نظم ” مرے ہمدم مرے دوست” کا مرکزی خیال

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” مرے ہمدم مرے دوست” کا مرکزی خیال پیش کریں گے ۔ اس نظم کے شاعر فیض احمد فیض ہیں ۔

مرکزی خیال کیا ہوتا : وہ خاص معنی جسے ادبی اظہار کا روپ دینا، فن کار کا مقصد ہوتا ہے، اس کے لئے ادب پارے کو ایک دائرہ فرض کیا جاتا ہے اور مقصد کو مرکز قرار دیا جاتا ہے ۔

مرکزی خیال کا مطلب کسی بھی نظم یا نثر پارے کا بنیادی تصور ہے یعنی شاعر یا ادیب جس تصور کو بنیاد بنا کر نظم یا نثر پارہ لکھتا ہے اس تصور کو مرکز خیال کہتے ہیں ۔ مرکزی خیال مختصر اور جامع ہوتا ہے ۔

 نظم کا مرکزی خیال :

فیض احمد فیض کی نظم “مرے ہمدم، مرے دوست” محبت، ہمدردی، اور انسان کی بے بسی کا اظہار ہے۔ شاعر اپنے کسی عزیز—شاید ایک دوست یا محبوب—کی تکلیف، غم، اور اذیت کو محسوس کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ اپنی محبت، دل جوئی، اور حسین باتوں سے اس کے زخموں پر مرہم رکھ سکے۔

لیکن نظم کا اصل مرکزی خیال یہ ہے کہ محبت اور ہمدردی بعض زخموں کا مداوا نہیں کر سکتیں۔ شاعر چاہتا ہے کہ وہ گیت گا کر، حسین داستانیں سنا کر، یا قدرت کے حسن کا ذکر کر کے محبوب کے دل کو خوش کر دے، مگر وہ اعتراف کرتا ہے کہ یہ سب محض دل بہلانے کے طریقے ہیں، اصل علاج نہیں۔

آخر میں شاعر انسانی بے بسی کا ذکر کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کچھ زخم ایسے ہوتے ہیں جن کا علاج صرف کسی جراح کے نشتر سے ممکن ہے—یعنی کوئی سخت اور تلخ عمل ہی انہیں دور کر سکتا ہے۔ لیکن وہ “سفاک مسیحا” جو یہ زخم بھر سکے، کسی کے قبضے میں نہیں۔ اس لیے محبوب کو خود ہی اپنے غم کا سامنا کرنا ہوگا۔

یہ نظم محبت، ہمدردی، اور انسانی بے بسی کی ایک گہری تصویر پیش کرتی ہے، جہاں محبت کے جذبات اپنی جگہ مگر کچھ حقیقتیں ایسی ہیں جنہیں قبول کرنا ہی پڑتا ہے۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” مرے ہمدم مرے دوست” کے مرکزی خیال کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply