نفیر عمل نظم کی تشریح
آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” نفیر عمل” کی تشریح کریں گے ۔ اس نظم کے شاعر مجید امجد ہیں ۔
بند نمبر 1 :
آؤ کب تک گلا شومی تقدیر کریں
آؤ کب تلک ماتم ناکامی تدبیر کریں
کب تلک شیون جور فلک پیر کریں
کب تلک شکوہ بے مہری ایام کریں
نوجوان وطن! آؤ کوئی کام کریں
مشکل الفاظ کے معانی : شکوہ (گلہ ، شکایت) ، شومی تقدیر (بد نصیبی ، بدقسمتی) ، کب تلک( کب تک ) ، ماتم (رونا دھونا ، غم کرنا ) ، ناکامی تدبیر (تدبیر کی ناکامی) ، شیون (رونا ، پیٹنا آہ زاری کرنا) ، جور فلک( آسمان کا ظلم و ستم) ، پیر( بوڑھا ، پرانا ) ، شکوہ (گلا ، شکایت) ، بے مہری ایام (زمانے کی بے رخی ، بے وفائی ) ، نوجوانانِ وطن (وطن کے نوجوان)
مفہوم : اے وطن کے نوجوانوں کب تک ہم اپنی بدقسمتی کا شکوہ کریں اور ناکامیوں کا غم کریں ۔ کب تک تقدیر اور زمانے کی بے وفائی کا شکوہ کریں ۔ آؤ ہم گلے شکوے چھوڑ کر کوئی تعمیری کام کریں ۔
تشریح : مجید امجد جدید اردو نظم کے موجد ہیں ۔ ان کی شاعری منفرد ذہن و دل کی عکاس ہے۔ جس میں موضوعات اسلوب اور ہیئت کا حیرت انگیز تنوع نظر آتا ہے ۔ مظاہر فطرت کی عکاسی ، طبقاتی کشمکش اور وطن دوستی ان کی شاعری کی بڑی قربانیاں ہیں ۔ وہ اپنی زندگی میں تو زیادہ شہرت حاصل نہ کر سکے البتہ ان کی موت کے بعد ماہرین فن نے انہیں دور جدید کے عظیم شعراء کی صف میں لا کھڑا کیا ۔
نوٹ : مندرجہ بالا اقتباس اس نظم کے کسی بھی شعر کے شروع میں لکھا جا سکتا ہے ۔
تشریح طلب بند میں شاعر اپنی قوم کے نوجوانوں کو بے عملی اور شکوہ شکایت چھوڑ کر جدوجہد اور عمل کرنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ اے میرے وطن کے نوجوانوں کب تک اپنی بدقسمتی اور بد نصیبی کا گلہ شکوہ کرو گے ۔ کب تک اپنی تدبیروں کی ناکامی پر آنسو بہاتے رہو گے ۔ جو گزر چکا اس پر آنسو بہانا اور افسوس کرنا عبث ہے ۔ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر وقت اپنی قسمت کا رونا روتے رہتے ہیں اور اپنی ناکامی کو یاد کر کے اس پر آنسو بہاتے رہتے ہیں لیکن اپنی حالت درست کرنے کے لیے عملی طور پر کچھ بھی نہیں کرتے ۔ شکوہ و شکایت سے مایوسی پیدا ہوتی ہے اور مایوسی سے بے عملی کا رحجان بڑھتا ہے ۔ چنانچہ شاعر اپنی قوم کے نوجوانوں کو اس طرز عمل کو بدلنے کی تلقین کرتا ہے ۔ زندہ قوم عمل کرنے والی ہوتی ہیں ۔ وہ ماضی پر آنسو نہیں بہاتی بلکہ ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کر کے اپنے حال اور مستقبل کو بدلتی ہیں ۔
بقول داغ دہلوی :
حوادث سے الجھ کر مسکرانا میری فطرت ہے
مجھے ناکامیوں پر اشک برسانا نہیں آتا
شاعر مزید کہتا ہے کہ اے نوجوانو ! کب تک اس بات پر آنسو بہاؤ گے کہ بوڑھے آسمان نے تم پر بہت ظلم و ستم ڈھائے ہیں ۔ آسمان شاعری میں ایک ایسے مرکز کی علامت ہے جہاں سے ظلم و ستم وارد ہوتا ہے ۔ آسمان جسے چاہتا ہے تباہ و برباد کر کے رکھ دیتا ہے ۔ بجلیاں گراتا ہے جس سے آشیاں جل کر خاکستر ہو جاتے ہیں ۔ گردشِ فلک کسی کو چین نہیں لینے دیتی ۔ کوئی انسان کیسا ہی بہادر ، جری ، شجاع اور دلیر ہو اس کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ آسمان سے ٹکر لے سکے ۔ یہی سبب ہے کہ وہ آسمان کی طرف سے نازل ہونے والے مصائب کو سہنے پر مجبور ہوتا ہے۔ علم جعفر علم نجوم کی روح سے انسان کی پیدائش آسمان پر موجود بروج پر ہوتی ہے جن کی تعداد بارہ ہے ۔ ہر آسمانی برج اپنی الگ خاصیت رکھتا ہے ۔ علم رمل ، علم نجوم اور علم فلکیات کے ماہرین کے خیال کے مطابق تمام مصائب و آلام آسمان ہی سے نازل ہوتے ہیں ۔ اسی لیے لوگ اپنی تقدیر کا گلا آسمان سے کرتے ہیں ۔ یہ سب توہمات اور اندازے ہوتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے ۔ فرمان خداوندی کی رو سے انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے ۔
بقول یامین غوری :
تیری قسمت ستاروں کی گردش نہیں
تیرے دست ہنر میں یہ مستور ہے
اور بقول علامہ اقبال :
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ
چنانچہ شاعر نوجوانوں سے کہتا ہے کہ کب تک ہم یہ شکوہ شکایت کرتے رہیں گے کہ آسمان ہم پر مہربان نہیں ہے ۔ اس کی جانب سے ہم پر ہمیشہ مصائب آتے رہتے ہیں ۔ کب تک ہم زمانے کی بے رخی اور بے وفائی کا گلا کریں گے اور حالات کے ناسازگار ہونے کی شکایت کرتے رہیں گے ۔ اے میرے وطن کے نوجوانو ! آؤ ہم اپنے حصے کا کام کریں ۔ تقدیر کا گلا شکوہ اور شکایت چھوڑ کر آؤ ہم محنت اور جدوجہد کو اپنا شعار بنا لیں ۔ ہم جس بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں اس میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں ۔ ہماری ناکامیاں خود بخود کامیابیوں میں بدل جائیں گی ۔
بقول احمد فراز :
شکوہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
دراصل قوموں کی ترقی میں نوجوان ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ نوجوان نسل جب محنت اور جدوجہد سے جی چرا کر صرف گلا شکوہ اور اپنی ناکامیوں پر آنسو بہانے میں وقت ضائع کرنے لگے تو ملک کو قوم ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتے لیکن جب نوجوان نسل محنت اور جدوجہد کو اپنا شعار بنا لیتی ہے تو پھر دنیا ان کے قدموں تلے بچھتی چلی جاتی ہے ۔ بند دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں ۔ جوانی شکوہ و شکست سے مایوسیوں کا نام نہیں نہ یہ عیش و نشاط اور تن پروری کا نام ہے بلکہ جوانی بلند ہمتی عمل پیہم ، جدوجہد اور سخت کوشش کا نام ہے ۔ دنیا میں قوموں کی کامیابی کا راز عزم ، ہمت ، جرات اور حوصلہ مندی میں پوشیدہ ہے ۔
بقول یامین غوری :
زندگی نام جہد مسلسل کا ہے
راز جس نے یہ پایا وہ مسرور ہے
بند نمبر 2 :
آج برباد خزاں ہے چمنستان وطن
آج محروم تجلی ہے شبستان وطن
مرکز نالا و شیون ہے چمنستانِ وطن
وقت ہے چارہ درد دل ناکام وطن
نوجوانانِ وطن آؤ کوئی کام کریں
مشکل الفاظ کے معانی : برباد خزاں (خزاں کے ہاتھوں تباہ و برباد ) ، چمنستان وطن( وطن کا باغ) ، محروم تجلی ( روشنی سے محروم) ، شبستان وطن (وطن کا گھر) ، مرکز (محور ، ٹھکانہ) ، نالا و شیون (رونا دھونا) ، دبستان وطن (وطن کی تعلیم گاہ، مکتب) ، چارہ درد دل ( ناکام ناکام دل کا علاج )
مفہوم : وطن کا چمن آج خزاں سے برباد ہو چکا ہے ۔ وطن کا گھر روشنی سے محروم ہے اور وطن کا مکتب آہ و فریاد کا ٹھکانہ بن چکا ہے ۔ اب وقت ہے کہ ہم اپنی ناکامیوں کا علاج کریں ۔ اے وطن کے نوجوانوں آؤ کوئی تعمیری کام کریں ۔
تشریح : تشریح طلب بند میں شاعر وطن کی تباہی اور بربادی کا ذکر کرتے ہوئے نوجوانوں کو عمل پیہم کی تلقین کرتا ہے ۔ نوجوان کسی قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں ۔ انہی کے زور بازو اور ہمت سے قوم کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں ۔ ملک و قوم کی ترقی میں نوجوانوں کو کردار بہت اہم ہوتا ہے ۔ بچے اور بوڑھے قوم کے لیے وہ کچھ نہیں کر سکتے جو نوجوان کر سکتے ہیں ۔ چنانچہ شاعر وطن کی تباہی و بربادی کا نقشہ کھینچتے ہوئے نوجوانوں کو وطن کے لیے کام کرنے کی ترغیب دلاتا ہے ۔
بقول مولانا حالی :
تمہیں اپنی مشکل کو آساں کرو گے
تمہیں درد کا اپنے درماں کرو گے
شاعر کہتا ہے کہ ہمارا وطن جو کبھی ہرے بھرے پر بہار چمن کی طرح تھا جو رنگا رنگ پھولوں اور پھلوں سے بھرا ہوا تھا لیکن اب اس چمن کی حالت پہلے جیسی نہیں رہی ۔ اس کی شادابی ختم ہو چکی ہے ۔ اس کی بہار اب خزاں میں بدل چکی ہے ۔ خزاں نے چمن کے پودوں ، درختوں ، پھولوں اور پھولوں کو مٹا دیا ہے ۔ یہ چمن اب اجڑے دیار کا منظر پیش کرتا ہے ۔
بقول شاعر :
آندھیوں نے اجاڑ ڈالے ہیں
پیڑ جتنے بھی تھے ثمر والے
آج اس ملک کے شبستان روشنیوں سے محروم ہو چکے ہیں ۔ شبستان بادشاہ کی شب بسری کے کمرے کو کہا جاتا ہے جہاں ہلکی ہلکی روشنی موجود ہوتی ہے ۔ شاعر کہتا ہے کبھی ہمارے ملک میں بھی بادشاہ کے محل کے شبستان کی مانند روشن تھا لیکن آج وہ تاریک ہے اور روشنیوں سے محروم ہے۔ وطن کے مکتب اور دارالعلوم جو کبھی علم کا گہوارہ ہوا کرتے تھے آج وہ آہ و فریاد کا مرکز بن چکے ہیں وہاں ہر طرف چیخ و پکار اور سسکیاں سنائی دیتی ہیں ۔ وطن کی درسگاہیں تباہ و برباد ہو چکی ہیں ۔ درسگاہوں میں جس طرح کی تعلیم دی جاتی ہے وہ بھی قابل افسوس ہے ۔ الغرض پے در پے مشکلات نے ملک کے چمن کو برباد کر دیا ہے ۔ ہر محفل کی خوشی ختم ہو چکی ہے ۔ رونقیں ماند پڑ چکی ہیں ۔ ملک کی حالت ابتر ہو گئی ہے ۔
بقول ناصر کاظمی :
شہر در شہر گھر جلائے گئے
یوں بھی جشنِ طرب منائے گئے
اک طرف جھوم کر بہار آئی
اک طرف آشیاں جلائے گئے
کیا کہوں کس طرح سر بازار
عصمتوں کے دیے بجھائے گئے
شاعر کہتا ہے اے وطن کے نوجوانوں بس یہی وقت ہے کہ ناکام دل کے درد کا چارہ کیا جائے یہی مناسب وقت ہے کہ اپنی ناکامیوں اور غلطیوں سے سبق حاصل کیا جائے اور اپنی تباہی و بربادی پر آنسو بہانے اور گلا شکوہ کرنے کی بجائے عزم و ہمت سے کام لیا جائے ۔ آؤ مستقل مزاجی سے محنت کریں اور ملک و قوم کو تباہی و بربادی سے نکالیں ۔
بند نمبر 3 :
آؤ اجڑی ہوئی بستی کو پھر آباد کریں
آؤ جکڑی ہوئی روحوں کو پھر آزاد کریں
آؤ کچھ پیروی مسلک فرہاد کریں
یہ نہیں شرط وفا بیٹھ کے آرام کریں
نوجوانانِ وطن آؤ کوئی کام کریں
مشکل الفاظ کے معانی : اجڑی( تباہ ، برباد) ، جکڑی ہوئی روحوں (قید روحوں ، ذہنی غلام لوگ) ، پیروی (تقلید کرنا ، پیچھے چلنا ) ، مسلک فرہاد (فرہاد کا طریقہ یا راستہ ایک رومانوی فارسی داستان کا کردار جس نے شیریں کے لیے پہاڑ کاٹ کر دودھ کی نہر نکالی تھی) ، شرط وفا (وفا کی شرط) ، آرام (سکون)
مفہوم : اے وطن کے نوجوانو! آؤ اس تباہ حال بستی کو پھر سے آباد کریں ۔ لوگوں کو جسمانی و ذہنی غلامی سے نجات دلائیں ۔ فرہاد کے طریقے پر عمل کریں کہ عشق کرنے والے آرام نہیں کرتے ۔ اے وطن کے نوجوانوں آؤ کوئی تعمیری کام کریں ۔
تشریح : تشریح طلب بند میں شاعر وطن کی تباہی و بربادی کا تذکرہ کرتے ہوئے نوجوانوں کو وطن کے لیے کچھ کرنے کی تلقین کرتا ہے ۔ شاعر کو نوجوانوں کی اہمیت کا اندازہ ہے اسے معلوم ہے کہ نوجوان ہی وہ طبقہ ہیں جو ملک و قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں چنانچہ وہ نوجوانوں کو دعوتِ عمل دیتا ہے ۔ شاعر وطن کو ایک تباہ حال اجڑی بستی سے تشبیہ دیتا ہے اور کہتا ہے اے وطن کے نوجوانوں آؤ اپنے تباہ حال اور اجڑے ہوئے وطن کو پھر سے آباد کریں۔ اس کی رونقیں اور روشنیاں پھر بحال کریں ۔ آؤ کمر باندھیں اور ملک و قوم کی بقا و سلامتی کے لیے محنت کریں ۔ جو لوگ راستوں سے بھٹک چکے ہیں انہیں پھر سے راہِ راست پر لے آئیں ۔
بقول علامہ اقبال :
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
لوگ فرسودہ طور طریقوں اور جاہلانہ رسم و رواج کی پابندیوں میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ بظاہر ان کے جسم تو آزاد ہیں لیکن ان کی روحیں رسم و رواج کی پابندیوں میں جکڑی ہوئی ہیں ۔ آؤ انہیں علم و شعور اور آگاہی سے آشنا کر کے خود ساختہ پابندیوں سے آزاد کروائیں ۔ عموماً لوگ جسمانی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوتے ہیں جبکہ ان کی روحیں اور سوچیں آزاد ہوتی ہیں لیکن ہماری قوم کی حالت یہ ہے کہ لوگ بظاہر آزاد چلتے پھرتے ہیں ان کے ہاتھ پاؤں بیڑیوں اور زنجیروں میں جکڑے ہوئے نہیں ہیں لیکن ان کی روحیں ان کے اذہان اور ان کی سوچیں جکڑی ہوئی ہیں ۔ وہ ذہنی غلامی میں مبتلا ہیں ۔ ذہنی غلامی جسمانی غلامی سے بھی بدتر ہوتی ہے ۔ جسمانی غلامی کو تو معلوم ہوتا ہے کہ میں غلام ہوں لیکن ذہنی غلامی کو احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ غلام ہے شاعر کہتا ہے مغرب کی مادی ترقی کو دیکھ کر احساسِ کمتری میں مبتلا ہو چکے ہیں اور مایوسی کا شکار ہیں ۔ ہم نے انگریزوں کی جسمانی غلامی سے آزادی تو حاصل کر لی ہے لیکن ہم ذہنی طور پر ابھی بھی انہی سے متاثر ہیں اور انہی کے زیر اثر ہیں ۔ انہی کے تہذیب و تمدن کے سحر میں گرفتار ہیں ۔
بقول علامہ اقبال :
سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار
غلامی سے بدتر ہے بے یقینی
شاعر مزید کہتا ہے اے وطن کے نوجوانوں آؤ فرہاد کے مسلک کی پیروی کریں ۔ یہاں شاعر نے فرہاد کی تلمیح استعمال کی ہے ۔ فرہاد فارسی رومانوی داستان کا ایک کردار ہے۔ جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے شیریں کے عشق میں پہاڑ کاٹ کر دودھ کی نہر نکالی جو ایک ناممکن کام تھا لیکن فراد نے اپنے عشق اور جنون کی بدولت اسے ممکن کر دکھایا ۔ شاعر فرہاد کی تلمیح کے ذریعے اپنے وطن کے نوجوانوں سے کہنا چاہتا ہے کہ جس طرح فرہاد نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا آؤ ہم بھی فرہاد کی مانند ناممکن کو ممکن کر دکھائیں ۔ آؤ ہم بھی اپنے مقصد کے حصول کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں ۔
بقول یامین غوری :
عشق ہو گر تیرا رہبر و رہنما
تو بھی فرہاد ہے ، تو بھی منصور ہے
شاعر مزید کہتا ہے کہ اے میرے وطن کے نوجوانوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے آرام سے بیٹھنا ملک و قوم سے وفاداری نہیں ۔ وطن دوستی اور حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے وطن کی ترقی اور خوشحالی کے لیے دن رات محنت کریں ۔ آؤ ہم وطن کے لیے کوئی کام کریں ۔ ایک اچھا شہری اپنی قوم کے مسائل اور دکھوں کو نہ صرف شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہے بلکہ ان کی نشاندہی کر کے ان کے تدارک کا طریقہ بھی بتاتا ہے ۔ شاعر نوجوانوں کو ملک کے سیاسی اور معاشرتی مسائل بیان کر کے ان کے حل کا طلبگار ہے ۔
بند نمبر 4 :
ایک ہنگامہ سا ہے آج جہاں میں برپا
آج بھائی ہے سگے بھائی کے خون کا پیاسا
آج ڈھونڈے سے نہیں ملتی زمانے میں وفا
آؤ اس جنس گراں مایا کو پھر عام کریں
نوجوانانِ وطن آؤ کوئی کام کریں
مشکل الفاظ کے معانی : ہنگامہ برپا ہونا (شور و غل ہونا ، ہلچل مچنا ) ، خون کا پیاسا ہونا( دشمن ہونا) ، وفا (ساتھ نبھانا) ، جنس گراں مایا (مہنگی شے، قیمتی چیز)
مفہوم : آج دنیا میں ایک ہنگامہ سا برپا ہے ۔ بھائی بھائی کا دشمن ہے ۔ وفا نایاب ہو چکی ہے ۔ آؤ اس بیش قیمت چیز کو عام کریں ۔ اے وطن کے نوجوانوں آؤ کوئی تعمیری کام کریں ۔
تشریح : تشریح طلب بند میں شاعر زمانے کی بے حسی اور بے وفائی کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے وطن کے نوجوانوں کو پھر سے وفا کی جنس عام کرنے کی ترغیب دلاتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ دنیا سے انسانیت ، ہمدردی اور محبت ختم ہو چکی ہے ۔ ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے ۔ ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہے ۔ مادیت پرستی اور خود غرضی کا دور دورہ ہے ۔ لوگ دولت کی ہوس میں خونی رشتوں کا احترام بھی بھول گئے ہیں ۔ عموماً خونی رشتے دکھ سکھ میں سب سے زیادہ قریب ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں ۔ بھائی کا بھائی مددگار اور سہارا ہوتا ہے لیکن آج مادیت پرستی اور دولت دنیا کی ہوس کی وجہ سے رشتوں سے وفا ختم ہو گئی ہے ۔ آج بھائی بھائی کا دشمن ہے اور اس کے خون کا پیاسا ہے ۔ انسانیت چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ۔
مولانا روم فرماتے ہیں : ” میں چراغ لے کر تمام شہر میں پھرا کہ کوئی انسان دکھائی دے مگر میری یہ تلاش ناکام رہی مجھے درندے تو ملے کوئی انسان نہیں ملا ” ۔
شاعر مزید کہتا ہے کہ اس مادیت پرستی کے زمانے میں وفا نایاب ہو چکی ہے ۔ آج ڈھونڈے سے بھی خلوص ، محبت اور وفا نہیں ملتی دراصل ان اخلاقی اقداروں کی وجہ سے معاشرے کے لوگ ایک دوسرے سے جڑے رہتے ہیں۔ رشتوں میں احترام اور ان کا مقام قائم رہتا ہے لیکن مادیت پرستی کی وجہ سے رشتے ناطوں اور تعلقات میں خود غرضی حسد اور ذاتی مفاد شامل ہو گیا ہے ۔
بقول مولانا سعید احمد خان :
وفا تم نہ دیکھو گے ہرگز کسی میں
زمانہ وہ ایسا قریب آ رہا ہے
اور بقول داغ دہلوی :
اڑ گئی یوں وفا زمانے سے
کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں
قاعدہ یہ ہے کہ جو چیز نایاب ہو جاتی ہے اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے ۔ چونکہ دور حاضر میں وفا نایاب ہو چکی ہے اس لیے شاعر کہتا ہے کہ وفاداری ایک بیش قیمت جنس ہے ۔ اے وطن کے نوجوانوں آؤ اس بیش قیمت جنس کو پھر سے عام کریں ۔ زمانے میں وفا ، محبت اور خلوص کو فروغ دیں ۔ ہمدردی اور انسانیت کا پرچار کریں تاکہ ہمارے معاشرے سے نفرتیں ختم ہوں اور لوگ پھر سے مل جل کر رہنے لگیں اور فرمان خداوندی کی نظیر پیش کریں ۔
قران مجید میں ارشاد ہے جس کا ترجمہ ہے :
” بے شک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں ” ۔
سورۃ الحجرات آیت نمبر 10
بند نمبر 5 :
جام جم سے نہ ڈریں شوکت کے سے نہ ڈریں
حشمت روم اور صولت رے سے نہ ڈریں
ہم جواں ہیں تو یہاں کی کسی شے سے نہ ڈریں
ہم جواں ہیں تو نہ کچھ خدشہ آلام کریں
نوجوانانِ وطن آؤ کچھ کام کریں
مشکل الفاظ کے معانی : جام جم( تلمیح ایران کے قدیم بادشاہ جمشید کا پیالہ جس میں وہ مستقبل کے حالات و واقعات دیکھتا تھا ) ، شوکت کے( تلمیح ایران کے قدیم کیانی خاندان کے بادشاہوں کی شان اور عظمت) ، حشمت روم (رومی سلطنت کی شان و شوکت ) ، سولت رے( تلمیح ایران کے قدیم شہر رے کے بادشاہوں کی ہیبت ،رعب و دبدبہ ) ، خدشہ آلام (مصیبتوں اور تکلیفوں کا ڈر)
مفہوم : اے وطن کے نوجوانوں ہمیں عالمی طاقتوں کی شان و شوکت اور ان کے رعب و جلال سے نہیں ڈرنا چاہیے ۔ ہم جوان ہیں تو ہمیں مستقبل کے اندیشوں اور تکلیفوں سے نہیں ڈرنا چاہیے ۔ اے وطن کے نوجوانوں آؤ کوئی تعمیری کام کریں ۔
تشریح : تشریح طلب بند میں شاعر دنیا کی بڑی سلطنتوں اور طاقتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے نوجوانوں سے کہتا ہے کہ تمہیں ان سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے ۔ شاعر چار تلمیحات استعمال کرتا ہے ۔ پہلی تلمیح جام جم ہے ۔ جم سے مراد ایران کا مشہور بادشاہ جمشید ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس ایک ایسا جام تھا جس میں وہ مستقبل میں ہونے والے واقعاتِ عالم کو دیکھ لیتا تھا اور اپنے خلاف ہونے والی سازشوں سے بروقت آگاہ ہو جاتا تھا ۔ اس جام کو جام جم یا جام جہان نما کہا جاتا ہے ۔
دوسری تلمیح شوکت کے ہے کہ ایرانی بادشاہوں کے کیانی خاندان کو کہا جاتا ہے۔ ان کے ناموں کے ساتھ کے لکھا جاتا تھا جیسا کہ کے کاؤس ، کے کباد ، کے خسرو وغیرہ ۔ لوگ ان بادشاہوں کی شان و شوکت سے مرعوب ہوتے ہیں اور ان کی طاقت و سطوت سے خوف کھاتے ہیں ۔
تیسری تلمیح حشمت روم ہے یعنی سلطنت روم کی شان و شوکت ایک زمانے میں رومی سلطنت سپر پاور ہوا کرتی تھی ۔ رومی بادشاہ کے دربار بڑی شان و شوکت والا تھا ۔ اس کے پاس بہت بڑا لشکر تھا جو جدید اسلحہ سے لیس ہوتا تھا اور فولادی دیوار کی مانند حرکت کرتا تھا۔ تمام دنیا پر اس کا رعب و دبدبہ تھا ۔ چونکہ تلمیح سولت رے ہے ۔ رے ایران کے شہر کا نام ہے ۔ سو لت رے سے مراد رے شہر کے بادشاہوں کا رعب و دبدبہ ہے ۔ یہ سب سلطنتیں اور شاہان زمانے کی گردش نے مٹا کر رکھ دیے ہیں ۔ اب نہ رومیوں کی شان و شوکت رہی ، نہ ایرانیوں کا رعب و دبدبہ رہا ، نہ رستم رہا ، نہ جام جم رہا ۔
بقول عزیز الحسن مجزوب :
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
شاعر ان تلمیحات کے ذریعے نوجوانوں سے کہتا ہے کہ اے نوجوانو ! اپنے مقاصد کے حصول کے لیے دنیا کی طاقتوں سے نہ گھبراؤ ان کی شان و شوکت سے ڈر کر اپنے مقاصد سے پیچھے نہ ہٹو ۔ تمہیں ایران کے جاہ و جلال اور روم کی شان و شوکت سے مرعوب نہیں ہونا چاہیے ۔ تم وہ ہو جس کے اجداد نے ایران اور روم جیسی سپر پاور سلطنتوں کو پاش پاش کر دیا تھا ۔ دور حاضر کے طاغوتی قوتوں سے بھی تمہیں تمہیں نہیں ڈرنا چاہیے ۔ ماضی میں تمہارے ہی جیسے نوجوانوں نے محنت ، ہمت اور کوشش سے ہر جگہ کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے ۔ جب تک ہماری قوم کے نوجوان بیدار مغز اور سرفروش رہے دنیا ان کے قدموں کی دھول بنی رہی ۔ ہماری تاریخ بہادر نوجوانوں سے بھری پڑی ہے ۔ جن کی بدولت مسلمانوں نے دنیا کے تمام براعظموں پر حکومت کی ہے ۔
بقول علامہ اقبال :
کبھی اے نوجوان و مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سردارا
شاعر کہتا ہے اے میرے وطن کے نوجوانوں ہم جوان ہیں تو ہمیں دنیا کی کسی طاقت سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ اگر ہم میں زور بازو اور ہمت ہے تو ہمیں مستقبل کے اندیشوں اور مصائب سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے ۔ ہمیں ہمارے مقاصد سے پیچھے ہٹانے کے لیے اگر دنیا کی طاقتیں متحرک ہوں تو ہمیں اپنا عزم و حوصلہ بلند رکھنا چاہیے ۔ ماضی کی سپر پاور سلطنتوں کی طرح آج کی سپر پاور سلطنت نے بھی ختم ہو جانا ہے ۔ حق کے مقابلے میں باطل گھاس پھوس کے تنکوں کی مانند بے حیثیت ہے ۔ ہم ہی ہیں جو غارت گر باطل ہیں ۔
بقول علامہ اقبال :
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاکِ غیر اللہ کو تو
خوف باطل کیا ہے کہ ہے غارت گرِ باطل بھی تو
بند نمبر 6 :
رشتہ مکرو ریا توڑ بھی دیں توڑ بھی دیں
کاسہ حرس و ہوا پھوڑ بھی دیں ، پھوڑ بھی دیں
اپنی یہ طرفہ ادا چھوڑ بھی دیں ، چھوڑ بھی دیں
آؤ کچھ کام کریں ، کام کریں ، کام کریں
نوجوان وطن آؤ کوئی کام کریں
مشکل الفاظ کے معانی : رشتہ مکرو ریا ( فریب اور دکھاوے کا رشتہ ، مکاری اور منافقت کا تعلق) ، کاسہ حرص و ہوا (لالچ اور ہوس کا پیالہ) ، طرفہ ادا (انوکی ادا ، عجیب انداز)
مفہوم : اے وطن کے نوجوانوں آؤ مکاری اور منافقت کا تعلق چھوڑ دیں ۔ لالچ اور ہوس کے پیالے پھوڑ دیں ۔ ہم اپنے یہ عجیب طریقے چھوڑ دیں ۔ اے وطن کے نوجوانو! آؤ ہم کوئی تعمیری کام کریں ۔
تشریح : تشریح طلب بند میں شاعر نوجوانوں کو اخلاقی برائیوں سے دور رہنے اور اخلاق و وفا ، محنت اور جدوجہد کو شعار بنانے کی تلقین کرتا ہے ۔ جب کوئی قوم اخلاقی برائیوں میں ملوث ہو جائے تو اس کے زوال پر مہر ثبت ہو جاتی ہے۔ جب تک کوئی قوم خود کو اخلاقی برائیوں سے پاک نہ کر لے تب تک وہ ترقی کی راہ میں گامزن نہیں ہو سکتی ۔ لالچ ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے بڑے سے بڑا دانشمند آدمی بھی دھوکہ کھا جاتا ہے اور دشمن کے جال میں بآسانی پھنس جاتا ہے ۔ چند پیسوں کے لالچ میں لوگ اپنے پیشے ، منصب اور ملک و قوم سے غداری کرتے ہیں ۔ لالچ کی وجہ سے رشوت ستانی ، ملاوٹ ، چوری ، لوٹ مار اور قتل و غارت جیسے جرائم جنم لیتے ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں لوگوں کے قول و فعل میں تضاد پایا جاتا ہے ۔ ہماری سیاست منافقت کا دوسرا نام بن چکی ہے ۔ سیاست دانوں کو ملک قوم کی خدمت کی بجائے اپنی ذاتی مفاد سے غرض ہے ۔
بقول محسن بھوپالی :
نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھیے
منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
کیونکہ قوم کے نوجوان ہی مستقبل کے معمار ہوتے ہیں ۔ اس لیے شاعر نوجوانوں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے وطن کے نوجوانو ! فریب کاری ، دھوکہ دہی اور دکھاوے سے دکھاوے کے رشتے اب توڑ دیں ۔ حرص و حواس کے کاسے کو توڑ دیں ۔ اپنی نیتوں کو طمع اور حرص سے پاک کریں ۔ دھوکہ دہی ، ریاکاری منافقت ، خود غرضی اور لالچ ایسے مرض ہیں جو کسی معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر دیتے ہیں ۔ معاشرے کا اتحاد اور اجتماعیت ختم ہو جاتی ہے ۔ وہ ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتا ہے ۔ رشتے ناطے سب بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ اے وطن کے نوجوانوں آؤ ہم اپنی اصلاح کریں اپنی اس روش کو اب چھوڑ دیں ۔ ملک و قوم کے لیے دل و جان سے کام کریں۔ لالچ اور خود غرضی کی جگہ اخوت اور محنت کو فروغ دیں ۔ دھوکہ دہی اور منافق کی جگہ ایمان ایمانداری اور خلوص کو فروغ دیں ۔ ہمارے معاشرے میں اخلاقی اقدار فروغ پائیں گی تو ہم ترقی کر سکیں گے ۔
بقول علامہ اقبال :
ہوس نے کر دیا ٹکڑے ٹکڑے نوع انسان کو
اخوت کا بیاں ہو جا محبت کی زباں ہو جا
نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم” نفیر عمل ” کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.