نظم ” ڈھاکہ سے واپسی پر” ” کا مرکزی خیال

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” ڈھاکہ سے واپسی پر” کا مرکزی خیال پیش کریں گے ۔ اس نظم کے شاعر فیض احمد فیض ہیں ۔

مرکزی خیال کیا ہوتا : وہ خاص معنی جسے ادبی اظہار کا روپ دینا، فن کار کا مقصد ہوتا ہے، اس کے لئے ادب پارے کو ایک دائرہ فرض کیا جاتا ہے اور مقصد کو مرکز قرار دیا جاتا ہے ۔

مرکزی خیال کا مطلب کسی بھی نظم یا نثر پارے کا بنیادی تصور ہے یعنی شاعر یا ادیب جس تصور کو بنیاد بنا کر نظم یا نثر پارہ لکھتا ہے اس تصور کو مرکز خیال کہتے ہیں ۔ مرکزی خیال مختصر اور جامع ہوتا ہے ۔

 نظم کا مرکزی خیال :

یہ نظم بچھڑنے کے کرب، اجنبیت کے احساس، اور تلخ یادوں پر مبنی ہے۔ فیض احمد فیض نے اس میں بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد کے جذباتی اور تاریخی حالات کو شاعرانہ انداز میں پیش کیا ہے۔

نظم میں شاعر دکھ اور مایوسی کے ساتھ سوال کرتا ہے کہ کیا محبت اور اپنائیت کا رشتہ کبھی بحال ہو سکے گا؟ وہ اس خون خرابے اور جدائی کے زخموں کا ذکر کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ شاید وقت ان زخموں کو بھر دے، لیکن یہ نہیں جانتے کہ ایسا کب ہوگا۔

نظم میں بے بسی، درد، اور نارسائی کا عنصر نمایاں ہے۔ شاعر دل کی بات کہنے کی خواہش رکھتا ہے لیکن شکستہ دلی اور حالات کی سنگینی اسے روک دیتی ہے۔ آخر میں وہ افسوس کرتا ہے کہ جس پیغام کے لیے وہ وہاں گئے تھے، وہ پیغام کہے بغیر ہی رہ گیا۔

یہ نظم سیاسی اور جذباتی سطح پر ایک گہرے المیے کی نمائندگی کرتی ہے، جہاں محبت اور اپنائیت کی جگہ بیگانگی اور جدائی نے لے لی ہے۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” ڈھاکہ سے واپسی پر” کے  مرکزی خیال کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply