نظم ” کیا گل بدنی ہے” کا مرکزی خیال

آج کی اس پوسٹ میں ہم ” کیا گل بدنی ہے” نظم کا مرکزی خیال پڑھیں گے ۔ اس نظم کے شاعر جوش ملیح آبادی ہیں ۔

مرکزی خیال کیا ہوتا ؟  وہ خاص معنی جسے ادبی اظہار کا روپ دینا، فن کار کا مقصد ہوتا ہے، اس کے لئے ادب پارے کو ایک دائرہ فرض کیا جاتا ہے اور مقصد کو مرکز قرار دیا جاتا ہے

مرکزی خیال کا مطلب کسی بھی نظم یا نثر پارے کا بنیادی تصور ہے یعنی شاعر یا ادیب جس تصور کو بنیاد بنا کر نظم یا نثر پارہ لکھتا ہے اس تصور کو مرکز خیال کہتے ہیں ۔ مرکزی خیال مختصر اور جامع ہوتا ہے ۔

مرکزی خیال: نظم “کیا گل بدنی ہے

جوش ملیح آبادی کی نظم “کیا گل بدنی ہے” ایک رومانوی اور حسن پرست نظم ہے، جس میں شاعر نے محبوب کی خوبصورتی، نزاکت اور لطافت کو انتہائی دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔

اس نظم کا بنیادی خیال یہ ہے کہ حسن ایک فطری معجزہ ہے، جو دلوں کو مسحور اور روح کو محوِ حیرت کر دیتا ہے۔ شاعر محبوب کے جسم کو پھولوں کی لطافت سے تشبیہ دے کر حسن کی انتہا کا اظہار کرتا ہے۔

نظم میں شاعر عشق، فطرت، اور حسن کی پرستش کو یکجا کرتے ہوئے یہ پیغام دیتا ہے کہ خوبصورتی صرف ظاہری نہیں، بلکہ ایک روحانی تجربہ بھی ہے، جو دیکھنے والے کو مسحور کر دیتا ہے۔

یہ نظم اردو شاعری میں جمالیاتی حسن کی بہترین مثال ہے، جس میں تشبیہات، استعارات، اور موسیقیت کے ذریعے محبوب کی دلکشی کو لازوال بنا دیا گیا ہے۔

 نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” کیا گل بدنی ہے” کے مرکزی خیال  کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply