آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” شکست کی آواز” کی لغت ، مفہوم اور مشکل الفاظ کے معانی پڑھیں گے ۔ اس نظم کے شاعر میرا جی ہیں ۔
شعر نمبر 1 :
امنگوں نے میرے دل کو عجب الجھن میں ڈالا ہے
سمجھتا ہے کہ جو بھی کام ہے وہ کرنے والا ہے
مشکل الفاظ کے معانی : امنگوں (خواہشوں) ، عجب (عجیب ، انوکھی) ، الجھن( پریشانی ، بے چینی)
مفہوم : خواہشات نے میرے دل کو عجیب پریشانی میں ڈالا ہوا ہے ۔ میرا دل سمجھتا ہے کہ ہر کام کرنا چاہیے ۔
تشریح : میرا جی کا شمار جدید نظم گو شعرا میں ہوتا ہے ۔ انھوں نے جدید شاعری میں نئے تجربات کیے ۔ ان کی نظم کی بنیاد داخلیت پر ہے اور ان کا بنیادی سوال انسان کے بارے میں ہے ۔ انھوں نے نظم کو خارجی حقیقت نگاری سے نکال کر انسانی باطن میں اتارا ۔ ان کی نظموں میں ہندی آہنگ خاص خوبی ہے ۔
تشریح طلب شعر میں شاعر اپنے قلبی احساس کو بیان کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ میرے دل میں بہت سی خواہشات ہیں میری ان خواہشات نے میرے دل کو عجیب الجھن میں ڈالا ہوا ہے ۔ ان کی وجہ سے میرا دل بے چین رہتا ہے کیونکہ میری خواہشات بہت انوکھی اور نرالی ہیں ۔ میرا دل بڑے بڑے کام کرنا چاہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ہر کام ہو سکتا ہے ۔ ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے ۔ میرا دل ہر ناممکن کام کرنا چاہتا ہے ۔
دھڑکتے دلوں میں خواہش یا آرزو کو پیدا ہونا بالکل فطری بات ہے ۔ خواہش کا پیدا ہونا زندہ دلی کی علامت ہے ۔ صرف مردہ دلوں میں خواہشیں نہیں ہوتی ۔ جو بھی شخص دل رکھتا ہے اور عقل و شعور رکھتا ہے اس کے دل میں بہت سی خواہشات اور آرزوئیں پیدا ہوتی رہتی ہیں ۔
بقول ناسخ :
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل خاک دیا کرتے ہیں
ہر زندہ دل انسان میں ہزاروں امنگیں پیدا ہوتی ہیں ۔ وہ کھلی آنکھوں سے ہزاروں خواب دیکھتا ہے اور انہیں پورا کرنے کے لیے محنت و مشقت اور تگ و دو کرتا ہے ۔ انسان کی خواہشیں اور آرزوئیں ہی مسلسل اسے عمل پر اکساتی رہتی ہیں ۔ جب تک اسے وہ چیز یا اس کا مقصد حاصل نہیں ہو جاتا ۔ وہ مسلسل ایک بے چینی اور اضطراب کسی کیفیت میں رہتا ہے ۔ آخر کار مستقل مزاجی اور کوشش پیہم سے ایک دن وہ اپنی منزل مقصود پا لیتا ہے لیکن جس کا کوئی خواب یا خواہش نہیں ہوتی اس کی کوئی منزل بھی نہیں ہوتی ۔ چنانچہ آرزو ، خواہش یا خواب کسی کو منزل تک پہنچنے میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔ انسان کا ہواؤں میں اڑنا ، چاند پر قدم رکھنا ابتدا میں ایک خواب و خیال اور خواہش ہی تھا اور ناممکن نظر آتا تھا لیکن مسلسل محنت اور کوشش سے آخر کار یہ سب ممکن ہو گیا ۔
تشریح طلب شعر میں شاعر مزید کہتا ہے کہ میرے دل میں بھی ہزاروں آرزوئیں اور خواہشیں ہیں جو دنیا کے لیے بہت ہی عجیب اور انوکھی ہیں ۔ دنیا کے لوگ انہیں سمجھنے سے قاصر ہیں۔ میرے پاس ان خواہشات کو پورا کرنے کی ابھی طاقت اور ذرائع نہیں ہیں ۔ اس لیے میرا دل ایک عجیب الجھن کا شکار ہے ۔ میرا دل سمجھتا ہے کہ دنیا کا ہر مشکل اور ناممکن کام میں کر سکتا ہوں ۔
بقول یامین غوری :
میرے سینے میں بھی تو دل ہے دھڑکتا ہے
کوئی مجھ سے پوچھے میں کیا چاہتا ہوں
شعر نمبر 2:
یہ کہتا ہے نئے رستے دکھاؤں میں سواروں کو
یہ کہتا ہے کہ لے آؤں فلک سے ماہ پاروں کو
مشکل الفاظ کے معانی : فلک (آسمان ) ، ماہ پاروں (چاند کے ٹکڑے ، مراد ستارے )
مفہوم : میرا دل کہتا ہے کہ میں مسافروں کو نئی راہیں دکھاؤں اور آسمان سے ستارے توڑ کر لاؤں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر اپنی خواہشات اور آرزوؤں کا ذکر کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے میرے دل میں بہت سی خواہشیں اور آرزوئیں ہیں جو مجھے بے چین رکھتی ہیں ۔ میرا دل مجھے عمل پر اکساتا ہے ۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں مسافروں اور شہ سواروں کو نئی نئی راہیں دکھاؤں ۔ انھیں نئی دنیا اور نئی منزلوں سے آشنا کروں ۔ صدیوں سے ایک ہی راستے پر چل چل کر بوریت اور اکتاہٹ ہو گئی ہے ۔ میرا دل چاہتا ہے کہ فرسودہ راستوں سے ہٹ کر چلا جائے اور پرانی روشیں پرانے طور طریقوں سے ہٹ کر زندگی گزاری جائے ۔ دراصل انقلابی ذہن اور سوچ رکھنے والوں کے دلوں میں عموماً ایسی خواہشات پیدا ہوتی رہتی ہیں کہ پرانی اور فرسودہ اقدار اور روایات کو کس طرح سے تبدیل کر دیا جائے ۔ شاعر مزید کہتا ہے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میری رسائی بلند و بالا آسمان تک ہو ۔ میں ماہ پاروں یعنی چاند کے ٹکڑوں اور آسمان پر چمکنے والے ستاروں کو توڑ کر زمین پر لے آؤں اور زمین کے اندھیرے دور کروں یعنی میں ناممکن کو بھی ممکن کر دکھاؤں ۔
ایک اور شاعر اسی طرح کی خواہشات کا ذکر یوں کرتا ہے :
جی چاہتا ہے فلک پہ جاؤں
سورج کو غروب ہونے سے بچاؤں
میں شب کے مسافر مسافروں کی طرح
مشعل نہ ملے تو گھر جلاؤں
شاعر کہتا ہے کہ جو چیز لوگوں کو مشکل اور ناممکن نظر آتی ہے ۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں اسے ممکن کر دکھاؤں ۔ قدرت کے سربستہ رازوں کو افشا کروں ۔ دنیا کی اقوام نئے نئے تجربات کر رہی ہے اور ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں ۔ ایسے میں شاعر کو بھی اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ میری قوم بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو اور وہ نئی دنیا دریافت کرے ۔ لیکن صرف خواہشیں اور آرزوئیں انسان کو منزل تک نہیں پہنچا سکتیں جب تک کہ ان کی تکمیل کے لیے ساز و سامان ماحول اور مسلسل محنت اور جدوجہد نہ کی جائے ۔
بقول وصی شاہ :
عمل کی سوکھتی رگ میں ذرا سا خون شامل کر
میرے ہمدم فقط باتیں بنا کر کچھ نہیں ملتا
شعر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ شاعر کہتا ہے میرا دل چاہتا ہے کہ میں شاعری کے شہ سواروں کو شاعری کے میدان میں نئے نئے راستے ، نئے اسلوب اور نئی آہنگ اور نئی دنیاؤں سے آشنا کراؤں انھیں نئے راستے دکھاؤں اور پرانی اور فرسودہ روایات کو تبدیل کر دوں ۔ ان روایات اور اقدار کی پابندیوں سے آزاد ہونا بظاہر ناممکن نظر آتا ہے لیکن میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس نا ممکن کام کو ممکن کر دکھاؤں ۔ یہ حقیقت ہے کہ میرا جی کا شمار جدید نظم کے بانیوں میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے نظم کی ایت میں نئے نئے تجربات کیے انھوں نے شاعری کی پرانی اور فرسودہ روایات سے انحراف کیا اور شعراء کو نظم کے نئے اسلوب اور اہنگ سے آشنا کیا ۔
شعر نمبر 3 :
یہ کہتا ہے کہ صحراؤں کی دوری طے کروں پل میں
حقیقت میں یہ احساسِ شعوری طے کروں پل میں
مشکل الفاظ کے معانی : صحراؤں ( ریگستانوں) ، دوری (فاصلے) ، پل میں( ایک لمحے میں ) ،احساس (شعور) ، تصور (خیال)
مفہوم : میرا دل چاہتا ہے کہ میں صحراؤں کے فاصلے ایک لمحے میں طے کر لوں اور اپنے اس خیال کو حقیقت میں حاصل کر لوں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر اپنی خواہشات اور آرزوؤں کا اظہار کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں ریگستانوں کی طویل مسافت کو ایک لمحے میں طے کر لوں ۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میرا یہ خیال اور خواہش ایک پل میں حقیقت کا روپ دھار لے اور یہ سب کچھ ہوتا ہوا میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں ۔ اگرچہ یہ سب کچھ مشکل ہے لیکن شاعر کہتا ہے کہ میرا دل کسی مشکل کو مشکل نہیں سمجھتا ۔ میرے لیے ہر ناممکن بھی ممکن ہے ۔
بقول بیزاد لکھنوی :
اے جذبہ دل گھر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے
صحراؤں کی طویل مسافت پل بھر میں طے کرنے کا خیال اور خواہش ایک نا ممکن سی بات نظر اتی ہے ۔ صحراؤں کی وسعت زمانہ قدیم سے مسافروں کی راہ میں رکاوٹ رہی ہے انھیں پار کرنے کے لیے کئی کئی مہینوں کا مسلسل سفر درکار ہوتا ہے ۔ راستے میں آرام کے لیے کوئی سایہ دار درخت اور پیاس بجھانے کے لیے پانی کا کنواں بھی نہیں ملتا۔ سفر کے دوران ریگستان کی گرمی اور دھوپ میں ریت کی چمک آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے ۔ بعض اوقات مسافروں کی بینائی بھی زائل ہو جاتی ہے لیکن اب جہاز کی ایجاد کے باعث ان تمام مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔ اب بڑے بڑے صحراؤں کو ایک پل میں عبور کر لیا جاتا ہے ۔ دراصل شاعر دنیاوی وسعتوں کو ایک لمحے میں مسخر کرنے کا خواہش مند ہے ۔
دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وسیع و عریض صحرا کی مانِند نظر آنے والی دنیاوی پریشانی اور مشکلات کا حل شاعر ایک پل میں چاہتا ہے ۔ اپنی خواہشوں اور آرزوؤں کو حقیقت میں بدلنا دیکھنا چاہتا ہے ۔ خواہشیں اور آرزوئیں اسی صورت میں حقیقت کا روپ دھار سکتی ہیں جب انسان مسلسل محنت اور جدوجہد بھی جاری رکھے ۔ جہد مسلسل اور کوششں پیہم سے ہر خواہش کی تکمیل کی جا سکتی ہے ۔
بقول علامہ اقبال :
عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
شعر نمبر 4 :
جہان نو کو دیکھ آؤں جو ہے قلبِ سمندر میں
بیان سنگ پا لوں منجمد ہے کوہ کے سر میں
مشکل الفاظ کے معانی : جہان نو ( نئی دنیا ) ، قلب سمندر (سمندر کا دل ، سمندر کی گہرائی) ، بیان سنگ( پتھروں کی باتیں) ، منجمد ،(برف میں جمع ہوا ، یخ بستہ ) ، کوہ کے سر( پہاڑ کی چوٹی)
مفہوم : میرا دل چاہتا ہے کہ میں سمندر کی گہرائی میں نئی دنیا دیکھ آؤں اور پتھروں کی دنیا اور پتھروں کی باتیں جو پہاڑوں کی چوٹیوں پر جمی ہوئی ہیں سن لوں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر اپنی انوکھی اور نرالی خواہشات کا ذکر کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ سمندر کی گہرائی میں موجود نئی دنیائیں دیکھ آؤں ۔ یہ حقیقت ہے کہ سمندر کی گہرائیوں میں بھی ایک دنیا آباد ہے ۔ جہاں آج تک کوئی انسان نہیں پہنچ سکا ۔ اللہ نے انواع و اقسام کی سمندری مخلوقات کے علاوہ ہزاروں اقسام کے درختوں اور پودوں کے جنگلات سمندر کی تہہ میں بنائے ہیں ۔ اسی طرح کئی پہاڑ اور معدنی ذخائر بھی سمندر کی گہرائی میں موجود ہیں ۔ جن کے بارے میں سمندری ماہرین وقتاً فوقتاً خبریں دیتے رہتے ہیں ۔ چنانچہ شاعر کی خواہش ہے کہ میں سمندر کی گہرائیوں میں آباد دنیا کسی طرح دیکھ آؤں ۔ شاعر مزید کہتا ہے کہ میری خواہش ہے کہ پہاڑوں کی چوٹیوں کے حال سے آگاہ ہو جاؤں ۔ میں پتھروں کی باتیں سنو جو پہاڑ کی چوٹی پر برف کی تہہ میں جمی ہوئی ہیں ۔ دنیا میں بہت بلند و بالا پہاڑی سلسلے ہیں جن کی چوٹیاں آسمانوں سے باتیں کرتی ہیں ۔ شاعر پہاڑوں کی ان چوٹیوں کو سر کرنا چاہتا ہے ۔ ان کے راز معلوم کرنا چاہتا ہے۔
بقول وصی شاہ :
ہماری سوچ کی پرواز کو روکے نہیں کوئی
نئے افلاک پہ پہرے بٹھا کر کچھ نہیں ملتا
دراصل شاعر سمندر کی گہرائی سے آسمان کی بلندی تک ہر چیز مسخر کرنا چاہتا ہے ۔ وہ بحر و بر ، فضا و خلا اور آسمان میں موجود سب چیزوں کی آگاہی ، سب چیزوں کی حقیقت سے آشنا ہونا چاہتا ہے اور انہیں مسخر کرنا چاہتا ہے ۔ وہ کائنات کے سربستہ رازوں کو جاننا چاہتا ہے ۔ اسی لیے اس کا دل اسے جستجو پر اکساتا ہے ۔
شعر نمبر 5 :
یہ کہتا ہے کہ ساری کائنات اک ذرہ بن جائے
جو ہے لا انتہا وقفہ وہ بس ایک لمحہ بن جائے
مشکل الفاظ کے معانی : لا انتہا( جس کی کوئی حد نہ ہو) ، وقفہ (ٹھہراؤ ، قیام ) ، لمحہ( پل)
مفہوم : میرا دل کہتا ہے کہ ساری کائنات ایک ذرہ بن جائے اور ازل سے ابد تک کا لامحدود وقفہ ایک لمحہ بن جائے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر اپنی منفرد اور عجیب خواہش کا ذکر کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے میرا دل چاہتا ہے کہ ساری کائنات ایک ذرے کی مانند بن جائے اور وقت کا لا انتہا سلسلہ جو ازل سے ابد تک پھیلا ہوا ہے وہ سمٹ کر ایک لمحہ بن جائے ۔ یہ خواہش بھی کائنات کی تسخیر کے لیے ہے لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں ۔ لامحدود کائنات کی تسخیر کے لیے لامحدود وقت اور زمانے درکار ہیں جبکہ انسان کی زندگی مختصر اور نا پائیدار ہے ۔ چنانچہ شاعر یہ سب کچھ بہت جلد کرنا چاہتا ہے ۔ اس لیے شاید چاہتا ہے کہ یہ وسیع و عریض پھیلی ہوئی کائنات جس کی ابتدا اور انتہا آج تک کوئی نہیں جان سکا کسی طرح سمٹ کر ایک ذرے کی مانند چھوٹی سی بن جائے اور لاکھوں عربوں سالوں پر محیط وقت کا دھارا ازل سے ابد تک کا لامحدود ، لا انتہا وقفہ سمٹ کر ایک لمحہ بن جائے تاکہ وہ بآسانی کائنات کو جان سکے اور اس کے سربستہ رازوں سے آگاہ ہو سکے اور اسے مسخر کر لے ۔ یہ سب کچھ بہت جلد ہو جائے اور ایک ذرے کی مانند اس کے ذہن میں سما جائے ۔ انسان کی اسی آرزو اور جستجو کے سبب سائنس ترقی کرتی چلی گئی اور آج سائنسی ترقی کی بدولت پوری دنیا ایک گلوبل ولج بن کر رہ گئی ہے ۔ فاصلے اور وقت سمٹ گئے ہیں۔ مہینوں کی مسافت اور سالوں پر محیط کام ایک پل میں ہو جاتا ہے ۔ ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں معلومات دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتی ہیں اور تمام معلومات ایک چھوٹی سی چپ میں محفوظ بھی کر لی جاتی ہیں ۔
بقول اقبال :
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
شعر نمبر 6 :
مگر اونچے ارادے ہیں تو کیا اونچے ارادوں کو
سمجھنے کا نہیں احساس حاصل سیدھے سادوں کو
مشکل الفاظ کے معانی : اونچے ارادے ( بڑے مقاصد) ، احساس (تصور ، خیال) ، سیدھے سادے( عام لوگ، شریف جو ذہین نہ ہوں)
مفہوم : میرے دل میں بلند ارادے اور مقاصد تو ہیں لیکن میں ان کا کیا کروں ۔ دنیا کے سیدھے سادے لوگ انہیں سمجھ نہیں پاتے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر لوگوں کی سادگی اور بد ذوقی کو بیان کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ میرے دل میں ہزاروں خواہشیں اور آرزوئیں پیدا ہوتی ہیں ۔ میں لوگوں کو نئی راہوں اور نئی دنیاؤں سے آشنا کرنا چاہتا ہوں ۔ آسمان کے ستارے توڑ کر زمین پر لانا چاہتا ہوں ۔ صحراؤں کی مسافت پل بھر میں طے کرنا چاہتا ہوں اور سمندر کی گہرائیوں میں موجود دنیاؤں اور پہاڑوں کی چوٹیوں کے راز معلوم کرنا چاہتا ہوں ۔ میں تمام کائنات کو تسخیر کرنا چاہتا ہوں ۔ میری یہ خواہشات اور میرے یہ ارادے بہت بڑے اور بلند ہیں لیکن میرے ارد گرد سیدھے سادے لوگ بستے ہیں جو میرے ارادے اور میری خواہشات سمجھنے سے قاصر ہیں ۔
بقول شاعر :
یہ خیال سارے ہیں عارضی یہ گلاب سارے ہیں کاغذی
گل آرزو کی جو باس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جنہیں کر سکا نہ قبول میں وہ شریکِ راہ سفر ہوئے
جو میری طلب میری آس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
شاعر ترقی پسند سوچ کا حامل ہے وہ ترقی کی نئی راہیں دیکھنا چاہتا ہے جبکہ اس کے ارد گرد کے لوگ پرانی روش اور طور طریقوں پر ہی راضی ہیں ۔ انھیں نئی راہیں اور نئے طور طریقے عجیب و غریب لگتے ہیں ۔ دراصل لوگ جدید زمانے کے تقاضوں سے ناواقف ہیں اور جدید علوم سے بے بہرہ ہیں۔ اس لیے انہیں شاعر کی باتیں عجیب لگتی ہیں اور سمجھ میں نہیں آتیں ۔ کوئی قوم اس وقت ترقی کرتی ہے جب قوم کی مجموعی سوچ تبدیل ہو۔ کسی ایک شخص کی سوچ سے اتنا فرق نہیں پڑتا پوری قوم کا ہم خیال اور ہم قدم ہونا ضروری ہوتا ہے ۔
شعر نمبر 7 :
جہاں میں سیدھے سادے آدمی کثرت سے بستے ہیں
ہے محدود ان کی ہمت اور محدود ان کے رستے ہیں
مشکل الفاظ کے معانی : جہاں (دنیا) ، کثرت( وافر ، کثیر تعداد میں بستے ہیں رہتے ہیں) ، محدود( ایک حد تک مقرر کردہ پابند) ، ہمت (حوصلہ ( عزم ، ارادہ)
مفہوم : دنیا میں کثیر تعداد میں سیدھے سادے لوگ رہتے ہیں ۔ ان کے ارادے اور راستے محدود ہیں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر لوگوں کی کم ہمتی اور کم حوصلگی کو بیان کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ میرے دل میں ہزاروں خواہشیں اور امنگیں پیدا ہوتی ہیں ۔ جو میرے دل کو الجھن میں ڈالتی رہتی ہیں کیونکہ میرے ارد گرد بسنے والے لوگ میری خواہشات اور آرزوؤں کو نہیں سمجھ سکتے۔ وہ سیدھے سادے لوگ ہیں اور زمانے کی ترقی اور تقاضوں سے ناواقف ہیں ۔ دنیا ایسے سیدھے سادے لوگوں کی کثرت سے بھری پڑی ہے ۔ ان کے ارادے کمزور ہوتے ہیں اور ان کی ہمت اور ان کے راستے محدود ہوتے ہیں ۔ وہ پرانے اور فرسودہ راستوں پر اور طور طریقوں پر ہی زندگی گزارتے ہیں ۔ نئے راستوں پر چلنے اور نئے طور طریقے اپنانے کی ہمت نہیں کرتے ۔ وہ نئی روش اپنانے سے ڈرتے ہیں۔
بقول حفیظ جالندھری :
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے
ایسے لوگ دنیا میں کوئی بڑا کارنامہ سر انجام نہیں دیتے یہ محض وقت گزاری کرتے ہیں۔ ان کے خیالات اور سوچ محدود ہوتی ہے اور ان کے راستے بھی محدود ہوتے ہیں۔ وہ اپنی محدود سوچ کے دائرے سے نکلنا نہیں چاہتے اور فرسودہ رستوں کو ترک کرنا نہیں چاہتے ۔ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں ۔ حالات کو تبدیل کرنے کی بجائے حالات کے دھارے کے ساتھ بہتے چلے جاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں سے کسی بڑی تبدیلی یا انقلاب کی امید نہیں رکھی جا سکتی ۔
شاعر اپنے ارد گرد بلند ہمت اور بلند حوصلہ لوگوں کو دیکھنا چاہتا ہے جن کے خیالات وسیع ہوں اور وہ اپنی ہمت اور حوصلے سے ناممکن کو بھی ممکن بنا دیتے ہوں ۔
بقول شاعر :
اہل ہمت کے لیے بات نہیں مشکل
رات کے بعد بھی سورج رہے روشن روشن
شعر نمبر 8 :
تمدن اور تہذیبوں نے پھندہ ان پہ ڈالا ہے
وہ کہتے ہیں کہ ہونا ہے وہی جو ہونے والا ہے
مشکل الفاظ کے معانی : تمدن ( رہن سہن ، طور طریقے) ، تہذیب ( طرزِ معاشرت) ، پھندا ڈالا( جال ڈالا ، فریب میں باندھا)
مفہوم سیدھے سادے لوگوں کو معاشرتی رسم و رواج نے باندھ رکھا ہے ۔ وہ کہتے ہیں جو ہونا ہے ہو کر رہے گا ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر لکیر کے فقیر لوگوں کے بارے میں بتاتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں جو فرسودہ رسم و رواج اور پرانی تہذیب و تمدن کو گلے کے پھندے کی طرح اپنے ساتھ لٹکائے پھرتے ہیں ۔ وہ تہذیب و تمدن کی خود ساختہ پابندیوں کی قید سے آزاد نہیں ہونا چاہتے ۔ وہ اپنے آباؤ اجداد کے طور طریقے اور رسم و رواج بدلنا نہیں چاہتے ۔ حالانکہ یہ رسم و رواج انسان ہی کے بنائے ہوئے ہوتے ہیں ۔ حالات ، وقت اور زمانے کے تقاضوں کے لحاظ سے انسان ان میں ترمیم کر سکتا ہے لیکن لوگ اپنے آباؤ اجداد کی اندھی تقلید پر کار بند رہتے ہیں ۔ محنت و مشقت سے جی چراتے ہیں اور نئے طور طریقے ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کرتے اور اگر کوئی نئی راہیں دکھائے بھی تو اسے یہ کہہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کو اسی انداز میں ہونے دو ایسا ہی ہو کر رہے گا ۔ ہم تقدیر سے لڑ ہم تقدیر سے لڑ نہیں سکتے ۔
بقول علامہ اقبال :
آئین نو سے ڈرنا ، طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
دوسرے مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ وہ لوگ ہمہ وقت تقدیر پر تکیہ کیے رہتے ہیں۔ تقدیر کا بہانہ بنا کر کوشش اور جہدوجہد سے جان چھڑاتے ہیں ۔ وہ یہ کہتے ہیں جو تقدیر میں لکھا ہوا ہے وہی ہوگا پھر محنت کرنے اور کوشش کرنے کا کیا فائدہ ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قران مجید میں واضح فرما دیا ہے :
” انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے ” ۔ سورۃ نجم آیت نمبر 39
شعر نمبر 8 :
بدل کر کیا کریں گے ہم طریقے آج قدرت کے
ہمارے دامنوں پر ہاتھ کل ہوں گے مشیت کے
مشکل الفاظ کے معانی : قدرت ( فطرت) ، دامنوں ( دامن کی جمع آنچل ، پلو) ، مشیت (اللہ کی مرضی ، تقدیر)
مفہوم : سیدھے سادے لوگ کہتے ہیں کہ ہم پرانے طور طریقے اور رسم و رواج بدل کر کیا کریں گے۔ کل تقدیر ہمیں پھر گھیر کر یہیں لے آئے گی ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر قدامت پسند لوگوں کی سوچ بیان کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ قدامت پسند لوگ نئے طور طریقوں اور نئی راہوں سے کتراتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے آباؤ اجداد کے طور طریقے اور راستے بدل کر کیا کریں گے ۔ ان طریقوں اور ان راستوں پر ہی ہماری تقدیر ہے ۔ مقدر میں جو لکھا ہے ہم اس سے فرار نہیں پا سکتے اور نہ اسے تبدیل کر سکتے ہیں ۔ اگر ہم ان رسم و رواج کو بدل بھی دیں تو کل ہماری تقدیر پھر ہمیں اسی مقام پر لے آئے گی ۔ اس لیے تقدیر سے لڑنا وقت کا ضیاع ہے ۔ وہ خوفزدہ رہتے ہیں کہ اگر ہم تقدیر سے انحراف کر کے ان طور طریقوں کو بدلنے کی کوشش کریں گے تو قدرت ہم سے انتقام لے گی ۔ دراصل یہ لوگ اپنی بے عملی کا جواز تقدیر الہٰی کو ٹھہراتے ہیں اور خود کو فریب دے رہے ہوتے ہیں ۔
اقبال ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہتا ہے :
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ
قوموں کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی ہوتی ہے کہ لوگ نئی روش نیا راستہ اور نئے طور طریقے اپناتے رہتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد جو صدیوں سے ان رسموں کو اپنائے ہوئے تھے کیا وہ غلط تھے حالانکہ کوئی بھی انسان کامل نہیں ہوتا ۔ زمانے کے لحاظ سے ہر چیز میں تغیر و تبدل وقوع پذیر ہوتا رہتا ہے ۔ زمانے کے تقاضوں کے مطابق فرسودہ رسم و رواج اور طور طریقوں میں بھی ترمیم کرنا ضروری ہے ۔ بعض اوقات پرانی راہیں ترک کر کے نئی راہیں تلاش کرنا پڑتی ہیں ورنہ ترقی کی دوڑ میں قومیں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں ۔ جو لوگ خود کو تبدیل نہیں کرتے ان کی سوچوں پر جمود طاری ہو جاتا ہے ۔
شعر نمبر 10 :
انہیں تسکین ہے پہلی لکیروں کی فقیری میں
یہ کھوئے ہیں تمنا کی ضعیفی اور پیری میں
مشکل الفاظ کے معانی : تسکین (اطمینان ، سکون) ، لکیروں کی فقیری ( پرانے طریقوں کی پابندی) ، کھوئے ہیں ( گم ہیں ) ، تمنا (خواہش ، آرزو ) ، ضعیفی (کم زوری ، کم ہمتی) ، پیری (بڑھاپا ، کمزوری)
مفہوم : سادہ لوح لوگ پرانے رسم و رواج اور طور طریقوں پر ہی مطمئن ہیں۔ یہ اپنی خواہشوں کی کم ہمتی اور کمزوری میں گم ہیں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر قدامت پسند اور لکیر کے فقیر لوگوں کی روش کو بیان کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے یہ سادہ لوح لوگ اس بات پر مطمئن ہوتے ہیں کہ ہم اپنے آباؤ اجداد کے طور طریقوں پر کار بند ہیں۔ اسی میں وہ سکون محسوس کرتے ہیں ۔ شاعر کہتا ہے کہ یہ لوگ لکیر کے فقیر ہوتے ہیں۔ لکیر کا فقیر ہونا محاورہ ہے جس کا مطلب ہے پرانے طور طریقوں کی پابندی کرنا ۔ قدامت پسند لوگ نئے راستوں پر چلنا نہیں چاہتے۔ اندھی تقلید پر مطمئن رہتے ہیں ۔
بقول علامہ اقبال :
آئین نو سے ڈرنا ، طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
شاعر مزید کہتا ہے کہ یہ اپنی آرزوؤں کی کم ہمتی اور ارادوں کی کمزوری میں کھوئے رہتے ہیں۔ ان کے جذبے سرد اور تمنائیں بوڑھی ہو چکی ہیں۔ ان کے ارادوں اور آرزوؤں میں جان نہیں ہوتی۔ جس کی وجہ سے وہ پرانی روش ترک نہیں کرنا چاہتے یا ترک کرنے سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ ایسی سوچ کے حامل لوگوں کی وجہ سے قوم ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوتی ۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اقبال فرماتے ہیں :
اے ازل سے ان غریبوں کے مقدر میں سجود
ان کی فطرت کا تقاضا ہے نماز بے قیام
آرزو اول تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں
ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام
شعر نمبر 11 :
میں ان کو دیکھتا ہوں دل پہ ہوتا ہے اثر ان کا
میں اک مظلوم ہوں ماحول کے اس جذب ساکن کا
مشکل الفاظ کے معانی : دل پہ اثر ہونا (متاثر ہونا) ، مظلوم (معصوم ، ستایا ہوا ، دکھی) ، جذب ساکن (رکا ہوا ، بے حرکت)
مفہوم : میں ان سیدھے سادے لوگوں کو دیکھتا ہوں تو ان کی باتوں کا دل پر اثر ہوتا ہے ۔ میری ہمت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اور میں ساکن ماحول کا مظلوم ہوں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میں جب ان قدامت پسند لوگوں کو دیکھتا ہوں تو ان کی سوچ اور خیالات سے میرے دل پر اثر ہوتا ہے۔ ان کی جامد سوچ کی وجہ سے میری ہمت بھی پست پڑ جاتی ہے ۔ میرے بلند ارادے اور دنیا کو تصویر کرنے کی خواہش دم توڑ جاتی ہے۔ میں خود کو مظلوم سمجھتا ہوں جو ساکن ماحول میں گھرا ہوا ہے ۔ میں اپنی قوم کو ترقی کرتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں ۔ نئے علوم و فنون میں کارنامے سر انجام دینا چاہتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ دیگر اقوام کی طرح میری قوم دنیا میں اپنی قابلیت کا لوہا منوائے لیکن میری یہ خواہش اور آرزو دم توڑ جاتی ہے۔ جب میں اپنے ارد گرد کے ماحول میں ساکن اور جامد سوچ کے عامل لوگوں کو دیکھتا ہوں۔ جو پرانی روش اور فرسودہ طور طریقوں کو بدلنا نہیں چاہتے۔ ان کے اس رویے کی وجہ سے میرا دل کڑھتا ہے اور میں اندر ہی اندر غمگین ہوتا رہتا ہوں ۔ ایک طرح سے یہ میرے لیے ذہنی اذیت کا باعث ہے ۔ اسی وجہ سے میں خود کو مظلوم سمجھتا ہوں کہ میں کن پتھر دل لوگوں میں پیدا ہو گیا ہوں ۔ جو خود کو بدلنا ہی نہیں چاہتے اور فرسودہ رسم و رواج کی غلامی پر رضامند ہیں ۔
بقول علامہ اقبال :
لیکن مجھے پیدا کیا اس دیس میں تو نے
جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضامند
شعر نمبر 12 :
مگر ہاں باوجود اس کے میرے دل میں جوالا ہے
امنگوں نے میری ہستی کو اک الجھن میں ڈالا ہے
مشکل الفاظ کے معانی : جوالا ( آگ کا شعلہ مراد آتش عشق) ، امنگوں (خواہشوں آرزوؤں ) ، الجھن (پریشانی ، بے چینی)
مفہوم : لیکن اس کے باوجود میرے دل میں عشق کی آگ بھڑک رہی ہے اور خواہشات نے میری زندگی کو ایک الجھن میں ڈالا ہوا ہے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اگرچہ میرے ارد گرد لوگ قدامت پسند سوچ کے حامل ہیں ۔ وہ اندھی تقلید اور پرانی روش کو ترک نہیں کرنا چاہتے ۔ وہ جدید خیالات اور زمانے کے تقاضوں سے آشنا نہیں ہیں ۔ وہ بزدل اور کم ہمت ہیں۔ اپنی بے عملی سستی اور کاہلی کو تقدیر کا نام دیتے ہیں ۔ ان کی سوچ سے میری ہمت بھی جواب دیتی ہے لیکن اس کے باوجود میرے دل میں عشق کی آگ بھڑک رہی ہے ۔ میری آرزوئیں اور خواہشیں زندہ ہیں ۔ ان کی آگ میرے دل میں بجھتی نہیں ہے ۔ میری ان خواہشات اور آرزوؤں نے مجھے ایک الجھن میں ڈال رکھا ہے اور بے چینی میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ میری آرزوؤں اور میرے ارد گرد کے ماحول میں مطابقت نہیں ۔ میں اس ماحول کو بدلنا چاہتا ہوں لیکن لوگ جدت سے خوفزدہ ہوتے ہیں ۔ مجھے اپنی شکست کا اعتراف ہے کہ میں اپنے ماحول کو تبدیل نہ کر سکا اور اپنی آرزوؤں کو حقیقت میں بدلنے میں ناکام رہا ہوں اور میں اپنی قوم کو ترقی کی راہ نہ دکھا سکا ۔
بقول علامہ اقبال :
لیکن مجھے پیدا کیا اس دیس میں تو نے
جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضامند ہے
نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” شکست کی آواز” کے مفہوم ، لغت اور تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.