نظم ” پاس رہو” کا مرکزی خیال

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” پاس رہو ” کا مرکزی خیال پیش کریں گے ۔ اس نظم کے شاعر فیض احمد فیض ہیں ۔

مرکزی خیال کیا ہوتا : وہ خاص معنی جسے ادبی اظہار کا روپ دینا، فن کار کا مقصد ہوتا ہے، اس کے لئے ادب پارے کو ایک دائرہ فرض کیا جاتا ہے اور مقصد کو مرکز قرار دیا جاتا ہے ۔

مرکزی خیال کا مطلب کسی بھی نظم یا نثر پارے کا بنیادی تصور ہے یعنی شاعر یا ادیب جس تصور کو بنیاد بنا کر نظم یا نثر پارہ لکھتا ہے اس تصور کو مرکز خیال کہتے ہیں ۔ مرکزی خیال مختصر اور جامع ہوتا ہے ۔

 نظم ” پاس رہو” کا مرکزی خیال :

فیض احمد فیض کی یہ نظم “پاس رہو” محبت، جدائی، تنہائی اور اذیت کے جذبات کو گہرے استعاروں کے ذریعے پیش کرتی ہے۔ شاعر اپنے محبوب سے گزارش کرتا ہے کہ وہ ہر حال میں اس کے قریب رہے، چاہے وہی اس کی تکلیف اور دکھ کا سبب کیوں نہ ہو۔

نظم میں رات کو زندگی کے دکھ، غم، مایوسی اور تنہائی کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جو اپنی تاریکی میں سب کچھ ڈھانپ لیتی ہے۔ ایسے میں شاعر کی خواہش ہے کہ اس کا محبوب اس کے پاس رہے، تاکہ وہ اس تنہائی اور بے بسی کا سامنا کر سکے۔

یہ نظم محبت کی شدت، اس میں پوشیدہ اذیت، اور محبوب کی موجودگی کی ضرورت کو بیان کرتی ہے۔ شاعر کے لیے محبوب کی قربت ہی سب سے بڑی تسکین ہے، جو ہر طرح کی تکلیف کو قابلِ برداشت بنا سکتی ہے۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” پاس رہو” کے مرکزی خیال  کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply