نظم ” ڈھاکہ سے واپسی پر” کا خلاصہ

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” ڈھاکہ سے واپسی پر” کا خلاصہ پڑھیں گے ۔ اس نظم کے شاعر فیض احمد فیض ہیں ۔

خلاصہ کیا ہوتا ؟

 خلاصہ کا لغوی مطلب اختصار ، لُب لباب ، ماحصل ، اصل مطلب وغیرہ ۔

اصطلاحی طور پر خلاصہ کسی تحقیقی مضمون، مقالہ ، جائزہ، کانفرنس کی کارروائی ، یا کسی خاص موضوع کا گہرائی سے تجزیہ کا ایک مختصر خلاصہ ہوتا ہے ۔

یہ نظم فیض احمد فیض نے 1974 میں ڈھاکہ سے واپسی پر لکھی تھی، جب بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد وہ پہلی بار وہاں گئے۔ یہ نظم جدائی، ماضی کی تلخیوں، اور امید و ناامیدی کے ملے جلے جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔

 نظم کا خلاصہ :

نظم میں اجنبیت اور بیگانگی کے احساس کو بیان کیا گیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اتنی مہمان نوازی اور محبتیں دیکھنے کے باوجود بھی وہ اجنبی ہی رہے، اور سوال کرتا ہے کہ کیا مستقبل میں پھر سے وہی اپنائیت بحال ہو سکے گی؟

دوسرے شعر میں، شاعر اس سر زمین کے زخموں کی بات کرتا ہے جو خون سے رنگین ہو چکی ہے۔ وہ امید کرتا ہے کہ ایک دن یہ داغ دھل جائیں گے اور ایک بے داغ سبزہ زار میں بدل جائیں گے، لیکن نہیں جانتا کہ ایسا کب ممکن ہوگا۔

تیسرے شعر میں، شاعر محبت، درد اور وقت کی بے رحمی کی بات کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ عشق کے درد کے بعد بے رحم لمحات گزرے، اور کئی بے مہر صبحیں آئیں، لیکن کچھ راتیں مہربان بھی ثابت ہوئیں۔

چوتھے شعر میں، شاعر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ دل تو چاہتا تھا کہ وہ اپنے گلے شکوے بیان کرے، لیکن شکستہ دل نے اجازت نہ دی، اور موقع ہاتھ سے نکل گیا۔

آخری شعر میں، شاعر ان جذبات کا ذکر کرتا ہے جو وہ ان لوگوں سے کہنا چاہتے تھے جن کے لیے وہ دل و جان وارنے کو تیار تھے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ بہت کچھ کہنے کے باوجود بھی اصل بات ان کہی رہ گئی، اور سب کچھ بیان ہونے کے بعد بھی ایک خلا باقی رہا۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” ڈھاکہ سے واپسی پر” کے خلاصے کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply