پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
آج کی اس پوسٹ میں ہم علامہ اقبال کی مشہور نظم ” پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ” جو کہ جماعت نہم پنجاب بورڈ کے نصاب کا حصہ ہے ، کی تشریح و توضیح کریں گے ۔
شعر نمبر 1 :
ڈالی گئی جو فصل خزاں میں شجر سے ٹوٹ
ممکن نہیں ہری ہو سحاب بہار سے
مشکل الفاظ کے معانی : ڈالی( شاخ ، ٹہنی) ، شجر (درخت ) ، سحاب بہار( بہار کا بادل) ، فصل( موسم) ، ہری( سبز) ، خزان ( پت جھڑ ) ، سحاب( بادل، گھٹا )
مفہوم : فصل خزاں میں جو ڈالی شجر سے ٹوٹ گئی ممکن نہیں کہ وہ بہار کے بادل سے بھی سرسبز و شاداب ہو۔
تشریح : علامہ اقبال ہمارے قومی شاعر ہیں ۔ علامہ اقبال سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے دل میں اپنی قوم کا گہرا درد موجود تھا ۔ اسی لیے 1930ء میں خطبہ الہ آباد میں مسلمانوں کے لیے الگ ملک کا نظریہ پیش کیا ۔ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شاعری کی ۔ آپ نے شاعری کا آغاز تو غزل گوئی سے کیا لیکن بعد میں پوری توجہ نظم نگاری کی طرف مبذول کر دی ۔ آپ نے شاعری کے ذریعے ہی آزادی کی شمع روشن کی اور یہ پیغام شاعری کے ذریعے ہی مسلمانوں تک پہنچایا ۔ علامہ اقبال کے دل میں اپنی قوم کا گہرا درد موجود تھا ۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے آزادی کی جو شمع روشن کی اسی کے بارے میں یہ نظم ہے ۔
نوٹ : مندرجہ بالا اقتباس اس نظم کے کسی بھی شعر کے شروع میں لکھا جا سکتا ہے ۔
مذکورہ شعر میں مسلمانوں کو متحد رہنے اور اپنے مذہب و قوم سے جڑے رہنے کا درس دیتے ہوئے علامہ اقبال کہتے ہیں کہ جو شاخ موسم خزاں میں درخت سے ٹوٹ کر علیحدہ ہو جاتی ہے ممکن نہیں ہے کہ وہ بہار کے موسم میں بھی سرسبز و شاداب ہو سکے۔ مراد یہ ہے کہ انسان کی قدر و منزلت قوم سے وابستہ رہنے میں ہی ہے ۔ اسی لیے اتحاد و اتفاق میں ہی برکت ہے ۔ اپنوں کو چھوڑ کر غیروں کے ساتھ چلنے والے آدمی کی عزت گھٹ جاتی ہے ۔ اس شعر میں علامہ اقبال نے اجتماعیت کے فلسفے پر روشنی ڈالی ہے ۔ اقبال کی شاعری میں یہ پکار بار بار سنائی دیتی ہے ۔ یہ نظم درحقیقت بر صغیر کے حالات کے تحت لکھی گئی ہے ۔ جب انگریز حکومت مسلمانوں کے حقوق غضب کر رہی تھی ۔ مسلمان زوال کا شکار تھے ۔ مسلمان اپنی جماعت چھوڑ کر انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی پر مجبور تھے ۔ ایسے میں علامہ اقبال نے مسلمانوں کو متحد رہنے کا درس دیا علامہ اقبال ایک اور جگہ فرماتے ہیں :
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
یعنی ایک فرد کی پہچان قوم سے ہے ۔ اگر وہ اپنی قوم کا ساتھ چھوڑ دے گا تو اس کی حیثیت کچھ نہیں رہ جاتی ۔
شعر نمبر 2 :
ہے لازوال عہد خزاں اس کے واسطے
کچھ واسطہ نہیں ہے اسے برگ و بار سے
مشکل الفاظ کے معانی : لازوال ( کبھی نہ ختم ہونے والا) ، عہد خزاں( پت جھڑ کا موسم ) ، برگ (پتا) ، واسطہ( تعلق) ، برگ و بار( پھل اور پتے) ، اس کے واسطے( اس کے لیے)
مفہوم : عہد خزاں اس کے واسطے لازوال ہے اسے برگ و بار سے کچھ واسطہ نہیں۔ جو اپنی ملت سے کٹ گیا ۔
تشریح : علامہ اقبال کی شاعری مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے ۔ مذکورہ شعر میں وہ مسلمانوں کو برے حالات میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہنے کا درس دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ درخت سے ٹوٹ کر علیحدہ ہونے والی ٹہنی کے لیے ہمیشہ موسم خزاں ہی رہتا ہے ۔ اس پر پھل پھول نہیں لگتے گویا اس پر کبھی نہ ختم ہونے والا زوال طاری ہو جاتا ہے اور اس کے مقدر میں خزاں لکھ دی جاتی ہے ۔ اس میں بڑھنے کی صلاحیت بالکل ختم ہو جاتی ہے ۔ اس شعر کا لب لباب یعنی مرکزی خیال یہ ہے کہ اپنی قوم یا قوم سے علیحدہ ہونے والا آدمی ترقی نہیں کر سکتا ۔ زوال اس کا مقدر بن جاتا ہے لہٰذا ترقی اور کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنی قوم و برادری سے تعلق رکھے ۔ انفرادی زندگی بسر کرنے والے شخص کا تشخص ختم ہو جاتا ہے ۔ اسی لیے اسلام نے اجتماعیت پر زور دیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
” تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اگر ایک عضو میں درد ہو تو پورا جسم درد محسوس کرتا ہے ” ۔
علامہ اقبال ایک اور شعر میں مسلمانوں کو اتحاد کا درس اس طرح دے رہے ہیں :
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
شیر نمبر 3 :
ہے تیرے گلستان میں بھی فصل خزاں کا دور
خالی ہے جیب گل زرِ کامل عیار سے
مشکل الفاظ کے معانی : گلستان ( باغ ، گلزار) ، زر (سونا) ، دور( زمانہ) ، ذر کامل عیار( خالص سونا) ، جیب( کیسہ، دامن) ، جیب گل( پھولوں کا کیسہ جس میں زر گل ہوتا ہے)
مفہوم : تیرے گلستان میں بھی فصل خزاں کا دور ہے ۔ جیب گل زر کامل عیار سے خالی ہے۔
تشریح : علامہ اقبال ہمارے قومی و ملی شاعر ہیں ۔ انھوں نے بر صغیر کے مسلمانوں کو جگانے اور متحد رکھنے کے لیے مذکورہ شعر لکھا ۔ کہتے ہیں کہ اپنوں سے کنارہ کشی کرنے والے زوال کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ اے مسلمانو ! تم پر اس وقت خزاں کا موسم طاری ہے ۔ تم میں ایسے بہادر اور وفادار لوگوں کی کمی ہے جو زندہ قوموں کے افراد میں ہوتی ہے۔ یعنی ٹہنی سے علیحدہ ہونے والے پھول کا کیسہ بھی زر گل سے خالی ہے ۔ اس میں وہ چمک دمک اور خوبصورتی نہیں ہوتی جو ٹہنی پر لگا ہونے کے وقت ہوتی ہے ۔ وہ بھی آہستہ آہستہ مرجھانا شروع کر دیتا ہے گویا اب زوال اس کا مقدر ہے یعنی مسلم امت اس وقت ان انحطاط اور زبوں حالی کا شکار ہے ۔ اب ایسے لوگ باقی نہیں رہے جو ایمان اور عمل کی دولت سے مالا مال تھے ۔
بقول اقبال:
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
اے مسلمانو ! تم بے عملی کا شکار ہو گئے ہو ۔ اس وجہ سے تم زبوں حالی اور زوال کا شکار ہو متحد ہو کر عملی طور پر اپنی آزادی کی جنگ لڑو ایک اور جگہ علامہ اقبال فرماتے ہیں :
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
شعر نمبر 4 :
جو نغمہ زن تھے خلوت اوراق میں طیور
رخصت ہوئے تیرے شجر سایہ دار سے
مشکل الفاظ کے معانی : نغمہ( گیت ترانہ ) ، نغمہ زن (اچھا گانے والا) ، رخصت ہوئے (چلے گئے) ، خلوت (تنہائی ، علیحدگی ، گوشہ نشینی) ، طیور( طیر کی جمع پرندے) ، خلوت اوراق( پتوں کے پیچھے) اوراق ( ورک کی جمع کاغذ کے ٹکڑے) ، شجر (درخت ) ، شجر سایہ دار( وہ درخت جس کے نیچے چھاؤں ہو)
مفہوم : خلوت اوراق میں جو طیور نغمہ زن تھے وہ تیرے شجر سایہ دار سے رخصت ہو چکے ہیں۔
تشریح : جب موسم خزاں میں ٹہنی درخت سے ٹوٹ کر گر گئی ہو تو وہ پرندے جو کبھی گھنے چھاؤں والے درخت کی اس ٹہنی کے پتوں کے پیچھے بیٹھے چہچہا رہے ہوتے تھے وہ بھی اڑ گئے ۔ اب وہاں ان کے چہچہانے کی آواز نہیں آتی مراد یہ ہے کہ اتفاق میں برکت اور نا اتفاقی میں نقصان ہے۔ اسی طرح آدمیوں کے کسی جماعت یا قوم سے علیحدہ ہو کر ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے سے نقصان ہوتا ہے۔ ایک شاخ ٹوٹ کر گر جائے تو درخت نہیں رہتا۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کامیابی کا راز یکجہتی اور اتفاق و اتحاد ہی میں ہے ۔
بقول علامہ اقبال:
گنوا دی ہم نے اسلاف سے جو میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسمان ہم کو دے مارا
یعنی مسلمان اس وقت اپنے اسلاف کا سبق بھول چکے ہیں ۔ علم و حکمت ہماری گمشدہ میراث ہے ۔ علم حاصل کرو اور آپس میں اتفاق سے رہو۔
شعر نمبر 5 :
شاخ بریدہ سے سبق اندوز ہو کہ تو
نا آشنا ہے قاعدہ روزگار سے
مشکل الفاظ کے معانی: شاخ بریدہ ( کٹی ہوئی ٹہنی) ، قاعدہ روزگار( زمانے کے طور طریقے) ، سبق اندوز ہو (نصیحت پکڑ ، عبرت حاصل کر ، سبق سیکھ ) ، نا آشنا (نا واقف) ، قاعدہ (طریقہ ، دستور رسم ) ، روزگار( زمانے کی نوکری)
مفہوم : تو قاعدہ روزگار سے نا آشنا ہے اس لیے شاخ بریدہ سے سبق اندوز ہو ۔
تشریح : علامہ اقبال کہتے ہیں کہ مسلمان اسلام کی وجہ سے ایک ملت ہیں ۔ ان کی قوت کا دارومدار بھی اسلام ہے ۔ انھوں نے اتحاد کے حوالے سے ایک نصیحت مذکور شعر میں کی ہے ۔ کہتے ہیں کہ اے انسان ! تو دنیا کے قاعدے ، قانون ، دستور اور رسم و رواج سے ناواقف ہے۔ تو ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے لیے درخت کی اس ٹہنی سے سبق سیکھ جو ٹوٹ کر نیچے گر گئی اور پھر ہمیشہ کے لیے اس کا وجود ختم ہو گیا ۔ اب اس پر بیٹھ کر چہچہانے والے پرندے بھی نہیں ہیں ۔ تو بھی اپنی جماعت برادری اور قوم سے علیحدہ ہونے کی کوشش نہ کر ۔ ورنہ کٹی ہوئی شاخ کی طرح تو بھی نقصان اٹھائے گا۔ اے غافل مسلمان تجھے اپنے اختلافات ختم کر کے اپنی ملت سے تعلق استوار کرنے چاہیے ۔
علامہ اقبال ایک اور جگہ فرماتے ہیں :
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
شعر نمبر 6 :
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوست رہ شجر سے امید بہار رکھ
مشکل الفاظ کے معانی : ملت (قوم ، گروہ ) ، پیوستہ( ملا ہوا ، ایک جان) ، رابطہ( تعلق ، واسطہ) ، رہ (رہو ، رہنے کا فعل امر) ، استوار ( مضبوط، مستحکم) ، بہار( پھول کھلنے کا موسم ) ، رونق (خوشی)
مفہوم : ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ اور شجر سے پیوستہ رہ تاکہ بہار کی امید رکھ سکے ۔
تشریح : شاعر مشرق علامہ محمد اقبال اس شعر میں امت مسلمہ کے ہر فرد کو امید بہار کا حوصلہ افزا پیغام دے رہے ہیں کہ اے امت مسلمہ کے جوانوں ملت اسلامیہ کے ساتھ اپنا مضبوط تعلق قائم کرتے ہوئے اتحاد و اتفاق سے رہو اور آپس کے انتشار سے بچو ۔ باہمی تعلقات مستحکم اور خوش گوار رکھو اور آپس کی نفرتوں کو ختم کر دو ۔ اے مسلمانو ! ملت اسلامیہ کے شجر سے جڑے رہو اور بہار کے آنے کی امید رکھو ۔ نا امیدی اور مایوسی کو دل سے دل میں جگہ نہ دو ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ملت اسلامیہ کا یہ درخت مزید تناور ہوگا ۔ اس کے پھلنے پھولنے سے مزید پودے اگیں گے اور یہ چمن کی صورت اختیار کر جائے گا ۔ امت مسلمہ مستحکم اور خوشحال ہوگی اور ہر طرف دین اسلام کا ہی بول بالا ہوگا ۔
بقول اقبال :
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرونِ دریا کچھ نہیں
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے آپس میں اتحاد و اتفاق سے رہیں اور ایک دوسرے کی قوت بنیں ۔ ایسا کرنے سے ہمیں اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوگی اور ملت اسلامیہ کی ترقی اور خوشحالی کا خواب ضرور پورا ہوگا۔
ان شاءاللہ ۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ اقبال کی نظم ” پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ” کی تشریح و توضیح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.