نظم “کتے “

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” کتے ” کے تمام اشعار پڑھیں گے ۔ اس سے اگلی پوسٹ میں ہم اس نظم کا خلاصہ ، مرکزی خیال اور فکری و فنی جائزہ پیش کریں گے ۔

فیض احمد فیض
یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے

کہ بخشا گیا جن کو ذوق گدائی
زمانے کی پھٹکار سرمایہ ان کا

جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی
نہ آرام شب کو نہ راحت سویرے

غلاظت میں گھر نالیوں میں بسیرے
جو بگڑیں تو اک دوسرے کو لڑا دو

ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے

یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے
مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے

تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں

یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبا لیں
کوئی ان کو احساس ذلت دلا دے

کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply