پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے

پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے

آج کی اس پوسٹ میں ہم میزا خان دغ دہلوی کی غزل  ” پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے  ” جو کہ پنجاب بورڈ جماعت گیارہویں کے نصاب میں شامل ہے اس کی تشریح کریں گے ۔

شعر نمبر 1 : 

پھر ے راہ سے وہ یہاں آتے آتے

اجل مر رہی ، تو کہاں آتے آتے

مشکل الفاظ کے معانی : پھرے( واپس ہو گئے) ،  اجل (موت )

مفہوم :  محبوب نے وعدہ وفا نہیں کیا ، وہ ملنے نہیں آیا ۔ اے موت ! تو تو آ جا اور مجھے کے جا ۔

تشریح :  یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک عاشق محبوب کو ہی کل کائنات تصور کرتا ہے ۔ اسی کے دم سے اسے یہ کائنات حسین نظر آتی ہے ۔ جب محبوب کا وصل حاصل ہوتا ہے تو اس سے بڑھ کر عاشق کو اور کسی بات کی خوشی نہیں رہتی ۔ تشریح طلب شعر میں محبوب عاشق سے ملنے کا وعدہ کرتا ہے کہ وہ اسے ملنے آ رہا ہے ۔ عاشق کو جتنی خوشی ہوتی ہے اس کو ضبط تحریر میں لانا مشکل ہے ۔ عاشق بڑی بے چینی سے اپنے محبوب کا انتظار کرنے لگتا ہے ۔

بقول شاعر :

  اس وقت انتظار کا عالم نہ پوچھیے

جب کہہ رہا ہو کوئی بس آ رہا ہوں میں

شاعر اسی خوشی کے سحر میں مبتلا ہے کہ اسے خبر ملتی ہے کہ محبوب نے جو آنے کا وعدہ کیا تھا وہ واقعی وعدہ محبوب ثابت ہوا ہے جو کبھی وفا نہیں ہوتا تھا۔ محبوب راستے سے پلٹ گیا ہے اور عاشق بےچارہ راہ دیکھتا رہ گیا ہے ۔

بقول مجید امجد :

تم پھر نہ آ سکو گے بتانا تو تھا مجھے

تم دور جا کے بس گئے میں ڈھونڈتا پھرا

نا جانے محبوب کو کیا ہوا کہ وہ راستے سے ہی پلٹ گیا یہ بات عاشق کے دل میں چھید کر گئی ۔ وہ چلا اٹھا کہ اتنی بری خبر سننے کے بعد میں زندہ کیوں ہوں ۔ عاشق موت سے مخاطب ہو کر اسے کہتا ہے کہ تو کہاں رہ گئی ہے ۔ اگر مجھے میرے محبوب کا وصال نصیب نہیں ہو سکتا تو اس سے بہتر ہے کہ مجھے موت ہی آ جائے ۔ مجھ سے محبوب کی جدائی میں پل پل نہیں مرا جاتا ۔ اس سے بہتر ہے کہ میں ایک ہی بار موت کی آغوش میں چلا جاؤں ۔ گویا محبوب کا راستے سے پلٹ جانا عاشق کے لیے ایک بہت بڑا صدمہ ہے جس کو عاشق کا دل سہ نہیں پا رہا ۔ محبوب کی اس بے وفائی نے اسے بڑا رنجیدہ کر دیا ہے کہ وہ آتے آتے راستہ بدل گیا یوں بساطِ جاں ہی الٹ گیا ہے ۔ یہ غم عاشق کے لیے ناقابل برداشت ہے ۔ لہٰذا اس طرح گھٹ گھٹ کر جینے سے وہ موت کو ترجیح دیتا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اے موت تو کہاں رہ گئی ہے۔ تو میری ہستی کا خاتمہ کیوں نہیں کر دیتی۔

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :

جانے کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا

ہم نے پھولوں کی خواہش کی تو کانٹوں کا ہار ملا

شعر نمبر 2 : 

نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی

بہت دیر کی مہرباں آتے آتے

مشکل الفاظ کے معانی : دنیا سے جانا ( مر جانا)

مفہوم: موت آ گئی مگر سنگدل محبوب نہ آیا نا ہی اسے شاعر پر رحم آیا ۔

تشریح:  یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ انتظار کی کیفیت بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے اس میں ایک ایک پل صدیوں سے بھی بھاری لگتا ہے خصوصاً جب محبوب کی آمد کے انتظار ہو اس کی شدت کا تو اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ تشریح طلب شعر میں شاعر کہہ رہا ہے کہ انتظار کر کر کے عاشق جب تھک جاتا ہے اور اس کی نظر محبوب کی راہ دیکھ دیکھ کر مایوس ہو جاتی ہے اور کوئی صورت آمد محبوب کی باقی نظر نہیں آتی تو عاشق کو زندگی بڑی بے رونق نظر آنے لگتی ہے ۔ محبوب کا نہ آنا عاشق کی زندگی کا چراغ گل کر جاتا ہے۔

بقول فیض احمد فیض:

تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے

تلاش میں سحر بار بار گزری ہے

عاشق آخری دم تک انتظار کرتا رہتا ہے کہ ہو سکتا ہے محبوب آ جائے مگر محبوب بہت ہی کھٹور دل ہے۔ وہ عاشق پر مہربان نہیں ہوتا اس کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔ عاشق لاکھ سمجھاتا ہے کہ میں مر رہا ہوں تو آ جا مگر وہ نہیں آتا ۔

بقول شاعر :

کس کس کو بتائیں گے جدائی کے سبب ہم

تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ

اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہے امیدیں

یہ آخری شمعیں بجھانے کے لیے آ

عاشق کے انتظار کی آخری شمع بھی بجھ جاتی ہے مگر محبوب نہیں آتا ۔ عاشق ہر طرح سے محبوب کو بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ انتظار کی گھڑیاں بہت کھٹن ہوتی ہیں حتیٰ کہ انتظار موت سے بھی شدید ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود محبوب مہربان نہیں ہوتا۔ عاشق بیچارہ محبوب کی راہ دیکھ دیکھ کر موت کے قریب ہو جاتا ہے پھر بھی محبوب کا دل نرم نہیں ہوتا ۔ عاشق اسے کہتا ہے کہ اے محبوب اگر میرے مرنے کے بعد تو آ بھی گیا تو تیری آمد کا کیا فائدہ ہے ۔

شاعر نے بڑی خوبصورتی سے محبوب کی بے وفائی کا تذکرہ کیا ہے لیکن محبوب نے تو جدائی عاشق کی قسمت میں لکھ دی اور شاید یہ انتظار عاشق کا مقدر ٹھہرے گا ۔

بقول شاعر :

میں تو سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے

تو نے جا کر تو جدائی میری قسمت کر دی

شعر نمبر 3 : 

سنانے کے قابل جو تھی بات ان کو

وہی رہ گئی درمیاں آتے آتے

مشکل الفاظ کے معانی : سنانے کے قابل بات ( اصل بات ، دل کی بات )

مفہوم :  شاعر حال دل سنانا چاہتا ہے مگر ہر بار حیا آڑے آ جاتی ہے اور حال دل سنانے سے قاصر ہے ۔

تشریح : شاعر کہہ رہا ہے کہ جو بات میں اپنے محبوب سے کہنے والا ہوں وہ کہہ نہیں پا رہا یعنی اپنے محبت بھرے جذبات کا اظہار محبوب کے سامنے نہیں کر پا رہا ۔ میری یہ دلی خواہش تھی کہ جب محبوب سے ملوں گا تو اسے سب کچھ کہہ دوں گا مگر وہ بات دھرے کی دھری رہ گئی ۔ کبھی کوئی ارادہ کیا ، کبھی کوئی منصوبہ بندی کی کہ محبوب سے یہ کہوں گا ، ایسے کہوں گا مگر سارے منصوبے کسی ریت کے محل کی طرح تھے جو پل بھر میں گر جاتا ہے ۔ عاشق جب محبوب کے سامنے جاتا ہے تو ایسے سحر میں گرفتار ہو جاتا ہے کہ اس کے دل کی بات دل ہی میں اٹک کر رہ جاتی ہے ۔ عاشق اپنی بات نوک زبان پر شاید اس لیے نہیں لا رہا کہ کہیں محبوب ناراض نہ ہو جائے ۔

بقول علامہ اقبال:

خموش ! اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

محبوب سے ملنے کے بعد عاشق اگلی ملاقات کے لیے طرح طرح کے ارادے باندھتا ہے کہ اب کی بار تو میں اپنا سارا حال دل بیان کر کے رہوں گا مگر جب محبوب ملتا ہے تو پھر نہ جانے وہ کس طرح کی گفتگو میں مصروف کر دیتا ہے کہ جو اصل بات ہے وہ پھر بھی رہ جاتی ہے اور عاشق صادق نہ جانے کیا سوچ کر پھر چپ ہو جاتا ہے۔

بقول مرزا غالب :

ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں

ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

اس میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ عاشق محبوب کے ڈر سے اظہارِ تمنا نہیں کر پا رہا ۔ وہ اس بات سے ڈرتا ہے کہ کہیں میری بات میرا محبوب سنی ان سنی نہ کر دے اور اس کی طرف کوئی توجہ نہ دے تو پھر کیا ہوگا۔ لہٰذا وہ جو اصل بات تھی وہ عاشق کے سینے میں ہی دفن رہی اور محبوب جب بھی ملا موضوع گفتگو ہمیشہ بدلتا ہی گیا اور شاعر کی دلی خواہش ادا نہ ہوئی ۔

شعر نمبر 4 :

میرے آشیانے کے تو تھے چار تنکے

چمن اڑ گیا آندھیاں آتے آتے

مشکل الفاظ کے معانی : آشیانہ ( گھونسلہ ، گھر) چمن ( باغ)

مفہوم :  طوفان اس قدر شدید تھا کہ ہر چیز کو بہا لے گیا ۔ میرے آشیانے کے تو تھے ہی چار تنکے تو اس کی کیا قدر و قیمت ۔

تشریح : یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ طوفان جب گزر جائے تو پیچھے اپنے نشان ضرور چھوڑ جاتا ہے۔  اس طرح آندھیوں اور طوفانوں میں اکثر پرندوں کے گھر بکھر جاتے ہیں ۔ شاعر نے اپنی دلی کیفیت کو بڑے منفرد انداز میں پیش کیا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ راہ محبت ایک ایسی دلدل ہے کہ جس کا انجام تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ محبت نے نہ جانے کتنوں کی زندگیوں کے چراغ بجھائے نہ جانے کتنے گھروں کو برباد کر دیا ۔ شاعر کہہ رہا ہے کہ میری تو راہ محبت میں کوئی حیثیت ہی نہیں ہے ۔ میرا جو کچھ تھا اس عشق و عشقی میں لٹ چکا ہے۔ اس محبت نے تو نہ جانے کیسے کیسے لوگوں کو نگل لیا ہے ۔ جن کے سامنے میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ میں تو ابھی نو گرفتار محبت تھا ۔ مجھے اپنے لٹنے کا دکھ نہیں ہے بلکہ دکھ اس بات کا ہے کہ طوفان محبت نے نہ جانے کتنے چمن غارت کر دیے ہیں ۔ گویا شاعر وادی عشق میں قدم نہ رکھنے کی تلقین کر رہا ہے ۔

بقول شاعر :

یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجئے

اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

تشریح طلب شعر میں شاعر نے چمن کا استعارہ وطن یعنی بر صغیر کے لیے استعمال کیا ہے اور آندھیوں سے مراد برصغیر میں ہونے والے حملے اور انگریزوں کے ہاتھوں ملک کی داخلی ، سیاسی و خارجی تباہی ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ غیر اقوام کے تند و تیز حملوں کی بدولت سارا بر صغیر ویران ہو گیا ہے۔ میرے گھر کی تباہی اس سانحے کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے ۔ 1857ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے جو دل دہلا دینے والا انتقام مسلمانوں سے لیا وہ احاطہ تحریر میں لانا مشکل ہے ۔ مسلمانوں کو سیاسی ، سماجی ، مذہبی ، سائنسی ، ثقافتی ، علمی اور ادبی لحاظ سے مفلوج کر دیا گیا ۔ داغ دہلوی چونکہ لال قلعے میں رہتے تھے ۔ لال قلعے کو نشان عبرت بنا دیا گیا ۔ مغل شہزادے نیزوں میں پرو دیے گئے ۔ قلعے کے صدر دروازے کے باہر مغل شہزادوں کی لاشیں چیخ چیخ کر حالات کا نوحہ بیان کر رہی تھیں ۔ اس ضمن میں شاعر کہتا ہے کہ برصغیر کے تمام لوگوں پر ہی غم و الم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ۔ تمام لوگوں ہی کے شاد آباد گھرانے ویران ہوئے ۔ ایسے میں میرے گھر کے اجڑنے کا چندہ قلق نہیں کیونکہ انسانوں کی تباہی کے سامنے ایک انسان کی بربادی کی کوئی وقت نہیں ہے۔

شعر نمبر 5:

نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو

کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

مشکل الفاظ کے معانی : کھیل نہیں ( آسان نہیں)

مفہوم : اردو اتنی آسان زبان نہیں کہ ہر کسی کی سمجھ میں آ جائے ۔ یہ آہستہ آہستہ سمجھ میں آنے والی زبان ہے ۔

تشریح : اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان شمار کی جاتی ہے ۔ الحمدللہ اردو زبان اپنا آپ منوا چکی ہے ۔ بہت ساری زبانوں کے الفاظ کو اردو نے اپنے اندر سمو لیا ہے جو اس کی خوبی ہے ۔ داغ دہلوی اردو زبان کے بہت اچھے شاعر اور زبان شناس بھی ہیں ۔ وہ پوری قوم کو ایک سبق دے رہے ہیں کہ اردو زبان کوئی عام زبان نہیں ہے اور نہ ہی یہ ایسی زبان ہے جو بغیر سمجھے بغیر پڑھے سمجھ آ سکتی ہے ۔ اردو زبان کی نزاکتوں کو سمجھنے کے لیے ایک عرصہ دراز درکار ہے تب جا کر اس کی سمجھ آنے لگتی ہے ۔ کسی بھی زبان پر عبور چند مہینوں یا چند سالوں میں حاصل نہیں ہو جاتا ۔ اس کے لیے پوری عمریں درکار ہوتی ہیں گویا داغ نے اردو زبان و ادب کی اہمیت کو بیان کرنے کی سعی کی ہے اور اپنی زباندانی کو بھی بیان کیا ہے ۔

مزید داغ دہلوی نے ہی کیا خوب کہا ہے :

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ

سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

نوٹ : امید ہے کہ آپ مرزا داغ دہلوی کی غزل کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply