پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ کا خلاصہ

خلاصہ

آج کی اس پوسٹ میں ہم جماعت نہم پنجاب بورڈ کی نظم ” پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ” از علامہ اقبال کا خلاصہ پڑھیں گے ۔

خلاصہ کیا ہوتا : وہ خاص معنی جسے ادبی اظہار کا روپ دینا، فن کار کا مقصد ہوتا ہے، اس کے لئے ادب پارے کو ایک دائرہ فرض کیا جاتا ہے اور مقصد کو مرکز قرار دیا جاتا ہے۔

خلاصہ: خزاں کے موسم میں درخت سے ٹوٹ کر علیحدہ ہونے والی ٹہنی موسم بہار میں بھی سرسبز نہیں ہوتی ۔ زوال اس کا ہمیشہ کے لیے مقدر بن جاتا ہے ۔ چاہے جتنی بارش ہی کیوں نہ ہو اس پر پھل اور پتے نہیں اگتے ۔ ٹہنی سے علیحدہ ہونے والا پھول بھی چمک دمک اور خوبصورتی سے محروم ہو جاتا ہے ۔ اس کا کیسہ زر گل سے خالی ہو جاتا ہے ۔ وہ پرندے جو کبھی درخت کی ٹہنی کے پتوں کے پیچھے بیٹھ کر چہچہاتے تھے اس کے ٹوٹ کر گرنے سے اب چلے گئے ہیں ۔ گویا وہاں کوئی رونق ہی نہیں رہی ۔ زمانے کے رسم و رواج اور دستور سے ناواقف انسان کو ٹوٹی ہوئی ٹہنی سے سبق سیکھنا چاہیے ۔ جب وہ شاخ درخت سے جڑی ہوئی تھی تو سرسبز و شاداب تھی ۔ پرندے بھی آ کر اس پرچہچہاتے تھے ۔ اب جب ٹوٹ کر نیچے آ پڑی ہے تو وہ پرندے نہیں آتے جو درخت پر بیٹھ کر میٹھی میٹھی بولیاں بولتے تھے ۔ مختصر یہ کہ انسان کو اپنی قوم یا جماعت سے علیحدہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس سے بھرپور تعلق جوڑ کر خوشحالی کی امید رکھنی چاہیے ۔ اس میں اس کی بہتری اور بھلائی ہے ۔ ورنہ ٹوٹی ہوئی ٹہنی کی طرح نقصان اٹھائے گا ۔ علامہ اقبال نے اس نظم میں قران مجید کے ایک ارشاد کا مفہوم واضح کیا ہے جس کا ترجمہ ہے :

” اور تم سب مل کر اللہ تعالیٰ کی رسی یعنی دین کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقے میں نہ پڑو  ” ۔


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply