نظم ” یہ فصل امیدوں کی ہمدم” کا مرکزی خیال

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” یہ فصل امیدوں کی ہمدم” کا مرکزی خیال پیش کریں گے ۔ اس نظم کے شاعر فیض احمد فیض ہیں ۔

مرکزی خیال کیا ہوتا : وہ خاص معنی جسے ادبی اظہار کا روپ دینا، فن کار کا مقصد ہوتا ہے، اس کے لئے ادب پارے کو ایک دائرہ فرض کیا جاتا ہے اور مقصد کو مرکز قرار دیا جاتا ہے ۔

مرکزی خیال کا مطلب کسی بھی نظم یا نثر پارے کا بنیادی تصور ہے یعنی شاعر یا ادیب جس تصور کو بنیاد بنا کر نظم یا نثر پارہ لکھتا ہے اس تصور کو مرکز خیال کہتے ہیں ۔ مرکزی خیال مختصر اور جامع ہوتا ہے ۔

نظم کا مرکزی خیال: اس نظم کا مرکزی خیال محنت کش طبقے کی جدو جہد، استحصال اور ناانصافی ہے۔ شاعر نے کسانوں اور مزدوروں کی محنت، ان کی امیدوں اور بار بار محرومیوں کا ذکر کرتے ہوئے اس تلخ حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی محنت کا ثمر کسی اور کے لیے پیدا کرتے ہیں، جبکہ خود محرومی کا شکار رہتے ہیں۔

نظم اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ محنت کشوں کی ہر فصل، ہر امید، ہر کوشش مسلسل ضائع کی جاتی ہے، لیکن وہ پھر بھی نئے خواب لے کر اگلی بار پھر وہی مشقت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ شاعر نے اس استحصالی نظام پر گہرا طنز کیا ہے، جہاں محنت کرنے والوں کا خون اور آنسو زمین میں جذب ہو جاتے ہیں، مگر ان کے نصیب میں خوشحالی نہیں آتی۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” یہ فصل امیدوں کی ہمدم” کے مرکزی خیال کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply