نظم کھڑا ڈنر کی تشریح

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” کھڑا ڈنر” کی تشریح پیش کریں گے ۔ اس نظم کے شاعر سید محمد جعفری ہیں ۔

 : نظم ” کھڑا ڈنر” کی تشریح

بند نمبر 1 : 

کھڑا ڈنر ہے غریب الدیار کھاتے ہیں

بنے ہوئے شتر بے مہار کھاتے ہیں

اور اپنی میز پر ہو کر سوار کھاتے ہیں

کچھ ایسی شان سے جیسے ادھار کھاتے ہیں

شکم غریب کی یوں فرسٹ ایڈ ہوتی ہے

ڈنر کے سائے میں فوجی پریڈ ہوتی ہے

مشکل الفاظ کے معانی : کھڑا ڈنر (وہ کھانا جو کھڑے ہو کر کھایا جاتا ہے بوفے سسٹم) ،  غریب الدیار (پردیسی ،  مسافر) ،  شتر بے مہار(  نکیل سے آزاد اونٹ مراد بے قابو ) ، شکم (پیٹ) ،  فرسٹ ایڈ (ابتدائی طبی مدد ) ، فوجی پریڈ ( فوجیوں کی مشق )

مفہوم :  کھڑے ہو کر کھانا ایسا ہے گویا بے گھر مسافر بے قابو ہو کر کھاتے ہیں ۔ اپنی میز پر سوار ہو کر ایسے کھاتے ہیں جیسے ادھار کھا رہے ہوں ۔ بیچارے پیٹ کو یوں بھرا جاتا ہے جیسے فوجی پریڈ ہو ۔

تشریح : سید محمد جعفری اردو ادب کے معروف مزاحیہ شاعر ہیں ۔ وہ ہنسنے ہنسانے کا گر خوب جانتے ہیں ۔ ان کی شاعری میں مزاح کا عنصر غالب ہے ۔ کہیں کہیں طنز کا عنصر  بھی در آیا ہے لیکن وہ مزاح کے پردے میں لپٹا ہوتا ہے ۔ وہ معاشرتی کمزوریوں اور اجتماعی زندگی کی پستیوں کو ہلکے پھلکے مزح میں بیان کرتے ہیں۔ اس نظم میں سید محمد جعفری کھڑے ہو کر کھانا کھانے کے بڑھتے ہوئے رحجان کی مزاحیہ انداز میں عکاسی کرتے ہیں ۔ مغرب کی دیکھا دیکھی ہمارے ہاں بھی شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کی دعوتوں میں مہمانوں کے لیے کھانے کا انتظام ایسا ہوتا ہے کہ انہیں کھڑے ہو کر کھانا پڑتا ہے جیسے انگریزی میں عموماً بوفے کہا جاتا ہے ۔ شاعر کے نزدیک یہ بد تہذیبی اور مشرقی آداب کے خلاف ہے ۔ چنانچہ اس نظم میں وہ اس کا مضحکہ اڑاتے ہیں ۔

نوٹ: مندرجہ بالا اقتباس کو آپ اس نظم کے کسی بھی بند کے شروع میں لکھ سکتے ہیں ۔

تشریح طلب بند میں شاعر کہتا ہے کہ کھڑا ڈنر کرنے والے ندیدوں کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔  بھوکے پردیسی کی طرح وہ کھانا دیکھتے ہی اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ مسافروں کی طرح چلتے پھرتے میزوں سے کھانا اس طرح پلیٹوں میں بھرتے ہیں کہ دوسروں کو کچھ لینے کا موقع ہی نہیں دیتے ۔ کھڑا ڈنر کرنے والے لوگ بھی تہذیب اور آداب کو بالائے طاق رکھ کر کبھی ایک میز سے کوئی چیز اٹھاتے ہیں تو کبھی دوسری میز سے شتر بے مہار کی طرح جگہ جگہ منہ مارتے پھرتے ہیں ۔ ایسے ندیدوں کی طرح بے قابو ہو کر کھاتے ہیں جیسے دوبارہ کھانا نہیں ملے گا ۔ بعض لوگ جو بیٹھ کر کھانا کھانے کے عادی ہوتے ہیں انہیں جب کوئی بیٹھنے کی جگہ نہیں ملتی تو وہ میزوں پر سوار ہو جاتے ہیں اور وہیں بیٹھ کر اس شان سے کھانا تناول کرتے ہیں گویا ادھار کھا رہے ہوں ۔ ڈاکٹر نشتر امروہی اسی طرح کی ایک دعوت کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں :

ٹائم کے ہیر پھیرنے سب کو سکھا دیا

کھانے کے انتظار نے ہم کو پکا دیا

آنتیں شکم میں کرنے لگی تھی اتھل پتھل

میزوں پہ تھی سجی ہوئی ہر چیز برمحل

بریانی قورمہ وہیں روٹی اغل بغل

چٹنی اچار رائتہ اور چارٹ کے تھے پھل

اسٹال میں سجی ہوئی ہر شے عظیم تھی

کوفی تھی کولڈ ڈرنک تھی آئس کریم تھی

کھانا شروع کرنے کا اعلان جب ہوا

ہر سمت جیسے حشر کا عالم ہوا بپا

کیسی سلاد کس کا اچار اور رائتہ

ایک شخص نے پلیٹ میں ڈونگا پلٹ دیا

بعض لوگ کئی دنوں کی بھوکے ہوتے ہیں وہ اپنے فاقہ زدہ پیٹ کو فرسٹ ایڈ یعنی ابتدائی طبی امداد اس طرح دیتے ہیں جیسے فوجی پریڈ ہو رہی ہو ۔ ایک ہڑ بونگ مچی ہوتی ہے ۔ سبھی جلد از جلد اپنے پیٹ کو کھانے سے بھرنے میں مشغول ہوتے ہیں جیسے انہیں پہلی بار کھانا ملا ہو اور دوبارہ کبھی نصیب نہ ہوگا ۔

بقول شاعر :

پھر دیکھتے دیکھتے ہی بھگدڑ سی مچ گئی

ایسا لگا کہ ہاتھ سے وقت سہل گیا

میں نے کہا کہ بھائیوں موقع تو دیکھیے

کہنے لگے کہ ہٹ پرے موقع محل گیا

دراصل شاعر مزاح کے پردے میں اس قسم کی دعوتوں میں افرا تفری اور بد انتظامی کی مذمت کرتا ہے ۔ شاعر نے مغربی تہذیب و معاشرت اور طرزِ زندگی کی اندھا دھند تقلید اور پیروی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ انسانی زندگی کے بے شمار ایسے پہلو ہوتے ہیں جن میں ہمارے قومی اور ملکی رسموں اور رواج اور طرز زندگی ہی سود مند ہے ۔

بقول شاعر :

اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو

سنگ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے

بند نمبر 2 : 

کھڑے ہیں میز کنارے جو ایک پلیٹ لیے

انہی نے کوفتے اپنے لیے سمیٹ لیے

ادھر ادھر کے جو کھانے تھے سب سمیٹ لیے

یہ میز ہو گئی خالی اب اور کیا ہوگا

پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا

مشکل الفاظ کے معانی : کوفتے (کھانے کی ایک ڈش کا نام) ،  پلاؤ (چاول اور گوشت ملا کر کھانا) ،  احباب (دوست ) فاتحہ ہوگا( میت کے ایصال ثواب کے لیے سورۃ فاتحہ پڑھنا)

مفہوم : میز کے کنارے ایک صاحب جو پلیٹ لیے کھڑے ہیں انہوں نے تمام کوفتے اور ادھر ادھر کے کھانے اپنی پلیٹ میں سمیٹ لیے ہیں جبکہ میں پیچھے خالی پلیٹ لیے کھڑا رہ گیا ۔ یہ تمام میز خالی ہو گئی ۔ اب پلاؤ کھایا جائے گا گویا کسی کی فاتحہ ہوگی ۔

تشریح :  تشریح طلب بند میں شاعر کہتا ہے کہ کھڑے ہو کر کھانا کھانے میں ایک بات یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنا کھانا خود جا کر پلیٹ میں ڈالنا پڑتا ہے ۔ ہمارے ہاں ضیافتوں میں عموماً لوگ ندیدوں کی طرح کھاتے ہیں ۔ اس لیے جس کا بھی داؤ لگتا ہے وہ سب اچھی چیزیں اپنی پلیٹ میں ٹھونس لیتا ہے چاہے دوسروں کے لیے کچھ نہ بچے اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی ۔ چنانچہ شاعر بیان کرتے ہیں کہ میز کے کنارے جو صاحب کھڑے ہیں انہی نے سب کوفتے اپنی پلیٹ میں بھر لیے ہیں ۔ اس کے علاوہ ادھر ادھر کی میزوں سے بھی اچھے اچھے سب کھانے اپنی پلیٹ میں سمیٹ لیے ہیں اور تمام ڈشیں خالی کر دی ہیں ۔ جس کی وجہ سے دوسروں کے لیے کچھ نہیں بچا ۔

شاعر اپنے بارے میں بتاتے ہیں کہ میں یہ سب تماشا دیکھ رہا تھا ۔ شرم ، شرافت اور لحاظ کے باعث میں خالی پلیٹ لیے کھڑا رہ گیا ۔ میری باری ہی نہیں آئی ۔ کھانے کی سب ڈشیں اور میز خالی ہو گئے ۔ میں سب کا منہ تکتا رہ گیا ۔

بقول شاعر :

بفے دعوت پہ بلوایا گیا ہوں

پلیٹیں دے کے بہلایا گیا ہوں

سید ضمیر جعفری

بھوکے پیٹ جاتے ہوئے شاعر اپنے دل کو یہ کہہ کر بہلاتا ہے کہ اب جب کسی کے مرنے پر فاتحہ ہوگی دوست احباب پلاؤ کھائیں گے تو مجھے بھی نصیب ہوگا ۔ میرے مرنے کے بعد بھی یہی کچھ ہوگا کہ میرے دوست پلاؤ کھا رہے ہوں گے ۔

بقول شاعر :

ہو گئی قورمے اور قلیے سے خالی دنیا

رہ گئی مرغ و پلاؤ کی خیالی دنیا

سید محمد جعفری

دراصل شاعر مزاح کے پردے میں اس قسم کی دعوتوں میں افرا تفری اور بد انتظامی کی مذمت کرتا ہے ۔ لوگ سلیقہ ، تہذیب اور ادب و آداب فراموش کر کے کھانے پر بھوکوں کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں اور دوسروں کا لحاظ بھی نہیں کرتے ۔ جو لوگ ادب ، تہذیب اور شرافت کا مظاہرہ کرتے ہیں ان کے لیے کچھ نہیں بچتا ۔ وہ خالی پلیٹ لیے کھڑے رہ جاتے ہیں ۔ ایک اور شاعر اسی منظر کی یوں عکاسی کرتے ہیں :

وہ مہماں ہیں اگرچہ ایک دن کے

مہینے بھر کا کھانا کھا گئے ہیں

وہ اپنی ذات میں یوں انجمن ہیں کہ

دسیوں کا وہ تنہا کھا گئے ہیں

وہ بعد از مرغ بریانی کبابش

کڑاہی بھر کے حلوے کھا گئے ہیں

بچا کچھ بھی نہیں ان کی زد سے

کہ جو کچھ بھی بچا تھا کھا گئے ہیں

بند نمبر 3 : 

تھی ایک مرغ کی ٹانگ اور رقیب لے بھاگا

میرا نصیب بھی جاگا پہ دیر میں جاگا

کباب اٹھایا تو اس میں لپٹ گیا دھاگا

ڈنر یہ کیا کہ نہ پیچھا ہے جس کا نے آگا

یہ کیا خبر تھی میں آیا تھا جب ڈنر کھانے

حقیقتوں کو سنبھالے ہوئے ہیں افسانے

مشکل الفاظ کے معانی : رقیب( دشمن ، مقابل) ،  نصیب بھی جاگا (قسمت جاگی ، خوش قسمتی) ،  نے( نہ ،  بمعنی ہے نہ ) ، آگا( آگے  ، سامنے) ،  افسانے (جھوٹے قصے )

مفہوم :  مرغ کی ایک ٹانگ تھی جو میرے رقیب نے اٹھا لی ۔ میری قسمت ذرا دیر سے جاگی ۔ میں جو کباب اٹھانے لگا تو اس میں بھی دھاگہ لپٹ گیا ۔ مجھے کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کیسا ڈنر ہے۔ اس دعوت کی کہانی کی یہی سچائی ہے ورنہ جب میں یہاں آیا تھا تو کیا سوچ کر آیا تھا ۔

تشریح :  تشریح طلب بند میں شاعر کہتا ہے کہ دعوت میں ہر شخص اپنی اپنی پلیٹ بھرنے میں مصروف تھا ۔ میں خالی پلیٹ لیے اپنی باری کے انتظار میں تھا کہ میری باری آئے اور میں بھی کچھ کھانے کے لیے لوں ۔ بالاخر ڈش میں مرغی کی صرف ایک ٹانگ بچی تھی ۔ ابھی میں نے اسے لینے کا سوچ ہی رہا تھا کہ میرا دشمن اور مقابل شخص تیزی سے آیا اور اسے اٹھا کر بھاگ گیا ۔ تھوڑی دیر بعد میری قسمت جاگی تو مجھے سیخ کباب کی ایک ڈش نظر آئی لیکن جب میں نے کباب اٹھانے کی کوشش کی تو اس میں دھاگہ لپٹ گیا جس کی وجہ سے کباب کا پھر سے قیمہ بن گیا اور وہ نیچے گر گیا ۔

کبابوں کی رکابی ڈھونڈنے کو

کئی میلوں میں دوڑایا گیا ہوں

برائے قتل قتلہ ہائے ماہی

چھری کانٹے سے لڑوایا گیا ہوں

سید ضمیر جعفری

الغرض میری سمجھ میں نہ آ سکا کہ یہ کیسی دعوت تھی کہ جس میں کوئی ادب و آداب اور کسی کا کوئی لحاظ نہیں تھا نہ کوئی اصول تھا نہ کوئی اخلاقیات تھی بس چھینا جھپٹی تھی اور ایک دوسرے سے زیادہ پیٹ اور پلیٹ پر لینے کا مقابلہ تھا ۔ لوگوں نے اپنی گنجائش سے زیادہ پلیٹوں میں ٹھونس لیا تھا جس کی وجہ سے بہت سا کھانا ضائع ہو گیا تھا ۔

بقول شاعر :

کوئی تو تھا کباب کے پیچھے پڑا ہوا

مرغ کی ٹانگ لینے پہ کوئی اڑا ہوا

ڈش کے قریب کوئی تھا ایسے کھڑا ہوا

کھمبے کی طرح جیسے زمین میں گڑا ہوا

بریانی کی طلب میں بھٹکتا ہوا کوئی

بوٹی بنا چبائے سٹکتا ہوا کوئی

آئے کباب سیخ تو ہتھیا گیا کوئی

پلے پڑا نہ کچھ بھی تو جل گیا کوئی

شاید میری قسمت میں اس دعوت کا کھانا نہیں تھا حالانکہ میں دعوت میں کھانا کھانے کے لیے آیا تھا ۔ اس تقریب کی کہانی میں یہی سچائی ہے ورنہ جب میں یہاں آیا تھا تو اپنے جی میں نہ جانے کیا سوچ کر آیا تھا ۔

بند نمبر 4 : 

حقیقتوں کا نہ کہنا زمانہ سازی ہے

یہ شخص دیکھنے میں جو بڑا نمازی ہے

یہی اڑائے گا مرغی جو موٹی تازی ہے

ڈنر کیا ہے یہ گھڑا دوڑ کی سی بازی ہے

لگائی بھوک میں مہمیز جس نے پار ہوا

نہیں تو میری طرح سے ڈنر میں خوار ہوا

مشکل الفاظ کے معانی : زمانہ سازی( خود غرضی ،  ظاہرداری) ،  بڑا نمازی( بہت زیادہ نماز پڑھنے والا ، پرہیزگار) ،  اڑائے گا (چالاکی سے کوئی چیز حاصل کرنا  ، کوئی چیز اس طرح لینا کہ کسی کو خبر نہ ہو) ،  گھڑ دوڑ( گھوڑوں کی دوڑ ،  ریس بازی کا  کھیل) ،  مہمیز( تحریک  ، ترغیب ،  گھڑ سواروں کی ایڑی میں لگا ہوا کانٹا) ،  پار ہوا( کامیاب ہوا) ،  خوار ہوا (رسوا ہوا ،  ذلیل ہوا )

مفہوم : حقیقت کو بیان نہ کرنا خود غرضی ہے ۔ وہ آدمی جو دیکھنے میں نمازی لگ رہا ہے یہی بڑی ہوشیاری سے سب سے موٹی مرغی پلیٹ میں ڈالے گا ۔ یہ ڈنر نہیں گھوڑوں کی دوڑ ہے جس نے بھوک میں تیز باگ دوڑ کی وہی کامیاب ہوا ۔ ورنہ میری طرح سے بھوکا رہ کر خوار ہوا۔

تشریح :  تشریح طلب بند میں شاعر ایک بظاہر پرہیزگار نظر آنے والے ادمی کے بارے میں کہتے ہیں کہ حقیقت کو بیان نہ کرنا دراصل زمانہ سازی ہے ۔ لوگ ظاہرداری کے لیے بڑے نیک ، پرہیزگار اور معصوم ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ اندر سے بڑے چالاک اور ہوشیار ہوتے ہیں ۔ اب یہی دیکھیے کہ سامنے جو آدمی اپنے حلیے سے نیک ، پرہیزگار اور شریف نظر آ رہا ہے اس کی نگاہ ڈش میں موجود سب سے موٹی تازی مرغی کے پیس پر ہے جیسے ہی اسے موقع ملا یہ بڑی ہوشیاری اور چالاکی سے سب سے آنکھ بچا کر مرغی کا سب سے بڑا پیس اڑائے گا ۔

بقول شاعر :

مٹر کے واسطے جب کی مٹرگشت

تو آلو گوشت میں پایا گیا ہوں

ضیافت کے بہانے درحقیقت

مشقت کے لیے لایا گیا ہوں

بوفے ڈنر میں ہر شخص ایک میچ سے دوسری میز تک اپنے من پسند کھانے سے اپنی پلیٹ بھرنے میں مصروف ہے ۔ کسی کو تہذیب اخلاقیات اور آداب کا خیال نہیں ۔ لوگوں کی بد تہزیبی اور بھاگ دوڑ دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ڈنر نہیں بلکہ گھوڑوں کی دوڑ ہو رہی ہے ۔ جس میں ہر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اس گھڑ دوڑ میں وہی شخص کامیاب و کامران ہوتا ہے جسے بھوک متحرک کر دیتی ہے ۔ وہ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ایک میز سے دوسرے میز تک بھاگتا رہتا ہے ۔ جو میری طرح شرافت اور آداب کا لحاظ کیے انتظار کرتا رہتا ہے ۔ وہ بھوکا رہتا ہے اور خالی پلیٹ لیے ذلیل و خوار ہو کر واپس آ جاتا ہے ۔

بقول شاعر :

ہم یوں کھڑے بھٹک رہے تھے کہ جیسے حقیر ہوں

خالی پلیٹ ساتھ تھی جیسے فقیر ہوں

بفے دعوت پہ بلوایا گیا ہوں

پلیٹیں دے کے بہلایا گیا ہوں

بند نمبر 5 :

وہ ایک میز خواتین گرد صف آرا

لبوں سے ان کے رواں گفتگو کا فوارہ

میں ایک گوشے میں سہما کھڑا ہوں بے چارا

کہ یہ ہٹیں تو اٹھاؤں میں نان کا پارا

اسیر ہلکا خوباں جو مرغ و ماہی میں

تو ہم شہید ستم ہائے کم نگاہ ہی میں

مشکل الفاظ کے معانی : صف آرا (قطار بنانا) ،  لبوں (لب کی جمع ہونٹ ) ، رواں (جاری ہے) ،  گفتگو کا فوارہ (گفتگو کی دھار ) ، گوشے (کونے) ،  سہما ہوا (ڈرا ہوا ) ، نان کا پارہ (روٹی کا ٹکڑا) ،  اسیر( قیدی) ،  حلقہ خوباں (خوبصورت عورتوں کا گروہ) ،  مرغ و ماہی( مرغی اور مچھلی) ،  ستم ہائے ( بہت زیادہ ظلم و جفا ) ، کم نگاہی( بے اعتنائی  ، بے توجہی )

مفہوم : ایک میز کے گرد خواتین ہجوم کی صورت کھڑی محو  گفتگو تھیں جبکہ میں ایک گوشے میں سہما ہوا منتظر تھا کہ وہ ہٹیں تو میں روٹی کا ٹکڑا اٹھاؤں ۔ مرغ اور مچھلی خواتین کے ہجوم میں قید تھے جبکہ میں ان کی بے توجہی سے بھوک کے مارے شہید ہو گیا ۔

تشریح: تشریح طلب بند میں شاعر دعوت میں آئی ہوئی خواتین کے بارے میں بیان کرتا ہے ۔ خواتین عموماً کسی بھی تقریب میں زرق برق لباس میں ملبوس اور تیار ہو کر جاتی ہیں پھر جب ایک دوسرے سے ملتی ہیں تو ایک دوسرے کے لباس ، فیشن اور میک اپ وغیرہ پر تبصرے کرتی رہتی ہیں ۔ دوسرا انہی ادھر ادھر کی باتیں کرنے کا بھی خوب موقع مل جاتا ہے ۔ بعض اوقات بچے بھی ان کے ساتھ آئے ہوتے ہیں ایک شاعر اس طرح کی محفل کا یوں نقشہ کھینچتا ہے :

کچھ عورتوں کے ساتھ میں بچے تھے چلبلے

کس باپ کے سپوت تھے کس گود کے پلے

نو دس برس کے سن میں یہ ہمت یہ ولولے

کس کی مجال ان سے کوئی ڈونگا چھین لے

مرغے کی ٹانگ پھینک دی آدھی چچوڑ کر

بریانی پر جھپٹ پڑے روٹی کو چھوڑ کر

کوئی تو لے رہا تھا مزہ رس ملائی کا

تھپڑ کسی نے کھا لیا تھا دست حنائی کا

چنانچہ شاعر بیان کرتا ہے کہ اس دعوت میں خواتین مدعو تھیں جو زرق برق لباس میں ملبوس خوب تیار ہو کر آئی تھیں ۔ وہ سب ایک میز کے گرد جمگھٹا بنائے کھڑی تھیں اور آپس میں محو گفتگو تھیں ۔ ان کی باتیں تھیں کہ ختم ہونے کو نہیں آتی تھیں ۔ ایسا لگتا تھا کہ ان کے منہ سے گفتگو کا فوارہ رواں تھا جو رکنے کا نام نہیں لیتا جبکہ میں ایک گوشے میں سہما کھڑا انتظار کر رہا تھا کہ کب ان کی گفتگو ختم ہو اور کب وہ اپنے حصے کا کھانا پلیٹ میں ڈال کر یہاں سے ہٹیں اور کب میں روٹی کا ٹکڑا اٹھاؤں لیکن وہ وہاں سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہی تھیں ایک اور شاعر کہتے ہیں :

چمچوں کی کھینچ تان پلیٹوں کی دوڑ میں

شانوں سے عورتوں کے دوپٹہ پھسل گیا

دیکھا جو بیبیوں کا جھٹ پٹا کباب پر

اکبر وہیں پہ غیرت قومی سے گل گیا

خواتین کے حلقے کے درمیان میز پر مرغ اور مچھلی کے پیس ایسے لگ رہے تھے جیسے وہ ان خواتین کے درمیان قید ہو کر رہ گئے ہیں ۔ میں ان خواتین کے وہاں سے ہٹنے کا منتظر تھا اور سوچ رہا تھا کہ شاید انہیں میں کھڑا ہوا نظر آ جاؤں اور یہ میرا مقصد جان کر خود ہی یہاں سے ہٹ جائیں لیکن انہوں نے نظر اٹھا کر میری جانب دیکھنا بھی گوارا نہ کیا ۔ ان کی کم نظری ، بے اعتنائی اور بے توجہی کے سبب ہم بھوکے مر گئے گویا شہید کم نگاہی ٹھہرے۔

بقول شاعر:

پلے جب اپنے کچھ نہ پڑا بھاگ دوڑ کر

حسرت بھری نگاہ سے کھانے کو چھوڑ کر

ہم نے سلاد کھا لیا نیمبو نچوڑ کر

ویٹر سے پانی مانگا جو پھر ہاتھ جوڑ کر

غصے سے پانی بھر گیا اس وقت پیاس پر

چاروں طرف سنی تھی لپ سٹک کلاس پر

نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” کھڑا ڈنر” کی تشریح  کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply