نظم ” ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے”

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے” کا مرکزی خیال پیش کریں گے ۔ اس نظم کے شاعر فیض احمد فیض ہیں ۔

مرکزی خیال کیا ہوتا : وہ خاص معنی جسے ادبی اظہار کا روپ دینا، فن کار کا مقصد ہوتا ہے، اس کے لئے ادب پارے کو ایک دائرہ فرض کیا جاتا ہے اور مقصد کو مرکز قرار دیا جاتا ہے ۔

مرکزی خیال کا مطلب کسی بھی نظم یا نثر پارے کا بنیادی تصور ہے یعنی شاعر یا ادیب جس تصور کو بنیاد بنا کر نظم یا نثر پارہ لکھتا ہے اس تصور کو مرکز خیال کہتے ہیں ۔ مرکزی خیال مختصر اور جامع ہوتا ہے ۔

فیض احمد فیض کی نظم “ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے” کا مرکزی خیال :

اس نظم کا مرکزی خیال قربانی، جدو جہد، اور نظریاتی استقلال پر مبنی ہے۔ شاعر نے اس نظم میں ان افراد کی داستان بیان کی ہے جو حق و سچ کی راہ میں قربان ہو گئے لیکن ان کی قربانی رائیگاں نہیں گئی۔

اس نظم میں محبوب کا ذکر ایک علامتی پیرائے میں کیا گیا ہے، جو کسی اعلیٰ مقصد، وطن، انقلاب، یا نظریے کی نمائندگی کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ وہ محبوب کی چاہ میں قربان ہو گئے، مگر محبوب کی خوبصورتی، اس کی روشنی اور اس کا حسن قائم رہا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ظلم سہنے والوں کی قربانی بےاثر نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک تحریک کو زندہ رکھتی ہے۔

نظم کے آخری حصے میں شاعر امید کا پیغام دیتا ہے کہ ان قربانیوں سے ایک نئی تحریک جنم لے گی اور عشاق کے قافلے اسی راہ پر چل کر درد کے فاصلے کم کریں گے۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ قربانی دینے والوں کی راہ کو ان کے پیروکار جاری رکھیں گے اور جدو جہد کبھی ختم نہیں ہوگی۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے” کے مرکزی خیال کے  کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply