلیم کی اہمیت سے واقف تھے۔ اس لیے اپنے سب بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی۔ صابر کلوروی صاحب نے مڈل قلندر آبادسے1963ء میں اور میٹرک مانسہرہ سے 1965ء میں پاس کیا۔ اس کے بعد گورنمنٹ کالج ایبٹ آباد میں داخل ہو گئے اور وہیں سے 1967ء میں ایف۔ ایس سی اور1969ء میں بی۔ ایس سی پاس کی۔ بی۔ ایس سی پاس کرنے کے بعد آپ نے بنک کی ملازمت اختیارکرلی۔ اس دوران آپ نے1975ء میں ایم اے(اردو)کا امتحان پاس کر لیا۔ اب آپ کی کوشش تھی کہ کسی کالج میں بطور لیکچرر تقرری ہو جائے۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم :
ڈاکٹر صابر کلوروی 31 اگست 1950ء کو کلور، ایبٹ آباد، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، شاہ میر خان، دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے محاذ پر شریک رہے، جو تعلیم کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے۔ صابر کلوروی نے مڈل تک تعلیم قلندر آباد سے 1963ء میں، میٹرک مانسہرہ سے 1965ء میں، ایف ایس سی گورنمنٹ کالج ایبٹ آباد سے 1967ء میں اور بی ایس سی 1969ء میں مکمل کی۔ بعد ازاں، انہوں نے 1975ء میں اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
: پیشہ ورانہ زندگی
بی ایس سی کے بعد، صابر کلوروی نے بینک کی ملازمت اختیار کی، لیکن ایم اے اردو مکمل کرنے کے بعد تدریس کے شعبے میں آ گئے۔ انہوں نے لورہ، ایبٹ آباد، مانسہرہ اور غازی کے کالجز میں بطور لیکچرر خدمات سر انجام دیں۔ 1994ء میں، وہ پشاور یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے منسلک ہوئے اور 2006ء میں صدرِ شعبہ مقرر ہوئے۔ اس دوران، انہوں نے نصاب کی بہتری، مجلہ “خیابان” کی تدوین اور باڑہ گلی میں اردو زبان و ادب کے سیمینارز کا انعقاد کیا۔
: اقبالیات میں خدمات
صابر کلوروی دوران تعلیم ہی میں کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے تھے۔ اس سلسلے کے بہت سے مضامین مختلف ماہوار رسالوں اور ڈائجسٹوں میں شائع ہوتے رہتے تھے۔ ایسے ہی کچھ منتخب مضامین کا ایک مجموعہ مکتبہ شاہکار،لاہور سے ” سائنس سے بھی عجیب تر“ کے نام سے 1975ء میں شائع ہوا۔ ایم اے (اردو) کرنے کے بعد انھوں نے بنک کی ملازمت چھوڑ دی اور لکچرر مقرر ہو گئے۔ اس حیثیت سے انھوں نے لورہ،ایبٹ آباد،مانسہرہ اور غازی میں خدمات سر انجام دیں۔ اس دوران میں ان کا رحجان اقبالیات کی طرف ہو چلا۔ چنانچہ انھوں نے محنت سے اقبال کی سوانح عمری”یاد اقبال“ کے نام سے مرتب کی جسے مکتبہ شاہکار،لاہور نے جریدی کتب کے سلسلے میں 15/اپریل1977ء کو شائع کیا۔(کتاب کا نظر ثانی شدہ ایڈیشن اسی ادارے نے 1982ء میں کراچی سے ”داستان اقبال“ کے نام سے شائع کیا)۔ پھر آپ نے”اشاریہٴ مکاتیب اقبال“ مرتب کی جو1984ء میں اقبال اکادمی پاکستان،لاہور سے چھپی۔ اقبالیات ہی کے سلسلے کی تیسری کتاب”اقبال کے ہم نشیں“کے نام سے مرتب کی جسے مکتبہ خلیل،لاہورنے1985ء میں شائع کیا۔ ان کی محبت کامرکزومحوراُردوز ان و ادب،اقبالیات اوران کا خاندان تھے۔ اردوزبان و ادب سے محبت کی بنا پر ڈاکٹر عطش درانی نے انھیں” اردو کا ملنگ“کہا۔ جہاں تک اقبالیات سے محبت اور شغف کاتعلق ہے،وہ ان کے اس کام سے ظاہر ہے جو انھوں نے اس میدان میں سر انجام دیاہے اور جو وہ کرنا چاہتے تھے۔ مشفق خوا جہ مرحوم نے ان کے پاس علامہ اقبال کی دو نادر بیاضی دیکھ کر کہا تھا کہ ان دو بیاضوں کی وجہ سے تحسین فراقی صاحب نے انھیں”ملا دو بیاضا“ کا خوبصورت نام دیا ہے۔
ڈاکٹر صابر کلوروی کا کتب خانہ :اردو زبان سے محبت ہی تو تھی کہ انھوں نے ایبٹ آباد کے بغل قلندر آباد میں ایک اشاعتی ادارہ ” سرحد اردو اکیڈیمی“ قائم کیا۔ اس ادارے سے اردو زبان و ادب اور اقبالیات کے سلسلے میں بہت سی علمی اور تحقیقی کتابیں شائع ہوئیں۔ ان میں نظیر صدیقی مرحوم کی خود نوشت ”سویہ ہے اپنی زندگی“، بشیر احمد سوز کی ”اقبال اور ہزارہ“، پروفیسر سید یونس شاہ صاحب کی ”مرزامحمودسرحدی:فن اور شخصیت“ بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی مفید اور علمی کتب اس ادارے سے شائع ہوئیں۔ صابر صاحب کو کتاب سے عشق تھا اس لیے انھوں نے سالہا سال کی انتھک محنت سے کتابوں کا ایسا ذخیرہ جمع کیا جو صوبہ سرحد میں ذاتی کتب خانوں میں ایک بڑا کتب خانہ تصور کیا جاتا ہے۔ آج بھی سینکڑوں محقق اور نقاد ان کے اس کتب خانے سے مستفید ہوتے ہیں۔
تصانیف :
ڈاکٹر صابر کلوروی کی تصانیف میں شامل ہیں:
“یادِ اقبال” (1977ء)
“اشاریہ مکاتیبِ اقبال” (1984ء)
“اقبال کے ہم نشیں” (1985ء)
“تاریخِ تصوف” (1985ء)
“کلیاتِ باقیاتِ شعرِ اقبال(1990ء) ” (2004ء)
انہوں نے “سرحد اردو اکیڈمی” کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ بھی قائم کیا، جس کے ذریعے متعدد علمی و تحقیقی کتب شائع کیں۔
انتقال :
21 مارچ 2008ء کو دل کا دورہ پڑنے سے ڈاکٹر صابر کلوروی کا انتقال ہوا۔ ان کی علمی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں بعد از وفات تمغہ امتیاز سے نوازا۔ وہ ایبٹ آباد کے علاقے قلندر آباد میں سپردِ خاک ہیں۔
ڈاکٹر صابر کلوروی کی علمی کاوشیں اردو ادب اور اقبالیات کے میدان میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ ڈاکٹر صابر کلوروی کے فکر و فن اور ان کی اردو ادب میں خدمات کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.