آج کی اس پوسٹ میں ہم میر تقی میر کی مشہور غزل
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
جو کہ گیارہویں جماعت فیڈرل بورڈ کے نصاب میں شامل ہے ، کی تشریح بمع فرہنگ حل کرنے کی کوشش کریں گے ۔
شعر نمبر 1 :
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
حل لغت : بوٹا (پودا ) ، گل ( پھول ) مراد محبوب
مفہوم : میں(شاعر ) محبوب کی محبت میں دیوانہ ہو چکا ہوں اور میری یہ کیفیت ہر خاص و عام کو معلوم ہے سوائے اس کے جس کو معلوم ہونی چاہیے ۔
تشریح : یہ شعر میر تقی میر کی غزل کا مطلع ہے جس میں صنعت تکرار کو شاعر نے بڑی خوبصورت سے استعمال کیا ہے ۔ اردو شاعری میں میر کا مقام بہت اونچا ہے ۔ انھیں ناقدین و شعراء متاخرین نے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا ہے ۔ شاعری میں ان کے مقام و مرتبہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ غالب جیسا یگانہ روزگار انہیں یوں خراج عقیدت پیش کرتا ہے :
ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
تشریح طلب شعر میں شاعر دنیا کو چمن اور اس کی مناسبت سے پتوں کو اہل دنیا قرار دیتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے چمن میں محض ایک گل یعنی محبوب ہی ہے جو میرے حال سے واقف نہیں ہے ورنہ چمن کا ایک ایک پیڑ اور پتا میرے حال سے آشنا ہے ۔ گویا دنیا کا کوئی ایسا آدمی نہیں جس کو میری حالت زار کا پتہ نہ ہو مگر افسوس کہ میری حالت سے میرا محبوب بے خبر ہے ۔
شاعر اس شعر میں محبوب کے ناروا سلوک کا گلہ کر رہا ہے کہ میرا محبوب اپنی دنیا میں اس قدر مگن ہے کہ اسے میرے حال کا کچھ پتہ ہی نہیں ۔ اس کی محبت نے مجھے دیوانہ بنا دیا ہے ۔ میں ہر لمحہ اسی کی یادوں میں مگن رہتا ہوں اور میری اس حالت کی خبر ہر ایک کو ہے مگر میرا محبوب میری حالت سے چشم پوشی کرتا ہے۔
بقول شاعر:
تم نے کیا نہ یاد کبھی بھول کر ہمیں
ہم نے تمہاری یاد میں سب کچھ بھلا دیا
شعر نمبر 2 :
آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے
کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے
حل لغت : متکبر ( غرور کرنے والا ، اکڑ کرنے والا ) ،خدا خدا کرنا( اللہ اللہ کرنا ، اللہ کا ذکر کرنا) ، مغرور (فخر کرنے والا ، اکڑ کرنے والا ) ، خود آرا (اپنے آپ میں مگن رہنے والا ، اپنی تعریف کرنے والا )
مفہوم : میرا محبوب اس قدر متکبر ہے کہ ہر وقت وہ خود میں ہی مگن رہتا ہے ۔ اس کو کسی کی کوئی پرواہ ہی نہیں ۔ وہ اس قدر متکبر ہو گیا ہے کہ خدا کو ہی بھول بیٹھا ہے۔
تشریح : اس شعر میں شہر اپنے محبوب کے متکبرانہ رویہ کو بیان کر رہا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ میرا محبوب ہر وقت خود میں ہی مگن رہتا ہے اسے کسی کی کوئی پرواہ ہی نہیں ۔ اسے اپنے حسن و جمال پر اس قدر غرور ہے کہ وہ کسی کو اپنے حسن و جمال کے مقابلے میں خاطر میں ہی نہیں لاتا ۔
شاعر کہتا ہے کہ میرا جب بھی اس مغرور شخص سے سامنا ہوتا ہے میں دل میں خدا کا ذکر کرتا رہتا ہوں کہ جلد وہ مغرور شخص چلا جائے اور میرا اس سے سامنا نہ ہو کیونکہ وہ غرور کی وجہ سے ہر ایک کو کمتر اور گھٹیا سمجھتا ہے اور خود کو ہی کوئی اعلی و ارفع چیز سمجھتا ہے اور یہ بھول بیٹھا ہے کہ اس اس کا حسن و جمال ، اس کی جوانی سب عارضی ہے اور اسے جلد ہی ختم ہو جانا ہے ۔
بقول شاعر :
شہرت کی بلندی بھی پل بھر کا تماشا ہے
جس ڈال پہ بیٹھے ہو وہ ٹوٹ بھی سکتی ہیں
شعر نمبر 3 :
عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہوگا دنیا میں
جی کے زیاں کو عشق میں اس نے اپنا وارا جانے ہے
حل لغت : سادہ (عام آدمی ، معصوم) ، زیاں ( نقصان ، خسارہ ) ، اپنا وارا جانا ( اپنا فائدہ جاننا ، اپنے لیے بہتر جاننا )
مفہوم : عاشق سے زیادہ کوئی سادہ اور معصوم نہیں ہے وہ عشق میں اس قدر دیوانہ ہو چکا ہے کہ اسے اپنا نقصان بھی نفع معلوم ہوتا ہے ۔
تشریح : شاعر اس شعر میں ایک عاشق صادق کی طرف اشارہ کر کے اس کی کچھ خصوصیات سے پردہ اٹھاتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ عاشق سے سادہ اور معصوم کوئی دوسرا نہیں کہ محبت میں دل سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے ۔ تکلیفیں برداشت کر رہا ہے مگر مایوس نہیں ، نہ دل میں ملال ہے بلکہ ان تکالیف بھی اپنے لیے فائدہ سمجھتا ہے ۔ جیسا کہ فیض نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے :
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں
میر کو عاشق صادق کی حالت زار پر ترس آ رہا ہے ۔ وہ کہتاہے کہ عاشق کس قدر سادہ اور بھولا ہے کہ محبت میں خود کو تباہ کر لیا اور ملال تک نہیں بلکہ اسے اپنے لیے فخر سمجھ رہا ہے اور اسی حالت میں خوش ہے ۔
بقول جون ایلیا :
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
شعر نمبر 4:
چارہ گری بیماری دل کو رسم شہر حسن نہیں
ورنہ دلبر ناداں بھی اس درد کا چارہ جانے ہے
حل لغت : چارہ گری (علاج کرنا) ، رسم(رواج ، اصول ، عادت ) ، دلبر ناداں ( بے وقوف محبوب ، بھولا محبوب ) ، چارہ جانے ہے ( علاج جانتا ہے ، مسیحائی جانتا ہے )
مفہوم : دل کی بیماری کا علاج یعنی عاشق پر کرم کرنا حسن والوں کا شیوہ نہیں ورنہ نادان سے نادان دلبر یعنی محبوب بھی اس درد کا علاج جانتا ہے ۔
تشریح : اس شعر میں شاعر شہر حسن کے رسم و رواج اور ان کی ستم ظریفی کا تذکرہ کر رہا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ دلبری اور چارہ گری حسینوں کا شیوہ نہیں ۔ وہ درد تو دیتے ہیں دوا نہیں دیتے ۔مسیحائی کا رواج شہر حسن میں ناپید ہے ۔
شاعر کہتا ہے کہ محبوب کی محبت میں میرا دل ہر وقت اداس رہتا ہے ۔ میں اس کی جدائی میں گھٹ گھٹ کے جی رہا ہوں مگر اسے مجھ پر رحم ہی نہیں آتا حالانکہ میری بیماری کا علاج اس کے پاس ہے ۔ وہ چاہے تو میرا درماں کر سکتا ہے ۔ میرے زخموں کا علاج اس کے پاس ہے اس کی صرف ایک محبت بھری نگاہ سے میرے سارے غم دور ہو سکتے ہیں مگر افسوس کہ میرے محبوب کے شہر میں ایسا کوئی رواج ہی نہیں ، ورنہ میرا علاج اتنا پیچیدہ نہیں ۔ اس کا علاج کوئی بھی کر سکتا ہے سادہ اور معصوم محبوب بھی اس کا علاج کر سکتا ہے ۔
بقول شاعر :
اے میرے چارہ گر تیرے بس میں نہیں معاملہ صورتحال کے لیے واقف حال چاہیے
ایک وقت تھا جب محبوب کم سن اور ناداں تھا ۔ اسے دنیا اور رسم دنیا سے اس قدر آگاہی نہ تھی۔ مگر اب حالات بدل گئے ۔ اب محبوب اپنا نفع نقصان بخوبی جانے ہے ۔ پھر اس کے دل میں ہمارے لیے جگہ نہیں ۔ پھر بھی اس کی نظر میں ہمارے لیے کوئی قدر نہیں ۔ میرا دل اس کے لیے ایک کھلونے کی سی حیثیت اختیار کر چکا جب جی چاہا خوب کھیلا اور جب جی میں آیا توڑ ڈالا۔
بقول شاعر :
افسوس تو یہ ہے کہ تو کم سن بھی نہیں ہے
پھر کیوں تیرے ہاتھوں میں کھلونا کی طرح ہوں
شعر نمبر 5 :
مہر و وفا و لطف و عنایت ایک سے واقف ان میں نہیں
اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارہ جانے ہے
حل لغت: مہرو وفا ( پیار ، محبت ، مہربانی) ،لطف و عنایت ( کرم ، مہربانی) واقف ( جاننے والا) ، طنز و کنایہ ( نفرت ، چھیڑ چھاڑ ) ، رمز و اشارہ (آنکھوں آنکھوں میں باتیں کرنا ، اشارے کرنا)
مفہوم : محبوب کو لطف و کرم اور پیار و محبت جیسی باتوں کا تو علم ہی نہیں ہاں مگر طنز و کنایہ اور رمز و اشارہ جیسی باتیں خوب جانتا ہے ۔
تشریح : اس شعر میں شہر محبوب کی روایتی بے وفائی کا تذکرہ کر رہا ہے کہ میرا محبوب بہت ظالم ہے ہر وقت مجھے ستاتا رہتا ہے بجائے کہ میری محبت کا جواب محبت سے دے الٹا وہ ہر وقت طنز و تشنیع کے نشتر چبھوتا رہتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ مہر و محبت اور لطف و کرم جیسی باتوں سے وہ واقف ہی نہیں ، البتہ طنز و کنایہ اور رمز و اشارہ سے بخوبی واقف ہے ۔
شاعر اپنے محبوب سے توقع کرتے ہیں کہ کبھی تو وہ بھی محبت سے پیش آئے یعنی شاعر کی محبت کا جواب محبت سے دے کبھی تو وہ بھی میری محبت کا دم بھرے مگر شاعر کے یہ سارے جذبات و خیالات محض خواب ثابت ہوتے ہیں کیونکہ وفا کرنا اس کے محبوب کا شعار ہی نہیں ۔ وہ کسی ایسے جذبے سے واقف ہی نہیں جس کا نام لطف و عنایت اور مہر و وفا ہے بلکہ اس کے الٹ اس کی فطرت میں طنز و کنایہ رچا بسا ہے ۔
بقول شاعر :
تو لاکھ پیار کے پڑھتا رہے منتر ساجد
جن کی فطرت میں ہو ڈسنا وہ ڈسا کرتے ہیں
گویا کہ محبوب فطرتاً بے وفا اور سنگدل ہے ۔ اسے کسی کے جینے مرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اسے اپنی خوشی عزیز خواہ کسی کو جلا تڑپا کر ہی کیوں نہ ملے ۔اسے خبر نہیں کہ اس کی اس لاپرواہی سے کسی کی جان بھی جا سکتی ۔
بقول شاعر:
اس نے ہمارے زخم کا کچھ یوں کیا علاج
مرہم بھی گر لگایا تو کانٹوں کی نوک سے
شعر نمبر چھ کیا کیا فتنے سر پر اس کے لاتا ہے معشوق اپنا جس بے دل بے تاب و توا کو عشق مارا جانے ہے مشکل الفاظ کے معنی فتنے فساد تباہی بربادی معشو جس سے عشق کیا جائے محبوب بے دل بے خواہش جسے دل پر اختیار نہ ہو عشق میں مبتلا بے تاب و تواں کمزور عشق کا مارا عشق کا زخم کھایا ہوا مراد عاشق مفہوم محبوب بھی عجیب ہے جو بھی اس کے عشق میں بے اختیار ہو جاتا ہے اس پر ہر روز کوئی نیا فتنہ فساد لے اتا ہے تشریح میر تقی میر کی شاعری زندگی کے انقلابات کی ترجمان رہی ہے میر کو خدائے سخن کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے میر کا اسلوب بیان سادہ اور سلیس ہونے کے باوجود ندرت اور انفرادیت کا حامل ہے میر کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف نہ صرف ان کے معاثرین نے کیا ہے بلکہ اب تک کے تمام مستند ناقدین اور غزل کے معتبر شعراء نے میر کے کلام کی ہمہ گیریت نشتریت اور افادیت کو کھلے دل سے تسلیم کیا ہے ان کے عہد کو اردو شاعری کے زیر عہد سے تعبیر کیا جاتا ہے تشریح طلب شعر میں شہر محبوب کی بے حسی اور ظلم و ستم کو بیان کرتا ہے شاعر کہتا ہے کہ محبوب بھی عجیب ہے وہ جس کو سمجھتا ہے کہ یہ میرے عشق میں گرفتار ہے اس پر کرم کرنے کی بجائے طرح طرح کی بلائیں نازل کرتا ہے گویا جو اس کے عشق میں بے اختیار ہو جاتا ہے وہ طرح طرح کے فتنوں سے دوچار رہتا ہے شاعر کہنا چاہتا ہے کہ میرا کمزور بے بس اور بے اختیار دل محبوب کی محبت میں گرفتار ہے اور اس کی نظر کرم کے لیے بے قرار رہتا ہے لیکن محبوب میری پرواہ نہیں کرتا وہ ہر روز میرے سر پر کوئی نئی مصیبت اور فتنہ فساد لے اتا ہے اسے کوئی عاشق ہی سمجھ سکتا ہے بقول شہر یہ فتنہ ادمی کی خانہ ورانی کو کیا کم ہے وہ تم دوست جس کے دشمن اس کا اسماں کیوں ہو عاشق کو محبوب کی خاطر کن کن تکالیف سے گزرنا پڑتا ہے یہ وہی جانتا ہے اسے محبوب کے نت نئے مطالب مطالبات پورے کرنے پڑتے ہیں اور اس کی بے جا خواہشات کا احترام کرنا پڑتا ہے لیکن اس سب کے باوجود بھی محبوب بے رخی اور سرد مہری سے پیش اتا ہے بات بات پر اسے طعنہ دیتا ہے اس کی سرزنش کرتا ہے اس کے جذبات مجروح کرتا ہے عاشق جہاں بھی جاتا ہے لوگ بھی اسے برا بھلا کہتے ہیں اور اس پرطانہ زنی کرتے ہیں الغرض وہ جہاں بھی جاتا ہے اسے ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑ تا ہے بقول شاعر جس سمت بھی جاتا ہوں کہتے ہیں کہ وہ ایا ہے چار قدم اگے مجھ سے میری رسوائی بقول میر درد اذیت مصیبت ملامت بلائیں تیرے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا
شعر نمبر 7 :
تشنہ خون ہے اپنا کتنا میر بناداں تلخی کش دمدار اب تیغ کو اس کے اب گوارا جانے ہیں مشکل الفاظ کے معنی تشنہ خون خون کا پیاسا ناداں بے وقوف معصوم تلخی کش مصیبتیں برداشت کرنے والا دمدار تیز دار اب تیغ چمکدار تلوار اب پانی گوارا لذیذ خوش مزہ مفہوم میر بھی کتنا ناداں ہے کہ خود ہی اپنا دشمن بنا ہے خود کو مصیبتوں میں مبتلا کر لیتا ہے محبوب کے ہاتھ میں چمکدار تیز دار تلوار کو بھی پانی کی طرح گوارا کرتا ہے تشریح امیر تقی میر کی شاعری زندگی کے انقلابات کی ترجمان رہی ہے تشریح طلب شعر غزل کے غزل کا مکتہ ہے اس شعر میں شاعر اپنے اپ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ میر بہت ہی ناسمجھ اور نادان ہے کہ خود ہی اپنے اپ کو مصیبتوں اور تکلیفوں میں کھینچ لیتا ہے گویا میں اپنا دشمن اپ ہو گیا ہوں اور اپنے ہی خون کا پیاسا ہو گیا ہوں خود کو تکلیفوں میں مبتلا کر کے اپنے عشق کی صداقت پیش کرتا رہتا ہوں محبوب کے ہاتھ میں چمکدار اور تیز دار تلوار کو بھی پانی کی طرح سیا جاتا ہوں جس طرح پانی کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تلوار کتنی تیز ہے وہ تلوار کی ہر ضرب کو سہ جاتا ہے اسی طرح میں بھی محبوب کے ہر ستم اور ہر ظلم کو برداشت کر لیتا ہوں گویا تکلیف میں مبتلا ہوتے ہوئے بھی غم زدہ نہیں ہوتا اور واویلا نہیں کرتا محبوب کے ہاتھوں ہر ظلم و ستم خوشی خوشی برداشت کر لیتا ہوں زخم پہ زخم کھا کے جی اپنے لہو کے گھونٹ پی اہ نہ کر لبوں کو سی عشق ہے دل لگی نہیں احسان دانش دراصل عاشق کے لیے محبوب کی خاطر تکلیف اٹھانا اور راہ عشق میں انے والی ہر مصیبت کو خوشی خوشی برداشت کرنا اس کے عشق کی صداقت کی علامت ہوتا ہے اس طرح محبوب پر اس کے عشق کی سچائی واضح ہو جاتی ہے اور وہ محبوب کی نظروں میں سرخرو ہو جاتا ہے ایک عاشق کے لیے یہی سب سے بڑی خوشی ہوتی ہے کہ محبوب اس کی محبت کی صداقت کو تسلیم کر لے چنانچہ عاشق راہ عشق کی ہر تکلیف اور ہر زخم کو پھول سمجھتا ہے شاعر کی حالت بھی ایسی ہی ہے وہ تکلیفوں اور مصیبتوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور پھر تکالیف اور مصیبت میں ہوتے ہوئے بھی دکھی نہیں ہوتا اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تلوار کتنی تیز ہے اور وہ تلوار کی ہر ضرب کو اسانی سے سہ جاتا ہے بقول میر درد ادھر ا ستم گر ہنر ازمائیں تو تیر ازما ہم جگر ازمائیں
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.