آج کی اس پوسٹ میں ہم مشہور نظم گو شاعر ن م راشد کے احوال زندگی اور ان کی ایک مشہور نظم ” اندھا کباڑی” کا خلاصہ پیش کریں گے ۔
نذر محمد راشد ( ن م راشد) کے احوالِ زندگی : ن۔ م۔ راشد (نذر محمد راشد) اردو کے ایک ممتاز اور جدید شاعر تھے، جو اپنی آزاد نظموں اور انقلابی شاعری کے لیے مشہور ہیں۔ ان کا کلام اردو ادب میں ایک نیا موڑ ثابت ہوا، اور انہیں اردو شاعری میں جدیدیت کا بانی سمجھا جاتا ہے۔
تعارف:
پیدائش: ن۔ م۔ راشد 1 اگست 1910 کو گجرانوالہ کے ایک گاؤں “علی پور چٹھہ” میں پیدا ہوئے۔
تعلیم: انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا، جہاں ان کا تعلیمی سفر کافی متاثر کن رہا۔
ادبی سفر: ن۔ م۔ راشد کا ادبی سفر 1930 کی دہائی میں شروع ہوا، اور انہوں نے اپنی شاعری میں جدیدیت اور آزاد نظم کی بنیاد رکھی۔ ان کا کلام روایتی نظموں کے اسٹرکچر سے آزاد تھا، جس نے اردو شاعری میں ایک نیا زاویہ پیدا کیا۔
ادبی خدمات:
راشد نے اپنی شاعری میں انسانی آزادی، انفرادیت، اور زندگی کے گہرے مسائل کو اجاگر کیا۔
انہوں نے اردو میں آزاد نظم کا آغاز کیا اور شاعری میں تجریدی خیالات، فلسفیانہ موضوعات، اور وجودی سوالات کو شامل کیا۔
مشہور کتب:
ماورا (1940)
ایران میں اجنبی (1955)
لا انسان (1969)
گماں کا ممکن (1977)
خصوصیات:
آزاد نظم : ن۔ م۔ راشد کی شاعری میں روایتی قافیہ اور ردیف کی پابندیوں سے آزادی تھی۔ وہ آزاد نظم کے ذریعے اپنے خیالات اور جذبات کو بے تکلفی سے ظاہر کرتے تھے۔
فلسفہ: ان کی شاعری میں انسانی وجود، اس کی معانی، اور زندگی کے سوالات کو مرکز بنایا گیا۔ وہ فرد کی آزادی اور اس کی حقیقتوں کے بارے میں گہرائی سے سوچتے تھے۔
زبان: ن۔ م۔ راشد کی زبان سادہ، مگر بہت گہری اور معنی خیز ہوتی تھی، جو قارئین کو سوچنے پر مجبور کرتی تھی۔
وفات:
ن۔ م۔ راشد 9 اکتوبر 1975 کو لندن میں وفات پا گئے۔ ان کی شاعری آج بھی اردو ادب میں ایک سنگ میل کے طور پر جانی جاتی ہے اور
ان کے کلام نے کئی نسلوں کو متاثر کیا۔
خلاصہ کیا ہوتا ؟
خلاصہ کا لغوی مطلب اختصار ، لُب لباب ، ماحصل ، اصل مطلب وغیرہ ۔
اصطلاحی طور پر خلاصہ کسی تحقیقی مضمون، مقالہ ، جائزہ، کانفرنس کی کارروائی ، یا کسی خاص موضوع کا گہرائی سے تجزیہ کا ایک مختصر خلاصہ ہوتا ہے ۔
نظم ” اندھا کباڑی” کا خلاصہ :
ن م راشد کی نظم “اندھا کباڑی” ایک علامتی اور فلسفیانہ نظم ہے جو انسان کی بے مقصد زندگی، سماجی بے حسی، اور زندگی کے تلخ حقائق کو بیان کرتی ہے۔ یہ نظم کباڑی کے کردار کے ذریعے انسان کی اس حالت کو بیان کرتی ہے جہاں وہ معاشرتی جبر اور ذاتی محرومیوں کا شکار ہو کر زندگی کے اندھے پن میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
خلاصہ:
نظم میں شاعر ایک اندھے کباڑی کے کردار کو پیش کرتا ہے جو گلیوں میں پھرتا ہے اور ناکارہ چیزیں جمع کرتا ہے۔ یہ کردار نہ صرف جسمانی طور پر اندھا ہے بلکہ سماجی اور روحانی طور پر بھی نابینا ہے۔ کباڑی کی زندگی بے مقصدیت اور مایوسی کی عکاس ہے، جہاں وہ صرف روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جیتا ہے۔
یہ اندھا کباڑی ان لوگوں کی علامت ہے جو اپنی زندگی کے حقیقی مقصد سے لاعلم ہیں اور سماج کی بے حسی کا شکار ہو چکے ہیں۔ نظم میں سماج کے رویے کی تنقید بھی کی گئی ہے، جہاں لوگ دوسروں کے دکھ درد سے بے نیاز ہیں اور انسانی رشتے بے معنی ہو چکے ہیں۔
نظم کی زبان سادہ مگر گہری معنویت کی حامل ہے، جو قاری کو زندگی کی حقیقتوں پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ شاعر زندگی کے اندھے پن کو اجاگر کرتے ہوئے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرتا ہے۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ ن م راشد کے بارے میں اور ان کی نظم ” اندھا کباڑی” کے خلاصے کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.