آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” یاد ” کا مرکزی خیال پیش کریں گے ۔ اس نظم کے شاعر فیض احمد فیض ہیں ۔
مرکزی خیال کیا ہوتا : وہ خاص معنی جسے ادبی اظہار کا روپ دینا، فن کار کا مقصد ہوتا ہے، اس کے لئے ادب پارے کو ایک دائرہ فرض کیا جاتا ہے اور مقصد کو مرکز قرار دیا جاتا ہے ۔
مرکزی خیال کا مطلب کسی بھی نظم یا نثر پارے کا بنیادی تصور ہے یعنی شاعر یا ادیب جس تصور کو بنیاد بنا کر نظم یا نثر پارہ لکھتا ہے اس تصور کو مرکز خیال کہتے ہیں ۔ مرکزی خیال مختصر اور جامع ہوتا ہے ۔
نظم ” یاد” مرکزی خیال :
فیض احمد فیض کی یہ نظم “یاد” محبت، ہجر، اور محبوب کی یادوں کے لطیف اور گہرے جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔ نظم میں شاعر تنہائی اور جدائی کے درد کو بیان کرتے ہیں، لیکن اس تنہائی میں بھی محبوب کی یادیں اس کے ساتھ رہتی ہیں۔
محبوب کی غیر موجودگی کے باوجود، شاعر کو اس کی آواز، لمس، خوشبو اور نظروں کی چمک کا احساس ہوتا ہے، جیسے وہ حقیقت میں موجود ہو۔ یہ یادیں اتنی شدید ہیں کہ شاعر کو ایسا لگتا ہے جیسے ہجر کی سختی ختم ہونے کو ہے اور وصال کی گھڑیاں قریب آ رہی ہیں۔
اس نظم کا بنیادی خیال محبوب کی یادوں کی طاقت اور ان کا دل و روح پر اثر ہے، جو جدائی کے دکھ کو کم کر دیتی ہیں اور محبوب کو قربت کا احساس دلاتی ہیں۔ یہ نظم محبت کی ابدی وابستگی اور یادوں کی زندگی بخش تاثیر کا اظہار ہے، جو محبوب کی غیر موجودگی کے باوجود بھی اس کی قربت کا احساس دلاتی ہے۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” یاد ” کے مرکزی خیال کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.