نظم نعت تشریح جماعت گیارہویں فیڈرل بورڈ

نظم نعت جماعت گیارہویں

آج کی اس پوسٹ میں ہم جماعت گیارہویں کی نظم ” نعت” فیڈرل بورڈ کی تشریح و توضیح کریں گے۔ اس نظم کے شاعر سید نفیس شاہ حسین ہیں۔

شعر نمبر 1 :

اے رسول امیں صلی اللہ علیہ وسلم خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم تجھ سا کوئی نہیں تجھ سا کوئی نہیں 

ہے عقیدہ یہ اپنا با صدق و یقین ، تجھ سا کوئی نہیں تجھ کو کوئی نہیں

مشکل الفاظ کے معانی : رسول امین (دیانت دار رسول ) ، خاتم المرسلین( رسول کی مہر آخری رسول) ، عقیدہ ( پختہ یقین) ،  بصد و یقین ( سچائی اور یقین کے ساتھ )

مفہوم :  اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ صادق و امین اور خاتم الانبیاء ہیں ۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی نہیں ہے ۔

تشریح سید نفیس شاہ حسینی مشہور صوفی بزرگ ہیں ان کا اصل نام انور حسین تھا ۔ علم و ادب کی دنیا میں سید نفیس الحسینی کے نام سے مشہور ہوئے ۔ خطاطی اور شاعری ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا ۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عشق و محبت تھی ۔ جس کا اظہار ان کے کلام سے بھی ہوتا ہے ۔

تشریح طلب شعر میں شاعر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آپ خدا کے صادق و امین رسول ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے بھی سچے اور امانت دار مشہور تھے ۔ قول و قرار کو پورا کرنے والے تھے لوگ اپنی امانتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رکھواتے تھے جس وقت خدا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے سرفراز فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیانت داری سے خدا کا پیغام لوگوں تک پہنچایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور صدق و امانت کی گواہی دیتے تھے ۔ نظر بن حارث جو قریش کے بڑے رئیس تھے وہ کہتے ہیں ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے پل بڑھ کر جوان ہوئے خدا کی قسم وہ ہم میں سب سے زیادہ سچے ، شریف اور دیانت دار ہیں ۔ شاعر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری صفت خاتم المرسلین بیان کی ہے ۔ جس کا مطلب آخری رسول ہے اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت کے لیے نبیوں اور رسولوں کا جو سلسلہ شروع فرمایا تھا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پایہ تکمیل کو پہنچا ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم کر دیا چنانچہ ارشاد فرمایا جس کا ترجمہ ہے : 

” محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں مگر وہ اللہ کے رسول ہیں اور نبیوں کی مہر ہیں ۔ ” 

سورۃ احزاب آیت نمبر

40 اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔ وحی کا سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد موقوف ہو گیا ۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانیت کے ہادی و مسیحا ہیں اور رہتی دنیا تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی رشد و ہدایت کا سر چشمہ ہیں ۔ آخر میں شاعر کہتا ہے کہ یہ میرا عقیدہ اور پختہ یقین ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا دنیا میں کوئی نہیں ہے ۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم بطور انسان اور بطور نبی رسول ہر لحاظ سے بے مثال ہستی ہیں ہر اعتبار سے کامل اکمل اور مکمل انسان ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسان تو ہیں مگر کسی عظیم الشان ہے نبی اور رسول تو ہیں مگر امام الانبیاء اور خاتم الرسل بھی ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر تو ہیں مگر خیر البشر ہیں الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی نہیں ۔ بقول شاعر

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمسر جہاں میں نہیں ہے 

زمیں میں نہیں آسماں میں نہیں ہے

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جو دی فضیلت خدا نے

وہ ہرگز کسی کی جہاں میں نہیں ہے

شعر نمبر 2 :

دست قدرت نے ایسا بنایا تجھے جملہ اوصاف سے خود سجایا تجھے

اے ازل کے حسیں ، اے ابد کے حسیں ، تجھ سا کوئی نہیں تجھ سا کوئی نہیں

مشکل الفاظ کے معانی : دست قدرت قدرت کے ہاتھ مراد اللہ تعالی جملہ اوصاف تمام خوبیاں ازل کے حسیں ابتدا سے خوبصورت عبد کی حسین ہمیشہ کے خوبصورت

مفہوم :  خدا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو تمام اعلیٰ خوبیوں سے آراستہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن و جمال ازلی و ابدی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی نہیں ہے ۔

تشریح :  تشریح طلب شعر میں شاعر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف حمیدہ اور حسن و جمال کے بارے میں بیان کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ قادر مطلق رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا تخلیق فرمایا کہ کوئی کمی نہیں چھوڑی ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں تمام ظاہری و باطنی اعلیٰ اوصاف رکھ دیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسب و نسب انتہائی اعلیٰ اور افضل تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں فصاحت و بلاغت ، سخاوت و شجاعت ، متانت وقار اور امانت و دیانت جیسی خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی ملنسار ، محبت و الفت اور لطف و کرم کرنے والے غفور  و درگزر کرنے والے رحم دل اور اعلیٰ اخلاق کے حامل تھے ۔ الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں میں سب سے بہترین انسان ہیں ۔ ایسے انسان کہ جس کی ذات اور صفات میں مصور حقیقی نے تمام جمال و کمال رکھ دیے ہیں ۔ جس کی مثال نہ یہاں ہے نہ وہاں ہے ۔

شاعر رسول حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کی مدحت میں فرماتے ہیں : ”  آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین میری آنکھ نے دیکھا ہی نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ جمیل کسی عورت نے جنا ہی نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر عیب سے پاک صاف پیدا کیے گئے ۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح پیدا کیے گئے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود چاہا ۔ ” حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ زیادہ طویل اقامت تھے اور نہ ہی پستہ قد یعنی چھوٹے قد والے بلکہ درمیانے قد کے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال نہ تو بہت زیادہ گھنگرالے تھے اور نہ بالکل سیدھے بلکہ ہلکے سے خمدار تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم متناسب اور بھرا ہوا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رنگت سفید مگر سرخی مائل تھی ۔ آنکھیں خوبصورت ، سیاہ ، پتلی پلکیں گھنی اور دراز تھیں جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بار دیکھتا وہ دیکھتا ہی رہ جاتا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل نہ ایسا دیکھا نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی دیکھا ۔ الغرض نبی صلی اللہ علیہ وسلم حسین و جمیل تھے ۔ حسن بھی کمال درجے کا تھا اور جمال بھی ۔

بقول شاعر  :

وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقش جہاں نہیں

یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں

دوسرے مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازل کے حسین اور ابد کے حسین ہیں ۔ ازل کائنات کے پہلے دن کو کہتے ہیں جہاں سے زمانے کی ابتدا ہوئی شا عر کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابتدائے زمانہ ہی سے سب سے زیادہ حسین و جمیل ہیں اور رہتی دنیا تک کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمسر نہ ہوگا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے حسن و جمال کا چرچا رہے گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بطور انسان اور بطور نبی رسول ہر لحاظ سے بے مثال ہستی ہیں ۔ ہر لحاظ سے کامل ، اکمل اور مکمل انسان ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسان تو ہیں مگر عظیم الشان ہیں ۔ نبی رسول تو ہیں مگر امام الانبیاء اور خاتم الرسل بھی ہیں ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر تو ہیں مگر خیر البشر ہیں ۔الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی نہیں۔ بقول شاعر :

تاریخ اگر ڈھونڈے گی ثانی محمد

ثانی تو بڑی چیز ہے سایہ نہ ملے گا

شعر نمبر 3 :

بزم کونین پہلے سجائی گئی ، پھر تیری ذات منظر پہ لائی گئی

سید الاولین ، سید الآخرین ، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

مشکل الفاظ کے معانی : بزم کونین( دنیا کی محفل) ،  سید الاولین ( اولین کے سردار ) ، سید الاخرین (آخرین کے سردار) ۔

مفہوم :  پہلے دنیا کی محفل سجائی گئی اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اولین و آخرین کے امام ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی نہیں ہے ۔

تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بارے میں بیان کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب کائنات کو بنانے کا ارادہ فرمایا تو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور تخلیق فرمایا لیکن دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور سب پیغمبروں کے آخر میں ہوا ۔ جس وقت دنیا تاریخ کے دور میں داخل ہو گئی اور دنیا کی یہ محفل سج گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس دنیا میں ظہور ہوا ۔ جس طرح کسی جلسہ یا محفل میں پہلے عام لوگ اسٹیج پر آتے ہیں اور حاضرین محفل کو اپنا پیغام سناتے ہیں ۔ جس ہستی کے اعزاز میں محفل سجائی جاتی ہے وہ ہستی سب سے آخر میں تشریف لاتی ہے ۔ جب محفل جم جائے اور مجمع وسیع ہو جائے چنانچہ شاعر کہتا ہے اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وجہ تخلیق کائنات ہیں ۔ کائنات کی ہر چیز آپ کی خاطر بنائی گئی ۔ ہر شے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے دم سے ثبات ہے ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ کسی کو بھی خلق نہ فرماتا لیکن اس سب کے باوجود دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور سب رسولوں اور پیغمبروں کے آخر میں ہوا ۔

بقول شاعر  :

سب سے پہلے مشیت کے انوار سے نقش روح محمد بنایا گیا

پھر اسی نقش سے مانگ کر روشنی بزم کون و مکاں کو سجایا گیا

وہ محمد بھی،  احمد بھی محمود بھی ، حسن مطلق کا شاہد بھی مشہود بھی

علم و حکمت میں وہ غیر محدود بھی،  ظاہراً امیوں  میں اٹھایا گیا

دوسرے مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اولین کے بھی امام ہیں اور آخرین کے بھی امام ہیں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے لوگوں کے لیے رشد و ہدایت کے امام اور رہبر ہیں اور اپنے بعد قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے بھی رشد و ہدایت کے امام اور رہبر ہیں ۔ ہر نبی اور رسول نے اپنی امت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی بشارت دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری کا حکم دیا ۔ ہر آسمانی کتاب اور صحیفے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانیت کا مسیحا کہا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی نوید سنائی گئی ۔ ہر نبی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کی تمنا کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل ہونے کی دعا کی ۔ معراج کی شب مسجد اقصی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء و رسل کی امامت کروائی ۔ اب قیامت تک کے انسانوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی رہبر و رہنما اور مسیحا ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں کی ہدایت کا سر چشمہ ہیں ۔ آپ ہی کی اطاعت و فرمان برداری میں انسانیت کی نجات ہے۔ بقول شاعر :

دونوں عالم میں تجھے مقصود گر آرام ہے

اس کا دامن تھام لے جس کا محمد نام ہے

آخر میں شاعر کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی نہیں ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بطور انسان اور بطور نبی اور رسول ہر لحاظ سے بے مثال ہستی ہیں ۔ ہر اعتبار سے کامل اکمل اور مکمل انسان ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسان تو ہیں مگر عظیم الشان نبی اور رسول تو ہیں مگر امام الانبیاء اور خاتم الرسول بھی ہیں ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر تو ہیں مگر خیر البشر ہیں الغرض آپ  صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی نہیں ۔

شعر نمبر 4 :

تیرا سکہ رواں کل جہاں میں ہوا ، اس زمین میں ہوا آسماں میں ہوا

کیا عرب ، کیا عجم ، سب ہیں زیر نگیں تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

مشکل الفاظ کے معنی :

سکہ رواں ( رواج پانا ، رعب قائم ہونا ، حکم چلنا ) ، کل جہاں (تمام دنیا ) ، عرب سر زمین (عرب کا خطہ) ، عجم (غیر عرب) ،  زیر نگیں (ماتحت ، زیر نگرانی) ۔

مفہوم :  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمرانی زمین و آسمان ہر جگہ قائم ہوئی ۔ عرب و عجم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتحت ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی نہیں ہے ۔

تشریح :  تشریح طلب شعر میں شاعر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و بڑائی بیان کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سید البشر اور سردار الانبیاء ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمرانی زمین و آسمان ہر جگہ قائم ہوئی ۔ دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا مقام و مرتبہ کسی کو حاصل نہیں ۔ آسمانوں میں فرشتوں کے سردار جبرائیل آمین سے بھی آگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرواز ہے ۔ جبرائیل آمین تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم اور دربان ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت تمام عالمین کے لیے ہے اور رہتی دنیا تک کے لیے ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات حسن اخلاق اور سیرت و کردار نے ساری دنیا کو مسخر کر لیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شیریں کلامی مثالی تھی جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو سنتا اس پر گویا سحر طاری ہو جاتا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا ۔ سنگ دل سے سنگ دل دشمن کے دل میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شیریں کلامی گھر کر جاتی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی فصاحت و بلاغت عفو و درگزر سیرت و کردار اور حسن اخلاق سے ساری دنیا کو اپنا گرویدہ بنا لیا ۔

بقول شاعر :

کچھ ان کے خلق نے کر لی کچھ ان کے پیار نے کر لی

مسخر اس طرح دنیا شہ ابرار نے کر لی

اس کی شفقت ہے بے حدود و انتہا

اس کی رحمت تخیل سے بھی ماورا

جو بھی عالم جہاں میں بنایا گیا

اس کی رحمت سے اس کو بسایا گیا

فتوحات کے نتیجے میں پورا عرب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر نگیں آ گیا اور عجم کے بہت سے علاقے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتحت ہو گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دکھی انسانیت کے لیے رحمت بن کر آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول اور ہر فعل انسانیت کی فلاح اور کامیابی کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نوازشات اور مہربانیاں امیر و غریب ، شاہ و گدا ، اعلیٰ و ادنیٰ ، مسلم غیر مسلم سب کے لیے یکساں تھیں ۔

بقول شاعر :

وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ہادی

عرب کی زمین جس نے ساری ہلا دی

مولا نے الطاف حسین حالی

بقول ماہر القادری :

نبی دوسرے پیشوا بن کے آئے

محمد مگر مصطفیٰ بن کے آئے

نجاشی بھی خادم بو ذر بھی خادم

وہ سلطان شاہ و گدا بن کے آئے

شعر نمبر 5 :

تیرے انداز میں وسعتیں فرش کی ، تیری پرواز میں رفعتیں عرش کی

تیرے انفاس میں خلد کی یا سمیں ، تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

مشکل الفاظ کے معانی : انداز ( اسلوب ، طور طریقہ) ،  وسعتیں ( وسعت کی جمع فراخی ، کشادگی) ،  فرش (زمین) ،  رفعتیں ( بلندیاں) ،  عرش( آسمان ، خدا کا تخت) ،  انفاس ( نفس کی جمع سانسیں) ، خلد (جنت ) ، یاسمیں (پھول کا نام) ۔

مفہوم :  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز میں زمین کی سی کشادگی ہے  ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرواز عرش تک ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سانسیں میں جنت کے پھولوں کی خوشبو ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی نہیں ہے ۔

تشریح :  تشریح طلب شعر میں شاعر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و بڑھائی بیان کرتا ہے شاعر کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز بیان اس قدر وسعت تھی کہ جیسے زمین کشادہ ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند پروازی اور رسائی عرش معلی تک تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز بیان اس قدر دل نشین تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو دلوں پر اثر کرتی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت شیریں بیاں تھے ۔ ہر بات ٹھہر ٹھہر کر کرتے اور ہر لفظ جدا جدا ادا کرتے ۔ ایک صحابی فرماتے ہیں اگر میں چاہتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کے الفاظ شمار کر لیتا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت فصیح و بلیغ تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو فصاحت اور بلاغت سے بھرپور ہوتی تھی ۔  الفاظ اتنے خوبصورت اور رواں ہوتے کہ سننے والے اکتاہٹ محسوس نہ کرتے بلکہ بے ساختہ انہیں قبول کر لیتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کا مفہوم نہایت جامع ہوتا تھا اور سننے والے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شیریں کلامی مثالی تھی جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو سنتا اس پر گویا سحر طاری ہو جاتا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شیریں کلامی کے معترف تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی فصاحت و بلاغت عفو و درگزر سیرت و کردار اور حسن اخلاق سے ساری دنیا کو اپنا گرویدہ بنا لیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی خوبی کی بنا پر بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہوئے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مجھے جوامع الکلام عطا کیے گئے یعنی ایسے جامع کلمات عطا کیے گئے جن میں الفاظ کم اور مفہوم زیادہ ہے ۔

بقول یامین غوری :

نثار اس پہ عرب و عجم کی فصاحت

ہے شاہکار ایسا بیان محمد صلی اللہ علیہ وسلم

وہ اپنی طرف سے کہاں کچھ ہے کہتے ہیں

ہے حق بولتا بر زبان محمد صلی اللہ علیہ وسلم

کسی اور شاعر نے بھی کیا خوب کہا ہے :

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جو دی فصاحت خدا نے

وہ ہرگز کسی کی زباں میں نہیں ہے

شاعر مزید کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند پروازی اور رسائی عرش معلٰی تک تھی ۔ معراج کی شب حضرت جبرائیل آمین بھی سدرۃ المنتہی کے مقام پر پہنچ کر رک گئے اور کہا اس سے آگے میرے پر جلتے ہیں ۔ اس سے آگے عالم بالا کی منزلیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود طے کیں ۔

دوسرے مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سانسوں میں جنت کے پھولوں کی خوشبو بسی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روئیں روئیں میں خوشبوئیں رچی بسی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا جسم اطہر خوشبودار تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ مبارک بھی معطر تھا ۔ لوگ مختلف چیزوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینے کو محفوظ کر کے سنبھال لیتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے سر پر دست شفقت پھیرتے یا کسی سے مصافحہ کرتے تو وہ دن بھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو محسوس کرتا رہتا تھا ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے کسی ریشم اور ریشمی کپڑے کو نہیں چھوا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو اور میں نے کسی ایسی خوشبو کو نہیں سونگھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینہ مبارک سے زیادہ خوشبودار ہو ۔

بقول شاعر :

ایسی خوشبو چمن کے گلوں میں کہاں

جیسی خوشبو نبی کے پسینے میں ہے

آخر میں شاعر کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جیسا کوئی نہیں ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بطور انسان اور بطور نبی اور رسول ہر لحاظ سے بے مثال ہستی ہیں ۔ ہر اعتبار سے کامل اکمل اور مکمل انسان ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسان تو ہیں مگر عظیم الشان ہیں نبی اور رسول تو ہیں مگر آپ امام الانبیاء اور خاتم الرسل بھی ہیں ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر تو ہیں مگر خیر البشر ہیں ۔ الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی نہیں ۔

شعر نمبر 6 :

سدرۃ المنتہٰی راہ گزر میں تیری  ، قاب قوسین گرد سفر میں تیری

تو ہے حق کے قریں ، حق ہے تیرے قریں تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

مشکل الفاظ کے معانی : سدرۃ المنتہٰی (ساتویں آسمان پر ایک مقام کا نام) ،  راہ گزر ( راستہ ) ،  قاب قوسین (دونوں کمانوں یا دو ہاتھوں کے برابر فاصلہ مراد بہت نزدیک ) ، گرد سفر (سفر کا غبار ،  سفر کی دھول) ،  حق کے قریں( خدا کے قریب) ۔

مفہوم  : سدرۃ المنتہٰی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گزرگاہ ہے ۔ قاب قوسین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے کا غبار ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے قریب اور خدا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی نہیں ۔

تشریح :  تشریح طلب شعر میں شاعر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و بڑھائی بیان کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسائی عالم بالا تک ہے یہاں تک کہ سدرۃ المنتہٰی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منزل نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گزرگاہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منزل اس سے بھی آگے عرشِ بریں تک ہے ۔ سدرۃ المنتہی ساتویں آسمان پر ایک مقام کا نام ہے ۔ بعض کے نزدیک ایک بیری کا درخت ہے ۔ اس مقام سے آگے عالم بالا ہے جہاں تک کسی کی بھی رسائی ممکن نہیں ۔ وہاں نور الٰہی کی تجلیات اس قدر ہیں کہ جبرائیل آمین کے پر بھی جلتے ہیں ۔ چنانچہ شب معراج جبرائیل آمین سدرۃ المنتہٰی پر پہنچ کر رک گئے اور فرمایا کہ اس سے آگے میرے پر جلتے ہیں چنانچہ آگے کی منزلیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود طے کیں ۔  قران مجید میں ارشاد ہے جس کا مفہوم ہے : ”  انہوں نے وہ جلوہ دوبارہ دیکھا سدرۃ المنتہی کے پاس ” ۔ 

سورۃ نجم آیت نمبر 13، 14

عالم بالا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں تک گئے یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا ہی بہتر جانتا ہے ۔ پھر خدا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دیدار کی نعمت سے نوازا ۔ خدا نے اپنے لطف و رحمت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے قریب کیا یہاں تک دو کمانوں یا دو ہاتھوں کے برابر فاصلہ رہ گیا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے جس کا مفہوم ہے :

”  وہ قریب ہوا اور زیادہ قریب ہوا یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا ” ۔ 

سورۃ نجم آیت نمبر آٹھ نو

قاب قوسین دو کمانوں کے برابر فاصلہ پر بات ختم ہو جاتی تو قرب متعین ہو جاتا لیکن خدا نے اوا ادنیٰ (یا اس سے بھی کم فاصلہ)  کہا کہ قرب کی حد بھی مقرر نہ ہو چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ کعبہ قوسین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج کے راستے کا غبار ہے ۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اس سے بھی آگے خدا کے قریب نصیب ہوا ۔ خدا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے قریب ہوئے یقینا یہ بڑے فضل اور اعزاز کی بات ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کو حاصل نہیں ۔

بقول شاعر

خدا کے قرب میں جانا حضور جانتے ہیں

وصال رب کا ٹھکانہ حضور جانتے ہیں

آخر میں شاعر کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بطور انسان اور بطور نبی اور رسول ہر لحاظ سے بے مثال ہستی ہیں ۔ ہر اعتبار سے کامل اکمل اور مکمل انسان ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسان تو ہیں مگر عظیم الشان ہیں نبی اور رسول تو ہیں مگر امام الانبیاء اور خاتم الرسل بھی ہیں ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر تو ہیں مگر خیر البشر ہیں ۔ الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی نہیں۔ 

شعر نمبر 7 : 

کوئی بتلائے کیسے سراپا لکھوں کوئی ہے ! وہ کہ جس کو تجھ سا لکھوں

توبہ توبہ! نہیں کوئی تجھ سا نہیں  ، تجھ سا کوئی نہیں تجھ سا کوئی نہیں

مشکل الفاظ کے معانی : سراپا( سر سے پاؤں تک مراد حسن )

مفہوم :  میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سراپا کس طرح لکھوں کون ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی ہے ہی نہیں ۔

تشریح  : تشریح طلب شعر میں شاعر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و بڑھائی بیان کرتا ہے شاعر کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے حسین و جمیل ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ اتنا بلند ہے کہ مجھ جیسا ناچیز کیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سراپا مکمل طور پر بیان کر سکتا ہے ایسا کوئی نہیں ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانند کہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم محبوب خدا ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرب و عجم کے سردار ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازل و ابد کے حسین ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق و کردار میں باکمال ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حسن و خوبی میں بے مثال ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وجہ تخلیق کائنات ہیں ۔ کوئی کیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور آپ کے سراپا کا احاطہ کر سکتا ہے ۔ کوئی کیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال لا سکتا ہے ۔

بقول شاعر :

  خوشبو ہے دو عالم میں تیری اے گُل چیدہ

کس منہ سے بیاں ہوں تیرے اوصاف حمیدہ

تجھ سا کوئی آیا ہے نہ آئے گا جہاں میں

دیتا ہے گواہی یہی عالم کا جریدہ

شاعر و ادیب کسی کا حسن و جمال اور سراپا بیان کرنے کے لیے عموما تشبیہ اور استعارہ کا سہارا لیتے ہیں ۔ کسی کی خوبصورتی بیان کرنے کے لیے پھول اور چاند کی مثال دی جاتی ہے ۔ کسی کی سخاوت اور رحم دلی بیان کرنے کے لیے سمندر ، بادل اور دریا کی مثال دی جاتی ہے یا کسی انسان کی شخصیت بیان کرنے کے لیے کسی دوسرے مشہور اور بڑے انسان کی مثال دی جاتی ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ کائنات میں سب سے اعلٰی و ارفع ہے چنانچہ شاعر اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ کوئی مجھے بتلائے میں کیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سراپا بیان کروں ۔ کون ہے جسے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سا کہوں کائنات میں کوئی ایسا ہے ہی نہیں جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کہوں یا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال کہوں توبہ توبہ ایسا خیال بھی محال ہے ۔ ہر مثال اور ہر تشبیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کے سامنے ماند پڑ جاتی ہے کیونکہ کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر اعتبار سے کامل اکمل اور مکمل ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بطور انسان اور بطور نبی اور رسول ہر لحاظ سے بے مثال ہستی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسان تو ہیں مگر عظیم الشان ہیں نبی رسول تو ہیں مگر امام الانبیاء اور خاتم الرسل بھی ہیں ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر تو ہیں مگر خیر البشر ہیں الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی نہیں ۔

بقول کوثر نیازی :

رخ مصطفیٰ ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ

نہ کسی کی بزم خیال میں نہ کسی دکان آئینہ ساز میں

 نازاں ہے جس پہ حسن وہ حسن رسول ہے

یہ کہکشاں تو آپ کے قدموں کی دھول ہے

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

نوٹ : امید ہے کہ آپ فیڈرل بورڈ کی نظم ” نعت ” کی تشریح و توضیح  کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply