آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” کچھ روز اور مری جان” کے تمام اشعار پڑھیں گے اور اس سے اگلی پوسٹ میں ہم اس نظم کا خلاصہ ،مرکزی خیال اور فکری و فنی جائزہ پیش کریں گے ۔ اس نظم کے شاعر فیض احمد فیض ہیں ۔
چند روز اور مری جان فقط چند ہی روز
ظلم کی چھاؤں میں دم لینے پہ مجبور ہیں ہم
اور کچھ دیر ستم سہہ لیں تڑپ لیں رو لیں
اپنے اجداد کی میراث ہے معذور ہیں ہم
جسم پر قید ہے جذبات پہ زنجیریں ہیں
فکر محبوس ہے گفتار پہ تعزیریں ہیں
اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں
اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
عرصۂ دہر کی جھلسی ہوئی ویرانی میں
ہم کو رہنا ہے پہ یوں ہی تو نہیں رہنا ہے
اجنبی ہاتھوں کا بے نام گراں بار ستم
آج سہنا ہے ہمیشہ تو نہیں سہنا ہے
یہ ترے حسن سے لپٹی ہوئی آلام کی گرد
اپنی دو روزہ جوانی کی شکستوں کا شمار
چاندنی راتوں کا بے کار دہکتا ہوا درد
دل کی بے سود تڑپ جسم کی مایوس پکار
چند روز اور مری جان فقط چند ہی روز
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.