آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” پند نامہ” کا مرکزی خیال پیش کریں گے ۔ اس کے علاوہ جوش ملیح آبادی کا تعارف بھی پیش کریں گے جو اس نظم کے شاعر ہیں ۔
جوش ملیح آبادی (پیدائش: 5 دسمبر 1898ء – وفات: 22 فروری 1982ء) اردو ادب کے نامور اور قادر الکلام شاعر تھے۔ آپ آفریدی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ شاعر انقلاب کے لقب سے بھی جانے جاتے ہیں۔
: شاعر کے ابتدائی حالات
آپ 5 دسمبر 1898ء کو اتر پردیش ہندوستان کے مردم خیز علاقے ملیح آباد کے ایک علمی اور متمول گھرانے میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے چند برسوں بعد ہجرت کر کے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ جوش نہ صرف اپنی مادری زبان اردو میں ید طولیٰ رکھتے تھے بلکہ آپ عربی، فارسی، ہندی اور انگریزی پر عبور رکھتے تھے۔
: جوش کی ادبی خدمات
جوش ملیح آبادی کا شمار بیسویں صدی کے اردو کے اہم ترین شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی شاعری میں انقلابی اور رومانوی عناصر کا امتزاج ملتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے برطانوی راج کے خلاف آواز بلند کی اور عوام میں آزادی کا جذبہ پیدا کیا۔ ان کی مشہور نظموں میں “حسین اور انقلاب”، “جذبات فطرت”، اور “آواز حق” شامل ہیں۔
: دیگر معلومات
* جوش ملیح آبادی کو “شاعر انقلاب” کے لقب سے نوازا گیا۔
* ان کی شاعری میں فطرت، محبت، اور انقلاب کے موضوعات نمایاں ہیں۔
* انہوں نے نثر میں بھی کئی کتابیں لکھیں، جن میں “یادوں کی بارات” (خودنوشت) قابل ذکر ہے۔
* جوش ملیح آبادی نے 22 فروری 1982ء کو اسلام آباد، پاکستان میں وفات پائی۔
: شاعر کے مزید تعارف کے لیے آپ اسے بھی پڑھ سکتے
جوش ملیح آبادی کا اصل نام شبیر حسن خاں تھا۔ وہ 5 دسمبر 1898 کو ملیح آباد، اتر پردیش (برصغیر) میں پیدا ہوئے۔ جوش ایک انقلابی شاعر، نثر نگار اور مترجم تھے، جنہیں “شاعرِ انقلاب” کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
ادبی خدمات:
جوش ملیح آبادی کی شاعری میں آزادی، بغاوت، اور جوش و ولولے کے عناصر نمایاں ہیں۔ وہ اپنی خطیبانہ اور پُر تاثیر شاعری کی وجہ سے مشہور تھے۔ ان کی شاعری میں حب الوطنی، قوم پرستی، اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کا رجحان تھا۔ انہوں نے اردو زبان کو وسعت دی اور اس میں نئے خیالات شامل کیے۔
اہم تصانیف:
شعلۂ و شبنم
جنون و حکمت
فکر و نشاط :
یادوں کی بارات (آپ کی مشہور خود نوشت سوانح عمری)
پاکستان ہجرت اور آخری ایام:
1948 میں جوش ملیح آبادی پاکستان ہجرت کر گئے اور یہاں “ادارہ ترقی اردو” سے وابستہ رہے۔ 22 فروری 1982 کو کراچی میں وفات پائی اور وہیں سپرد خاک ہوئے۔
جوش ملیح آبادی کی شاعری آج بھی نوجوانوں کو انقلابی فکر اور جرات من
دی کی راہ دکھاتی ہے۔
مرکزی خیال کیا ہوتا : وہ خاص معنی جسے ادبی اظہار کا روپ دینا، فن کار کا مقصد ہوتا ہے، اس کے لئے ادب پارے کو ایک دائرہ فرض کیا جاتا ہے اور مقصد کو مرکز قرار دیا جاتا ہے ۔
مرکزی خیال کا مطلب کسی بھی نظم یا نثر پارے کا بنیادی تصور ہے یعنی شاعر یا ادیب جس تصور کو بنیاد بنا کر نظم یا نثر پارہ لکھتا ہے اس تصور کو مرکز خیال کہتے ہیں ۔ مرکزی خیال مختصر اور جامع ہوتا ہے ۔
نظم ” پند نامہ” کا مرکزی خیال :
جوش ملیح آبادی کی نظم “پند نامہ” کا مرکزی خیال زندگی میں محنت، ایمانداری، خودداری اور استقامت کی اہمیت ہے۔ شاعر نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہے کہ وہ محض خیالی دنیا میں رہنے کے بجائے عملی زندگی میں جدو جہد کریں، اپنی خودی کو پہچانیں اور مشکلات کا بہادری سے مقابلہ کریں۔ یہ نظم بلند حوصلگی، خود اعتمادی اور کامیابی کے اصولوں کی ترجمان ہے اور قاری کو عملیت پسندی اور خود انحصاری کا درس دیتی ہے۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ جوش ملیح آبادی کی نظم ” پند نامہ” کے مرکزی خیال کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.