نظم ” یاد ” کا خلاصہ

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” یاد ” کا خلاصہ پڑھیں گے ۔ اس نظم کے شاعر فیض احمد فیض ہیں ۔

خلاصہ کیا ہوتا ؟

 خلاصہ کا لغوی مطلب اختصار ، لُب لباب ، ماحصل ، اصل مطلب وغیرہ ۔

اصطلاحی طور پر خلاصہ کسی تحقیقی مضمون، مقالہ ، جائزہ، کانفرنس کی کارروائی ، یا کسی خاص موضوع کا گہرائی سے تجزیہ کا ایک مختصر خلاصہ ہوتا ہے ۔

نظم ” یاد ” کا خلاصہ

فیض احمد فیض کی نظم “یاد” محبت، ہجر اور محبوب کی یادوں کے جذباتی اثرات کو نہایت لطیف انداز میں پیش کرتی ہے۔ شاعر جدائی کے عالم میں تنہائی کے ویران صحرا (دشتِ تنہائی) میں موجود ہے، جہاں اسے ہر طرف محبوب کی یادیں اور محبت کے نشان محسوس ہوتے ہیں۔

محبوب کی آواز کے سائے اور ہونٹوں کے سراب شاعر کے ارد گرد لرزاں ہیں، یعنی اس کی یادیں اتنی گہری ہیں کہ وہ محبوب کی موجودگی کو محسوس کرنے لگتا ہے۔

محبوب کی دوری کے باوجود، اس کے پہلو کے سمن اور گلاب کھلے ہیں، یعنی اس کی خوشبو، لمس اور محبت کا احساس ہر جگہ موجود ہے، گویا وہ جسمانی طور پر دور ہونے کے باوجود روحانی طور پر قریب ہے۔

قربت کا یہ احساس اتنا شدید ہے کہ شاعر کو محبوب کی سانسوں کی گرمی بھی محسوس ہوتی ہے، جو مدھم مدھم خوشبو کی طرح سلگ رہی ہے۔

یہی نہیں، بلکہ شاعر کو محبوب کی نظر کی شبنم بھی دور افق پر چمکتی نظر آتی ہے، یعنی وہ اپنی نظروں میں اس کی محبت کی روشنی اور چمک کو محسوس کرتا ہے، جو اس کے دل کو راحت بخش رہی ہے۔

آخر میں، شاعر محبوب کی یاد کے لمس کو اس قدر حقیقی محسوس کرتا ہے کہ ایسا لگتا ہے جیسے ہجر کی صبح ختم ہو رہی ہے اور وصل کی رات قریب آ رہی ہے۔ اگرچہ حقیقت میں محبوب دور ہے، لیکن اس کی یادیں اور محبت شاعر کے دل کو ایسا محسوس کرواتی ہیں جیسے ہجر کا دن گزر چکا ہو اور وصال قریب ہو۔

یہ نظم فیض کی رومانوی شاعری کا ایک خوبصورت نمونہ ہے، جس میں محبت کی یادوں کو اتنی شدت سے بیان کیا گیا ہے کہ وہ حقیقت کا روپ دھار لیتی ہیں۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ  نظم ” یاد ” کے خلاصے کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply