نہ گنواؤ ناوک نیم کش ، دل ریزہ ریزہ گنوا دیا
آج کی اس پوسٹ میں ہم جماعت گیارہویں ، پنجاب بورڈ کی غزل ” نہ گنواؤ ناوک نیم کش ، دل ریزہ ریزہ گنوا دیا ” جس کے شاعر فیض احمد فیض ہیں ، پر سیر حاصل گفتگو کریں گے ۔
شعر نمبر 1 :
نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش ، دل ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تنِ تن داغ داغ لٹا دیا
مشکل الفاظ کے معانی : ن گنواؤ (ضائع نہ کرو) ، ناوکِ نیم کش (آدھ کھینچا تیر) ، دل ریزہ ریزہ (ٹکڑے ٹکڑے دل) ، سنگ (پتھر ) ، تن داغ داغ (زخموں سے چور جسم )
مفہوم :میرا جسم تو ریزہ ریزہ ہو چکا ۔ مجھ پر اپنے تیر ضائع نہ کرو ۔ ان کو سمیٹ کر کسی اور وقت کے لیے رکھ لو ۔
تشریح : فیض احمد فیض بیسویں صدی کے بڑے شعراء میں سے ایک ہیں ۔ فیض کی شاعری میں رومان اور انقلاب کا حسین امتزاج ملتا ہے ۔ فیض کی شاعری ہمیں غم جاناں سے غم دوراں کی طرف لے جاتی ہے اور جو ان کی فکری و فنی پختگی کی علامت بھی ہے ۔ فیض اشتراکی نظریے کے حامی تھے ۔ جس کی وجہ سے حکمران طبقہ ان سے شدید متنفر تھا اور ان پر پنڈی سازش کیس کے نام سے مقدمہ بھی چلا اور وہ مختلف جیلوں میں بھی رہے ۔ فیض نے ملک کے ظالم اور جابر حکمرانوں کے خلاف ہمیشہ بغاوت کا علم بلند کیا اور ظلم و استبداد کے سامنے ایک کوہ گراں کی طرح ڈٹ گئے ۔
تشریح طلب شعر میں انھوں نے ظالم اربابِ اقتدار کو مخاطب کیا ہے کہ ظلم سہتے سہتے آج میں اپنی زندگی ہار چکا ہوں یعنی میرا دل زخموں سے چور چور ہو چکا ہے ، برداشت کرتے کرتے بالاخر آج یہ دل بالکل کرچیاں کرچیاں ہو گیا ہے لیکن اس کے باوجود ابھی تک آپ کے مظالم میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ تمھاری طرف سے مظالم کا سلسلہ رواں دواں ہے۔ فیض کہتے ہیں کہ اب مجھ پر پتھر مت برساؤ کیونکہ مرے ہوئے آدمی کو مارنا بہادری نہیں ہے ۔ اپنے یہ پتھر سنبھال کر رکھو اور یہ تیر جن کا نشانہ میں ہوں ان کو بھی سنبھال کر رکھو تاکہ ظلم کا یہ سامان ضائع نہ ہو اور میرے جیسے کسی اور انقلابی کو مارنے کے کام آئے ۔ گویا شاعر کہتا ہے کہ میں مصائب اور تکالیف کو سہتے سہتے اور مظلوم طبقہ کی آواز بلند کرتے کرتے جان ہار رہا ہوں اور اب عالم نزع میں ہوں ۔ اس لیے یہ طوفان مصائب روک لو تمھاری خواہش پوری ہونے والی ہے اور حق و انصاف کا علمدار دنیا سے رخصت ہوا چاہتا ہے ۔
بقول شاعر :
نظر سے قتل کر ڈالو نہ ہو تکلیف دونوں کو
تجھے خنجر اٹھانے کی مجھے گردن جھکانے کی
شعر نمبر 2 :
میرے چارہ اگر کو نوید ہو ، صفِ دشمناں کو خبر کرو
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر ، وہ حساب آج چکا دیا
مشکل الفاظ کے معانی : چارہ گر ( علاج کرنے والا) ، نوید (خوشخبری) ، صف دشمناں (دشمنوں کی لمبی قطاریں) ، حساب چکا دیا (حساب بے باک کر دیا)
مفہوم : میرے دوستوں اور دشمنوں سب کو خوشخبری سنا دو کہ آج جو جان کا قرض تھا ہم پہ ہم نے وہ چکا دیا ہے ۔
تشریح : فیض احمد فیض تشریح طلب شعر میں کہتے ہیں کہ آج میرے دوست جو میرے لیے بہت اذیت برداشت کر رہے تھے اور میری وجہ سے تکلیف میں تھے ان کو خوشخبری سنا دو اس لیے کہ اب انھیں میرے زخموں پہ مرہم رکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ میری تسلی تشفی کا سامان نہیں کرنا پڑے گا اور نہ ہی میرے ساتھ آلام کی چکی میں پسنا پڑے گا ۔ میں نے اپنی موت سے ان کی عنایات اور وفاؤں کا قرض بے باک کر دیا ہے ۔ مزید فیض کہتے ہیں کہ جو لوگ دشمن جان تھے آج ان کو یہ بھی خوشی کی خبر پہنچا دو کہ ان کی دیرانہ خواہش رنگ لائی ہے۔ ان کے دشمن( فیض ) نے اپنی زندگی ہار کر ان کی خواہشوں کو پورا کر دیا ہے ۔ اب ان کے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے والا عدم کا مسافر ہو چلا ہے ۔ وہ جس کے قتل کے لیے کوشاں تھے وہ خود ہی موت کی ابدی نیند سونے لگا ہے ۔ میں نے اپنے ذمے واجب الادا جو بھی قرض تھا دوستوں کی ممنونیت کا اور دشمنوں کی دشمنی کا وہ سارا چکا دیا ہے ۔ آج میرے دشمنوں کو خوشیاں منانا چاہیے کہ ان کی بہت بڑی رکاوٹ آج گر گئی ہے اور آج میرے بہی خواہوں( دوستوں ) کو بھی کہ اب کوئی پریشانی نہیں ہوگی ۔
بقول شاعر :
الفت کا نشہ جب کوئی مر جائے تو جائے ہے
یہ درد سر ایسا ہے کہ سر جائے تو جائے ہے
شعر نمبر 3 :
کرو کج جبیں پہ سر کفن ، میرے قاتلوں کو گمان نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن پس مرگ ہم نے بھلا دیا
مشکل الفاظ کے معانی : کج( ٹیڑھا) ، جبیں (ماتھا) ، سر کفن (کفن کا کونا) ، خیال غرور عشق( عشق کا غرور ، عشق کی شان و شوکت ) ، بانکپن( فخر ، غرور) ، پس مرگ (مرنے کے بعد )
مفہوم : میرے مرنے کے بعد بھی میرے چہرے سے کپڑا ٹیڑھا کر دینا تاکہ دشمنوں کو خبر ہو کہ مرنے کے بعد میں ہمارے عزائم میں کوئی کمی نہیں آئی ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں فیض کہتے ہیں کہ جب میں مر جاؤں تو میرے ماتھے پر کفن کا ایک کونا ٹیڑھا کر دینا ۔ یہ امر فخر اور تکبر کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔ ایک زمانے میں لوگ سر پر ٹیڑھی ٹوپی یا کلاہ رکھتے تھے جو غرور کی علامت تھی ۔ فیض احمد فیض ساری زندگی بلند خیالات اور بلند عزائم کو لے کر چلے اور اس بلند خیالی اور ان پختہ عزائم کے لیے انھوں نے ہر ممکن کوشش کی ۔ فیض کو ان کے خیالات اور عزائم سے باز رکھنے کے لیے اربابِ اقتدار نے بہت سے ظلم و ستم کیے لیکن انھوں نے سب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ اسی لیے فیض نے مرنے کے بعد بھی ماتھے پر کفن کے ایک کونے کو ٹیڑھا رکھنے کی ہدایت کی ہے کہ کفن کا وہ ٹیڑھا پن اس بات کا غماز ہوگا کہ مرنے کے بعد بھی ہم نے اپنے اصولوں کا سودا نہیں کیا ۔ جن عزائم اور اعلیٰ مقاصد کے لیے جدوجہد شروع کی تھی ان کو ختم نہیں ہونے دیا اور نہ ہی ان سے پیچھے ہٹا ہوں ۔ مرنے کے بعد میرے دشمن جب لاش پر آئیں گے تو انھیں اس بات کا گمان تک نہیں ہونا چاہیے کہ میرے نظریات اور مقاصد میری موت کے ساتھ ختم ہو گئے ہیں یا ان میں نے ان کو بھلا دیا ہے ۔ مشکلات اور امتحانات کی مشکل گھڑیوں میں بھی ہم نے استقامت کا ساتھ نہیں چھوڑا ۔
بقول شاعر :
غرور گل بدن قائم رہے گا
یہ اپنا بانکپن قائم رہے گا
ہمیں سے سنت منصور و قیس زندہ ہے
ہمیں سے باقی ہے گل دامنی کج کلاہی
شعر نمبر 4 :
اُدھر ایک حرف کہ کشتنی ، یہاں لاک عذر تھا گفتنی
جو کہا تو سن کے اڑا دیا ، جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا
مشکل الفاظ کے معانی : حرف (بات ) ، کشتنی (قتل کرنے کے قابل) ، گفتنی( کہے جانے کے قابل) ، سن کے اڑا دینا (توجہ نہ کرنا) ، عذر (دلائل ، وضاحتیں)
مفہوم : میری بے گناہی کے میرے پاس بہت سے دلائل تھے مگر میری بے بسی کسی نے نہیں سنی ۔ ادھر سے ایک ہی آواز بلند ہو رہی کہ اسے قتل کر ڈالو ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں فیض نے حکام کے سنگ دلانا اور ناانصافی کا تذکرہ کیا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ حق و انصاف کے لیے آواز بلند کرنے پر مقتدر طبقہ میرا دشمن ہو گیا اور مجھے موت سے ہم کنار کرنے پر تل گیا ۔ میرے پاس اپنی صفائی کے لیے ہزاروں دلائل تھے لیکن ادھر سے ایک ہی آواز آرہی تھی کہ اس کو قتل کر ڈالو ۔ مار ڈالو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے لاکھوں عذر اور وجوہات موجود تھیں لیکن ایک ہی آواز ادھر سے اٹھ رہی تھی کہ اس کو مار ڈالو ۔ دنیا کی ہر عدالت میں دونوں فریقین کی آواز سنی جاتی ہے لیکن یہاں کوئی میری بات سننے کے لیے تیار ہی نہیں تھا ۔ میں نے لاکھ بار کہا کہ میں بے گناہ ہوں ۔ میں نے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے کئی بار صدا بلند کی مگر میری آواز کو کسی نے نہیں سنا ۔ اگر کسی نے سماعتوں سے میری آواز ٹکرائی تو انھوں نے سنی ان سنی کر دی اور اگر میں نے اپنی بے گناہی کو لکھ کر ثابت کرنے کی کوشش کی تو میری اس تحریر کو بھی توجہ کے قابل نہ سمجھا گیا ۔
بقول شاعر :
میری باتوں پر غور کیا کرتے
ان کو سننا ہی کچھ گوارا نہیں
گویا فیض احمد فیض ہر طرح سے اپنی بات سنانے کی کوشش کی ۔ تقریر کے ذریعے بھی اور تحریر کے ذریعے بھی لیکن کسی نے فیض کی طرف توجہ نہیں کی اور بس ایک ہی راگ الاپتے رہے کہ یہ قتل کے قابل ہے اسے قتل کر ڈالو۔
شعر نمبر 5 :
جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم ، جو چلے تو جہاں سے گزر گئے
رہ یار ہم نے قدم قدم ، تجھے یادگار بنا دیا
مشکل الفاظ کے معانی : کوہ گراں( بھاری پہاڑ) ، راہ یار (محبوب کا راستہ) ، جان سے گزرنا (جان دے دینا)
مفہوم : تشریح : تشریح طلب شعر میں فیض نے اپنے خوبصورت وطن کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے کہ اے خوبصورت وطن تیری خاطر ہمیں کسی مقام پر استقامت دکھائی دینی پڑی تو تیری بلندی اور سرفرازی کے لیے اور تجھے اسمانوں کی رفعتوں کی طرف لانے کے لیے ہم یوں سیسا اپلائی ہوئی دیوار بن گئے جیسے ایک پہاڑ وطن عزیز کی طرف اٹھنے والی ظالم موجوں کے سامنے ہماری حیثیت ایک کوہ گراں کی سی تھی کہ جس کے ساتھ ٹکرا کر ہر موج پاش پاش ہوا ہو جایا کرتی تھی اسی طرح اس وطن عزیز کے لیے اگر قربانی دینا پڑی تو ہم نے ایسی قربانی دی کہ اپنی جان تک سے گزر گئے اپنی جان کی بازی تک لگا دی کسی بھی لمحے ہم نے اپنی توجہ کسی اور طرف مرکوز نہیں کی ہم وطن کی محبت میں بڑھتے چلے گئے ہم نے پیچھے مڑ کر دیکھا تک نہیں اے وطن عزیز تیری سلامتی اور بقا کے لیے تجھے یادگار بنانے کے لیے ہم نے اپنے قدم نہیں روکے مخالفین نے لاک کوششیں کی قید و بند کی صعوبتیں دی گئیں طرح طرح کے حرب ازمائے گئے کہ کس طرح ہم اپنے نظریات کو خیرباد کہہ دیں لیکن ہم نے اپنے نظریات کے لیے جان کی بازی لگا کر ایک ایک کام کو یادگار اور زندہ و جاوید بنا دیا بقول فیض احمد فیض مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں جو کوے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.