نظم ” یہ کون اٹھا ہے شرماتا” کا مرکزی خیال

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” یہ کون اٹھا ہے شرماتا” کا مرکزی خیال پیش کریں گے ۔ اس نظم کے شاعر جوش ملیح آبادی ہیں ۔

مرکزی خیال کیا ہوتا : وہ خاص معنی جسے ادبی اظہار کا روپ دینا، فن کار کا مقصد ہوتا ہے، اس کے لئے ادب پارے کو ایک دائرہ فرض کیا جاتا ہے اور مقصد کو مرکز قرار دیا جاتا ہے ۔

مرکزی خیال کا مطلب کسی بھی نظم یا نثر پارے کا بنیادی تصور ہے یعنی شاعر یا ادیب جس تصور کو بنیاد بنا کر نظم یا نثر پارہ لکھتا ہے اس تصور کو مرکز خیال کہتے ہیں ۔ مرکزی خیال مختصر اور جامع ہوتا ہے ۔

 نظم کا مرکزی خیال:

جوش ملیح آبادی کی نظم “یہ کون اٹھا ہے شرماتا” کا مرکزی خیال بیداری، انقلابی شعور، اور غلامی سے نجات ہے۔ شاعر ایک ایسے فرد یا قوم کی تصویر کشی کرتے ہیں جو طویل عرصے سے ظلم، خوف، اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی، مگر اب وہ بیدار ہو رہی ہے اور اپنی آزادی کی طرف بڑھ رہی ہے۔

یہ نظم اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ ہر غلامی کے بعد بیداری آتی ہے، اور ہر ظلم کے خلاف بالآخر ایک آواز بلند ہوتی ہے۔ شاعر نے اس نظم میں انقلابی روح پھونکی ہے، جو قوموں کو بیدار ہونے اور حق کے لیے لڑنے کی ترغیب دیتی ہے۔

مختصر یہ کہ نظم کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ جب کوئی فرد یا قوم اپنی کمزوریوں اور خوف کو پسِ پشت ڈال کر حوصلہ اور ہمت سے کھڑی ہوتی ہے، تو وہ انقلاب برپا کرنے اور آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” یہ کون اٹھا ہے شرماتا” کے مرکزی خیال کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply