آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” کون لے گیا” کا فکری و فنی جائزہ پیش کریں گے اور اس کے ساتھ ساتھ شاعر کا تعارف بھی پیش کریں گے
شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی کا مختصر تعارف:
جدو جہد آزادی میں جن قلمکاروں نے شانہ بہ شانہ کھڑے ہو کر شمع انقلاب کو اس وقت تک جلائے رکھا جب تک دیش کو آزادی حاصل نہ ہو گئی۔ ان قلم میں جوش ملیح آبادی کا نام سر فہرست آتا ہے. اس حوالے سے کنور نٹور سنگھ رقمطراز ہیں ” جوش ملیح آبادی ہمارے ملک کی جنگ آزادی کے سورما اور صفِ اول کے شاعر تھے۔ ٹیگور اور اقبال کے بعد نرالا، ولاٹھول اور سبرامنیم بھارتی جیسے بڑے شاعر ہندوستانی عوام کے دلوں کی دھڑکن تھے اور جوش بھی اسی مرتبہ کے شاعر تھے۔‘‘
جوش نے اپنی شاعری کے ذریعہ ایسا انقلاب برپا کیا کہ آپ ’شاعر انقلاب‘کے لقب سے مشہور ہو گئے ۔ جوش کی انقلابی سوچ و فکر کے نمونے ان کی شاعری میں جا بجا ملتے ہیں چند ایک آپ بھی ملاحظہ فرمائیں :
اٹھو، چونکو، بڑھو، منھ ہات دھو، آنکھوں کو مل ڈالو
ہوائے انقلاب آنے کو ہے ہندوستاں والو
کام ہے میرا تغیر، نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ، انقلاب و انقلاب و انقلاب
سنو اے بستگانِ زلفِ گیتی، ندا کیا آ رہی ہے آسماں سے
کہ آزادی کا اک لمحہ ہے بہتر، غلامی کی حیاتِ جاوداں سے
خواب کو جذبۂ بیدار دیے دیتا ہوں
قوم کے ہاتھ میں تلوار دیے دیتا ہوں
جوش کے بارے میں اردو ادب کے نمایاں ادیب و نقاد ظفر اقبال لکھتے ہیں کہ ’’جہاں تک انقلابی شاعری کا تعلق ہے تو فیض اور حبیب جالب جوش سے زیادہ نمایاں رہے کیونکہ فیض اور بالخصوص جالب نے جس عوامی سطح پر اتر کر شاعری کی، جوش نے آساں گوئی کی بجائے فنی اور علمی انداز پر زیادہ زور دیا اور تفکر کی ایک بلند تر سطح برقرار رکھی اور عوام کی نسبت خواص یعنی پڑھے لکھے طبقے میں زیادہ مقبول و محترم ٹھہرے۔‘‘
جوش ملیح آبادی 5 دسمبر 1898ء کو پیدا ہوئے – آپ کا پورا نام شبیر حسین خاں تھا لیکن ادبی دنیا میں جوش ملیح آبادی سے مشہور ہوئے. آپ آفریدی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے ۔ محض 10 سال کی عمر میں شعر کہنے اور عزیز لکھنوی سے اصلاح لینے والے جوش کی شاعری میں الفاظ گل اور بوٹے کی مانند پروئے معلوم ہوتے ہیں ۔ 1918ء میں لکھی گئی ان کی نظم ’وطن‘ کا ایک بند دیکھیں :
اے وطن! پاک وطن! روحِ روانِ احرار
اے کہ ذروں میں ترے بوئے چمن، رنگِ بہار
اے کہ خوابیدہ تری خاک میں شاہانہ وقار
اے کہ ہرخار ترا رُوکشِ صد روئے نگار
ریزے الماس کے، تیرے خس و خاشاک میں ہیں
ہڈیاں اپنے بزرگوں کی تری خاک میں ہیں
اسی نظم کا آخری بند میں لکھتے ہیں کہ
ہم زمیں کو تری ناپاک نہ ہونے دیں گے
تیرے دامن کو کبھی چاک نہ ہونے دیں گے
تجھ کو، جیتے ہیں تو، غم ناک نہ ہونے دیں گے
ایسی اکسیر کو یوں خاک نہ ہونے دیں گے
جی میں ٹھانی ہے یہی، جی سے گزر جائیں گے
کم سے کم، وعدہ یہ کرتے ہیں کہ مر جائیں گے
مجتبیٰ حسین نے اپنے مزاحیہ مضمون ’تکیہ کلام‘ میں جوش کی شاعری میں موجود انقلابی عنصر کی بہترین ترجمانی کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
’’ہمارے ایک اور دوست کا قصہ ہے کہ انہیں عرصہ سے بلڈپریشر کی شکایت تھی۔ جب وہ بستر پر سوجاتے تو ان کا بلڈپریشر آسمان سے باتیں کرنے لگتا۔جب ایلوپیتھی علاج سے فائدہ نہ ہوا تو ایک حکیم صاحب کی خدمت حاصل کی گئیں۔ حکیم صاحب نے ان کا بغور معائنہ کیا۔زبان اتنی بار باہرنکلوائی کہ وہ ہانپنے لگے۔ مگر اسی اثناء میں حکیم صاحب کی نظر تکیہ پر پڑی اور وہ تکیہ کی جانب لپکے، شعر کو غور سے پڑھا اور تنک کر بولے: اس تکیہ کو ابھی یہاں سے ہٹائیے۔ بلڈپریشر کی اصل جڑ تو یہ تکیہ ہے۔ واہ صاحب واہ! کمال کردیا آپ نے۔آپ کو بلڈپریشر کی شکایت ہے اور آپ نے شاعرِ انقلاب حضرت جوشؔ ملیح آبادی کا شعر تکیہ پر طبع کروا رکھا ہے۔ جانتے ہیں جوشؔ کی شاعری میں کتنا جوش ہوتا ہے۔ جوشؔ کے شعر پرآپ سو جائیں گے تو دورانِ خون نہیں بڑھے گا تو اور کیا ہوگا؟ اس تکیہ کو اسی وقت یہاں سے ہٹائیے۔ خبردار جو آئندہ سے آپ نے جوشؔ کے تکیہ پر سررکھا۔‘‘ مجتبیٰ حسین نے یہاں مزاح میں ایک بڑی اور حقیقی بات کہہ ڈالی ہے ۔
ایک دفعہ جوش آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد سے ملنے کے لیے ان کی رہائش گاہ پر پہنچے ۔ وہاں ملنے والوں کا ایک جم غفیر پہلے سے موجود تھا۔ کافی دیر تک انتظار کرنے کے بعد بھی جب ملاقات کے لئے جوش صاحب کا نمبر نہیں آیا تو انہوں نے ایک چٹ پر یہ شعر لکھ کر چپراسی کے ہاتھ مولانا کی خدمت میں بھیجوادیا کہ
نامناسب ہے خون کھولانا
پھر کسی اور وقت مولانا
مولانا نے یہ شعر پڑھا تو زیر لب مسکرائے اور فی الفور جوشؔ صاحب کو اندر طلب کرلیا۔
جوش ملیح آبادی کے یہاں صرف انقلابی شاعر ہی نہیں ملتی بلکہ ان شاعری کا پیمانہ رومانوی شاعری سے بھی لبریز ہے. ان کی غزلوں میں رومانیت کا عنصر خوب دیکھنے کو ملتا ہے۔ جوش ملیح آبادی کی شعری صلاحیت کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ ان سے عمر میں بڑے فراق گورکھپوری انھیں اپنا استاد کہتے تھے۔ فراق نے اس بات کا اعتراف ایک ٹیلی ویژن انٹرویو کے دوران بھی کیا.
گوپی چند نارنگ نے جوش ملیح آبادی کے لہجے کے بارے میں کہا تھا کہ
’’جوش کے لہجے میں ایسا طنطنہ اور مردانگی تھی اور ان کی آواز میں ایسی گھن گرج، کڑک اور دبدبہ تھا کہ معلوم ہوتا تھا گویا ہمالیہ لرز رہا ہے یا زلزلہ آ گیا ہے۔‘‘
جبکہ پروفیسر محمد حسن جوش کے کلام کو لفظوں کی قوس قزح قرار دیتے ہوئے کچھ اس طرح سے رقمطراز ہیں کہ “جوش کا کلام لفظوں کی انمول اور بے مثال قوس قزح ہے۔ رنگ، احساس اور تصور کا ایسا خزانہ جس کی مثال سودا، نظیر اور انیس کے علاوہ ہزار سال کے اردو ادب میں ناپید ہے۔‘‘
جوش ملیح آبادی کی شاعری کا مرکزی کردار انسان کو قرار دیتے ہوئے جناب محمد مثنیٰ رضوی کہتے ہیں کہ
’’جوش نے اپنے محسوسات اور تصورات کے مختلف رنگوں سے جس خوبصورت اور زندگی سے بھرپور شعری کائنات کی تخلیق کی ہے اس کا مرکزی کردار انسان ہے۔‘‘
جوش ملیح آبادی کی طبیعت میں ظرافت جیسے کوٹ کوٹ کر بھری تھی زندگی کی بھاگ دوڑ میں مختلف مواقع پر ان کے بے تکلفانہ کلمات ایک طرح سے لطائف کی شکل اختیار کر لی ہے. جن پڑھ قارئین اور سن کر سامعین آج بھی لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے. جوش کی زندگی میں رونما ہونے والے ایسے چند واقعات یہاں قارئین کے لیے پیش ہیں..
کسی مشاعرے میں ایک نو مشق شاعر اپنا غیر موزوں کلام پڑھ رہے تھے ۔
اکثر شعراء آداب محفل کو ملحوظ رکھتے ہوئے خاموش تھے ۔لیکن جوشؔ ملیح آبادی پورے جوش و خروش سے ایک ایک مصرعہ پرداد تحسین کی بارش کئے جارہے تھے ۔
گوپی ناتھ امنؔ نے ٹوکتے ہوئے پوچھا:
”قبلہ ! یہ آپ کیا کررہے ہیں ؟”
”منافقت”۔۔۔!
جوشؔ نے بہت سنجیدگی سے جواب دیا اور پھر داد دینے میں مصروف ہوگئے۔
ایسے ہی ایک مولانا کے جوشؔ سے بہت اچھے تعلقات تھے ۔ کئی روز کی غیر حاضری کے بعد ملنے آئے تو جوش نے نہ آنے کی وجہ پوچھی۔ تو وہ مولانا کہنے لگے.کہ
”کیا بتاؤں جوش صاحب۔پہلے ایک گردے میں پتھری تھی ، اس کا آپریش ہوا ۔ اب دوسرے گردے میں پتھری ہے ۔”
”میں سمجھ گیا ۔”جوش صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔”اللہ تعالی آپ کو اندر سے سنگسارکررہا ہے۔”
ایک بار منموہن تلخؔ نے جوش ملیح آبید کو فون کیا اور کہا کہ “میں تلخؔ بول رہا ہوں” آگے سے جوش نے جواب دیا”کیا حرج ہے اگر آپ شیریں بولیں۔”
اسی طرح ایک اردو خط کے جواب میں انگریزی زبان میں جواب ملنے والا لطیفہ بھی بے حد مشہور ہے ہوا یوں کہ ایک دفعہ جوش نے پاکستان میں ایک بہت بڑے وزیر کو اردو میں خط لکھا، لیکن اس کا جواب انہوں نے انگریزی میں ارسال فرمایا۔ جواب الجواب میں جوشؔ نے انہیں لکھا کہ”جناب والا’ میں نے تو آپ کو اپنا مادری زبان میں خط لکھا تھا ، لیکن آپ نے اس کا جواب اپنی پدری زبان میں تحریر فرمایا ہے ۔”
آخر میں ہم یہی کہیں گے کہ جس طرح کے حالات نوع انسان کو درپیش ہیں اس ضمن آج بھی ہم کو اپنے اندر ایک انقلاب پیدا کرنے اشد ضرورت ہے ۔ دراصل موجودہ دور کئی معنوں میں مشکلات سے بھرپور نظر آتا ہے اسی لیے جوش کے اشعار نوجوانوں کو جگانے کی، بیدار کرنے کی اور آگے بڑھ کر حالات کو بہتر بنانے کی ترغیب دے رہی ہیں۔ ان کی نظم ’اے نوعِ بشر جاگ‘ کے بطورِ نمونہ خدمت ہیں:
اک عمر سے برپا ہے دلِ سنگ میں کہرام
مضطر ہے ترشنے کے لیے خاطر اصنام
میدان میں بے تاب کہ شہروں کے ملیں نام
ذرات کے سینوں میں پر افشاں ہیں در و بام
معمار! تری سمت ہے گیتی کی نظر جاگ
اے نوعِ بشر! نوعِ بشر! نوعِ بشر جاگ
تاریخ غلط لہجہ کی ہے شوخی گفتار
یہ قول کہ تو بھی تھا کبھی زیرک و بیدار
واللہ کو یہ ڈینگ ہے اے یار زبوں کار
اور سچ بھی ہو بالفرض تو اے فتنہ و نادار
ہاں بارِ دگر، بارِ دگر، بارِ دگر جاگ
اے نوعِ بشر، نوعِ بشر، نوعِ بشر جاگ
22 فروری 1982 کو اس دنیائے فانی کو جوش بھلے ہی الوداع کہہ گئے ہوں لیکن اپنی شاعری اور اپنی دیگر تخلیقات کے چلتے وہ اپنے قارئین کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
نظم “کون لے گیا” از جوش ملیح آبادی فکری و فنی جائزہ
جوش ملیح آبادی کی نظم “کون لے گیا” ان کی فکر، جذبات اور استعاراتی اظہار کا بہترین نمونہ ہے۔ یہ نظم محرومی، افسوس، اور کھو جانے کے احساس کو انتہائی مؤثر انداز میں پیش کرتی ہے۔
نظم کا فکری جائزہ:
1. محرومی اور افسوس کا اظہار:
نظم کا بنیادی خیال کسی عزیز ہستی، کسی قیمتی شے، یا کسی خوشی کے کھو جانے کا نوحہ ہے۔ شاعر شدتِ غم میں بار بار سوال کرتا ہے کہ “کون لے گیا؟”، جو ایک جذباتی کرب کو نمایاں کرتا ہے۔
2. حسرت اور بے بسی:
شاعر کسی خاص متاع کے چھن جانے پر بے بس نظر آتا ہے اور اسے دوبارہ پانے کی خواہش رکھتا ہے، مگر حقیقت میں ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ انسانی زندگی کے اس پہلو کی عکاسی کرتا ہے جہاں وقت کے ساتھ کئی چیزیں چھن جاتی ہیں۔
3. وقت اور تغیر کا تصور:
یہ نظم وقت کی بے رحمی اور تغیر پذیری کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ جو چیز کبھی زندگی کا اہم حصہ ہوتی ہے، وہ اچانک ختم ہو جاتی ہے، اور انسان صرف حیرت و افسوس کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔
4. علامتی و استعاراتی رنگ:
نظم کو کئی زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے:
محبوب کی جدائی شاعر کا محبوب اس سے جدا ہو چکا ہے، اور وہ اس کے کھو جانے کا غم کر رہا ہے۔
ماضی کی خوشیوں کا زوال شاعر اپنی کھوئی ہوئی خوشیوں اور سکون کو تلاش کر رہا ہے۔
قومی و تہذیبی زوال شاعر اپنی قوم یا تہذیب کی عظمت کھو جانے پر فکرمند ہے۔
نظم کا فنی جائزہ:
1. اسلوب اور بیان:
نظم میں خطیبانہ اور جذباتی انداز نمایاں ہے، جوش ملیح آبادی کا خاصہ یہی ہے کہ وہ اپنی شاعری میں خطابت اور تاثیر پیدا کرتے ہیں۔
زبان سادہ مگر مؤثر ہے، جس سے قاری براہِ راست نظم سے جُڑ جاتا ہے۔
2. سوالیہ انداز:
نظم کے اندر بار بار سوال “کون لے گیا؟” کا استعمال، قاری کے جذبات کو جھنجھوڑنے کا کام کرتا ہے اور اسے نظم کے درد میں شریک کر دیتا ہے۔
سوالیہ انداز نہ صرف شاعرانہ حسن پیدا کرتا ہے بلکہ کرب کی شدت کو بھی بڑھاتا ہے۔
3. تشبیہات و استعارات:
جوش ملیح آبادی نے مجرد خیالات کو مجسم بنانے کے لیے استعاراتی زبان کا استعمال کیا ہے۔
نظم میں جدائی، محرومی، اور کھو جانے کے جذبات کو علامتی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
4. نغمگی اور آہنگ:
جوش کی شاعری میں ہمیشہ ترنم اور نغمگی موجود رہتی ہے۔
اس نظم میں بھی مخصوص آہنگ اور روانی ہے، جو اسے پڑھنے میں مزید پراثر بناتی ہے۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” کون لے گیا” جس کے شاعر جوش ملیح آبادی ہیں کا فکری و فنی جائزہ اور شاعر کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.