نظم ” صبح آزادی” کا مرکزی خیال

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” صبح آزادی” اگست 47 کے بارے میں پڑھیں گے جس کے شاعر فیض احمد فیض ہیں ۔ آج اس نظم کا مرکزی خیال پیش کریں گے ۔

مرکزی خیال کیا ہوتا : وہ خاص معنی جسے ادبی اظہار کا روپ دینا، فن کار کا مقصد ہوتا ہے، اس کے لئے ادب پارے کو ایک دائرہ فرض کیا جاتا ہے اور مقصد کو مرکز قرار دیا جاتا ہے ۔

مرکزی خیال کا مطلب کسی بھی نظم یا نثر پارے کا بنیادی تصور ہے یعنی شاعر یا ادیب جس تصور کو بنیاد بنا کر نظم یا نثر پارہ لکھتا ہے اس تصور کو مرکز خیال کہتے ہیں ۔ مرکزی خیال مختصر اور جامع ہوتا ہے ۔

نظم کا تعارف: فیض احمد فیض کی نظم “صبح آزادی” کا مرکزی خیال آزادی کی حقیقت اور اس کے ساتھ وابستہ امیدوں، مایوسیوں، اور جدو جہد کی عکاسی ہے۔ یہ نظم 1947 میں برصغیر کی آزادی کے بعد لکھی گئی، جس میں شاعر نے آزادی کے خواب اور حقیقت کے درمیان موجود تلخ فرق کو اجاگر کیا ہے۔

 نظم کا مرکزی خیال:

نظم میں آزادی کو ایک “نامکمل سحر” سے تشبیہ دی گئی ہے، یعنی جو آزادی ملی، وہ حقیقی اور مکمل آزادی نہیں تھی۔ شاعر اس آزادی کو عوام کی مشکلات، ناانصافیوں، اور غلامی جیسی صورتِ حال کے تسلسل کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ اصل آزادی ابھی باقی ہے، اور اس کے لیے مزید جدو جہد درکار ہے۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” صبح آزادی” کے مرکزی خیال  کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply