آج ہم اس پوسٹ میں نواب مرزا داغ دہلوی کے بارے میں تفصیل سے ان کی شاعری ، ادبی خدمات ، زبان و بیان اور تصانیف کے بارے میں پڑھیں گے اور کوشش کریں گے کہ داغ دہلوی سے متعلق کوئی گوشہ خالی نہ رہے ۔
ابتدائی زندگی کا تعارف: نواب مرزا خاں نام اور داغ ان کا تخلص تھا ۔
داغ کو فصیح الملک، نواب ناظم جنگ بہادر جیسے خطاب سے نوازا گیا ۔ داغ دہلوی صرف استاد شاعر ہی نہ تھے بلکہ فکر و معنویت کے ساتھ زبان و بیان پر کامل عبور رکھتے۔ وہ لوہارو کے ایک رئیس شمس الدین خان کے بیٹے تھے۔ 25 مئی 1831ء کو داغ دلّی کے مشہور محلّہ چاندنی چوک میں پیدا ہوئے ۔غدر کے ہنگامے میں ان کے والد کو ایک انگریز ایجنٹ کے قتل کے الزام میں پھانسی دے دی گئی اور تب داغ اپنے رشتہ دار کے ساتھ رام پور چلے گئے جہاں مولوی غیاث الدّین سے فارسی کی تعلیم حاصل کی ۔ جب ان کے والد کا انتقال ہوا تو داغ کی عمر چھ سال تھی ۔ آپ کی والدہ نے بہادر شاہ ظفر کے بیٹے مرزا فخرو سے شادی کر لی۔ اس طرح داغ قلعہ معلی میں رہنے اور وہاں کے ماحول سے مستفید ہونے کا موقع ملا ۔عبد المجید قریشی اپنی تصنیف “کتابیں ہیں چمن اپنا” میں لکھتے ہیں کہ داغ کی چار پانچ الماریاں کتابوں سے بھری رہتی تھیں۔ کتب خانے کی فہرست مجلّد تھی۔ مرزا صاحب اپنے احباب اور شاگردوں کو کتابیں مستعار بھی دیتے رہتے، لیکن اُن کا اندراج ایک علیحدہ رجسٹر میں کر دیتے۔ اس رجسٹر کی تنقیح ہر دوسرے تیسرے مہینے ہوتی رہتی اور اگر کوئی کتاب کسی کے پاس رہ جاتی تو تقاضا کر کے منگوا لیتے۔ ۔ بہادر شاہ ظفر اور مرزا فخرو دونوں استاد ذوق کے شاگرد تھے۔ لہٰذا داغ کو بھی ذوق کی شاگردی کا موقع ملا ۔ داغ کی زبان بنانے اور سنوارنے میں ذوق کا یقیناً بہت بڑا حصہ ہے۔ غدر کے بعد رام پور پہنچے جہاں نواب کلب علی خان نے داغ کی قدردانی فرمائی اور باقاعدہ ملازمت دے کر اپنی مصاحبت میں رکھا۔ داغ چوبیس سال تک رام پور میں قیام پزیر رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے بڑے آرام و سکون اور عیش و عشرت میں وقت گزارا یہیں انھیں “حجاب” سے محبت ہوئی اور اس کے عشق میں کلکتہ بھی گئے۔ مثنوی ” فریاد ِ عشق ” اس واقعہ عشق کی تفصیل ہے۔ نواب کلب علی خان کی وفات کے بعد حیدر آباد دکن کا رخ کیا۔ نظام دکن کی استادی کا شرف حاصل ہوا۔ دبیر الدولہ ، فصیح الملک، نواب ناظم جنگ بہادر کے خطاب ملے۔ بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی تک رؤسا، نوابوں اور بادشاہ کے لطف و کرم سے فیضیاب ہوتے رہے۔ اس باعث وہ ایسی فضا میں پروان چڑھے جہاں کا ماحول قبل از وقت انسان کو جوان بنا دیتا ہے۔ اس ماحول میں حسن و عشق کے چرچے تھے، محبت کی کہانیاں تھیں اور عیش و عشرت کی راتیں تھیں۔
زبان و بیان: غالب کی طرح نئی نئی طرح سے الفاظ و تراکیب کو استعمال کرنے کا فن داغ خوب جانتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ داغ اردو زبان کے بادشاہ ہیں۔ ان کی کلام میں زبان کا چٹخارا، سلاست بیانی ، صفائی، سحر آفرینی، رنگینی، شوخی اور چلبلاہٹ بلا کی پائی جاتی ہے ۔ اردو زبان کو داغ کے ہاتھوں انتہائی عروج حاصل ہوا داغ کے کلام میں روزمرہ تیکھا پن، محاورے کی چاشنی، شوخی و شرارت ، حلاوت اور نزاکت سبھی کچھ موجود ہے۔ زباں دانی اور محاورہ تو ان کی گھٹی میں پڑا تھا ۔
نوابوں کے سے ماحول میں پل کر جوان ہونے والے مرزا داغ نے شاعری کی تو اس میں زندگی کا کوئی نیا نظریہ تھا نہ کوئی فلسفہ،اس لیے ان کی شاعری میں معشوق، عاشق، ناصح اور قاصد جیسے روایتی کردار ملتے ہیں۔ بزم یار اور کوچہ دلدار کی سرگرمیاں بھی اردو میں عام تھیں لیکن داغ کو غیر معمولی شہرت ملی ، اس کی وجہ ان کا انداز بیان اور پھر سادہ زبان ہے۔ اس سے پہلے شاعر ایسی وارداتیں اس انداز سے بیان کرتے کہ وہ خاص اور پڑھے لکھے طبقے کی سمجھ تک کی بات ہوتی لیکن داغ کی سادہ زبان نے بیک وقت عام و خاص کو گرویدہ بنا لیا۔
اردو شاعری میں زبان اور اس کی مزاج شناسی کی روایت کا آغاز سودا سے ہوتا ہے۔ یہ روایت ذوق کے توسط سے داغ تک پہنچی داغ نے اس روایت کو اتنا آگے بڑھایا کہ انھیں اپنے استاد ذوق اور پیش رو سودا دونوں پر فوقیت حاصل ہو گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب داغ نے ہوش سنبھالا تو لال قلعے میں بہادر شاہ ظفر، استاد ذوق اور ان کے شاگرد زبان کو خراد پر چڑھا کر اس کے حسن کو نکھار رہے تھے۔ اور بہادر شاہ ظفر کے ہاتھوں اردو کو پہلی بار وہ اردو پن نصیب ہو رہا تھا جسے بعد میں داغ کے ہاتھوں انتہائی عروج حاصل ہوا اس انداز بیاں کی ذرا مثال ملاحظہ فرمائیں ۔
تھے کہاں رات کو آئینہ تو لے کر دیکھو
اور ہوتی ہے خطاوار کی صورت کیسی
نہ ہمت، نہ قسمت، نہ دل ہے، نہ آنکھیں
نہ ڈھونڈا، نہ پایا، نہ سمجھا، نہ دیکھا
سادگی، بانکپن ، اغماض ، شرارت، شوخی
تو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
شاعری کی نمایاں خصوصیات :
داغ دہلوی کی شاعری کی نمایاں خصوصیات ذیل میں موجود ہیں:- 1 ۔ داغ دہلوی کی شاعری کے نمایاں خصوصیات میں سے ایک خاصیت ان کی بے مثال محبت ہے اور لفظی ہیر پھیر ہے ۔ وہ زخمی دل کے درد کو بڑی مہارت سے بیان کرتا ہے، محبوب کے اعمال اور آرزو کے درد پر سوال کرتا ہے۔ مثال کے طور پر
تمہارے خط میں نیا اک نام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا
2 ۔ غزل کے ابتدائی اشعار اس موضوع کی عکاسی کرتے ہیں جیسا کہ شاعر حیران ہوتا ہے کہ اس کے دل میں کسی حریف کی عدم موجودگی پر زور دیتے ہوئے کہ کون ایسا حریف ہے جو منظر عام پر آ گیا ہے جس سے وہ نفرت نہیں محبت کرتے ہیں۔
3 ۔ داغ دہلوی کی شاعری میں ایک اور بار بار چلنے والا موضوع وفاداری، پیار، محبت اور اطاعت ہے۔ وہ وفاداری اور عشق و محبت میں پابندی کی خوبیوں پر غور کرتا ہے، رشتوں میں اعتماد کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ شاعر کا استفسار کیا تمہیں بھی یاد ہے یہ کس نے کہا تھا؟ پرانی یادوں اور یادوں کے احساس کو جنم دیتا ہے، جو ماضی کی وفاداری کی خواہش کا اظہار کرتا ہے ۔ جیسا کہ مومن کے ہاں ” وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا ” کی شکل میں موجود ہے ۔
4 ۔ داغ دہلوی کی شاعری میں شناخت اور تعلق کا تصور بھی تلاش کیا گیا ہے۔ وہ کسی خاص جگہ کے رہائشیوں پر غور کرتا ہے اور ان کی اصلیت پر سوال کرتا ہے۔ شاعر وجود کی عارضی نوعیت پر غور کرتا ہے، اس بات پر بھی پر غور کرتا ہے کہ یہ واقعی کس کا مقام ہے اور قارئین کو انسانی وجود کی نزاکت پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
5 ۔ داغ دہلوی کی اردو شاعری اس کی فصاحت اور بلاغت کی زندہ مثال ہے۔ کسی بھی زبان میں فصاحت و بلاغت کا ہونا اور پھر اسے کما حقہ استعمال کرنا ، زبان کو نمایاں کرتا ہے اور داغ اس فن میں ایک فنکار دکھائی دیتے ہیں ۔ داغ کی نظمیں اور غزلیں اس چیز کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں ۔ ان غزلوں اور نظموں میں بلا کی موسیقیت اور درد موجود ہے ۔ اکثر نظمیں اور غزلیں سریلی تال اور بھرپور منظر کشی کے ساتھ تخلیق کی گئی ہیں، جو قارئین کو ان کی شعری خوبصورتی سے مسحور کرتی ہیں۔ شاعر کا استعاروں اور تشبیہات کا ماہرانہ استعمال اس کے الفاظ میں گہرائی اور نئی سوچ کا اضافہ کرتا ہے، جس سے قارئین کو عشق و محبت کے جذبات کی شدت کا تجربہ کرنے کے قابل بناتا ہے۔
6 ۔ داغ کی غزلوں کی پسندیدگی میں اس کے ترنم اور موسیقیت کو اہمیت حاصل ہے۔ غزلوں کے ردیف اور قافیے کی تلاش میں ان کو کمال کا عبور حاصل ہے۔ اُن کی بحریں اور زمینیں نہایت باغ و بہار ہیں اُن کے ہاں الفاظ کا استعمال نہایت برمحل اور برجستہ ہے۔
7 ۔داغ کی شاعری کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ محبوب کے بارے میں ان کے لب و لہجے میں طنز و تعریض کی آمیزش نظرآتی ہے۔ مثلاً
غیروں سے التفات پہ ٹوکا تو یہ کہا
دنیا میں بات بھی نہ کرے کیا کسی سے ہم
تمھارے خط میں نیا اک پیام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا
تم کو آشفتہ مزاجوں کی خبر سے کیا کام
تم سنوارا کرو بیٹھے ہوئے گیسو اپنے
قصہ عشقِ نامراد : واردات عشق کے قصے تو تقریباً سبھی شعراء چھوڑتے نظر آتے ہیں مگر داغ کی عشقیہ داستانیں ذرا ہٹ کر ہیں ۔زندگی میں جانے کتنی طوائفوں سے داغ کے مراسم رہے ہوں گے لیکن ان کا کوئی دیر پا نقش داغ کے روز و شب پر نظر نہیں آتا۔ یہ دیر پا نقش صرف کلکتے کی ” منی بائی حجاب ” نے چھوڑا جسے وہ ہمیشہ اپنے دل میں بسائے رہے ۔ منی بائی حجاب سے ان کے عشق کا قصہ غیر معمولی تھا ۔ اس کی خاطر داغ نے کلکتہ کا سفر بھی کیا۔داغ کا منی بائی حجاب کے ساتھ تعلق 1879 ء میں بنا،جب نواب کلب علی خان کے چھوٹے بھائی حیدر علی خان نے منی بائی حجاب کو ایک میلے میں دعوت دی تھی۔
داغ منی بائی حجاب کو دیکھتے ہی دل دے بیٹھے ،دوسرے سال میلے میں داغ نے دعوت بھجوائی لیکن حجاب نے حیدر علی خان کی بے التفاتی کی وجہ سے آنے سے انکار کیا ۔ داغ کے اصرار پر حیدرعلی خان نے دعوت نامہ بھجوا دیا ۔ حجاب حیدر علی خان کے یہاں ٹھہری لیکن کچھ اچھا سلوک نہ ہونے پر داغ کے یہاں مقیم ہوئی، دو ماہ داد عیش دینے کے بعد کلکتہ آنے کی دعوت دے کر واپس روانہ ہوئی اور پھر کلکتہ سے اس کا اصرار بڑھتا ہی چلا گیا ۔حجاب کو داغ نے آخری بار 3 جولائی 1882ء کو کلکتے میں الوداع کہا تھا۔ پھر وہ کچھ ایسے حالات سے دو چار رہے کہ حجاب سے ملاقات کی کوئی صورت نہیں نکال سکے۔ 1899ء میں انہوں نے نظام حیدرآباد کے ساتھ کلکتے کا سفر بھی کیا لیکن غالباً نظام کے معمولات کی پابندی کی وجہ سے انہیں حجاب سے ملاقات کی مہلت نہیں ملی۔ اس وقت تک کوئی صاحب حجاب کو پردہ نشیں بھی بناچکے تھے۔ داغ کے اس سے نہ مل سکنے کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہو گی ۔
داغ کی حجاب سے ملاقات چاہے نہ ہو سکی ہو لیکن حجاب تک یہ خبریں ضرور پہنچی ہوں گی کہ داغ والیِ دکن کے ساتھ کلکتے آئے ہیں اور نوابانہ ٹھاٹ باٹ کے ساتھ آئے ہیں۔ اس کے دل میں بھی پرانی یادوں نے انگڑائی لی ہوگی۔ چنانچہ اس نے داغ کے ساتھ مراسلت کا رابطہ قائم کیا اور ان کے کہنے پر ان صاحب سے طلاق لے کر جنھوں نے حجاب کو پردہ دار بنا دیا تھا اور جن کا نام حسے صاحب بتایا جاتا ہے ۔ حجاب نے داغ کے پاس حیدرآباد جانے کا فیصلہ کرلیا۔
دسمبر 1898ء میں داغ کی اہلیہ فاطمہ بیگم کا انتقال ہوگیا تھا۔ عجب نہیں کہ انھوں نے حجاب سے یہ وعدہ بھی کیا ہو کہ وہ اس سے نکاح کر لیں گے۔ اس خیال کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ دہلی دربار( جنوری 1903ء) سے داغ، جو نظام کی ہمراہی میں تھے، واپس ہوئے تو ان کے حیدر آباد کے فوراً بعد کسی نے ان سے پوچھا کہ آخر اب آپ کیوں حجاب سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، آپ کی بتیسی مصنوعی ہے، سر اور داڑھی کے بال رنگے جاتے ہیں۔ تو داغ نے کہا کہ مجھے اپنی کبر سنی کا احساس ہے، لیکن میری مسہری آج بھی ایک نو عروس کی مسہری معلوم ہوتی ہے۔ رنگین جالی کے پردے ہیں، جن پر گوٹا لگا ہوا ہے اور انگوری بیل کی جھالر بھی لہرا رہی ہے۔ یہ سب روا ہے تو منی بائی حجاب میرے لیے کیوں ناجائز کر دی جائے۔ اس سے پہلے داغ نے اپنے بے تکلف دوستوں کی ایک محفل میں یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ کیا حسّے صاحب سے طلاق کے بعد حجاب کو عدت میں بیٹھنا ہوگا؟
داغ نے 3 جولائی 1883ء کو حجاب کو کلکتے میں خدا حافظ کہا تھا۔ اٹھارہ انیس برس کے بعد انہوں نے 18 یا 19 جنوری 1903ء کو اسے حیدرآباد میں خوش آمدید کہا۔ انہوں نے حجاب کے قیام کے لیے ایک مکان کا انتظام کر دیا اور اس کی ماہانہ تنخواہ بھی مقرر کردی جو سیّدہ جعفر کے بیان کے مطابق ابتدا میں ساٹھ روپے تھی، پھر سو روپے کر دی گئی۔
(بحوالہ: داغ دہلوی، حیات اور کارنامے، دہلی اردو اکادمی، صفحہ 6 5
داغ کے روزنامچہ نگار کا بیان ہے،”ایک طوائف کی ایسی دنیا بدلی ہے کہ کوئی وقت وظیفے سے خالی نہیں ہے۔ مرزا صاحب فرما رہے تھے کہ دو چار برس میں ولیہ ہو جائیں گی ۔
(مؤرخہ 22 جنوری 1903ء)
داغ کی شاعری کا مجموعی جائزہ : داغ کی شاعر ی کے متعلق فراق فرماتے ہیں ” اردو شاعری نے داغ کے برابر کا فقرہ باز آج تک پیدا کیا ہے اور نہ آئندہ پیدا کر سکے گی” ۔
بقول رام بابو سکسینہ :
“ان کی زبان کے ساتھ اس خدمت کی ضرور قدر کرنی چاہیے کہ انھوں نے سخت اور معلق الفاظ ترک کیے اور سیدھے الفاظ استعمال کیے۔ جس سے کلام میں بے ساختگی اور فصاحت مزید بڑھ گئی ہے۔” بقول خلیل الرحمن عظمی
“داغ کے طرز بیان میں جو صفائی اور فصاحت، جو چستی، جو نکھار، جو البیلا پن اور جو فنی رچاؤ ملتا ہے وہ بہت کم غزل گویوں کے حصے میں آیا ہے۔ داغ کا فن اُن کی شخصیت کی ایک تصویر ہے اس لیے اس میں بڑی جان ہے” ۔
زندگی کے بارے میں داغ کا نظریہ: داغ کا زندگی کے بارے میں ایک ہی نظریہ تھا کہ زندگی آرزوئے مسلسل، ایک انہماک کامل اور شوق ناتمام کا نام ہے جس میں لذت ہے، عیش ہے اور تنوع ہے مگر اس میں درد و کرب اور سوز و تپش کی آمیزش نہیں ، وہ ’کھاؤ پیو اور مزے اڑاؤ‘ کے اصول پر عمل پیرا تھے۔انہوں رند ہونے پر تصوف کا پردہ نہیں ڈالا ۔
وفات : مرزا فخرو کے انتقال کے بعد داغ اور ان کی والدہ کو قلعۂ معلّیٰ چھوڑنا پڑا تھا۔ داغ تو حیدرآباد دکن کے ہوگئے اور وہیں وفات پائی۔ ان کے انتقال کا مہینہ 17 مارچ اور اکثر نے 16 فروری لکھا ہے۔ لیکن سنہ 1905ء تھا۔ داغ نے حضور نظام (دکن) سے وظیفہ بھی پایا اور وہاں ان کا بڑا احترام کیا جاتا تھا۔ دکن کی مشہور تاریخی مکّہ مسجد میں داغ کا نماز جنازہ پڑھا گیا تھا ۔
داغ کے کلام سے چند اشعار ملاحظہ ہوں ۔
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
ہزاروں کام محبت میں ہیں مزے کے داغؔ
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں
ہمیں ہے شوق کہ بے پردہ تم کو دیکھیں گے
تمہیں ہے شرم تو آنکھوں پہ ہاتھ دھر لینا
شب وصال ہے گل کر دو ان چراغوں کو
خوشی کی بزم میں کیا کام جلنے والوں کا
خبر سن کر مرے مرنے کی وہ بولے رقیبوں سے
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
نوٹ : امید ہے کہ آپ نواب داغ دہلوی کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.