نظم ” مرے ہمدم مرے دوست” کا فکری و فنی جائزہ

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” مرے ہمدم مرے دوست” کا فکری و فنی جائزہ پیش کریں گے اور اس کے ساتھ ساتھ اس نظم کے شاعر فیض احمد فیض کا تعارف بھی پیش کریں گے ۔

فیض احمد فیض: حالاتِ زندگی، شاعری اور فکر

: فیض احمد فیض کے حالاتِ زندگی

پیدائش: 13 فروری 1911، سیالکوٹ، برطانوی ہندوستان

وفات: 20 نومبر 1984، لاہور، پاکستان

فیض احمد فیض کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد سلطان محمد خان ایک ماہرِ قانون تھے جنہوں نے افغانستان کے بادشاہ کے مشیر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں حاصل کی، جہاں وہ علامہ اقبال اور مولانا محمد حسین آزاد جیسے علمی شخصیات کی سر زمین میں پروان چڑھے۔

فیض نے گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی میں ایم اے اور بعد میں اورینٹل کالج لاہور سے عربی میں ایم اے کیا۔ وہ ابتدا میں استاد رہے، پھر فوج میں شامل ہوئے، اور بعد میں صحافت اور سیاست سے جُڑ گئے۔

 :سیاسی اور انقلابی زندگی

فیض ترقی پسند نظریات کے حامل تھے اور کمیونسٹ خیالات سے متاثر تھے۔ وہ پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ رہے اور مزدوروں، کسانوں، اور محروم طبقات کے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔

1951 میں “راولپنڈی سازش کیس” میں ان پر حکومت کے خلاف بغاوت کا الزام لگا، اور انہیں چار سال قید کی سزا ہوئی۔ اس دوران جیل میں لکھی گئی شاعری نے ان کی شہرت کو مزید جِلا بخشی۔

بعد ازاں، وہ لبنان میں جلاوطنی کی زندگی بھی گزار چکے ہیں، جہاں وہ فلسطینیوں کے حقوق کے لیے سرگرم رہے۔

:شاعری اور ادبی خدمات

فیض احمد فیض کی شاعری محبت، انقلاب، غم، مزاحمت، اور امید کا حسین امتزاج ہے۔ ان کی شاعری میں جہاں رومانوی جذبات ہیں، وہیں سماجی اور سیاسی شعور بھی نمایاں ہے۔

 :شاعری کے موضوعات

1. محبت اور رومانوی جذبات

فیض کی شاعری میں محبت کا تصور محض فرد تک محدود نہیں بلکہ اجتماعی محبت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

“گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے” جیسے اشعار میں ایک حسین مگر اداس کیفیت نمایاں ہوتی ہے۔

2. انقلاب اور مزاحمت

ان کی شاعری ظلم، استحصال، اور جبر کے خلاف آوازِ احتجاج ہے۔

“ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے” جیسے اشعار آج بھی مزاحمتی تحریکوں میں گونجتے ہیں۔

3. قید و بند کی کیفیات

جیل میں گزرا وقت ان کی شاعری میں ایک منفرد رنگ بھرتا ہے، جیسا کہ “زنداں نامہ” میں نظر آتا ہے۔

4. عالمی فکر اور انسان دوستی

وہ فلسطین، افریقہ، اور دیگر مظلوم اقوام کے مسائل پر بھی شاعری کرتے رہے۔

ان کی شاعری میں صرف پاکستانی مسائل نہیں بلکہ عالمی سطح پر استحصال کے خلاف مزاحمت ملتی ہے۔

:فیض کی شاعری کے نمایاں مجموعے

1. نقش فریادی (1941)

2. دستِ صبا (1952)

3. زنداں نامہ (1956)

4. دستِ تہہِ سنگ (1965)

5. سرِ وادیِ سینا (1971)

6. مرے دل مرے مسافر (1981)

 :فیض کی فکری جہات

1. ترقی پسندی اور سوشلسٹ رجحان

وہ ترقی پسند تحریک کے اہم رہنما تھے اور ان کی شاعری میں طبقاتی جد وجہد کا عکس ملتا ہے۔

وہ سرمایہ داری اور جاگیرداری کے خلاف تھے اور مزدوروں، کسانوں اور عام عوام کے حقوق کے حامی تھے۔

2. محبت کا وسیع تصور

فیض کے ہاں محبت کا تصور محدود نہیں بلکہ انسانیت، عوام اور آزادی کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔

“اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا” جیسے اشعار میں یہی وسعت نظر آتی ہے۔

3. جدید اردو غزل کا منفرد انداز

فیض نے روایتی غزل کی عاشقانہ روایت کو انقلابی رنگ دیا اور اسے نئے مفاہیم سے آراستہ کیا۔

4. تصوف اور فلسفیانہ رنگ

ان کی شاعری میں تصوف کا ایک لطیف رنگ بھی محسوس ہوتا ہے، جیسے:

“نہ اب رُکیں گے نہ منزلیں ہمیں روک سکیں گی”

:فیض کی عالمی پہچان اور اعزازات

لینن انعام (1962) – سوویت یونین کا اعلیٰ ترین ادبی اعزاز

نشانِ امتیاز (1990، بعد از وفات) – پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ

عالمی امن انعام – ترقی پسند نظریات کی وجہ سے عالمی سطح پر بھی سراہا گیا ۔

: نظم کا فکری و فنی جائزہ

فیض احمد فیض کی نظم “مرے ہمدم، مرے دوست” گہری جذباتی کیفیات، محبت، ہمدردی اور انسانی بے بسی کا خوبصورت اظہار ہے۔ یہ نظم نہ صرف رومانوی ہے بلکہ سماجی و نفسیاتی معنوں میں بھی ایک گہرا پیغام دیتی ہے۔

:  نظم کا فکری جائزہ

اس نظم میں کئی فکری جہتیں نظر آتی ہیں:

1. محبت اور ہمدردی کا جذبہ

شاعر کسی محبوب یا عزیز کی تکلیف کو محسوس کر رہا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کی محبت سے وہ غم دور ہو جائے۔ وہ اپنی تسلیوں، محبت کے اظہار، اور خوبصورت خیالات سے اسے بہلانے کی کوشش کرتا ہے۔

2. انسانی بے بسی کا احساس

شاعر کو احساس ہوتا ہے کہ چاہے وہ جتنے بھی گیت گائے یا حسین مناظر کی بات کرے، وہ محبوب کے دکھوں کا حقیقی علاج نہیں کر سکتا۔ محبت اور شاعری دل کو بہلا سکتی ہیں، مگر گہرے زخموں کا مرہم نہیں بن سکتیں۔

3. زندگی کے تلخ حقائق

نظم میں یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ بعض تکالیف اور اذیتیں صرف وقت یا کسی سخت عمل (“نشتر”) سے ہی ختم ہو سکتی ہیں۔ شاعر اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ وہ چاہے جتنا بھی چاہے، وہ محبوب کی تکلیف کو مکمل طور پر مٹا نہیں سکتا۔

4. محبوب کی حالت زار اور استعمار کے اثرات

نظم کو وسیع تر سماجی تناظر میں دیکھیں تو یہ صرف ایک فرد کی محبت کی کہانی نہیں بلکہ اجتماعی غم کا اظہار بھی ہو سکتی ہے۔ محبوب کی بیمار جوانی، بے نور دماغ، اور تذلیل کے داغ ایسے الفاظ ہیں جو غلامی، استحصال، اور جبر کے شکار معاشرے کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔

: نظم کا فنی جائزہ

فیض کی شاعری ہمیشہ اپنی فنی خوبیوں کی وجہ سے ممتاز رہی ہے، اور اس نظم میں بھی کئی اہم ادبی خصوصیات موجود ہیں:

1. سلاست اور روانی

نظم کا سب سے نمایاں پہلو اس کی نرمی اور تسلسل ہے۔ الفاظ اس طرح بہتے ہیں جیسے محبت کرنے والے کسی کو دلجوئی کے لیے تسلیاں دے رہا ہو۔

2. تشبیہات اور استعارے

“آبشاروں کے، بہاروں کے، چمن زاروں کے گیت” → فطرت کی خوبصورتی کو محبوب کے غم کے برعکس پیش کیا گیا ہے۔

“کس طرح عارض محبوب کا شفاف بلور یک بیک بادۂ احمر سے دہک جاتا ہے” → حسن اور جذبات کی شدت کو شراب کے سرخ رنگ سے تشبیہ دی گئی ہے۔

“یہ سفاک مسیحا مرے قبضے میں نہیں” → یہاں مسیحا (طبیب) کو سفاک کہہ کر دنیا کے تلخ سچ کو نمایاں کیا گیا ہے کہ بعض علاج تکلیف دہ ہوتے ہیں۔

3. آزاد نظم کی خصوصیات

نظم آزاد شاعری کی خوبصورت مثال ہے، جس میں روایتی ردیف و قافیہ کی سختی کے بغیر ایک قدرتی بہاؤ موجود ہے۔

4. تکرار کا استعمال

“گر مجھے اس کا یقیں ہو…” → یہ جملہ نظم میں کئی بار دہرایا گیا ہے، جو شاعر کی بے بسی اور خواہش کو زیادہ نمایاں کرتا ہے۔

“ہاں مگر تیرے سوا تیرے سوا تیرے سوا” → محبت اور بے چارگی کے احساس کو بڑھانے کے لیے اس تکرار کا استعمال کیا گیا ہے۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” مرے ہمدم مرے دوست” کے فکری و فنی جائزہ اور شاعر فیض احمد فیض کے حالات زندگی  کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply