آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” مرے ہمدم مرے دوست” کا خلاصہ پڑھیں گے ۔ اس نظم کے شاعر فیض احمد فیض ہیں ۔
خلاصہ کیا ہوتا ؟
خلاصہ کا لغوی مطلب اختصار ، لُب لباب ، ماحصل ، اصل مطلب وغیرہ ۔
اصطلاحی طور پر خلاصہ کسی تحقیقی مضمون، مقالہ ، جائزہ، کانفرنس کی کارروائی ، یا کسی خاص موضوع کا گہرائی سے تجزیہ کا ایک مختصر خلاصہ ہوتا ہے ۔
: نظم کا خلاصہ
فیض احمد فیض کی یہ نظم “مرے ہمدم، مرے دوست” محبت، ہمدردی، اور بے بسی کے گہرے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے۔ شاعر اپنے محبوب یا کسی عزیز کی تکلیف، غم، اور تھکن کو محسوس کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ اپنی محبت اور تسلی سے اس کا دکھ دور کر سکے۔
نظم کے آغاز میں شاعر کہتا ہے کہ اگر اسے یہ یقین ہو کہ اس کی محبت اور دل جوئی سے محبوب کا غم دور ہو سکتا ہے، تو وہ دن رات اسے بہلاتا رہتا، اس کے لیے حسین گیت گاتا، اور اسے خوش رکھنے کی کوشش کرتا۔ وہ چاہتا ہے کہ محبوب کی اداسی دور ہو، اس کی بے نور آنکھوں میں روشنی لوٹ آئے، اور اس کی بیمار جوانی کو شفا مل جائے۔
شاعر پھر کہتا ہے کہ وہ محبوب کو حسن، محبت، اور قدرت کے خوبصورت نظاروں کی کہانیاں سناتا، حسیناؤں کی مسحور کن دلکشی، بدلتے ہوئے چہروں، اور محبت کے جذبات سے بھرے لمحات کی داستانیں بیان کرتا تاکہ اس کے دل کو تسلی ملے۔
مگر نظم کے اختتام پر شاعر اپنی بے بسی کا اعتراف کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ گیت اور نغمے چاہے کتنے بھی حسین ہوں، لیکن وہ محبوب کے دکھوں کا حقیقی مداوا نہیں کر سکتے۔ محبت اور ہمدردی کسی زخم کا علاج ہو سکتے ہیں، لیکن وہ چارہ گر یا مسیحا نہیں جو جسمانی یا ذہنی زخموں کو مکمل طور پر مٹا سکے۔
شاعر آخر میں یہ دردناک حقیقت بیان کرتا ہے کہ محبوب کے دکھ کا واحد علاج درد سہنا اور وقت کا انتظار کرنا ہے، کیونکہ دنیا میں کوئی بھی اس کا مکمل مداوا کرنے کے قابل نہیں۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” مرے ہمدم مرے دوست” کے خلاصے کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.