آج کی اس پوسٹ میں ہم شاعر شہزاد احمد کی غزل ” نہ سہی کچھ مگر اتنا تو کیا کرتے تھے ” کی لغت ، مفہوم اور تشریح پڑھیں گے ۔
شعر نمبر 1 :
نہ سہی کچھ مگر اتنا تو کیا کرتے تھے
وہ مجھے دیکھ کے پہچان لیا کرتے تھے
مشکل الفاظ کے معانی : پہچان( جاننا ، شناخت کرنا)
مفہوم : اگرچہ محبوب کو مجھ سے گہری وابستگی نہیں تھی لیکن اتنا تعلق تو تھا کہ وہ مجھے دیکھ کر پہچان لیتا تھا ۔
تشریح : شہزاد احمد جدید غزل گو شاعر ہیں ان کی شاعری میں محبت اور اس سے وابستہ جذبات کا اظہار پایا جاتا ہے ۔ انہوں نے غزل کی روایات کی پاسداری کی ہے ۔ غزل کی روایتی انداز میں محبوب کو ظالم ، بے رحم اور بے پرواہ دکھایا جاتا ہے جو عاشق پر طرح طرح کے ظلم و ستم روا رکھتا ہے ۔ عاشق کی آہ و زاری اور گریا زاری کا اس پر ذرا اثر نہیں ہوتا ۔ وہ ہمیشہ اس سے بے رخی برتتا ہے جبکہ عاشق محبوب کے لیے ہر طرح کی قربانی دیتا ہے ۔ مصیبتیں برداشت کرتا ہے اور تکلیف جھیلتا ہے ۔ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے وہ بے تاب رہتا ہے ۔ عاشق محبوب کی ایک نگاہِ الفت کا منتظر ہوتا ہے ۔ اگرچہ محبوب اس سے بات نہ بھی کرے لیکن اس کے لیے یہی بات تسکین کا باعث ہوتی ہے کہ محبوب نے اسے ایک نظر دیکھا تو ہے ۔ محبوب نے اسے پہچان تو لیا ہے ۔
بقول داغ دہلوی :
گو نامہ بر سے خوش نہ ہوا پر ہزار شکر
مجھ کو وہ میرے نام سے پہچان تو گیا
تشریح طلب شعر میں شاعر محبوب کی موجودہ بے رخی اور ماضی میں محبوب کے معمولی سے ربط اور تعلق کا ذکر کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ اگرچہ پہلے بھی محبوب مجھ پر مہربان نہیں تھا اور مجھے اس کی محبت اور وفا حاصل نہیں تھی ۔ وہ مجھ سے بات نہیں کرتا تھا ۔ اس نے کبھی میرا مزاج پوچھا نہ خیریت دریافت کی ۔ میں اس کی تمام تر بے اعتنائی اور بے رخی کو برداشت کیے ہوئے تھا لیکن میرے لیے یہی بات تسکین کا باعث تھی کہ وہ مجھے پہچانتا ہے ۔ جب وہ مجھے گزرتے ہوئے دیکھتا تھا تو وہ میری شکل و صورت سے مجھے پہچان لیتا تھا ۔ پہچان لینا بھی ایک طرح سے تعلق کا اظہار تھا۔ جس سے مجھے تسلی تھی کہ میں اس کے شناساؤں میں سے ہوں ۔ اس سے کم از کم اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا تھا ۔
بقول پروین شاکر :
یہ غنیمت ہے کہ ان آنکھوں نے پہچانا ہمیں
کوئی تو سمجھا دیار غیر میں اپنا ہمیں
لیکن اب وہ معمولی سا تعلق بھی ختم ہو گیا ہے۔ اب محبوب مجھے پہچاننے سے بھی انکاری ہے ۔ وہ میرے قریب ایسے گزر جاتا ہے جیسے مجھے پہچانتا ہی نہ ہو ۔ یوں نظر انداز کرتا ہے جیسے میں کوئی اجنبی ہوں ۔ محبوب کا یہ رویہ میرے لیے اذیت اور تکلیف کا باعث ہے ۔ پہلے دل کی بے قراری کو کچھ تسلی ہو جاتی تھی اور کچھ نہ کچھ تعلق کی امید تھی لیکن اب وہ بھی نہیں رہی ۔ محبوب کی نظروں سے اجنبیت جھلک رہی ہے دراصل شاعر محبوب سے کوئی نہ کوئی تعلق رکھنا چاہتا ہے ۔ چاہے وہ سرد مہری ہی کا کیوں نہ ہو ۔ محبوب کی جانب سے اجنبیت اور بیگا نگی کا رویہ شاعر کے لیے ناقابل برداشت ہے ۔
بقول ادا جعفری :
ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
آئے تو سہی برسرِ الزام ہی آئے
شعر نمبر 2:
آخر کار ہوئے تیری رضا کے پابند
ہم کہ ہر بات پہ اصرار کیا کرتے تھے
مشکل الفاظ کے معانی : رضا (مرضی ، خواہش) ، پابند ( ماتحت ، فرمانبردار ) ، اصرار کرنا ( ضد کرنا ، کسی بات پر اڑے رہنا )
مفہوم : ہم جو اپنی ہر بات پر ضد کرتے تھے اب تمہاری مرضی کے پابند ہیں ۔
تشریح : عشق کا تقاضا ہے کہ عاشق محبوب کے رنگ میں رنگ جائے ۔ اپنی ذات کی نفی کرے ۔ اپنی مرضی اور خواہش چھوڑ کر محبوب کی رضا اور خوشنودی کا طلبگار رہے ۔ عاشق صادق وہی ہوتا ہے جو محبوب کی ہر بات کے سامنے سر تسلیم خم کر دے ۔ محبوب کے ظلم و ستم اس کے اقرار و انکار پر گلہ شکوہ نہ کرے ۔ اگر کوئی عاشق محبوب سے اپنی بات منوانے کے لیے اصرار کرے یا محبوب سے گلہ شکوہ کرے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے دعویٰ عشق میں سچا نہیں ہے ۔
بقول رابعہ بصری : ” محبت کرنے والا اپنے محبوب کا تابع و فرمانبردار ہوتا ہے ” ۔
تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ پہلے میں اپنی ہر بات پر ضد کیا کرتا تھا میری عادت تھی کہ میں ہر ایک سے اپنی بات منوایا کرتا تھا ۔ مجھے ہر ایک سے یہی اصرار رہتا تھا کہ وہ میری بات کو تسلیم کرے ۔ اپنے نقطہ نظر کو چھوڑ کر میرے نقطہ نظر کو مانے ۔ اپنی ہر بات پر اڑا رہتا تھا ۔ جو خواہش دل میں آتی اسے پورا کر کے رہتا تھا ۔ غرض یہ کہ اپنی ذات اور اپنی بات کے علاوہ مجھے کچھ دکھائی نہ دیتا تھا ۔ اپنے سوا میں کسی کو اہمیت نہیں دیتا تھا لیکن جب سے میں محبوب کی محبت میں گرفتار ہوا ہوں میرے لیے میری ذات اور میری بات اہم نہیں رہی بلکہ ہمہ وقت محبوب کو خوش کرنے کے لیے اس کی ہر بات تسلیم کرتا ہوں ۔ اب میں خود کو محبوب کی رضا اور خوشنودی کا پابند سمجھتا ہوں ۔ محبوب جو کہتا ہے میں بلا توقف بجا لاتا ہوں۔
دراصل دل ہی خواہشات اور جذبات کے منبع ہوتا ہے جب دل ہی محبوب کے پاس چلا گیا تو اب اس پر اتنا اختیار نہیں رہا گویا شاعر کا دل شاعر کے پاس نہیں رہا تو اس کی مرضی اور خواہشات بھی نہیں رہی بلکہ وہ محبوب کی مرضی اور خواہش کے تابع ہو گیا ہے ۔
بقول مصحفی :
ہمدم جو دیکھتا ہوں تو پہلو میں دل نہیں
بیٹھا تھا اس کے پاس میرا دل وہیں رہا
اب میں محبوب کی محبت اور اس کی رضا طلبی کا اتنا پابند ہو گیا ہوں کہ محبوب کی جانب سے ملنے والی تکالیف کو بھی خوشی برداشت کر لیتا ہوں ۔ اس کے ظلم و ستم اس کی بے رخی اور بے اعتنائی سب ہنس کر سہ لیتا ہوں ۔
بقول احسان دانش :
زخم پہ زخم کھا کے جی اپنے لہو کے گھونٹ پی
آہ نہ کر لبوں کو سی عشق ہے دل لگی نہیں
شعر کا دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ پہلے شاعر ہر بات پر محبوب کے سامنے ضد کیا کرتا تھا ۔ محبوب سے محبت کا جواب محبت میں دینے کا اصرار کیا کرتا تھا لیکن محبوب ہمیشہ اسے نظر انداز کرتا رہتا تھا چنانچہ شاعر محبوب سے کہتا ہے کہ جب تم نے میرے جذبات کی قدر نہیں کی اور میری کسی خواہش کا احترام نہ کیا تو آخر کار میں بھی اپنی عادت ترک کرنے پر مجبور ہو گیا ۔ اب میں نے اپنی بات پر اصرار اور ضد کرنا چھوڑ دیا ہے اور خود کو تمہاری رضا کا پابند بنا لیا ہے اب صرف تمہاری ہاں میں ہاں ملاتا ہوں۔
شعر نمبر 3 :
خاک ہیں اب تیری گلیوں کی وہ عزت والے
جو تیرے شہر کا پانی نہ پیا کرتے تھے
مشکل الفاظ کے معانی : خاک ہیں( مٹی ہیں ، بے عزت ہیں)
مفہوم : اے محبوب وہ صاحب عزت اور خوددار جو کبھی تمہارے شہر کے پانی بھی نہیں پیتے تھے اب تمہاری گلی کوچوں میں بے عزت ہوئے پھرتے ہیں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شہر کہتا ہے کہ وہ لوگ جو خود کو بڑے خوددار سمجھتے تھے اور خودداری کی بنا پر تمہارے شہر کا پانی تک نہ پیتے تھے ۔ اب تمہاری محبت میں گرفتار ہونے کے بعد ان کی خودداری خاک میں مل گئی ہے۔ وہ عزت و وقار والے لوگ ، خوددار لوگ اب تمہاری گلی کوچوں میں خاک چھانتے پھرتے ہیں ۔ زمانہ قدیم میں سرداروں اور وڈیروں کو اپنے حسب نسب اور مال و دولت پر بڑا غرور ہوتا تھا ۔ وہ دوسروں کو حقیر اور کمتر سمجھتے تھے ۔ کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے یہاں تک کہ کسی کے شہر کا پانی پینا بھی اپنی توہین سمجھتے تھے ۔ دراصل وہ کسی کا احسان نہیں لینا چاہتے تھے خواہ وہ محض پانی پینے کا احسان ہی کیوں نہ ہو ۔ شاعر نے وہی نقشہ کھینچا ہے ۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ ایک وقت تھا کہ ہم اتنے خوددار اور انا پرست تھے کہ تمہارے شہر سے گزرتے وقت شدید پیاس کی حالت میں بھی تمہارے شہر کا پانی نہیں پیتے تھے ۔ ہم پیاس کی شدت تو برداشت کر لیتے تھے لیکن اپنی خودداری کی بنا پر تمہارے شہر کے کسی شخص سے پانی لے کر پینا گوارا نہیں کرتے تھے ۔ ہم اتنے عزت دار اور خوددار تھے کہ کسی شخص کا احسان لینا پسند نہیں کرتے تھے لیکن جب سے ہم تمہاری زلفوں کے اسیر ہوئے ہیں اور تمہارے حسن و جمال پر فریفتہ ہوئے ہیں تب سے ہمارا تمام غرور اور عزت و وقار خاک میں مل گیا ہے ۔ اب ہم تمہاری ایک جھلک دیکھنے کے لیے تمام دن تمہارے شہر میں خاک چھانتے پھرتے ہیں اور تمہاری گلیوں کا طواف کرتے رہتے ہیں ۔
بقول میر تقی میر :
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
دراصل عشق اپنی ذات کی نفی کا نام ہے ۔ عشق میں خودداری ، انا اور تفاخر کوئی معنی نہیں رکھتے ۔ عاشق کے لیے محبوب کے شہر اور محبوب کی گلی کوچوں سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوتی ۔ اسے اسی شہر اور انہی گلیوں میں سکون ملتا ہے جہاں محبوب رہتا ہے ۔ شاعر کو محبوب کے شہر اور گلی کی ہر چیز سے محبت ہو جاتی ہے اور اسے محبت کے گلی کوچے کی ہر چیز خوبصورت دکھائی دیتی ہے ۔ شاعر نے اسی کیفیت کو بیان کیا ہے :
بقول میر تقی میر :
گلی میں اس کی پھٹے کپڑوں پر میرے مت جا
لباسِ فخر ہے واں فخر بادشاہوں کا
شعر کا ایک پہلو یہ ہے کہ شاعر محبوب کے حسن و جمال کو اجاگر کرتا ہے اور اس کی تعریف کرتا ہے کہ اے محبوب وہ لوگ جو غرور و تکبر کی بنا پر تمہارے شہر کا پانی بھی نہ پیتے تھے ۔ جب سے انہوں نے تمہیں دیکھا ہے اور تمہارے حسن پر اتنے فریفتہ ہوئے ہیں کہ ہر وقت تمہارے دیدار کے لیے تمہاری گلیوں میں پڑے رہتے ہیں ۔ ان کا غرور و تکبر اور ناز و نخرہ تمہارے حسن و جمال کے سامنے ڈھیر ہو گیا ہے اور خاک میں مل گیا ہے ۔
بقول مصحفی :
تیرے کوچے اس بہانے مجھے دن سے رات کرنا
کبھی اس سے بات کرنا کبھی اس سے بات کرنا
اور بقول میر تقی :
دل مجھے اس گلی میں لے جا کر
اور بھی خاک میں ملا لایا
شعر نمبر 4 :
اب تو انسان کی عظمت بھی کوئی چیز نہیں
لوگ پتھر کو خدا مان لیا کرتے تھے
مشکل الفاظ کے معانی : عظمت (شان ، بڑھائی)
مفہوم : آج انسانی عظمت کی بھی کوئی قدر نہیں ایک وقت تھا جب لوگ پتھروں کو خدا سمجھ کر ان کی پوجا کرتے تھے۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر ماضی کے پتھروں کے ساتھ دور حاضر کے انسان کا موازنہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک زمانہ تھا جب لوگوں کے دلوں میں دوسرے انسانوں کے لیے نیک جذبات ہوتے تھے ۔ انسان تو انسان وہ پتھر جیسی بے جان چیزوں کا بھی احترام کرتے تھے اور انہیں خدا سمجھ کر ان کی پوجا کرتے تھے ۔ پتھر کے بے جان بتوں کو خدا مان کر ان کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے تھے۔ اگرچہ وہ نادانی اور جہالت میں ایسا کرتے تھے لیکن آج انسان کی ایک پتھر جتنی بھی وقعت نہیں رہی ۔ اگرچہ پتھر اور انسان کا کوئی موازنہ نہیں لیکن شاعر انتہائی افسوس کے ساتھ کہتا ہے کہ آج انسان کی وہ اہمیت بھی نہیں رہی جو کبھی پتھروں کی ہوا کرتی تھی ۔ آج انسانی عظمت و احترام ختم ہو گیا ہے ۔ انسان انسان کے خون کا پیاسا ہے ۔ اپنے معمولی سے مفاد اور غرض کے لیے دوسرے انسانوں کا خون بہاتا ہے ۔
بقول عشرت :
آدمی فخر دو جہاں تھا کبھی
آدمی ننگ دو جہاں ہیں آج
ایک اور شاعر کہتا ہے :
خدا تو ملتا ہے انسان ہی نہیں ملتا
یہ چیز وہ ہے جو دیکھی کہیں کہیں میں نے
شاعر دور حاضر میں انسان کی بے قدری پر افسوس کا اظہار کرتا ہے ۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اور مسجود ملائک ہے ۔ دنیا میں خدا کا نائب ہے۔ اس سے ہمیشہ عزت آمیز رویہ رکھنا چاہیے ۔ لیکن آج انسان نے انسان کی قدر کرنا چھوڑ دیا ہے ۔ دور حاضر میں انسان کو وہ مقام و مرتبہ حاصل نہیں جو اسے ملنا چاہیے تھا ۔ اس کی وہ عزت و تکریم اور عظمت و اہمیت نہیں رہی جو کبھی ماضی میں ہوا کرتی تھی ۔ دور حاضر میں مادیت پرستی اور مفاد پرستی کی وجہ سے انسان انسان کا دشمن ہے ۔ اس کے نزدیک صرف مال و دولت ، عہدہ و سلطنت کی اہمیت ہے ۔ انسان کی کوئی عزت و اہمیت نہیں ہر شخص اپنے مفاد اور غرض کی خاطر دوسروں کو نقصان پہنچانے کے در پہ ہے ۔
بقول شاعر :
دور حاضر کے ابن آدم میں
آدمی پن کی کوئی بات نہیں
ایک اور شاعر کہتا ہے :
انسان کے ہوتے ہوئے انسان کا یہ حشر
دیکھا نہیں جاتا مگر دیکھ رہا ہوں
انسان اشرف المخلوقات اور دنیا میں اللہ کا نائب ہے ۔ اس میں اللہ کی خصوصیات کا عکس ہونا چاہیے مگر آج وہ علمی ، عقلی اور فکری اعتبار سے بازار کی جنس بن گیا ہے ۔ کبھی وہ عظیم تھا مگر آج ذلت کے گڑھوں میں گر چکا ہے ۔ انسان تعداد اور مقدار سے نہیں معیار سے بنتے ہیں اور معیار یہ ہے کہ انسان اپنی مادہ پرستی کی روش اور حیوانی خواہشات چھوڑ کر روحانی اعتبار سے اتنا بلند ہو جائے کہ صحیح اور سالم انسان نظر آئے ۔
بقول مولانا حالی :
فرشتہ سے بہتر رہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
مولانا روم کہتے ہیں :
“” میں چراغ لے کر تمام شہر میں پھرا کہ کوئی انسان دکھائی دے مگر میری یہ تلاش ناکام رہی مجھے درندے تو ملے کوئی انسان نہیں ملا”
بقول یامین غوری :
کتنے انساں ہیں کہ وہ انسان نہیں
دل سے انسانیت جن کے مفقود ہے ۔
شعر نمبر 5 :
دوستو ! اب مجھے گردن زدنی کہتے ہو
تم وہی ہو کہ میرے زخم سیا کرتے تھے
مشکل الفاظ کے معانی : گردن زدنی (واجب القتل ، مار ڈالنے کے قابل، گنہگار) ، زخم سینا (رفو گری کرنا مراد حوصلہ بڑھانا)
مفہوم : اے دوستو ! آج تم مجھے گناہ گار اور واجب القتل کہتے ہو ۔ تم وہی ہو جو کبھی میری حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر دوستوں کی ماضی اور حال کی روش کا تقابل کرتا ہے۔ شاعر کو گلا ہے کہ اس کے دوستوں کا رویہ اں بدل چکا ہے ۔ وہ اب پہلے جیسے نہیں رہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ ایک وقت تھا جب میرے ساتھ تمہارا یہ رویہ بہت اچھا تھا تم ہر مصیبت میں میرا ساتھ دیتے تھے ۔ میرے زخموں پر مرہم رکھتے تھے ۔ میرے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے تھے ۔ مجھے تسلی دیتے اور میرا حوصلہ بڑھاتے تھے ۔ لیکن اب تم بدل چکے ہو اور میرے خلاف ہو گئے ہو اور مجھے واجب القتل سمجھتے ہو ۔
بقول زاہد فخری :
نہ جانے کون ہوتے ہیں جو بازو تھام لیتے ہیں
مصیبت میں سہارا کوئی بھی اپنا نہیں دیتا
شاعر نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ اس کے دوستوں کا یہ رویہ کس وجہ سے تبدیل ہوا ۔ شاعر کی کون سی خطا تھی جس پر اس کے مہربان دوست بھی اسے واجب القتل سمجھتے ہیں ۔
غزل کے روایتی انداز میں شعر کا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ ماضی میں شاعر کے دوست احباب اسے عشق سے منع کرتے تھے اور عشق کی راہ کی مشکلات سے آگاہ کرتے تھے ۔ لیکن شاعر ان کی نصیحتوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے عشق کی راہ پر چل پڑتا تھا ۔ اس کے دوست احباب راہ عشق کی مشکلات میں بھی اس کا ساتھ دیتے رہے ۔ محبوب کی جانب سے ملنے والے زخموں پر مرہم رکھتے تھے اور اس کے ظلم و ستم پر اسے تسلی دیا کرتے تھے ۔ لیکن جب شاعر کا عشق دیوانگی کی حد تک بڑھ گیا تو اس کے دوست احباب بھی اس کی تسلی اور تشفی اور زخموں کی رفو گری سے اکتا گئے ۔ چنانچہ وہ اسے تکلیف میں دیکھ کر اس کے مرنے کی باتیں کرنے لگے تاکہ وہ روز روز کی اذیت سے بچ جائے ۔ اس رویے پر شاعر دوستوں سے کہتا ہے کہ اے میرے دوستو ! تم وہی ہو جو کبھی محبوب کے ظلم و ستم اور اس کی بے وفائی سے ملنے والے میرے زخموں کو سیا کرتے تھے ۔ میری دل جوئی کیا کرتے تھے اور حوصلہ بڑھاتے تھے ۔ لیکن آج میرا عشق دیوانگی اور جنون کی حد تک پہنچ گیا ہے ۔ اب تم میرے خلاف ہو گئے ہو اور مجھے مورد الزام اور گنہگار ٹھہرا کر واجب القتل سمجھتے ہو اور مجھے مار ڈالنے کا کہتے ہو ۔ بقول لالا مادھو رام جوہر :
آ گیا جوہر عجب الٹا زمانہ کیا کہیں
دوست وہ کرتے ہیں باتیں جو عدو کرتے نہیں
شعر کا دوسرے پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ شاعر ایک حق گو انسان ہے وہ معاشرے کے ظلم و ستم اور نا انصافیوں پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ وہ حق کے لیے آواز اٹھانا چاہتا ہے ۔ لیکن اس راہ کی مشکلات دیکھ کر وہ ہچکچاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایسے میں اس کے دوست احباب اس کا حوصلہ بڑھاتے ہیں اور اسے حق گوئی کے لیے آمادہ کرتے ہیں ۔ چنانچہ شاعر حق کے لیے آواز اٹھاتا ہے ۔ جس کی پاداش میں اسے مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ معاشرے کی باطل قوتیں اس کے خلاف ہو جاتی ہیں۔ شاعر سے تعلق کی بنا پر شاعر کے دوستوں کو بھی جان کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ وہ اپنی جان بچانے کے لیے مصلحت کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور دشمنوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ شاعر کو گنہگار اور مورد الزام ٹھہرا کر اسے واجب القتل کہنے لگتے ہیں ۔ چنانچہ شاعر دوستوں سے گلا کرتا ہے کہ تم وہی ہو جو کبھی میرا حوصلہ بڑھایا کرتے تھے ۔ آج تم بھی مجھے گنہگار اور واجب القتل کہہ رہے ہو ۔
بقول حبیب جالب :
دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے
شعر کا تیسرا پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ شاعر کہتا ہے کہ آج زمانہ بہت تبدیل ہو گیا ہے ۔ پہلی جیسی دوستی رہی نہ دوست ۔ وہ خلوص و محبت ہمدردی اور غم گساری کے جذبات نہیں رہے جو کبھی پہلے ہوا کرتے تھے ۔ اب دوستی میں بھی مفاد اور غرض شامل ہو گئی ہے ۔ اپنے مفاد اور غرض کی خاطر دوست بھی گزند پہنچانے سے گریز نہیں کرتے۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے جو دوست کبھی زخموں پر مرہم رکھا کرتے تھے اب وہی جان کے دشمن ہیں ۔
شعر نمبر 6 :
اب تو شہزاد ستاروں پہ لگی ہیں نظریں
کبھی ہم لوگ بھی مٹی میں جیا کرتے تھے
مشکل الفاظ کے معانی : ستاروں پر نظریں لگنا (بلندی کی تلاش ، خوب تر کی تلاش) ، مٹی میں جینا (عاجزی و انکساری سے رہنا )
مفہوم : شہزاد کبھی ہم عاجزی و انکساری کے ساتھ زمین پر رہتے تھے لیکن اب ہماری نگاہیں آسمان کے ستاروں پر لگی ہیں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ایک زمانہ تھا جب ہم سیدھی سادی زندگی گزارتے تھے جو بناوٹ اور تصنع سے پاک ہوتی تھی ۔ عاجزی و انکساری سے رہتے تھے ۔ اپنی مٹی ، اپنی تہذیب و ثقافت سے وابستہ تھے لیکن اب ترقی کا زمانہ ہے انسان چاند پر قدم رکھ چکا ہے۔ اس کی اگلی نگاہ ستاروں پر ہے وہ چاند ستاروں پر بستیاں بسانے کی فکر میں ہیں ۔ انسان خوب سے خوب تر کی تلاش میں بڑھتا جا رہا ہے ۔ لیکن ترقی کے اس سفر میں انسان کو انسانیت نہیں بھولنی چاہیے ۔
بقول مفکر :
” سائنس نے انسان کو ہوا میں اڑنا اور پانی میں تیرنا تو سکھا دیا لیکن زمین پر رہنا نہیں سکھایا ” ۔
وہ انسان جس کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی اور جو مٹی پر رہتا اور اسی سے غذا و لباس اور دیگر ضروریات پوری کرتا تھا آج اس کی نظریں آسمان پر موجود ستاروں پر لگی ہوئی ہیں کہ وہاں جا کر ایک نئی دنیا تعمیر کرے ۔ شاعر کہنا چاہتا ہے کہ ترقی کے اس سفر میں انسان کو اپنی حیثیت نہیں بھولنی چاہیے ۔ بلندیوں کی تلاش میں اسے عاجزی اور انکساری کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے ۔
بقول شاعر :
بہتر ہے کہ ڈالو نہ ستاروں پہ کمندیں
انسان کی خبر لو کہ وہ دم توڑ رہا ہے
اور بقول احمد فراز:
بستیاں چاند ستاروں کی بسانے والو !
کرہ ارض پہ بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ
نوٹ : امید ہے کہ آپ شہزاد احمد کی غزل ” نہ سہی کچھ مگر اتنا تو کیا کرتے تھے” کی لغت ، مفہوم اور تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.