نظم ” یہ کون اٹھا ہے شرماتا” کا خلاصہ

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” یہ کون اٹھا ہے شرماتا” کا خلاصہ لکھیں گے ۔ اس نظم کے شاعر جوش ملیح آبادی ہیں ۔

خلاصہ کیا ہوتا ؟

 خلاصہ کا لغوی مطلب اختصار ، لُب لباب ، ماحصل ، اصل مطلب وغیرہ ۔

اصطلاحی طور پر خلاصہ کسی تحقیقی مضمون، مقالہ ، جائزہ، کانفرنس کی کارروائی ، یا کسی خاص موضوع کا گہرائی سے تجزیہ کا ایک مختصر خلاصہ ہوتا ہے ۔

جوش ملیح آبادی کی نظم “یہ کون اٹھا ہے شرماتا” ایک انقلابی اور جذباتی نظم ہے جو غلامی، بیداری، اور انقلاب کے جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔

 نظم ” یہ کون اٹھا ہے شرماتا” کا خلاصہ:

یہ نظم ایک ایسے شخص کے بارے میں ہے جو طویل غلامی، خوف، اور بے بسی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا، لیکن اب وہ بیدار ہو چکا ہے۔ شاعر اس کے انداز، حرکات اور چہرے کے تاثرات کو بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہ کس طرح شرماتا ہوا، گھبراتا ہوا، لیکن عزم و ہمت کے ساتھ کھڑا ہو رہا ہے۔ یہ شخص دراصل ایک انقلابی کردار ہے جو ظلم و استبداد کے خلاف بغاوت کا اعلان کرنے کے لیے تیار ہے۔

شاعر اس کے شرمانے کو اس بات کی علامت قرار دیتے ہیں کہ وہ پہلے خاموش تھا، لیکن اب اس کی نگاہوں میں چمک اور ارادوں میں مضبوطی آ چکی ہے۔ وہ غلامی کے اندھیروں سے نکل کر روشنی کی طرف بڑھ رہا ہے، جہاں وہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرے گا۔

یہ نظم استعمار، غلامی، اور جبر کے خلاف عوامی شعور کی بیداری کی علامت ہے۔ جوش ملیح آبادی نے اپنے مخصوص جوشیلی اور بلند آہنگ شاعری کے انداز میں ایک نئے انقلاب کی امید اور حوصلے کو اس نظم میں پیش کیا ہے ۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” یہ کون اٹھا ہے شرماتا” کے خلاصے کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply