پیری میں کیا جوانی کے موسم کو روئیے

پیری میں کیا جوانی کے موسم کو روئیے

آج کی اس پوسٹ میں ہم میر تقی میر کی غزل ” پیری میں کیا جوانی کے موسم کو روئیے” کا مفہوم ، لغت اور تشریح کریں گے ۔

شعر نمبر 1 : 

پیری میں کیا جوانی کے موسم کو روئیے

اب صبح ہونے آئی ہے اک دم تو سوئیے

مشکل الفاظ کے معانی : پیری ( بڑھاپا) ، ایک دم (ایک لمحے کے لیے )

مفہوم : بڑھاپے میں جوانی کو یاد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں صبح قریب ہے تھوڑی دیر سو جائیے ۔

تشریح : : میر کو رنج و علم اور غم کا شاعر بھی کہا جاتا ہے ۔ ان کے اشعار میں جابجا دردمندی اور غم کا اظہار ملتا ہے ۔ کہیں غم دوراں ، کہیں غم جاناں ، کہیں ملک سیاسی حالات کا غم ، کہیں اپنے ذاتی حالات کا غم ، الغرض میر کی شاعری میں جا بجا غم کا اظہار نظر آتا ہے ۔ اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد ملک سیاسی ابتری کا شکار ہو گیا ۔ شہزادوں میں تخت نشینی کے لیے خانہ جنگی شروع ہو گئی ۔ ملک میں ہونے والی قتل و غارت میر نے آنکھوں سے دیکھی ۔ دلی کی تباہی و بربادی بھی میر جیسے ذکی الحس شخص کے لیے ایک تازیانہ تھی ۔ گھریلو حالات کی ناسازی  ،غربت ، تنگدستی ، عشق میں ناکامی ، والد کی وفات ، سوتیلے بھائیوں کا گھر سے نکال دینا ، جوان بیٹی کی وفات اور پھر رفیقِ حیات کی وفات میر کی زندگی کے ایسے المیے تھے جن کا اثر ان کے اشعار میں بکثرت نظر آتا ہے ۔ مولوی عبدالحق میر کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ” میر کا ہر شعر ایک آنسو ہے اور ہر مصرع خون کی ایک بوند ہے” ۔

نوٹ : مندرجہ بالا اقتباس کو میر تقی میر کی کسی بھی غزل کے کسی بھی شعر کے شروع میں لکھا جا سکتا ہے ۔

انسانی زندگی تین ادوار پر محیط ہے بچپن ، جوانی اور بڑھاپا ۔ جوانی عمر کا سب سے بہترین دور ہوتا ہے کیونکہ جوانی میں انسان کے اعضاء تندرست و توانا ہوتے ہیں ۔ وہ کسی کا محتاج نہیں ہوتا جبکہ بچپن اور بڑھاپے میں اس کے اعضاء کمزور ہوتے ہیں ۔ وہ کسی کام کاج کے قابل نہیں ہوتا بلکہ دوسروں پر انحصار کرتا ہے ۔ جوانی میں امنگیں اور جوش و جذبہ ہوتا ہے ۔ بازوؤں میں طاقت بھی ہوتی ہے اور ذہن بھی بیدار ہوتا ہے ۔ انسان جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے ۔

بقول اختر انصاری :

رگوں میں دوڑتی ہیں بجلیاں لہو کے عوض

شباب کہتے ہیں جس چیز کو قیامت ہے

جوانی کام کاج اور اللہ کی عبادت و اطاعت کا بہترین وقت ہوتا ہے ۔ جوانی میں انسان ہر ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے ۔ لیکن انسان اچھے وقت کی قدر نہیں کرتا ہے اور اس سے کما حقہ فائدہ نہیں اٹھاتا ۔ عموماً جوانی میں انسان دنیا کی رنگینیوں میں گم ہو کر اپنا مقصدِ حیات بھول جاتا ہے اور اپنے پروردگار سے غافل ہو جاتا ہے ۔ جوانی ہی میں شیطان انسان کو اس کے مقصدِ حیات سے غافل کرنے کے لیے سب سے زیادہ سرگرم ہوتا ہے ۔ جلد ہی جوانی کا دور گزر جاتا ہے اور بڑھاپا شروع ہو جاتا ہے ۔ بڑھاپے میں انسان کسی کام کاج کے قابل نہیں رہتا ۔ اس کے اعضاء اس کا ساتھ نہیں دیتے ۔ تب وہ اپنی جوانی کو یاد کرتا ہے اور کف افسوس ملتا ہے کہ کاش میں جوانی کے حسین لمحات کو ضائع نہ کرتا اور غفلت میں نہ گزارتا ۔ وہ عمر رفتہ کو آواز دیتا ہے کہ کاش وہ لوٹ آئے ۔

بقول صفی لکھنوی :

غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا

ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا

جوانی میں انسان کو بڑھاپا یاد نہیں آتا لیکن بڑھاپے میں جوانی یاد آتی ہے۔  جب جوانی کا موسم گزر جاتا ہے تو انسان کو احساس ہوتا ہے کہ کاش جوانی کچھ دیر اور رہتی اور میں مزید کام کر لیتا لیکن جوانی ایسی شے ہے جو جا کر واپس نہیں آتی اور بڑھاپا ایسی شے ہے جو آ کر نہیں جاتا لہٰذا بڑھاپے میں جوانی کو یاد کرنا بے فائدہ ہے ۔

بقول ابراہیم ذوق :

وقتِ پیری شباب کی باتیں

ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں

تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ گزری جوانی اور گئے وقت کو یاد کرنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا کیونکہ قدرت کا اصول ہے کہ گیا وقت واپس نہیں آتا لہٰذا ماضی کو یاد کرنے اور اس پر آنسو بہانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ بڑھاپے میں جوانی کو یاد کر کے رونا بڑھاپے کی تکلیف میں اضافہ کر دیتا ہے چنانچہ شاعر کہتا ہے رات بھر تم جوانی کو یاد کرتے رہے اور اس پر آنسو بہاتے رہے جس کی وجہ سے آرام اور سونے کا وقت برباد ہو گیا ۔ اب صبح ہونے کو آئی ہے لہٰذا کچھ دیر کے لیے سو جاؤ ۔ غفلت میں گزری جوانی کو یاد کرنے اور اس پر آنسو بہانے سے اس کی تلافی نہیں ہو سکتی اور نہ جوانی کا موسم واپس آ سکتا ہے ۔

شعر نمبر 2 :

اخلاص سے دل سے چاہیے سجدہ نماز میں

بے فائدہ ہے ورنہ جو یوں وقت کھوئیے

مشکل الفاظ کے معانی : اخلاص دل ( خلوص دل ، بے لوث ہو کر) ،  وقت کھونا ( وقت ضائع کرنا)

مفہوم :  نماز خلوصِ دل سے پڑھنی چاہیے ورنہ ایسے سجدے بے فائدہ  اور وقت کا ضیاع ہے ۔

تشریح :  تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ہمیں خلوصِ دل سے نماز پڑھنی چاہیے ۔ اگر سجدہ نماز میں اخلاص نہ ہو تو ایسے سجدے کرنا وقت کا ضیاع ہے ۔ ان سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ ریاکاری اور دکھاوا اللہ کو سخت ناپسند ہے ۔ سچے دل اور اخلاص سے کیا گیا معمولی سا کام یا  معمولی سا عمل ریاکاری اور دکھلاوے کے بڑے بڑے عمل سے زیادہ وزنی ہے ۔ جن نمازوں میں اللہ کی رضا اور اخلاص نہیں ہوتا وہ پڑھنے والے کے منہ پر مار دی جاتی ہیں ۔ اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ جب انسان اللہ کے سامنے سر جھکائے تو پورے عقل و شعور اور صدق دل سے جھکائے ۔ وہ ہر شے کے تصور سے خالی ہو کر اللہ کو یاد کرے ۔ اگر سجدے میں انسان کا ذہن دنیاوی خیالوں اور دنیاوی کاموں میں الجھا رہے تو ایسے غفلت بھرے بے دلی اور اخلاص سے عاری سجدوں کی اللہ کو ضرورت نہیں ۔ اللہ تعالٰی قران مجید میں ارشاد فرماتا ہے ۔ جس کا ترجمہ ہے :

” تباہی ہے ایسے نمازیوں کے لیے جو اپنی نمازوں سے غفلت برتتے ہیں ۔ “

سورۃ ماعون آیت نمبر چار پانچ

شاعر نے ایسے سجدوں کو وقت کا ضیاع کہا ہے کیونکہ ان سے اللہ کی بندگی کا صحیح حق ادا نہیں ہوتا ۔ علامہ اقبال نے اسی مضمون کو یوں بیان کیا ہے :

جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمین سے آنے لگی صدا

تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں

ایک اور جگہ علامہ اقبال فرماتے ہیں :

تیرا امام بے حضور ، تیری نماز بے سرور

ایسی نماز سے گزر ، ایسے قیام سے گزر

اعمال کا دارومدار نیت پر ہوتا ہے اگر نیت میں اخلاص نہیں تو عمل قابلِ قبول نہیں ہوتا ۔ خشوع خضوع اور اخلاص اعمال اور عبادت کی روح ہیں ۔ عبادت اللہ کی بندگی کے اظہار کی علامت ہے ۔ اس لیے اسے ریاکاری اور دکھاوے سے پاک ہونا چاہیے ۔ ایک بار حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دریافت فرمایا کہ احسان کیا ہے یعنی عبادت میں کمال درجہ کیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:

” احسان عبادت کا درجہ کمال یہ ہے کہ اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اگر یہ مرتبہ نہیں پا سکتے تو یہ یقین پیدا کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ” ۔

حدیث

شعر نمبر 3 : 

کس طور آنسوؤں میں نہاتے ہیں غم کشاں

اس آب گرم میں نہ انگلی ڈبوئیے

مشکل الفاظ کے معانی : کس طور ( کس طرح ، کس طریقے سے) ،  غم کشاں (غم زدہ ،  غم اٹھانے والے) ،  آب گرم (گرم پانی مراد آنسو )

مفہوم :  غمزدہ لوگ کس طرح آنسوں میں نہاتے ہیں آپ اس سے باز رہیں ۔

تشریح : میر کو رنج و علم اور غم کا شاعر بھی کہا جاتا ہے ۔ ان کے اشعار میں جابجا دردمندی اور غم کا اظہار ملتا ہے ۔ کہیں غم دوراں ، کہیں غم جاناں ، کہیں ملک سیاسی حالات کا غم ، کہیں اپنے ذاتی حالات کا غم ، الغرض میر کی شاعری میں جا بجا غم کا اظہار نظر آتا ہے ۔ اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد ملک سیاسی ابتری کا شکار ہو گیا ۔ شہزادوں میں تخت نشینی کے لیے خانہ جنگی شروع ہو گئی ۔ ملک میں ہونے والی قتل و غارت میر نے آنکھوں سے دیکھی ۔ دلی کی تباہی و بربادی بھی میر جیسے ذکی الحس شخص کے لیے ایک تازیانہ تھی ۔ گھریلو حالات کی ناسازی  ،غربت ، تنگدستی ، عشق میں ناکامی ، والد کی وفات ، سوتیلے بھائیوں کا گھر سے نکال دینا ، جوان بیٹی کی وفات اور پھر رفیقِ حیات کی وفات میر کی زندگی کے ایسے المیے تھے جن کا اثر ان کے اشعار میں بکثرت نظر آتا ہے ۔ مولوی عبدالحق میر کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ” میر کا ہر شعر ایک آنسو ہے اور ہر مصرع خون کی ایک بوند ہے ” ۔

میر تقی مید خود کہتے ہیں :

مجھ کو شاعر نہ کہو میر کے صاحب میں نے

درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا

تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ معلوم نہیں غمزدہ لوگ کس طرح آنسوؤں میں نہاتے ہیں اور غم برداشت کرتے ہیں ۔ آپ ایسے کاموں سے باز رہئے ۔  غم کشاں سے مراد اہل عشق ہیں ۔ آنسوؤں میں نہانے سے مراد دن رات مسلسل آنسو بہانا ہے اور آب گرم میں انگلی نہ ڈبونے کا مطلب عشق سے باز رہنے کی تلقین ہے ۔ عاشق کی زندگی مصائب اور تکالیف سے بھری ہوتی ہے ۔ محبوب کی جدائی ، محبوب کا ظلم و ستم ، لاپرواہی ، بے اعتنائی اور زمانے میں ذلت و رسوائی کا غم عاشق کو رات دن آنسو بہانے پر مجبور کرتا ہے ۔ ایک عاشق و غموں اور آنسوؤں سے کبھی فرصت نہیں ملتی ۔ اس کی زندگی کا ہر لمحہ محبوب کے لیے تڑپنے اور آنسو بہانے میں گزرتا ہے ۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے آپ ایسے عشق سے اور اس طرح آنسو بہانے سے باز رہیں ۔ یہ اہلِ عشق ہی کا کام ہے ۔ عام لوگوں کے بس کی بات نہیں ۔

بقول حیدر علی آتش :

یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجئے

ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

شعر کا دوسرا پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے محبوب ہم آپ کے غم میں دن رات آنسو بہاتے رہتے ہیں ۔ آپ کو کیا معلوم کہ عشاق کس طرح سے آنسوؤں میں نہاتے ہیں اور غموں میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔ آپ ہماری آنکھوں سے انسو پونچھنے کی کوشش نہ کریں ۔ ان آنسوؤں میں ہمارے جذبات کی آگ بھی شامل ہے ۔ جو آنکھوں کے راستے بہہ کر نکلی ہے ۔ جس کی وجہ سے آنسوؤں کا پانی گرم ہو گیا ہے ۔ چنانچہ آپ ان آنسوؤں کو پونچھنے کی کوشش نہ کریں ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آب گرم سے آپ کی انگلیاں جل جائیں ۔

بقول مولانا حالی :

ضبط غم اس قدر آساں نہیں حالی

آگ ہوتے ہیں وہ آنسو جو پیے جاتے ہیں

شعر نمبر 4 :

اب جان جسم خاک سے تنگ آ گئی بہت

کب تک اس ایک ٹوکری مٹی کو ڈھوئیے

مشکل الفاظ کے معانی : جسم خاک (مٹی کا جسم)  ،  ڈھونا (وزن اٹھانا)

مفہوم : ہم اپنی زندگی سے تنگ آ گئے ہیں ۔ آخر کوئی کب تک اس مٹی کی ٹوکری کو اٹھائے پھرے ۔

تشریح :  انسان جسم اور  روح کا مرکب ہے ۔ جسم مٹی سے بنا ہے اور روح امر ربی ہے ۔ جسم کثیف شے ہے اور روح لطیف شے ہے ۔ ان دونوں کے مرکب سے زندگی ظہور پذیر ہوتی ہے ۔ روح جسم کے قید خانے میں خود کو مقید سمجھتی ہے ۔ اس لیے اس سے نکلنے کے لیے بے چین و بے قرار رہتی ہے اور جسم سے نکلنے کی تدبیر سوچتی رہتی ہے ۔ شاعر نے روح کے اس اضطراب اور بے قراری کو خوب انداز میں بیان کیا ہے ۔ جس طرح ایک مزدور بھاری بوجھ مسلسل اٹھائے رکھنے سے تھک جاتا ہے ۔ بالکل اسی طرح روح بھی مٹی سے بنے اس جسم کا بوجھ اٹھائے تھک کر بوجھل ہو جاتی ہے اور بوجھ سے نجات حاصل کرنے کی خواہش کرتی ہے تاکہ اسے آرام و سکون نصیب ہو چنانچہ تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اب میری روح مٹی کے جسم کے بوجھ کو اٹھا اٹھا کر تنگ آ چکی ہے ۔ آخر کب تک میں اس مٹی کی ٹوکری کو مزدور کی طرح ڈھوتا رہوں ۔ کب مجھے اس سے نجات ملے گی ۔ موت آ جائے تو مجھے اس مشکل سے نجات مل جائے گی ۔

بقول ساحر لدھیانوی :

موت کتنی بھی سنگ دل ہو مگر

 زندگی سے تو مہرباں ہوگی

ہم نہ ہوں گے تو غم کسے ہوگا

ختم ہر غم کی داستاں ہوگی

اور بقول میر درد :

زندگی ہے یا طوفاں ہے

ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

شاعر نے وضاحت نہیں کی کہ کس وجہ سے زندگی سے تنگ آ گیا ہے ۔ زندگی سے تنگ آنے کی وجہ زمانے کی مشکلات اور زندگی کے مصائب بھی ہو سکتے ہیں ۔ میر کی زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ میر کی تمام عمر غموں اور پریشانیوں کا سامنا کرتے گزری ۔ گھریلو حالات کی ناسازی ، غربت ، تنگدستی عشق میں ناکامی ، والد کی وفات ، سوتیلے بھائیوں کا گھر سے نکال دینا ، جوان بیٹی کی وفات اور پھر رفیقِ حیات کی وفات میر کی زندگی کے ایسے المیے تھے جن کا اثر ان کے اشعار میں بکثرت نظر آتا ہے ۔

مولوی عبدالحق میر کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : ”  میر کا ہر شعر ایک آنسو ہے ہر مصرع خون کی ایک بوند ہے” ۔

بقول ساغر صدیقی :

زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے

جانے کس جرم کی پائی یا سزا یاد نہیں

زندگی سے تنگ آنے کی وجہ محبوب سے جدائی اور محبوب کا ظلم و ستم بھی ہو سکتا ہے ۔ موت کے آنے سے شاعر کو اس ظلم و ستم سے نجات مل جائے گی اور محبوب کی خاطر مرنے کی وجہ سے شاعر کی وفاداری بھی ثابت ہو جائے گی ۔

بقول میر تقی میر:

 شش جہت اب تو تنگ ہے ہم پر

اس سے ہوتے نہ ہم دو چار اے کاش

شعر نمبر 5 : 

آلودہ اس گلی کے جو ہوں خاک سے تو میر

آب حیات سے بھی نہ وے پاؤں دھوئیے

مشکل الفاظ کے معانی : آلودہ (لت پت ،  لتھڑا ہوا) ،  خاک (مٹی) ،  آب حیات ( زندگی بخشنے والا پانی ، امرت ، ایسا پانی جس کے پینے سے موت نہیں آتی) ،  وے ( وہ کی جمع یہ لفظ متروک ہو چکا ہے اب واحد اور جمع دونوں کے لیے وہ استعمال ہوتا ہے )

مفہوم :  محبوب کی گلی سے گزرتے ہوئے اگر پاؤں خاک الودہ ہو جائیں تو میں انہیں پانی تو کیا آب حیات سے بھی نہ دھوؤں ۔

تشریح :  تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ محبوب کے کوچے سے گزرتے ہوئے اگر میرے پاؤں خاک آلودہ ہو جائیں تو یہ میرے لیے عزت و شرف کی بات ہے ۔ محبوب کے کوچے کی خاک سے اٹے پاؤں کو میں آب حیات سے بھی دھونا پسند نہیں کروں گا ۔ عاشق کے نزدیک محبوب کی نسبت کی ہر چیز قدر و قیمت کی حامل ہوتی ہے ۔ چاہے وہ خاک ہی کیوں نہ ہو ۔ اس کے نزدیک محبوب کے کوچے کی خاک آب حیات سے بھی بڑھ کر ہے ۔ آب حیات کے متعلق مشہور ہے کہ اس پانی کو پینے والا ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور اسے موت نہیں آتی لوگ اس کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں اور اپنی عمریں گوا دیتے ہیں لیکن کسی کو ڈھونڈنے سے بھی وہ نایاب آب حیات نہیں ملتا ۔ لیکن شاعر کے نزدیک محبوب کی گلی کی خاک اس حیات بخش پانی سے بھی بڑھ کر ہے جسے پی کر لوگ ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں ۔ چنانچہ وہ کہتا ہے کہ محبوب کے دیدار کے لیے میں اس کی گلی کے چکر لگاتا ہوں جس کی وجہ سے میرے پاؤں خاک آلودہ ہو جاتے ہیں لیکن اسے میں اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں ۔ محبوب کے کوچے کی ہر چیز مجھے عزیز ہے اگر کوئی مجھے خاک آلودہ پاؤں دھونے کو کہے تو عام پانی سے تو کجا میں آب حیات سے بھی پاؤں دھونا گوارا نہیں کروں گا ۔ محبوب کے لیے تکلیف برداشت کرنا ، خاک آلودہ ہونا عاشق کے لیے اعزاز کی بات ہوتی ہے کیونکہ اس سے اس کی وفاداری اور عشق میں صداقت کا اظہار ہوتا ہے ۔ چنانچہ عاشق محبوب کی خاطر ملنے والی تکالیف اور عشق کے راستے کی مشکلات کو اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہے ۔ ایک فارسی شاعر مولانا روم کہتے ہیں :

پائے سگ بوسید مجنوں ، خلق گفتہ ایں چہ بود

ایں سگے در کوئے لیلیٰ گاہے گاہے رفتہ بود

ترجمہ : ”  مجنوں نے کتے کے پاؤں چومے تو لوگوں نے پوچھا یہ تم نے کیا کیا ۔ مجنوں بولا یہ کتا کبھی کبھی لیلیٰ کی گلی سے گزرتا ہے اس لیے میں اس کے پاؤں چومتا ہوں ” ۔

انتخاب کلام میر ڈاکٹر مولوی عبدالحق

نوٹ : امید ہے کہ آپ فیڈرل بورڈ  اور خیبرپختونخوا کی جماعت گیارھویں اردو میر تقی میر کی غزل ” پیری میں کیا جوانی کے موسم کو روئیے” کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

 


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply