آج کی اس پوسٹ میں ہم میر تقی میر کی غزل ” پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے” کی تشریح پڑھیں گے ۔
شعر نمبر 1 :
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
مشکل الفاظ کے معانی : بوٹا ( پودا ) ، گل (پھول)
مفہوم : دنیا کا ہر شخص ہماری حالت زار سے واقف ہے لیکن صرف ایک محبوب ہی ہماری حالت سے واقف نہیں ہے ۔
تشریح : میر تقی میر کی شاعری زندگی کے انقلابات کی ترجمان رہی ہے ۔ میر کو خدائے سخن کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ میر کا اسلوب بیان سادہ اور سلیس ہونے کے باوجود ندرت اور انفرادیت کا حامل ہے ۔ میر کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف نہ صرف ان کے معاصرین نے کیا ہے بلکہ اب تک کے تمام مستند ناقدین اور غزل کے معتبر شعراء نے میر کے کلام کی ہمہ گیریت ، نشتریت اور افادیت کو کھلے دل سے تسلیم کیا ہے ۔ ان کے عہد کو اردو شاعری کے زریں عہد سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
نوٹ : مندرجہ بالا اقتباس اس غزل کے کسی بھی شعر کے شروع میں لکھا جا سکتا ہے ۔
تشریح : طلب شعر میں شاعر نے تشبیہ اور استعارے کے پردے میں محبوب کی بے رخی اور بے اعتنائی کا شکوہ کیا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ محبوب کی جدائی اور ہجر و فراق میں ہماری حالت زار ، بے قراری اور تڑپ تمام دنیا کو معلوم ہے ہر شخص ہمارے حال سے واقف ہے ہم پر ترس کھاتا ہے اور ہمدردی کرنے کو تیار ہے لیکن جس محبوب کی وجہ سے ہماری یہ حالت ہوئی وہ اس حالت سے انجان بنا ہوا ہے ۔ وہ ہماری حالت زار ، بے قراری اور تڑپ سے بے خبر رہتا ہے ۔ اسے معلوم نہیں کہ اس کی بے رخی اور بے پرواہی کی وجہ سے ہمارے دل پر کیا گزرتی ہے ۔ بقول مومن خان مومن :
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فضا نہیں ہوتا
شاعر دنیا کو چمن اور اس کی مناسبت سے پتوں کو اہل دنیا قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ چمن میں محض ایک گل یعنی محبوب ہی ہے جو میرے حال سے واقف نہیں ہے ورنہ چمن کا ایک ایک پیڑ پودا اور پتا میرے حال سے واقف ہے یعنی دنیا کا کوئی شخص ایسا نہیں جسے میری حالت کی خبر نہ ہو سوائے محبوب کے ۔ شاعر کو محبوب کے تغافل اور لاپرواہی کا شکوہ ہے ۔
: بقول غالب
یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
دے اور دل ان کو ، جو نہ دے مجھ کو زبان اور
محبوب پھول کی مانند خوبصورت ہے اور وہ بس اپنے آپ میں مگن رہتا ہے ۔ اسے ارد گرد کی کچھ خبر نہیں اسے معلوم ہی نہیں کہ کوئی اس کی محبت میں دیوانہ ہو چکا ہے اور اس کی بے رخی نے اس کی کیا حالت کر دی ہے ۔ میری اس کیفیت اور حالت سے سبھی واقف ہیں لیکن صرف وہ واقف نہیں جسے واقف ہونا چاہیے تھا ۔
بقول مصحفی :
لوگ کہتے ہیں محبت میں اثر ہوتا ہے
کون سے شہر میں ہوتا ہے ، کدھر ہوتا ہے
شعر نمبر 2 :
آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں
کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے
مشکل الفاظ کے معانی : متکبر (تکبر کرنے والا ) ، مغرور( غرور والا ، گھمنڈی ، اترنے والا ) ، خدا خدا کرنا (خدا کا نام لینا ، خدا کا واسطہ دینا) ، خود آرا (خود کو سنوارنے والا ) ، خود پسند( مغرور)
مفہوم : محبوب ایسا متکبر اور خود پسند ہے کہ خدا کا واسطہ دینے پر بھی اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر نے محبوب کی خود پسندی اور غرور و تکبر کا مضمون باندھا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ محبوب بہت انا پرست اور مغرور ہے ۔ اس کے سامنے منتیں کرنا اور خدا کے واسطے دینا سب بے کار ہوتا ہے ۔ وہ ایسا سنگ دل ہے کہ اس کا دل کسی طرح بھی نرم نہیں ہوتا ۔ خدا کا واسطہ دینے سے اس پر کیا اثر ہوتا وہ تو اتنا خود پسند ہے کہ کسی خدا کو خاطر میں نہیں لاتا ۔
بقول شاعر:
ہم نے تمہیں ذرا سا خدا کیا بنا دیا
تم نے بھرے جہان میں تماشہ بنا دیا
عموماً کسی ناراض شخص کو منانا ہو یا کسی سے سفارش کرنی ہو تو انسان آخری حربے کے طور پر خدا کا واسطہ دیتا ہے کہ شاید خدا کا واسطہ دینے سے مان جائے ۔ ہر شخص خدا کے لحاظ سے بات مان لیتا ہے اور ناراضی ختم کر دیتا ہے لیکن شاعر کہتا ہے کہ محبوب ایسا خود پسند اور سنگ دل ہے کہ خدا کا واسطہ دینے پر بھی اس کا دل نرم نہیں ہوتا اور اس کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ۔
بقول مرزا اسد اللہ خان غالب :
وہ شوخ اپنے حسن پر مغرور ہے اسد
دکھلا کے اس کو آئینہ توڑا کرے کوئی
شعر کا ایک مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ محبوب بہت متکبر اور خود پرست ہے وہ اپنے حسن پر اتنا مغرور ہے کہ ہمیں تو کیا کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتا اور ہم میں اس کے سامنے ہر وقت خدا خدا کرتے ہیں یعنی خدا کا نام لیتے رہتے ہیں اور اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں کہ شاید خدا کے ذکر سے اس کا دل پگھل جائے لیکن محبوب غرورِ حسن میں اس قدر مبتلا ہو چکا ہے کہ وہ تو خود بھی خدا کو خاطر میں نہیں لاتا ہمیں خاطر میں کیا لائے گا ۔ ہم اس کے سامنے کچھ نہیں جو غرورِ حسن میں خدا تک کو بھول چکا ہے وہ ہمیں کہاں کچھ اہمیت دے گا ۔ وہ ہمیں کچھ نہیں سمجھے گا جب وہ ہمیں ناحق ستاتا ہے تو وہ یہ بھول جاتا ہے کہ خدا تو ہر جگہ موجود ہے جو سب ظلم و ستم دیکھ رہا ہے لیکن محبوب سمجھتا ہے کہ بس وہی ارفع و اعلیٰ ہے ۔ اس کے سامنے باقی سب کمتر ہیں اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں چنانچہ وہ خدا کی موجودگی کو بھی نہیں جانتا بس اپنے آپ ہی کو بہت بڑا سمجھتا ہے ۔
بقول شاعر :
مغرور نہ اتنا ہو دلبر تو اور نہیں میں اور نہیں
بے وجہ نہ مجھ سے پھیر نظر تو اور نہیں میں اور نہیں
یہ حسن جوانی ، یہ شوخی ہے ، چار دنوں کی رنگینی
تو ناز نہ کر ان باتوں پر تو اور نہیں میں اور نہیں
مرنم الہ آبادی
انسانی فطرت ہے کہ جب کسی کو حد سے زیادہ عزت و تکریم دی جائے اور اس کا ہر حکم آنکھیں بند کر کے بجا لایا جائے تو وہ انسان مغرور ہو جاتا ہے اور وہ اپنے آپ میں خدا بن جاتا ہے ۔ وہ دوسروں کو حقیر اور اپنے آپ کو برتر سمجھنے لگتا ہے ۔ اسی طرح جب عاشق حد سے زیادہ محبوب کے ناز اٹھاتا ہے تو محبوب اور زیادہ مغرور متکبر ہو جاتا ہے اور پہلے سے زیادہ لاپرواہی اور بے حسی کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ بقول شاعر :
ناز اس کے اٹھا لیے اتنے
دیکھ بندہ خدا نہ بن جائے
شعر نمبر 3 :
عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہوگا دنیا میں
جی کے زیاں کو عشق میں اس نے اپنا وارا جانے ہے
مشکل الفاظ کے معانی : جی( دل ) ، زیاں( نقصان) ، وارنا( قربان کرنا )
مفہوم : عاشق کی طرح بھی کوئی سادہ لوح اور معصوم نہیں کہ جو عشق میں اپنے دل کے نقصان کو بھی فائدہ سمجھتا ہے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر عاشق کی سادگی بیان کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ عاشق محبوب کے عشق میں بھولا بھالا اور سادہ ہوتا ہے ۔ اسے اپنے نفع و نقصان کی کچھ خبر نہیں ہوتی ۔ وہ محبوب کی محبت میں اتنا دیوانہ ہو چکا ہوتا ہے کہ اسے اپنا نقصان بھی فائدہ معلوم ہوتا ہے ۔ عشق میں سب سے بڑا نقصان جی کے زیاں کا ہوتا ہے یعنی دل کا نقصان ہو جاتا ہے مراد یہ کہ عاشق دل کے قابو میں نہیں رہتا ۔ اسے اپنے دل پر اختیار نہیں رہتا ۔ اس کا دل بے اختیار اسے بار بار محبوب کے در پر کھینچ کر لے جاتا ہے ۔ محبوب کی بے رخی ، سرد مہری ، طعنہ و تشنیع اور برا بھلا کہنے پر بھی اس کی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی ۔ الغرض عاشق کی اپنی کوئی خواہش ، انا اور خودداری باقی نہیں رہتی ۔ عاشق اسے اپنے عشق کی صداقت کی علامت سمجھ رہا ہوتا ہے کہ محبوب کی خاطر میں نے دل کی قربانی دی ہے جبکہ محبوب کو اس کی کسی قربانی کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی ۔
بقول شاعر :
تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں
ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آ جاتے ہیں
چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ عاشق سا سادہ بھی کوئی دنیا میں ہوگا کہ محبت میں اپنا دل ہار جاتا ہے ۔ دل کے اس نقصان کو بھی وہ اپنا فائدہ خیال کرتا ہے ۔ محبت میں دل سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔ تکلیفیں برداشت کرتا ہے لیکن مایوس نہیں ہوتا بلکہ اسی میں اپنا فائدہ سمجھتا ہے ۔
بقول شاعر :
نقصان ہوا کیا مجھے اس کار وفا میں
میں عشق میں کھویا میرا حاصل بھی وہی ہے
یامین غوری
شاعر کو عاشق کے حال پر ترس آ رہا ہے ۔ عاشق جیسا سادہ اور بھولا بھالا دنیا میں کوئی انسان نہیں ۔ عشق میں وہ اپنا سب کچھ لٹا بیٹھتا ہے لیکن پھر بھی محبوب کو برا بھلا نہیں کہتا بلکہ محبوب کی جانب سے ملنے والے ہر زخم کو خوشی خوشی قبول کرتا ہے اور اسے اپنے عشق کی صداقت سمجھتا ہے گویا اپنے نقصان کو بھی فائدہ سمجھتا ہے ۔
شعر نمبر 4 :
چارہ گری بیماری دل کی رسم شہر حسن نہیں
ورنہ دلبر ناداں بھی اس درد کا چارہ جانے ہے
مشکل الفاظ کے معانی: چارہ گری (علاج کرنا ، تدبیر کرنا ) ، بیماری دل( دل کی بیماری ، عشق کا روگ) ، رسم شہر حسن ( حسین لوگوں کے شہر کا طور طریقہ مراد محبوب کا شیوہ ) ، دلبر ناداں (نادان محبوب) ، چارہ (علاج)
مفہوم : دل کا علاج حسن والوں کا شیوہ ہی نہیں ورنہ نا سمجھ محبوب بھی عشق کے درد کا علاج جانتا ہے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ دل کی بیماری یعنی عشق کے روگ کا علاج ہر محبوب کو معلوم ہوتا ہے ۔ محبوب کی ایک نظر کرم ، اس کا محبت کا ایک بول عاشق کے دل کے روگ کا علاج ہے لیکن محبوب عاشق پر یہ نظر کرم نہیں ڈالتا ۔ وہ اپنے غرور اور انا میں مگن رہتا ہے ۔ اس پر عاشق کے کسی آہ و زاری اور فریاد کا کوئی اثر نہیں ہوتا چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ دل کی بیماری کا علاج یعنی عاشق پر کرم کرنا حسن والوں کا شیوہ ہی نہیں ورنہ نادان سے نادان محبوب بھی اس درد کا علاج جانتا ہے ۔
بقول غالب :
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الہی یا ماجرہ کیا ہے
محبوب کے عشق میں دل بہت بے چین رہتا ہے ۔ اس کے ہجر و فراق میں ہر لمحہ مضطرب اور بے قرار رہتا ہے ۔ اگر محبوب چاہے تو عاشق کے دل کا علاج بہت آسان ہے ۔ اس کا علاج صرف یہ ہے کہ محبوب محبت بھری نظر سے دیکھ لے یا اس کی حالت کے بارے میں صرف دریافت ہی کر لے تو عاشق کے لیے یہ بہت بڑی خوشی کی بات ہوتی ہے ۔ یہ علاج اتنا آسان ہے کہ ایک نا سمجھ اور نادان محبوب بھی اس سے واقف ہے لیکن اہل حسن یعنی محبوب کے شہر میں ایسا کوئی رواج ہی نہیں کہ عاشق پر رحم کیا جائے اور اس کی حالت زار کے بارے میں اس سے دریافت کیا جائے ۔
بقول فیض احمد فیض :
ہر چارہ گھر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لادوا نہ تھے
شعر نمبر 5 :
مہر وفا لطف و عنایت ایک سے واقف ان میں نہیں
اور تو سب کچھ طنز و کنایہ رمز و اشارہ جانے ہے
مشکل الفاظ کے معانی : مہر وفا (محبت اور وفاداری ) ، لطف و عنایت (مہربانی اور کرم) ، واقف (جاننا ) ، طنز چبھتی ہوئی بات کہنا ، کنایہ (پوشیدہ بات ، مبہم بات) ، رمز ( اشارہ آنکھوں یا بھنوں سے اشارہ کرنا )
مفہوم : محبوب طنز و طعنہ سے تو واقف ہے لیکن محبت و الفت اور لطف و کرم سے واقف نہیں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ محبوب دل جلانے اور تڑپانے کا ہر فن جانتا ہے لیکن دل کو سکون پہنچانے اور تسلی دینے کے متعلق کچھ نہیں جانتا ۔ وہ بات بات پر طنز کرتا ہے ، طعنہ دیتا ہے ، اشارے کنائے میں دل پر نشتر چبھوتا ہے لیکن وہ محبت و مروت ، لطف و کرم اور عنایت جیسی صفات سے بالکل بے خبر ہے گویا وہ انہیں جانتا ہی نہیں ۔ وہ محبت کے جذبات سے عاری ہے۔ اسے معلوم نہیں کہ محبت ، مہربانی اور وفاداری کسے کہتے ہیں اور ان کی اہمیت کیا ہے ۔
بقول وزیر علی صبا لکھنوی :
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
شاعر کو محبوب سے توقع ہے کہ کبھی وہ بھی اس کے ساتھ محبت و الفت سے پیش آئے اور اخلاق سے اس کے ساتھ گفتگو کرے ، اس پر مہربانی اور لطف و عنایت کرے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا ۔ محبوب شاعر کی توقعات پر پورا نہیں اترتا ۔ اس کے برعکس محبوب ہر بات پر طنز کرتا ہے ، اسے طعنہ دیتا ہے ، اشارے کنائے میں اسے برا بھلا کہتا ہے گویا وہ ان سب چیزوں سے اچھی طرح واقف ہے جن سے شاعر کو تکلیف پہنچتی ہے ۔ اگر واقف نہیں تو شاعر کے دل کی خوشی اور آرام و سکون سے واقف نہیں ۔ چنانچہ محبوب نے وہی کچھ کرنا ہے جس سے وہ اچھی طرح واقف ہے اور جس فن میں وہ ماہر ہے ۔ کلاسیکی شاعری میں محبوب کو ظالم ، بے وفا ، سرد مہر اور بے پرواہ دکھایا جاتا ہے ۔ وہ عاشق کی کسی بات پر کان نہیں دھرتا ۔ عاشق کی آہ و فریاد اس پر کوئی اثر نہیں کرتی ۔ وہ محبت و الفت اور مہربانی سے کوسوں دور ہوتا ہے ۔ عاشق کی وفاداری اور قربانیوں سے اسے کوئی لحاظ نہیں ہوتا ۔ عاشق بیچارا مظلوم بن کر محبوب کی ایک نظر کرم ، ایک توجہ اور ایک میٹھے بول کی چاہ میں در در بھٹکتا رہتا ہے ۔
بقول شاعر :
بہتر ہے ظلم چھوڑ کے بن جاؤ تم رفیق
رکھو نہ تم جفا کے طریقے سنبھال کے
شعر نمبر 6 :
کیا کیا فتنے سر پر اس کے لاتا ہے معشوق اپنا
جس بے دل بے تاب و تواں کو عشق مارا جانے ہے
مشکل الفاظ کے معانی : فتنے( فساد تباہی ، بربادی) ، معشوق (جس سے عشق کیا جائے ، محبوب) ، بے دل( بے خواہش ، جسے دل پر اختیار نہ ہو ، عشق میں مبتلا) ، بے تاب و تواں (کمزور ) ، عشق کا مارا (عشق کا زخم کھایا ہوا مراد عاشق )
مفہوم : محبوب بھی عجیب ہے جو بھی اس کے عشق میں بے اختیار ہو جاتا ہے اس پر ہر روز کوئی نیا فتنہ فساد لے آتا ہے ۔
تشریح : میر تقی میر کی شاعری زندگی کے انقلابات کی ترجمان رہی ہے میر کو خدائے سخن کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ میر کا اسلوبِ بیان سادہ اور سلیس ہونے کے باوجود ندرت اور انفرادیت کا حامل ہے ۔ میر کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف نہ صرف ان کے معاصرین نے کیا ہے بلکہ اب تک کے تمام مستند ناقدین اور غزل کے معتبر شعراء نے میر کے کلام کی ہمہ گیریت ، نشتریت اور افادیت کو کھلے دل سے تسلیم کیا ہے ۔ ان کے عہد کو اردو شاعری کے زریں عہد سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ تشریح طلب شعر میں شاعر محبوب کی بے حسی اور ظلم و ستم کو بیان کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ محبوب بھی عجیب ہے وہ جس کو سمجھتا ہے کہ یہ میرے عشق میں گرفتار ہے اس پر کرم کرنے کی بجائے طرح طرح کی بلائیں نازل کرتا ہے گویا جو اس کے عشق میں بے اختیار ہو جاتا ہے ۔ وہ طرح طرح کے فتنوں سے دوچار رہتا ہے ۔ شاعر کہنا چاہتا ہے کہ میرا کمزور بے بس اور بے اختیار دل محبوب کی محبت میں گرفتار ہے اور اس کی نظر کرم کے لیے بے قرار رہتا ہے لیکن محبوب میری پرواہ نہیں کرتا ۔ وہ ہر روز میرے سر پر کوئی نئی مصیبت اور فتنہ فساد لے آتا ہے ۔ اسے کوئی عاشق ہی سمجھ سکتا ہے ۔
بقول شاعر :
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
غالب
عاشق کو محبوب کی خاطر کن کن تکالیف سے گزرنا پڑتا ہے یہ وہی جانتا ہے اسے محبوب کے نت نئے مطالبات پورے کرنے پڑتے ہیں اور اس کی بے جا خواہشات کا احترام کرنا پڑتا ہے لیکن اس سب کے باوجود بھی محبوب بے رخی اور سرد مہری سے پیش آتا ہے ۔ بات بات پر اسے طعنہ دیتا ہے ۔ اس کی سرزنش کرتا ہے۔ اس کے جذبات مجروح کرتا ہے۔ عاشق جہاں بھی جاتا ہے لوگ بھی اسے برا بھلا کہتے ہیں اور اس پر طعنہ زنی کرتے ہیں ۔ الغرض وہ جہاں بھی جاتا ہے اسے ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
بقول شاعر :
جس سمت بھی جاتا ہوں کہتے ہیں کہ وہ آیا
ہے چار قدم آگے مجھ سے میری رسوائی
بقول میر درد :
اذیت ، مصیبت ، ملامت ، بلائیں
تیرے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا
شعر نمبر 7 :
تشنہ خون ہے اپنا کتنا میر بھی ناداں تلخی کش
دم دار آب تیغ کو اس کے آب گوارا جانے ہے
مشکل الفاظ کے معانی : تشنہ خون( خون کا پیاسا) ، ناداں( بے وقوف ، معصوم) ، تلخی کش( مصیبتیں برداشت کرنے والا) ، دم دار( تیز دھار ) ، آب تیغ (چمکدار تلوار) ، آب (پانی) ، گوارا( لذیذ ، خوش، مزہ)
مفہوم : میر بھی کتنا ناداں ہے کہ خود ہی اپنا دشمن بنا ہے ۔ خود کو مصیبتوں میں مبتلا کر لیتا ہے۔ محبوب کے ہاتھ میں چمکدار تیز دھار تلوار کو بھی پانی کی طرح گوارا کرتا ہے ۔
تشریح : میر تقی میر کی شاعری زندگی کے انقلابات کی ترجمان رہی ہے ۔ تشریح طلب شعر غزل کا مقطع ہے ۔ اس شعر میں شاعر اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ میر بہت ہی ناسمجھ اور نادان ہے کہ خود ہی اپنے اپ کو مصیبتوں اور تکلیفوں میں کھینچ لیتا ہے گویا میں اپنا دشمن آپ ہو گیا ہوں اور اپنے ہی خون کا پیاسا ہو گیا ہوں ۔ خود کو تکلیفوں میں مبتلا کر کے اپنے عشق کی صداقت پیش کرتا رہتا ہوں ۔ محبوب کے ہاتھ میں چمکدار اور تیز دھار تلوار کو بھی پانی کی طرح سیہ جاتا ہوں جس طرح پانی کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تلوار کتنی تیز ہے وہ تلوار کی ہر ضرب کو سہ جاتا ہے اسی طرح میں بھی محبوب کے ہر ستم اور ہر ظلم کو برداشت کر لیتا ہوں گویا تکلیف میں مبتلا ہوتے ہوئے بھی غم زدہ نہیں ہوتا اور واویلا نہیں کرتا ۔ محبوب کے ہاتھوں ہر ظلم و ستم خوشی خوشی برداشت کر لیتا ہوں۔
بقول شاعر:
زخم پہ زخم کھا کے جی اپنے لہو کے گھونٹ پی
آہ نہ کر لبوں کو سی عشق ہے دل لگی نہیں
احسان دانش
دراصل عاشق کے لیے محبوب کی خاطر تکلیف اٹھانا اور راہ عشق میں آنے والی ہر مصیبت کو خوشی خوشی برداشت کرنا اس کے عشق کی صداقت کی علامت ہوتا ہے ۔ اس طرح محبوب پر اس کے عشق کی سچائی واضح ہو جاتی ہے اور وہ محبوب کی نظروں میں سرخرو ہو جاتا ہے ۔ ایک عاشق کے لیے یہی سب سے بڑی خوشی ہوتی ہے کہ محبوب اس کی محبت کی صداقت کو تسلیم کر لے ۔ چنانچہ عاشق راہ عشق کی ہر تکلیف اور ہر زخم کو پھول سمجھتا ہے ۔ شاعر کی حالت بھی ایسی ہی ہے وہ تکلیفوں اور مصیبتوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور پھر تکالیف اور مصیبت میں ہوتے ہوئے بھی دکھی نہیں ہوتا ۔ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تلوار کتنی تیز ہے اور وہ تلوار کی ہر ضرب کو آسانی سے سہ جاتا ہے ۔
بقول میر درد :
ادھر آ ستم گر ہنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
نوٹ : امید ہے کہ آپ میر تقی میر کی غزل کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.